12 اردیبہشت 1375 ہجری شمسی مطابق 2 مئی 1996 کو اپنے اس خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے اساتذہ کو خاص ہدایت کی کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں کیونکہ ملک کا مستقبل جن بچوں کے ہاتھ میں ہے ان کی تربیت کی ذمہ داری اساتذہ کے دوش پر رکھی گئی ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اساتذہ اپنے کام کو صرف مادی نظر سے نہ دیکھیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

عزیز بھائیو اور بہنو! معلمین، محنت کش حضرات، یونیورسٹیوں کے طلبا اور ثقافتی شعبے نیز محنت کشوں کے امور کے ذمہ داران، خوش آمدید!
ہماری دعا ہے کہ خدا کا فضل و کرم آپ میں سے ہر ایک کے شامل حال ہو۔ امید ہے کہ آج کے اس دن، ان ایا م اور ان ہفتوں سے، ایران کی عزیز قوم، معاشرے کے ان دونوں طبقات، معلمین اور محنت کش حضرات کے اعلی مرتبے اور منزلت سے زیادہ واقفیت حاصل کرے گی۔ یہ بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے شیریں اقدامات میں سے ہے کہ یوم معلم اور یوم محنت کشاں ایک ہی دن منایا جاتا ہے۔ آپ ایک ساتھ یہاں جمع ہوتے ہیں اور اپنا دن مناتے ہیں۔
علم اور محنت کا اجتماع بہت ہی خوبصورت اجتماع ہے۔ اس کو اسلامی جمہوریہ میں اپنے راستے کی زیادہ اور بہتر شناخت حاصل کرنے کے لئے ایک علامتی اقدام سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی علم زیادہ حقیقی شکل میں محنت کی فضا میں آگے بڑھے اور محنت زیادہ علم کے ساتھ، تجربے کے ساتھ اور علمی ذخائر سے بہرہ مندی کے ساتھ انجام دی جائے۔ ان شاء اللہ آپ ہمت سے کام لیں گے اور جس طرح آج تک ان دونوں طبقات کے لوگوں نے مجاہدت کی ہے، محنت کی ہے، اسی طرح آئندہ بھی زیادہ روانی اور سرعت کے ساتھ معاشرے کی تعمیر کا کام انجام دیں گے کیونکہ یہ ملک آپ کا ہے۔
یہاں ایک نکتہ یہ پایا جاتا ہے کہ ہر کام، چاہے وہ کسی علاقے تک محدود ہو، محنت کشی سے تعلق رکھتا ہو یا تعلیم و تربیت سے، اس کو دو طرح سے انجام دیا جا سکتا ہے؛ ایک خاص جہت اور ہدف کے ساتھ اور دوسرے بغیر کسی جہت اور ہدف کے۔ فرض کیجئے کہ کوئی کسی کام کی تلاش میں ہے۔ اس کے لئے کوئی فرق نہیں ہے کہ کام کیا ہو، کیسا ہو، بس اس کو کام چاہئے جس سے اس کی آمدنی ہو۔ کوئی ہے جو جستجو کرتا ہے، کام کا انتخاب کرتا ہے، پرکھتا ہے کہ آج کون سا کام زیادہ مفید اور ضروری ہے اور عوام کو کس کام کی زیادہ ضرورت ہے۔ یہ دوسرا کام، جہت اور ہدف کے ساتھ ہے۔ اسلام کی شریعت میں کام کی جہت اور ہدف پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ البتہ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی کام کرنا چاہے وہ جستجو کرے کہ کون سا کام ضروری ہے۔ ہماری بحث میں یہ چیز فی الحال انفرادی انتخاب اور فیصلے کے دائرے سے باہر ہے۔ میں تو ملک اور سماج کی کلّی اور مجموعی جہت کے لئے بہتری کی فکر میں ہوں۔
