26 اردیبہشت 1394 ہجری شمسی مطابق 16 مئی 2015 کو ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے گزشتہ 35 سال کے تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ عظیم الشان ملت اسلامیہ دو بنیادی عوامل؛ بصیرت اور عزم و ہمت کو قائم رکھتے ہوئے اس جاہلیت کا مقابلہ کرکے اسے شکست دے سکتی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تاریخ ساز اور عظیم عید بعثت کی مناسبت سے ملت ایران، دنیا بھر کے مسلمانوں اور تمام آزاد منش انسانوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ بشریت کو بعثت سے ملنے والے اسباق کو بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اس جاہلیت کا مقابلہ کرنے کے لئے تھی جو جزیرۃ العرب ہی نہیں بلکہ اس زمانے میں دنیا بھر کی شہنشاہیتوں پر مسلط تھی۔
قائد انقلاب اسلامی نے کہا کہ اس وقت علاقے میں استکبار کی خباثت آلود پالیسیوں کا اصلی محور نیابتی جنگوں کی آگ بھڑکانا ہے۔ آپ نے فرمایا: وہ اپنے فائدے اور اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں کی جیبیں پر کرنے کی فکر میں ہیں، بنابریں علاقے کے ملکوں کو چاہئے کہ بہت ہوشیار رہیں تا کہ ان پالیسیوں کے جال میں نہ پھنسیں۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ امریکا کے جھوٹے دعوؤں میں سے ایک خلیج فارس کے علاقے کی سیکورٹی سے متعلق اس کا دعوی ہے۔ آپ نے فرمایا: خلیج فارس کے امن و تحفظ کا تعلق اس علاقے کے ملکوں سے ہے جن کے مشترکہ اہداف ہیں، اس کا تعلق امریکا سے نہیں ہے۔ بنابریں خلیج فارس کے علاقے کی سیکورٹی اسی علاقے کے ملکوں کے ذریعے قائم کی جانی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے یمن، بحرین اور فلسطین کی اقوام کو مظلوم اقوام قرار دیا اور فرمایا: صدر اسلام میں مشرکین مکہ بھی ماہ حرام میں جنگ روک دیا کرتے تھے، مگر آج یمن میں ماہ رجب کے دوران جو ماہ حرام ہے، اس ملک کے بے گناہ عوام کے اوپر بم اور میزائل برسائے جا رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم ‌(۱)
و صلّی ‌الله علی محمّد و آله الطّاهرین‌

اس عظیم، تاریخ ساز اور بے نظیر عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں آپ تمام حاضرین محترم، معزز مہمانوں، تمام ملت ایران، دنیا بھر کے مسلمانوں اسی طرح ایسے سبھی انسانوں کو کہ جن کے دل انصاف، انسانیت اور آزادی کے لئے دھڑکتے ہیں۔ عید بیعث سب کی عید ہے، صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے۔ بعثت کا جشن اور بعثت کے دن کو خراج پیش کرنے کی روایت بنیادی طور پر اس لئے ہے کہ ہم بعثت کے مضمون کا بار بار جائزہ لیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔ یہ ہے اس کا ہدف۔ بعثت کے ملنے والے سبق کی ہمیں ہمیشہ ضرورت رہے گی۔ بعثت کسی معینہ دور کے سے مختص تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تاریخ کے ہر دور سے ہے۔
بعثت کے عظیم دروس میں سے جس درس کا انتخاب کرکے میں اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ بعثت رسول جاہلیت کا مقابلہ کرنے کے لئے تھی۔ اسلامی اصطلاح میں بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آفتاب نبوت کے طلوع سے قبل کے دور کو دور جاہلیت کہتے ہیں۔ یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ جاہلیت جزیرہ عرب، مکے، حجاز اور دیگر خطوں کے عربوں تک محدود تھی۔ نہیں، اس جاہلیت میں بڑی ہمہ گیری تھی۔ اس زمانے کا ایران بھی جاہلیت میں غرق تھا۔ اس زمانے کی قلمرو روم بھی جاہلیت میں گرفتار تھی۔ اسلام اور بعثت پیغمبر کا مقصد اس وسیع جاہلیت کا مقابلہ کرنا تھا۔ جاہلیت کا مطلب صرف علم کا فقدان نہیں ہے۔ اسلامی اصطلاح میں اور اسلامی ادبیات میں جاہلیت کے معنی بہت وسیع ہیں۔ جاہلیت کا ایک پہلو ہے علم کا فقدان، علم کا نہ ہونا، جبکہ جاہلیت کا وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ زندگی کی فضا اور ماحول پر انسان کی قوت غضب اور شہوت کا غلبہ، یہ ہے جاہلیت۔ جاہلیت کا مطلب یہ ہے کہ انسانی معاشرے شہوت و غضب کے میلان و رجحان اور خاص طور پر معاشرے کے فرماںرواؤں کی خواہشات و غضبناکی کے زیر اثر ایسی حالت میں پہنچ جائیں کہ ان کے اندر فضائل ناپید ہو جائيں اور رذائل کا غلبہ ہو جائے، اسے کہتے ہیں دور جاہلیت۔
