یوم مئی سے قبل 9 اردیبہشت 1394 ہجری شمسی مطابق 29 اپریل سنہ 2015 کو انجام پانے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عوام الناس کے اقتصادی مسائل اور محنت کش طبقے کی مشکلات کا حل بیرون ملک نہیں بلکہ ملک کے اندر ہے، جو داخلی پیداوار کو تقویت پہنچانے اور اسے رونق بخشنے سے عبارت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت (13 رجب المرجب) اور فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت (10 رجب المرجب) کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے محنت کشاں کے طبقے کے افراد سے اپنی اس ملاقات کا مقصد 'کام اور محنت کش طبقے' کی قدردانی اور حکام کے ذہن اور معاشرے کی سطح پر 'کام' کی عظمت کو نمایاں کرنا قرار دیا اور فرمایا کہ پیغمبر اسلام کا مزدور کے ہاتھوں کا بوسہ لینا محض تکلفاتی عمل نہیں بلکہ ایک درس ہے۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: اقتصادی مشکلات کے حل کی کنجی لوزان، جنیوا اور نیویارک میں نہیں ملک کے اندر ہے۔ چنانچہ سب کو چاہئے کہ اقتصادی مشکلات کی واحد راہ حل یعنی داخلی پیداواری شعبے کی تقویت کے تعلق سے اپنی گوناگوں ذمہ داریوں کو انجام دیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله‌ الرّحمن‌ الرّحیم‌

سب سے پہلے میں خوش آمدید کہوں گا تمام خواہران و برادران گرامی کو اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی پیشگی مبارک باد دینا چاہوں گا جو عدل و انصاف کا آئینہ اور پوری تاریخ بشر کا سب سے درخشاں چہرا ہیں۔ ماہ رجب کی برکتیں صرف ان عظیم ہستیوں کے ایام ولادت تک ہی محدود نہیں ہیں۔ میں خود کو اور آپ کو یہ سفارش کروں گا کہ ہمیں اللہ تعالی سے اپنے رابطے اور قلبی وابستگی کو مستحکم بنا کر ماہ رجب کی برکتوں سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرنا چاہئے۔ اگر ہم ذات باری تعالی سے اپنے رابطے کو مستحکم کر لیں تو ہماری بہت سی مشکلات، بہت سے مسائل، بہت سی ناسازگار صورتیں اور ناموافق حالات خود بخود دور ہو جائیں گے۔ وزیر محترم نے جو تقریر کی (1) اس میں بڑے اہم نکات تھے، ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کی باتوں کی حمایت بھی کرتا ہوں۔ میری گزارش ہے کہ تمام عہدیداران؛ خواہ وہ وزارت محنت سے تعلق رکھتے ہوں یا دیگر حکومتی محکموں سے ان کا تعلق ہو، کیونکہ ان مسائل میں بعض ایسے ہیں کہ جن کا تعلق آپ کی وزارت سے نہیں بلکہ دیگر شعبوں سے ہے، سب یہ کوشش کریں کہ ان واضح خطوط پر آگے بڑھیں۔
ہمیں کام کرنا چاہئے۔ اچھی اچھی باتیں تو بہت ہو چکیں، ہم بار بار یہ باتیں دوہرا بھی چکے ہیں، اچھے فیصلے بھی کئے گئے ہیں۔ لیکن عوام کی زندگی میں اور کام کی انجام دہی میں جو چیز اثر دکھاتی ہے وہ ہمارا حرکت میں آنا اور اقدام کرنا ہے، ہمارا کام ہے، ان امور کا جامہ عمل پہننا ہے۔ خداوند عالم توفیق عطا فرمائے آپ کو، ہمیں اور تمام لوگوں کہ ہم بھرپور طریقے سے عمل کریں۔