اسلام میں کام کی جہت پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر عبادتوں میں کہتے ہیں کہ قربت خدا کی نیت سے ہو۔ قربت کی نیت، یعنی کام کی جہت یہ ہو کہ خدا کے لئے اور خدا کی رضا کے لئے انجام دیا جائے۔ شاید کام کی ظاہری اور مادی شکل زیادہ اہم نہ ہو۔ کام کی روح بدل جاتی ہے۔ مثال کے طور پر شریعت میں سفارش کی گئی ہے اور مستحب ہے کہ جمعے کے دن غسل کیا جائے۔(1) انسان سوچتا ہے کہ اصولی طور پر غسل (جمعہ) کو مستحب قرار دینے کا مقصد صاف صفائی ہے۔ اس لئے ہے کہ ہر انسان کم سے کم ہفتے میں ایک بار اپنا جسم دھو لے تاکہ اس طرح صفائی ہو جائے جس پر اسلام میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ لیکن آپ جمعے کو پورا دن حوض یا پول میں نہاتے رہیں، غوطے لگائیں، ہاتھ پیر چلائيں، بدن کو خوب صابن سے دھوئيں، لیکن غسل جمعہ کی نیت نہ کریں تو غسل جمعہ کا جو ثواب خدا نے معین کیا ہے، وہ آپ کو نہیں ملے گا۔ کام کی شکل وہی یعنی نہانا ہے۔ ظاہری مقصد دونوں کا، غسل جمعہ کا بھی اور معمولی نہانے کا بھی، صفائی ہے؛ لیکن غسل جمعہ میں جہت اور ہدف ہے۔ جہت کیا ہے؟ خدا کے لئے کام کرنا۔
اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان جو کام بھی کرے وہ راہ خدا میں اور خدا کے لئے ہو تاکہ دو فائدہ حاصل ہو؛ اس کام کا ایک مادی فائدہ ہے اور ایک معنوی و روحانی فائدہ ہے جو قربت خدا کی نیت سے حاصل ہوتا ہے اور اس کے بغیر نہیں ملتا۔ مثال کے طور پر آپ کھانا کھاتے ہیں تو آپ کی نیت یہ ہوتی ہے کہ یہ کھانا کھا رہا ہوں تاکہ جسم میں طاقت پیدا ہو اور زندگی کے فرائض پورے کر سکوں، اس لئے کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہے۔ یہاں کھانا وہی مادی چیز ہے جس سے آپ کے بدن کو طاقت ملتی ہے اور وہی لذت و ذائقہ حاصل ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی خداوند عالم ثواب بھی دیتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس کام میں آپ نے اپنے جسم کو تقویت پہنچانے کے ساتھ ہی قلب و روح کا اہتمام بھی کیا اور اس کے لئے جہت معین کی۔
اگر ہر کام میں مسلمان کے اندر یہی جذبہ ہو تو اس سے فعل حرام سرزد نہیں ہوگا، حرام چیزیں نہیں کھائے گا، ظلم و زیادتی کے ذریعے اپنے کھانے کا انتظام نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کو ہونٹوں تک لے جائے گا۔ اس کے کام ظالمانہ نہیں ہوں گے، اس کی فکر اور سوچ انسانیت اور مسلمانوں کے نقصان میں نہیں ہوگی۔ یعنی وہی چیز جو بظاہر بہت معمولی نظر آتی ہے اس بات کا سبب بنتی ہے کہ انسانی زندگی کی تمام مشکلات، جرائم، گناہ، انواع و اقسام کی خلاف ورزیاں، لالچ، عیّاشی اور ہوس وغیرہ سب ختم ہو جاتی ہیں۔ یہ تمام چیزیں تدریجی طور پر انسان سے دور ہو جاتی ہیں۔ آپ دیکھیں کہ دین اور شریعت میں حکمت کس طرح ایک معمولی اور چھوٹے سے نقطے سے شروع ہوتی ہے اور پھر اتنی وسعت اختیار کر لیتی ہے! بنابرین قربت کی نیت یعنی کام کو سمت دینا۔ اب ایک وسیع تر نظر سے معاشرے کو دیکھیں، یہ بھی قربت خدا کی نیت سے ہے۔ یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں، قربت خدا کی نیت سے باہر نہیں ہے بلکہ اس کی مصداق ہے۔ ہر معاشرے میں کام، سعی و کوشش اور تعلیم و تربیت ہوتی ہے؛ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ان کی جہت کیا ہے؟ یہ کام یہ تعلیم و تربیت کس سمت اور جہت میں ہے؟
آج امریکا کے اسلحہ سازی کے کارخانوں میں بھی کام ہوتا ہے۔ وہاں بھی کام ہوتا ہے لیکن یہ کام، چاہے معمولی مزدور کا کام ہو، چاہے ایک ماہر کاریگر کا کام ہو، چاہے مستری کا کام ہو، چاہے ایک شعبے کے انچارج کا کام ہو، چاہے کارخانے کے مینیجر کا کام ہو، چاہے کارخانے کے ڈیزائنروں کا کام ہو۔ کس لئے ہو رہا ہے؟ جنگ افروزی کےلئے، اسرائیل جیسے غاصب کی مدد کے لئے، یا جیسے ماضی میں ہیروشیما پر بمباری کے لئے۔ آج بھی اگر امریکا کو رائے عامہ اور اپنی اندرونی نابودی کا خوف نہ ہوتا، مختصر یہ کہ اگر کچھ رکاوٹیں حکومت امریکا کے سامنے نہ ہوتیں تو دنیا کے جس علاقے میں بھی چاہتا ایٹم بم برسا دیتا۔ کیونکہ ان کے لئے انسانوں کا خون بہانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
آج آمریکا کی جاسوسی کی تنظیم سی آئی اے کے انیٹیلیجنس سائنس کے کالج میں بھی معلم اور شاگرد ہیں جو پڑھنے اور پڑھانے میں مصروف ہیں۔ کیا اس کالج کے ٹیچر کی منزلت اور مرتبہ بھی وہی ہے جو ہمارے معلمین کا ہے؟ وہاں شاگرد کی محنت اور اچھے نمبر لانے کا نتیجہ یہ نہیں ہے کہ وہ امریکا کے قومی مفاد کا دفاع کرےگا۔ اگر یہ ہوتا تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ امریکی اپنے قومی مفاد کے تحت معقول انداز میں اپنا ملک چلائیں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن آج ان کی تعلیم اور ٹریننگ، دنیا کے انتہائی بدعنوان اور روسیاہ لوگوں کی خدمت کے لئے ہے۔ ترقی پذیر اور آزادی کے طالب ملکوں اور حریت پسند تحریکوں کی سرکوبی کے لئے ہے۔ رجعت پسند حکومتوں کو فائدہ پہنچانے اور ترقی پسند حکومتوں کو نقصان پہنچانے کے لئے ہے۔ ان کے کام کی جہت یہ ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کے محنت کش حضرات اور معلمین اس نکتے پر توجہ رکھیں کہ کام کا مادی پہلو اہم نہیں ہے بلکہ کام کی روح اور جذبہ اہم ہوتا ہے۔ صرف یہ پہلو کہ ہاتھ حرکت میں ہیں اور مشین چل رہی ہے، قابل تعریف نہیں ہے۔ اخلاقی اور معنوی پہلو اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ مشین کس لئے چل رہی ہے؟ کس کے لئے چل رہی ہے؟ کس مقصد کے لئے چل رہی ہے؟ یہ کافی نہیں ہے کہ کلاس تشکیل پائے، معلم جائے اور جان و دل سے پوری محنت سے شاگردوں کو پڑھائے، لفظ بہ لفظ علم اپنے شاگردوں کے اذہان میں اتار دے۔ دیکھنا یہ چاہئے کہ وہ موضوع جس کی تعلیم دی جا رہی ہے کیا ہے، ہدف کیا ہے، جہت کیا ہے، یہ تعلیم او تربیت کس سمت اور جہت میں دی جارہی ہے؟ میرے عزیزو! یہ بہت اہم ہے۔
آج دنیا کے بعض علاقوں میں انسانی اقدار کو مٹانے کے لئے تعلیم دی جا رہی ہے۔ آج کچھ لوگ اس لئے تعلیم حاصل کر رہے ہیں کہ سرحدوں کے اس پار ان لوگوں کی مدد کریں جو شیطانی اہداف کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ اس تعلیم کی اہمیت نہیں ہے۔ ایک زمانے میں خود ہماری اس مقدس سرزمین میں کچھ لوگ اس لئے علم حاصل کرتے تھے کہ ایران کو برائی اور بدعنوانی کی طرف لے جائيں۔ اس علم کی اہمیت نہیں ہے۔ جہت اور مقصد اہم ہے۔