آج آپ لوگوں سے، پورے ملک کے محنت کش طبقے کے افراد سے ہماری یہ ملاقات در حقیقت محنت کش طبقے سے ہمارے خاص لگاؤ کے اظہار کے لئے ہے۔ ہم بہت باتیں کر چکے ہیں اور کرتے رہتے ہیں، اسی طرح آج بھی کچھ باتیں بیان کریں گے، لیکن سب سے بنیادی چیز یہ ہے کہ ہم اس ملاقات کے ذریعے، حقیقت میں محنت اور محنت کشوں کی قدردانی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے ذہن میں اور اپنے عزیز عوام کے ذہن میں محنت اور کام کی اہمیت کو زیادہ واضح اور اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ تمام بڑی کامیابیاں کام اور محنت کے نتیجے میں کہ جس کا مفہوم اور دائرہ بہت وسیع ہے، حاصل ہوتی ہیں۔ کام کی بڑی قدر و منزلت ہے اور کام کی اسی قدر و منزلت کی وجہ سے معاشرے میں محنت کش کی منزلت بھی بہت بلند ہے۔ یہ جو واقعہ بہت مشہور ہے اور روایتوں میں اس کا ذکر ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مزدوروں کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے تھے (2)، یہ صرف تکلفاتی عمل نہیں بلکہ ایک درس ہے۔ لہذا ہم یہ چاہتے ہیں کہ محنت اور کام کی قدردانی کی جائے، محنت کش کی قدردانی کی جائے، محنت کش طبقے سے متعلق مسائل کی جانب متعلقہ حکام کی توجہ مرکوز کرائی جائے، محنت کش طبقے اور مزدور برادری کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے۔ کچھ مشکلات ہیں، تنخواہیں رک جانے کا مسئلہ ہے، کام سے نکال دئے جانے کا مسئلہ ہے، معیشتی مسائل ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو ملکی سطح پر اور محنت کش طبقے کی سطح پر در پیش ہوتی ہیں، یہ محنت کش طبقے کی مشکلات ہیں۔ حکام اور زیادہ توجہ اور تندہی کے ساتھ ان مسائل کے حل کی کوشش کریں، اس ملاقات کا مقصد یہ ہے۔
میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ محنت کش طبقے نے اوائل انقلاب سے تاحال واقعی ملک کے لئے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ایک تو خود کام اور محنت کش کی اہمیت ہے، دوسرے ان برسوں کے دوران ملک کے سخت میدانوں میں ان کی موجودگی ہے، تیسرے ان کا ان لوگوں کے بہکاوے میں ہرگز نہ آنا ہے جو محنت کش طبقے کو اوائل انقلاب سے ہی اسلامی نظام کے مد مقابل کھڑا کرنا چاہتے تھے۔ یہ قربانی محنت کش طبقے نے دی ہے۔ حالانکہ مزدور طبقے کی مشکلات، اس طبقے کے افراد کی معیشت کا مسئلہ مختلف ادوار میں در پیش رہا ہے لیکن محنت کش طبقہ واقعی ہر امتحان پر پورا اترا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ جو مشکلات در پیش ہیں وہ صرف زبانی جمع خرچ سے حل ہونے والی نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے لئے اقدام اور عمل کی ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ ملکی معیشت کی مشکلات کا حل ملک کے اندر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا بنیادی حل ہے پروڈکشن۔ مستحکم اور مزاحمتی معیشت جس کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ قومی پیداوار کی تقویت سے عبارت ہے۔ اگر یہ کام انجام پا گیا اور اس جانب توجہ مرکوز ہو گئی تو روزگار کے مسائل رفتہ رفتہ حل ہو جائیں گے۔ کام کی اہمیت بڑھ جائے گی، محنت کش کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور بے روزگاری جو معاشرے میں ایک بڑی مشکل کے طور پر سامنے ہے بتدریج کم ہوتے ہوتے ختم ہو جائے گی۔ سب سے بنیادی چیز ہے قومی پیداوار۔