میرے عزیزو! ملک کے معلمین اور محنت کش حضرات! آج جو علمی اور ثفافتی اقدام اور کام اسلامی جمہوری نظام اور ملک کی خدمت کے لئے، ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے انجام دیا جائے، عبادت ہے۔ اس کارخانے یا اس کارخانے میں ، اس کالج یا اس تعلیمی مرکز میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ میں معلم اس نیت سے پڑھائے کہ ملک کی خدمت کر رہا ہے- یہ ملک آج سرزمین اسلام اور اسلامی احکام کے فروغ و عظمت کی سرزمین ہے- اس ملک کی خدمت کی نیت سے اپنے شاگردوں کو پڑھائے تو ایک لفظ کی تعلیم ایک حسنہ ہے اور اگر سو لفظ ہوئے تو سو حسنات ہوں گے۔ اگر رات دن حصول علم میں گزرا تو رات دن حسنات اور نیکیوں سے سرشار ہوں گے۔
یہ محنت کش جو کارخانے میں کام کرتا ہے، یا ڈیزائنر یا مینیجر، یا کوئی بھی کام کرنے والا، اس لئے کام کرتا ہے کہ ایران اسلامی، جو آج معنوی اور خدائي جلووں کا مرکز ہے، رشد و ترقی کرے، پیشرفت کرے، اغیار سے بے نیاز ہو جائے، اس طاقت اور اس طاقت کی پابندیوں کی فکر اس کو نہ رہے، مستغنی ہو جائے تو اس محنت کے کام کا ہر لمحہ، ایک حسنہ اور عبادت ہے۔ جو بھی اس کام میں مدد کرے وہ گویا اس عبادت میں بھی شریک ہے۔ خدا کا نظام یہ ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کام میں دس افراد شریک ہوتے ہیں تو دس حسنات انجام پاتے ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ایک حسنہ کو دس میں تقسیم کریں۔ بلکہ خدا کے نزدیک ان میں ہر ایک کا ثواب الگ ہے۔ آج یہی صورت ہے، آپ کے ملک کی خصوصیات یہ ہیں۔
دنیا میں کتنی جگہیں ایسی ہوں گی جہاں تعلیم کی کلاسوں،، کارخانوں، تعلیمی مراکز، یونیورسٹیوں، تجربہ گاہوں اور حتی معلمین اور محنت کشوں کے آرام کے اوقات پر، جن میں معلم اور محنت کش اس نیت سے آرام کرتا ہے کہ کل پھر کام کر سکے، خدا کی اتنی زیادہ رضا اور اس کا فضل و کرم ہو؟ ایران کیا ہے؟ اصل مسئلہ یہی ہے۔ میرے عزیزو! آج آپ کا ایران اسلامی، انسانیت کی نجات اور آزادی کا مظہر ہے۔ کیوں؟ انسانوں سے ہمارا اتنا رابطہ اور ہمارا کام اتنا وسیع تو نہیں ہے۔ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اصل نکتہ یہ ہے۔
آج شیطانی طاقتیں، جنہیں آپ سامراج اور استکبار کہتے ہیں، جن کا مظہر امریکا ہے، انسانیت اور انسانی اقدار کے خلاف کمر بستہ ہیں۔ ان کے لئے کروڑوں انسانوں کی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اسرائیل نے پندرہ سولہ دن میں دسیوں ہزار انسانوں کو قتل، زخمی، بے گھر اور در بدر کر دیا لیکن عالمی سامراج کی پیشانی پر بل تک نہ آیا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کنوئیں میں کوئي بلی گر جاتی ہے تو ریاکاری میں، ایک جانور کو نکالنے لئے اپنی پوری مشینری لگا دیتے ہیں، پیسے خرچ کرتے ہیں! بعض اوقات انسان دوستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم انہیں اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ کبھی کبھی ہمیں بھی شک ہوتا ہے، حیرت ہوتی ہے کہ یہ حقیقی ہمدردی ہے یا ریاکاری ہے!