ممکن ہے کہ بعض افراد یہ کہیں کہ آپ جو پیداوار کی بار بار بات کرتے ہیں، ظاہر ہے ہم پیداواری مسئلے پر تاکید کرتے آ رہے ہیں؛ عمومی تقاریر میں بھی اور حکام کے ساتھ اجلاسوں میں بھی؛ تو اس کے کچھ لوازمات ہیں۔ موجودہ حالات میں جب پابندیاں لگی ہوئی ہیں، عالمی دباؤ بھی ہے تو پیداواری شعبے کی رونق اور پیداواری شعبے کی تقویت ممکن نہیں ہے۔ میں اس کا انکار نہیں کروں گا کہ یہ ظالمانہ پابندیاں جو ملت ایران کے دشمنوں نے اور انقلاب کے دشمنوں نے ملت ایران پر مسلط کی ہیں، ان کا اثر ہوا ہے۔ ظاہر ہے یہ پابندیاں بے اثر نہیں رہی ہیں۔ لیکن میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ پابندیاں پیداواری شعبے میں رونق پیدا کرنے کے لئے منصوبہ بند عمومی مساعی کا راستہ بھی روک سکتی ہیں۔ یہ میں نہیں مان سکتا۔ میں ملکی سطح پر دیکھتا ہوں تو مختلف شعبوں میں بلکہ اتفاق سے ان میں بعض شعبے ایسے ہیں کہ جن میں دشمن کا دباؤ اور پابندیاں وغیرہ زیادہ شدید تھیں۔ مگر حکام، محنت کش طبقے اور ہمدردی رکھنے والے نوجوانوں کی بلند ہمتی کے نتیجے میں پروڈکشن میں اضافہ ہوا ہے۔ میں اس کا مشاہدہ کر رہا ہوں، دیکھ رہا ہوں، سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ مثال کے طور پر دفاعی صنعت کے میدان میں، آپ آج کی صورت حال کا موازنہ پندرہ سال، بیس سال یا دس سال پہلے کی صورت حال سے کیجئے! آپ پائیں گے کہ ہم نے حیرت انگیز ترقی کی ہے عسکری صنعت کے میدان میں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ جب خاص طور پر دفاعی شعبے میں دشمنوں کی جانب سے پابندیاں زیادہ شدید تھیں۔ یہ ایک سال اور دو سال کی بات نہیں ہے۔ یہ پابندیاں بہت پہلے سے اور بڑی شدت کے ساتھ عائد کی گئی تھیں، لیکن ہم نے پھر بھی پیشرفت حاصل کی۔ حالانکہ یہی سختیاں اور یہی پابندیاں موجود تھیں۔ یہ حالت تھی کہ دنیا کی بعض مشہور یونیورسٹیوں میں ایرانی طلبہ کو اس سبجیکٹ کی تعلیم حاصل کرنے کی، تحقیق کرنے اور ترقی کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود ملک نے ان علوم میں انتہائی حیرت انگیز اور نمایاں ترقی کی ہے، جس کا مشاہدہ سب کر رہے ہیں۔ جو لوگ ان معلومات سے دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ کر سکتے ہیں۔ یہ خفیہ اطلاعات نہیں ہیں۔ اسی طرح بعض جدید سائنسز جیسے نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں جو دنیا کی جدید ٹیکنالوجی شمار کی جاتی ہے، اس میدان میں دنیا میں کسی نے بھی ہماری مدد نہیں کی اور نہ کر رہا ہے، اسی طرح آئندہ بھی کوئی مدد نہیں کرے گا، لیکن ہم پھر بھی آگے ہیں۔ ہمارے افراد، ہمارے نوجوان، ہمارے محققین، ہمارے سائنسداں ان میدانوں میں کام کر رہے ہیں، محنت کر رہے ہیں اور انہوں نے قابل قدر پیشرفت حاصل کی ہے۔ مثال کے طور پر نالج بیسڈ صنعتوں کے میدان میں جس کی نمائش اسی حسینیہ میں لگائی گئی تھی (3) اور میں نے نالج بیسڈ کمپنیوں کے مختلف شعبوں سے دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں سے ملاقات کی، البتہ مجھے رپورٹ مل چکی تھی، اطلاعات تھیں مگر قریب سے آشنائی کا موقع ملا، واقعی اس میدان میں کام ہو رہا ہے، محنت سے کام کر رہے ہیں اور ترقی ہو رہی ہے۔ دس سال قبل اور پندرہ سال قبل کے مقابلے میں اس وقت ہم نالج بیسڈ کمپنیوں کے میدان میں کافی ترقی کر چکے ہیں۔ یہ سب کچھ پابندیوں کے زمانے میں ہوا ہے۔ بیشک اگر دشمن کی ظالمانہ پابندیاں نہ ہوتیں تو ممکن تھا کہ ہم انھیں میدانوں میں اور زیادہ ترقی کرتے، میں اس کا انکاری نہیں ہوں، مگر یہ بھی عین ممکن تھا کہ ہم سے بے توجہی ہوتی اور ہم ملکی ضرورتوں کا جائزہ نہ لیتے بلکہ تیل سے ہونے والی آمدنی اور امپورٹ کی جانے والی مصنوعات وغیرہ جیسے امور میں پڑ جاتے اور ملک کے پیداواری شعبے کو ترقی نہ ملتی۔ یہ بھی عین ممکن تھا۔ ہمیں واقعی یہ تو ماننا پڑے گا کہ ہماری اس ترقی کا ایک حصہ بیرونی دنیا کی طرف سے کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کا ثمرہ رہا ہے۔ ہمیں اس کی قدر بھی کرنا چاہئے۔ ہمیں دنیا نے نہیں دیا لہذا ہم خود اقدام کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جب درآمدات کا راستہ پوری طرح کھل جائے اور آپ جو چاہیں باہر سے لے آئیں تو انسان کی راحت طلبی اسے تساہلی اور سستی کی جانب لے جاتی ہے۔ یہ بھی قضیئے کا ایک پہلو ہے۔ بنابریں جب میں پروڈکشن اور قومی پیداوار پر زور دیتا ہوں تو جواب میں یہ نہیں کہا جانا چاہئے کہ سخت پابندیوں کے زمانے میں پیداوار کو فروغ دینا ممکن نہیں ہے۔ جی نہیں، بالکل ممکن ہے۔ جس کام کا بھی ارادہ ہو، آپ اس کے لئے عزم کیجئے، اپنی توانائیوں کو مجتمع کرکے انہیں بروئے کار لائيے اور اللہ تعالی سے طلب نصرت کیجئے، اللہ آپ کی ہدایت کرے گا، یہ ہو سکتا ہے، ہم نے اس کا تجربہ کیا ہے۔
آج بعض صنعتوں میں ہم عالمی سطح پر صف اول میں ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیم کی تعمیر کی صنعت ہے۔ بند کی تعمیر کی صنعت کو اس منزل پر لے جانے میں دنیا میں کس نے ہماری مدد کی؟ آج ایران ڈیم کی تعمیر میں دنیا کے صف اول کے ملکوں میں کھڑا ہے۔ وہ بند جو دوسرے ملکوں میں مغربی کمپنیوں وغیرہ کے ہاتھوں بہت زیادہ بجٹ صرف کرکے تعمیر کئے جا رہے ہیں، اگر ان کی تعمیر کی ذمہ داری ایرانی نوجوانوں کے سپرد کر دی جائے تو یہی ڈیم وہ شاید بہت بہتر سطح کا اور بہت کم بجٹ میں تیار کر دیں۔ یہ میدان ایسا ہے جس میں ہم نے ترقی کی ہے۔ ان برسوں میں کس نے ہماری مدد کی؟ نیوکلیائی ٹیکنالوجی کا بھی یہی عالم ہے۔ دوسرے بھی متعدد شعبوں میں یہی صورت حال ہے۔
میرا نظریہ یہ ہے کہ ملک کی اقتصادی مشکلات جن میں ایک اہم مسئلہ محنت کش طبقے کا ہے، اس طبقے کی معیشت کا ہے، اسے کام سے نکال دئے جانے کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں رپورٹیں ملتی ہیں اور ہم یہ رپورٹیں دیکھتے ہیں، تو اگر پیداوار کے شعبے پر توجہ دی جائے تو یہ مسائل حل ہو جائيں گے۔ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، بے نیازی کا احساس پیدا ہوگا، افتخار اور وقار کا جذبہ پیدا ہوگا۔ جب ایک ملک اپنی داخلی فورس پر پوری طرح تکیہ کرے تو اس کے اندر احساس بے نیازی پیدا ہونا فطری ہے۔ ممکن ہے کہ انسان دنیا کی مدد سے دس مسائل حل کر لے، لیکن مسائل کے حل میں اور مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے طریقے میں فرق ہوتا ہے، کبھی آپ مقتدرانہ انداز میں میز پر بیٹھتے ہیں اور کبھی کمزوری کے احساس کے ساتھ میز پر بیٹھتے ہیں۔ جب انسان خود کو طاقتور اور توانا پاتا ہے تو کسی اور انداز میں بات کرتا ہے، کسی اور انداز میں مذاکرات کرتا ہے۔ مگر جب خود کو کمزور پاتا ہے، خود کو محتاج دیکھتا ہے تو کسی اور انداز سے بات کرتا ہے۔ اگر ملک کے اندر اقتدار کا ڈھانچہ تمام میدانوں میں منجملہ اور خاص طور پر اقتصادی میدان میں مستحکم ڈھانچہ ہے تو مختلف فریقوں سے تمام مسائل کے بارے میں گفتگو کی جا سکتی ہے، مگر ایسی صورت میں انسان مقتدرانہ انداز میں گفتگو کرتا ہے، محتاج اور نیازمند آدمی کی طرح نہیں کہ جس پر دشمن کی زبان لمبی ہو جاتی ہے اور وہ بڑی بڑی شرطیں رکھنے لگتا ہے، مسلسل لغویات بکتا ہے۔ تو میری نظر میں راہ حل یہ ہے۔ میں شروع ہی سے یہ کہتا آ رہا ہوں کہ مختلف شعبوں اور مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کا عزم قومی پیداوار میں اضافے پر مرکوز ہونا چاہئے۔ البتہ اس کے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ سرمایہ کار، محنت کش، صارف اور متعلقہ حکومتی ادارے سب کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ یہ یکطرفہ عمل نہیں ہے۔ سب کو آپس میں تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جو عوام اور حکومت کے درمیان ہمدلی اور ہم زبانی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مفہوم یہی ہے۔ یعنی سب آپس میں تعاون کریں اور مل کر اس وزنی بوجھ کو اٹھائیں، ملک کی پیشرفت کے عمل میں حائل اس بڑے پتھر کو ہٹائیں۔
سرمایہ کار حضرات اور وہ لوگ جو استطاعت رکھتے ہیں، سرمایہ کاری کریں۔ میں ایسے افراد کو جانتا ہوں جو اپنا سرمایہ کسی غیر پیداواری شعبے میں لگا کر زیادہ پیسہ کما سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، ہم ایسا نہیں کریں گے، ہم ملک کی خدمت کریں گے۔ انہوں نے آکر پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کی۔ کم منافع پر، کم آمدنی پر پیداواری شعبے میں سرمایہ کاری کی۔ کیونکہ انھیں علم تھا کہ ملک کو اس کی ضرورت ہے۔ یہ عبادت ہے۔ وہ سرمایہ کار جو ملکی ضرورتوں کو دیکھتا ہے اور اپنا پیسہ دلالی وغیرہ جیسے زیادہ آمدنی والے کاموں میں نہیں لگاتا، بلکہ صحیح جگہ پر سرمایہ کاری کرتا ہے، وہ واقعی کار خیر انجام دے رہا ہے۔ تو سرمایہ کار کا یہ کردار ہے۔
محنتی اور صحیح انداز سے کام کرنے والے محنت کش کا بھی اہم رول ہے۔ وہ محنت کش جو کام کی سختیوں کو برداشت کرتا ہے، ظاہر ہے کام میں محنت پڑتی ہے، جسمانی محنت کا کام زندگی کے سخت کاموں میں شمار کیا جاتا ہے، جو محنت کش اور مزدور محنت کرتا ہے، اپنا وقت اور اپنی عمر اس ہدف کے تحت صرف کرتا ہے کہ کام کو بہترین انداز اور شکل میں انجام دے، وہ در حقیقت عبادت میں مصروف ہے، یہ نیک عمل ہے۔ میں نے آپ عزیزوں سے اپنی ملاقاتوں میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ قول بارہا نقل کیا ہے؛ رَحِمَ اللهُ اِمرَأً عَمِلَ عَمَلاً فَاَتقَنَه؛(۴) اللہ کی رحمت ہو اس انسان پر جو کوئی کام کرتا ہے تو محکم انداز میں کرتا ہے۔ خواہ وہ صنعتی کام ہو، زراعت کا کام ہو، یا دیگر امور ہوں۔ جب کام بنحو احسن انجام دیا جاتا ہے تو مصنوعات بہترین شکل میں تیار ہوتی ہیں، محکم ہوتی ہیں۔ یہ محنت کش طبقے کا رول ہے۔ یہ بھی عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔
اسی طرح ہمدرد، منصف مزاج اور باضمیر صارف بھی ملکی پیداوار میں مددگار واقع ہو سکتا ہے۔ صارفین بھی نام و نمود کی طرف نہ جائیں، برانڈ اور ٹریڈ مارک کے چکر میں نہ پڑیں۔ یہ جو بار بار برانڈ برانڈ کی رٹ لگائی جاتی ہے، اسے چھوڑ کر مصلحت کی فکر کریں۔ ملکی مصلحت داخلی مصنوعات کے استعمال میں مضمر ہے، ایرانی محنت کش طبقے کی مدد پر منحصر ہے۔ بعض لوگ ہیں جو مزدور طبقے اور محنت کشوں کے حق میں نعرے بازی تو بہت کرتے ہیں، اتنے نعرے لگاتے ہیں کہ سانس پھولنے لگتا ہے۔ لیکن جب عمل کی بات آتی ہے تو ایرانی محنت کش کو لات مار دیتے تھے۔ ایرانی محنت کش طبقے کو لات مارنے سے مراد یہ ہے کہ انسان اس طبقے کے ذریعے تیار کی جانے والی مصنوعات کو استعمال نہ کرے، بلکہ اسی سے مماثلت رکھنے والی غیر ملکی چیزیں استعمال کرے اور بسا اوقات یہی چیز زیادہ قیمت میں خریدی جاتی ہے۔ بعض صنعتوں میں ہم عالمی سطح پر صف اول کے ملکوں میں شامل ہیں۔ لیکن ان اشیاء کو بھی لوگ بیرون ملک سے خرید کر لاتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب کے دوش پر فرائض ہیں اور منجملہ حکومت کے بھی فرائض ہیں۔ یہاں وزیر محنت تشریف فرما ہیں۔ میری گزارش ہے کہ آپ حکومت میں اس موضوع کو اٹھائیے، زور دیجئے اور دباؤ ڈالئے کہ حکومتی اداروں میں استعمال کی چیزیں، غیر ممالک سے بالکل نہ خریدی جائیں۔ یہ بہت بڑا شعبہ ہے، یہ بہت بڑا میدان ہے، کیونکہ حکومت اپنے وسیع و عریض قالب و پیکر کی وجہ سے سب سے بڑی صارف ہے۔ یہ نہ کہا جائے کہ اس وقت ہمیں فلاں چیز کی ضرورت ہے، فلاں چیز چاہئے، مگر ملک کے اندر اس کی پیداوار نہیں ہے، لہذا ہم بیرون ملک سے خریدنے پر مجبور ہیں۔ کیا آپ کے یہاں منصوبہ بندی نہیں کی جاتی؟ آج آپ کو ایک چیز کی ضرورت پڑی ہے تو اسے آپ آج کیوں بیان کر رہے ہیں؟ آپ دو سال پہلے اپنی یہ ضرورت بیان کر سکتے تھے۔ تاکہ ملک کے اندر کی پیداواری یونٹوں کو تیاری کرنے اور یہ مصنوعات کی پیداوار شروع کرنے کا موقع ملتا، تجربہ کرنے اور اپنی توانائیوں کو پرکھنے کا موقع ملتا اور آج یہ چیز آپ کو دستیاب ہوتی! یہ بڑے اہم مسائل ہیں۔ یہ معمولی چیزیں نہیں ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ فیصلہ کرے اور استعمال کی ساری چیزیں؛ قلم اور کاغذ سے لیکر تعمیراتی اشیاء اور دیگر ضرورت کی چیزوں تک جو بھی چیز ملک کے اندر تیار ہو سکتی ہے اسے بیرون ملک سے امپورٹ کرنا اپنے لئے حرام سمجھے، ان کی درآمدات کو بالکل بند کر دے۔
تساہلی اور راحت طلبی اور خدانخواستہ سوء استفادہ، کیونکہ راحت طلبی پھر بھی سوء استفادہ جتنی قابل مذمت نہیں ہے، حکومتی عہدیداروں کو چاہئے کہ اس کا سد باب کریں۔ ہم نے اس کا بھی تجربہ کیا ہے، آزمایا ہے، بعض جگہوں پر مشاہدہ کیا ہے۔ ایک زمانے میں ایک کام ہوتا تھا، یہ برسوں پہلے کی بات ہے، ایک چیز بنائی جاتی تھی، میں نے وہاں کے حکام کو بلا کر کہا کہ یہ جو کام آپ کر رہے ہیں، سعی یہ ہونی چاہئے کہ اس میں کوئی بھی غیر ملکی چیز استعمال نہ کی جائے۔ عہدیداران نے وعدہ کیا اور پامردی سے اپنے وعدے پر عمل کیا۔ آخر میں جب ہم نے رپورٹ مانگی اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ 98 فیصدی مسالے ملک کے اندر ہی تیار کرنے پر قادر ہو گئے ہیں۔ ایک دو فیصدی چیزیں ایسی تھیں جو ملک کے اندر موجود ہی نہیں تھیں، انھیں باہر سے لایا گیا ہے۔ تو اس طرح یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ صارف بھی قومی پیداوار کو تقویت پہنچانے والے اہم عوامل اور عناصر میں شامل ہے۔