انہیں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے عظیم انسانی المیہ رونما ہوا اور یہ کچھ نہ بولے! صرف یہی ایک موقع نہیں ہے۔ اسلامی انقلاب آنے کے بعد، جن میں ہمارے عوام کی آنکھیں کھل گئيں، اور اب وہ دنیا کے واقعات کو دیکھتے ہیں، گزشتہ سترہ سال میں اگر آپ حساب کریں تو اس طرح کے سیکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ جس زمانے میں یہی امریکی، دنیا کے صیہونی ادارے، دنیا کی جھوٹی طاقتیں عراق کی طرفدار تھیں، آپ نے دیکھا کہ عراقی حکومت نے شہر حلبچہ پر دن کی روشنی میں کیمیائی بمباری کر دی، ہوائي جہاز سے ہزاروں انسانوں پر کیمیائی مواد برسائے اور وہ لکڑی کی طرح خشک ہو گئے، سڑکوں پر کیمیائی مواد گرائے!عجیب حادثہ تھا جس کو سن کے انسان لرز اٹھتا ہے۔ ٹی وی کے کیمروں نے بھی اس کو دیکھا، اس کی فلم بنائی لیکن عراق کی مذمت نہیں کی۔ حکومتوں کو تو چھوڑیں، عالمی مراکز بھی خاموش رہے۔ البتہ اسلامی جمہوریہ نے دنیا میں قیامت مچا دی جس کے بعد کچھ لوگ مجبور ہو گئے، دیکھا کہ رائے عامہ کے سامنے اب کوئی چارہ نہیں رہا، دو لفظ بول دیئے ورنہ کبھی نہ بولتے۔ لیکن دو یا تین سال گزرنے کے بعد اسی عراق کو ہیبتناک دیو کہنے لگے۔ اس کے مقابلے میں صف آرائی کر لی۔ اس لئے کہ اس زمانے میں عراق، ایران سے جنگ کر رہا تھا۔ (اس لئےخاموش تھے)
میرے عزیزو! استکباری اور سامراجی طاقتیں ایسی ہیں۔ انسانیت پر استکبار اور سامراج کی حکمرانی کا خطرہ، بہت سنگین ہے۔ اب سے کچھ دن پہلے تک مشرق اور مغرب کی دو طاقتیں تھیں، جن کے درمیان مقابلہ تھا، جس کے تحت وہ ایک دوسرے کو کنٹرول کرتی تھیں۔ آج سامراج مطلق العنان ہو گیا ہے اور امریکی اتنے گستاخ ہو گئے ہیں کہ پوری دنیا میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ میرے لئے اچھی نہیں ہے، اس سے رابطہ منقطع کرو۔ اتنی بے شرمی!؟ البتہ یورپ والوں نے اور دنیا کے ملکوں نے ان کو جواب دے دیا اور ان کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ لیکن ان کی بے شرمی اتنی زیادہ ہے۔
یہ بشریت پر زیادہ مسلط ہونا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بشریت کو اپنے چنگل میں اور بھی جکڑ لیں، اہم عالمی معاملات میں اپنی رائے ظاہرکریں اور سب کو مجبور کریں کہ ان کی بات سنیں۔ فلسطین کے مسئلے میں ایک طرح سے، لبنان کے مسئلے میں کسی اور طرح سے، بوسنیا کے مسئلے میں ایک الگ انداز سے۔ گوناگوں معاملات میں، ہر جگہ، جو بھی واقعہ ہو، وہ جاکے اپنی رائے ظاہر کریں اور اپنی بات کریں اور پھر یہ توقع رکھیں کہ سبھی حکومتیں ان کی پیروی کریں! کمزور حقیر اور بے اہمیت حکومتیں بھی اپنی اقوام کی مصلحتوں کے بر خلاف ان کی تعریفوں کے پل باندھتی ہیں اور ان کی بڑائی بیان کرتی ہیں۔
اس صورتحال کے مقابلے میں کون کھڑا ہوا؟ وہ کون سی حکومت اور قوم ہے جو ان کی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لائی؟ وہ کون سا نظام ہے جس نے اپنے عوام کے بھروسے اور اپنی عزیز اور سربلند و سرافراز قوم کے قوی ارادے سے ان تمام دھمکیوں اور ان کے مطالبات کا نفی میں جواب دیا۔ وہ کون سی جگہ ہے؟ آپ سوچتے ہیں کہ یہ باتیں صرف ہم کرتے ہیں؟ آج سبھی ممالک، جو عالمی مسائل سے واقفیت رکھتے ہیں اور اکثر عالمی مسائل خاص طور پر اس خطے کے امور کو جانتے ہیں، اعتراف کرتے ہیں کہ صرف اسلامی جمہوریہ ہے جس کے اندر یہ شجاعت اور توانائی موجود ہے کہ ان کی روز ا‌فزوں تسلط پسندی کے مقابلے میں کھڑی ہو جائے اور انہیں نفی میں جواب دے۔