ایک اور اہم ستون ہے کالا بازاری کے سد باب کا ادارہ۔ کالا بازاری کے سد باب کے مسئلے میں ہم نے بہت تاکید کی، برسوں سے مختلف حکومتیں آئیں اور چلی گئیں۔ یہ ایسا عمل ہے جسے انجام دیا جانا چاہئے۔ اسے انجام دینا ممکن بھی ہے۔ یہ نہ کہئے کہ نہیں ہو سکتا، بالکل ہو سکتا ہے۔ کالا بازاری کو سختی سے روکنا چاہئے۔ ایک زمانے میں میں نے عرض کیا تھا کہ اسمگلنگ کے سامان کو صرف سرحدوں پر تلاش نہ کیجئے۔ آج ملک کے اندر اربوں ڈالر؛ میں اس کی صحیح مالیت کا تعین نہیں کر سکتا کیونکہ مختلف اعداد و شمار پیش کئے جا رہے ہیں، لیکن بہر حال یہ رقم بہت بڑی ہے، اتنی بڑی رقم اسمگلنگ والی اشیاء پر صرف ہوتی ہے۔ آپ سرحد سے پہلے بھی، سرحد کے اوپر بھی اور ملک میں دوکانوں کے اندر بھی کالابازاری کے خلاف کارروائی کیجئے۔ یہ بہت اہم چیز ہے، یہ بہت اہم کام ہے۔ جو لوگ کالا بازاری کے سد باب کے لئے محنت کر رہے ہیں وہ واقعی جہاد کر رہے ہیں، وہ عبادت انجام دے رہے ہیں، یہ بھی حسنہ ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور اہم گروہ درآمدات کے ذمہ دار اداروں کا ہے۔ ان اداروں کو چاہئے کہ گہری نظر رکھیں۔ بعض چیزیں ایسی ہیں جو حکومت کے اختیار میں نہیں ہیں، بلکہ نجی سیکٹر کے دائرے میں آتی ہیں اور کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے، لیکن حکومتی ادارے نگرانی کرکے اسے صحیح سمت میں لے جا سکتے ہیں۔ ایسا بندوبست کریں کہ درآمدات کا مسئلہ داخلی پیداوار کو نقصان نہ پہنچائے۔
ایک اور اہم مسئلہ تشہیراتی اداروں اور میڈیا کی ذمہ داری کا ہے۔ ذرائع ابلاغ اور قومی نشریاتی ادارے آئی آر آئی بی کو بھی چاہئے کہ داخلی مصنوعات کے استعمال پر اور حقیقی معنی میں داخلی پیداوار کے فروغ پر کام کریں، یقینا اس کا اثر ہوگا۔
ایک اور اہم مسئلہ قوانین میں استحکام کا ہے جو پارلیمنٹ کے ذمے ہے۔ بہت محتاط رہیں؛ اقتصادی مسائل سے مربوط قوانین میں منجملہ روزگار سے متعلق قوانین میں بار بار ردوبدل نہ کریں، تاکہ جو لوگ منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں انھیں کوئی دقت پیش نہ آئے۔
ملک کے ثقافتی شعبے کے ذمہ دار افراد کو بھی چاہئے کہ تساہلی، کاموں کی انجام دہی میں کوتاہی، محنت کے کاموں سے فرار جیسی چیزوں کی مذمت اور برائی کو سامنے لانے کے لئے ثقافتی اقدامات کی منصوبہ بندی کریں۔ سمجھائیں کہ مشکل کاموں کو قبول کرنا چاہئے۔ اگر ہم سخت کاموں کی ذمہ داری نہیں اٹھائیں گے تو ہم کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔ صرف آسان کام انجام دیکر ترقی نہیں کی جا سکتی۔ انسان کو چاہئے کہ محنت کا کام بھی قبول کرے، خواہ وہ کہیں بھی ہو، صنعت کے میدان میں، ٹیکنالوجی کے میدان میں اور علم و سائنس کے میدان میں اوج پر وہی لوگ پہنچے ہیں جنہوں نے خود سخت کوشی کے کاموں کو انجام دیا ہے۔ اس کے لئے ماحول سازی کی ضرورت ہے۔ اگر صرف آسان کاموں کی تلاش میں رہیں گے تو کام آگے نہیں بڑھے گا۔
کرپشن کی روک تھام کے ذمہ داران کا بھی اس مسئلے میں اہم رول ہے۔ بدعنوانی پر بحث تو بہت ہوتی ہے۔ مگر صرف بیان دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ چور چور چلاتے رہنے سے چور چوری نہیں بند کرے گا۔ آگے بڑھ کر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے حکام کوئی اخبار و جریدہ تو نہیں ہیں کہ بدعنوانی کے بارے میں خبریں دیتے رہیں۔ اخبار ممکن ہے کہ کرپشن کے بارے میں خبر دے۔ مگر ہم اور آپ جو عہدوں پر ہیں تو ہمیں اقدام کرنا ہے، صرف بیان دینے کا کیا مطلب ہے؟ قدم اٹھائیے۔ اگر ہم واقعی اقدام کرنا جانتے ہیں تو ہمیں حقیقت میں کرپشن کا سد باب کر دینا چاہئے۔
یہ ہمارے فرائض ہیں، یہ ہمارے مختلف محکموں کے فرائض ہیں۔ یہ ملکی معیشت کی مشکل کا علاج ہے۔ اگر ملکی معیشت کی مشکلات کو حل کرنا ہے تو پیداواری شعبے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں جو صورتیں میں نے بیان کیں ان کے مطابق سب کی ذمہ داریاں ہیں۔ البتہ بعض محکموں کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ کچھ محکموں کی ذمہ داریاں ذرا ہلکی ہیں۔ لیکن ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔ اقتصادی مشکلات کا حل لوزان، جنیوا اور نیویارک میں نہیں، ملک کے اندر ہے۔ سب محنت کریں، سب کمر ہمت کسیں، ان شاء اللہ مشکلات حل ہوں گی۔ ان گزشتہ برسوں کے دوران ملت ایران نے اور ملک کے حکام نے اس سے زیادہ بڑے کام انجام دئے ہیں اور کامیاب ہوئے ہیں، وہ ملکی پیداوار کے مسئلے کو بھی حل کر سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی بحمد اللہ محنت کر رہی ہے، دلچسپی سے کام کر رہی ہے۔ حکومت کے اندر ماہر افراد موجود ہیں۔ سب محنت کریں، کام کریں، تندہی سے لگے رہیں، ان شاء اللہ مشکلات حل ہو جائيں گی۔
ہمارا محنت کش طبقہ واقعی بڑا شریف و نجیب طبقہ ہے۔ محنت کشوں کی برادری میں نجابت پائی جاتی ہے۔ اوائل انقلاب سے بلکہ انقلاب کی مکمل فتح سے قبل ہی جب سنہ 1979 میں ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے تھے اور ہنگامہ خیز حالات تھے، محنت کش طبقوں اور مزدوروں کو انقلاب کے مد مقابل کھڑا کرنے کی کوششیں اور اشتعال انگیزی ہو رہی تھی جسے میں بھی دیکھ رہا تھا۔ مجھے معلوم تھا، میں خود بھی دیکھ رہا تھا۔ میں نے بعض افراد کو قریب سے دیکھا، اپنی آنکھ سے مشاہدہ کیا۔ برسوں سے یہ سلسلہ چلا آ رہا تھا۔ میرے دور صدارت میں بھی اور اس کے بعد بھی ہمیشہ کچھ لوگ تھے جو محنت کش طبقے کو اسلامی نظام کے مد مقابل کھڑا کر دینے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر ملک کے محنت کش طبقے نے بڑی قطعیت کے ساتھ، ثبات قدم کے ساتھ اور نجابت و شرافت کے ساتھ مشکلات کا بوجھ اٹھایا اور کام کیا۔ اس نجابت و شرافت کا صلہ یہ ہونا چاہئے کہ سب مل کر ان مشکلات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی بھی یقینا ایسے لوگوں کی نصرت فرمائے گا جن کی نیت پاکیزہ ہے اور جو اچھے کام انجام دینے کی کوشش میں رہتے ہیں، جو اچھے اہداف کی جانب بڑھنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ تمام عزیزوں کو، آپ عزیز محنت کشوں کو اسی طرح اس شعبے کے تمام حکام کو توفیق عطا فرمائے۔ آپ سب کو اپنے لطف و کرم کے سائے میں رکھے۔ محنت کش طبقے کے شہدا کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ محشور فرمائے، ہمارے عظیم قائد امام خمینی کو جنھوں نے ہمارے لئے یہ راستہ تعمیر کیا، اپنے رسول کے ساتھ محشور فرمائے۔

و السّلام ‌علیکم‌ و رحمة الله‌ و برکاته‌

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل وزیر محنت و سماجی رفاہ جناب علی ربیعی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔
۲) اسدالغابه، جلد ۲، صفحہ ۱۸۵
۳) حسینیہ امام خمینی میں 31 جنوری 2015 کو نینو ٹیکنالوجی کے شعبے کی مصنوعات کی نمائش کی جانب اشارہ ہے۔
۴) مسائل علیّ ‌بن‌ جعفر و مستدرکاتها، صفحہ ۹۳ (قدرے فرق کے ساتھ)