ایران کی حکومت اور قوم کا یہ انکار حتی بعض اوقات دیگر حکومتوں میں بھی مزاحمت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ اگر آپ نے خبروں پر غور کیا ہو تو اس کے نمونے مختلف واقعات اور علاقے کے بعض ملکوں کے حکام کے بیانات میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں ہم ان کا نام نہیں لینا چاہتے۔ ان باتوں کا لبنان کے معاملے اور دیگر معاملات میں مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ آپ کی استقامت حکومتوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، اقوام کو بھی جوش میں لاتی ہے، ان کے اندر بھی بہادری اور شجاعت پیدا کر دیتی ہے۔ وہ خوف دور کر دیتی ہے جو ان کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہماری قوم کی یہ استقامت، ترقی اور پیشرفت اس طرح دنیا کی رائے عامہ پر اثرانداز ہوتی ہے۔
ہم اپنی حالت کے بارے میں اغیار کے ریڈیو کی باتیں نہیں سنتے۔ ہم جانتے ہیں کہ اغیار کے ریڈیو، کچھ زر خرید لوگ چلا رہے ہیں جنہوں نے پیسہ لیا ہے اور فحاشی سے بھرے ہوئے مقالے لکھتے ہیں۔ جب کوئی کسی کو گالی دیتا ہے، تو گالی دینے میں کیا حقیقت کا خیال رکھتا ہے؟ جو کسی سے کہتا ہے کہ تیرا باپ وہ، تو کیا جاکے اس کے باپ کو اس نے دیکھا ہے؟ اس کو دوسروں کو گالی دینا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو گالیاں دیتے ہیں جن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہم فیصلے حقائق کو دیکھ کے کرتے ہیں۔ آج دنیا کی حقیقت یہ ہے۔ یہ آزاد اور اسلامی ملک اور یہ دلیر قوم جتنا آگے بڑھے گی اس کا علم، کام، تجربہ، یونیورسٹیاں، کالج، کارخانے اور تجربہ گاہیں جتنی اچھی اور بہتر ہوں گی، اقوام پر اس کے اثرات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ وہ جو اقتصادی ناکہ بندی کرتے ہیں، چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران، اپنی صنعتی، علمی اور سائنسی ترقی سے دنیا کی اقوام پر اثرات مرتب نہ کر سکے۔ الحمد للہ کہ وہ یہ کام نہیں کر سکتے اور ہم روز بروز زیادہ آگے بڑھ رہے ہیں اور پیشرفت کر رہے ہیں۔
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آج اسلامی جموریہ ایران کی حکومت، خدمتگزار حکومت کے عہدیداران، ہمارا صدر، سب پوری تندہی سے محنت کر رہے ہیں۔ عوام بھی واقعی مدد کر رہے ہیں۔ یہ عوام کی حمایت، بہت اہم ہے۔ ہر چیز عوام اور حکام کے اسی تعلق اور رابطے میں مضمر ہے۔ یہ محنتیں نتیجہ بخش ہوتی ہیں۔ آپ کی محنت، علم، ثقافت، کلاسیں، یونیورسٹیاں، تجربہ گاہیں اور کارخانے سب اس ملک کی پیشرفت میں موثر ہیں، اقوام میں امید پیدا کر سکتے ہیں اور دشمن کو ذلیل و خوار کر سکتے ہیں اور دنیا کی مستبد طاقتوں اور بین الاقوامی آمروں کو جن کی مظہر آج حکومت امریکا ہے، روزبروز ان کے گندے اہداف سے دور کر سکتے ہیں۔ یہ کام کی جہت ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ میں کام کی جہت یہ ہونی چاہئے۔
خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ الحمد للہ حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ ( حضرت امام مہدی علیہ السلام) کی نظر عنایت ہم پر ہے اور دشمنوں کی خواہش کے بر خلاف ہم ترقی کر رہے ہیں۔ آج ملک کا موازنہ، انقلاب کے پہلے والی حالت سے نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں انسانی امور، تعلیم و تربیت، تعمیر نو اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سب محنت کریں اور متحد ہوکے ان شاء اللہ اس کو مکمل کریں۔ ہماری عزیز ایرانی قوم ایسے خورشید میں تبدیل ہو جائے گی جس کی روشنی تمام ملکوں میں پہنچے گی اور سبھی اقوام کو جذبہ ترقی اور نشاط عطا کرے گی۔ آپ ایسی تبدیلی لائیں گے جو اقوام کے اٹھ کھڑے ہونے اور اپنے بارے میں خود فیصلہ کرنے کا باعث بنے گی۔ خدا بھی آپ کا ناصر و مددگار ہوگا اور آپ کو توفیق عطا فرمائے گا۔ ان شاء اللہ۔

و السّلام علیکم و رحمت اللہ

1- من لا یحضرہ الفقیہ جلد 1، صفحہ 111