دور جاہلیت کے انسان کی زندگی کے بڑے حصے پر گمراہی طاری تھی؛ ایک طرف بے لگام شہوت نفسانی، شہوت جنسی وغیرہ تھی، آپ جزیرۃ العرب کے اسی علاقے پر نظر ڈالئے! بقیہ علاقوں کا ماحول بھی ایسا ہی تھا، سب بے قابو ہوکر شہوت و خواہشات میں ڈوبے ہوئے تھے۔ جس کا بس چلتا وہی منمانی کرتا تھا۔ دوسری جانب خواہشات کے اسیر یہی انسان قسی القلبی، خونریز اور انہدامی اقدامات میں جہاں تک تصور جا سکتا ہے، اس حد تک پہنچ جاتے تھے۔ یعنی اپنے بچوں کو بھی قتل کر دیتے تھے؛ قَد خَسِرَ الَّذینَ قَتَلوا اَولادَهُم(۲) وہ لوگ جو اپنے بچوں کو قتل کرتے تھے؛۔ سَفَهًا بِغَیرِ عِلم (۳) یہ حماقت کی وجہ سے ہے۔ یہ حماقت در حقیقت وہی جاہلیت ہے۔ قسی القلبی کی حد یہ تھی کہ لوگوں کے بچوں اور دوسرے افراد کے بچوں پر رحم کرنا در کنار، خود اپنے بچوں پر بھی رحم نہیں کیا جاتا تھا۔ اسے کہتے ہیں جاہلیت۔ ایک طرف خواہشات ہیں اور دوسری جانب غیظ و غضب ہے۔ زندگی کا پورا ماحول ان دو سرکش اور بے لگام جذبات و حالات کا قیدی بن جاتا ہے۔ اسلام اس حالت کو تبدیل کرنے کے لئے آیا۔ البتہ یہی سب کچھ بعینہ ایران کے ساسانی بادشاہوں کے درباروں میں بھی ہوتا تھا، روم کے شہنشاہوں کے درباروں کا بھی یہی حال تھا، دوسری جگہوں پر بھی جہاں سلطنتیں تھیں اور استبدادی و ظالمانہ نظام تھے یہی کہانی تھی۔ اسلام اس قبیح صورت حال کے خلاف اپنا پرچم بلند کرتا ہے۔ لِلعلَمینَ نَذیرًا (۴) یعنی رسول اسلام نے سب کو متوجہ کرکے اسلام کا پیغام دیا۔
آج بھی دنیا میں جاہلیت موجود ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی آنکھ کھولیں اور جاہلیت کو پہچانیں۔ آج بھی وہی باتیں ہیں، وہی بے لگام اور عقل و خرد سے عاری لذت پرستی ہے۔ آج مغربی دنیا میں رائج منطق رجحان و میلان پر استوار ہے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ ہم جنس پرستی کی ترویج کیوں کرتے ہیں؟ جواب دیتے ہیں کہ یہ انسان کی خواہش اور پسند ہے، یہ ہے ان کی منطق! یہی لوگ جو شہوت رانی کے میدان میں، جنسی اور دیگر خواہشات کے میدان میں کسی ریڈ لائن کے قائل نہیں، کسی بھی حد پر رکنے کے قائل نہیں ہیں، بس بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں، قسی القلبی میں بھی ان کی یہی حالت دکھائی دیتی ہے۔ انسانوں کو قتل کرتے ہیں، بے گناہوں کو مارتے ہیں، بغیر کسی جرم کے قوموں کی سرکوبی کرتے ہیں۔ یہ جاہلیت آج موجود ہے، یہ ماڈرن جاہلیت ہے۔ صدر اول کی جاہلیت جسے قرآن نے جاہلیت اولی کہا ہے اس میں اور موجودہ دور کی جاہلیت میں فرق صرف اتنا ہے کہ آج کی جاہلیت سائنس کے ہتھیار سے، دانش کے ہتھیار سے لیس ہے۔ یعنی وہ سائنس و علم جو انسان کی فلاح و نجات کا ذیرعہ ہونا چاہئے وہی انسان کی بدبختی کا سامان فراہم کر رہا ہے، انسانی معاشروں کی سیاہ بختی کا باعث بن رہا ہے۔ جو لوگ آج دنیا پر دھونس جماتے ہیں وہ علم و سائنس کے میدان کی اپنی کامیابیوں کی مدد سے دھونس جماتے ہیں۔ ان کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ اسی علم و سائنس کی دین ہے۔ اطلاعات کے جو وسائل ہیں، سیکورٹی کے شعبے میں استعمال ہونے والے جو وسائل ہیں، جو تشہیارتی ذرائع ہیں یہ سب سائنس و ٹیکنالوجی کی دین ہے اور یہ سارے وسائل خواہشات اور غیظ غضب کی تسکین کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ آج دنیا کی یہ حالت ہے۔ اسلامی معاشرے کو ایسی صورت حال کا سامنا ہے۔ عالم اسلام کو اس حقیقت کا مکمل ادراک ہونا چاہئے۔
آج جاہلیت دوبارہ پیدا ہوئی جو شروعاتی دور اور صدر اسلام کی جاہلیت سے کہیں زیادہ طاقتور اور اس کے خطرات سیکڑوں بلکہ ہزاروں گنا زیادہ ہیں۔ البتہ آج اسلام بھی وسائل سے آراستہ ہے۔ عظیم اسلامی فورسز گوناگوں وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے آج دنیا بھر میں پھیل گئی ہیں۔ کامیابی کی امید اور دشمن کے حربوں اور چالوں پر قابو پا لینے کے امکانات کم نہیں ہیں، اس کی امید بہت زیادہ ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلی ضرورت ہے بصیرت اور دوسرے نمبر پر عزم و حوصلہ۔ ہم مسلم اقوام کو اس چیز کی شدید احتیاج ہے۔
آج اسلامی دنیا واقعی بری طرح مسائل میں گرفتار ہے۔ آپ ہمارے علاقے کے اسلامی ممالک کی حالت پر ںظر ڈالئے۔ پاکستان و افغانستان سے لیکر شام، لبنان اور فلسطین تک، اسی طرح یمن سے لیکر لیبیا تک مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے یہ ممالک آج بڑی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ بدامنی کا شکار ہیں، برادر کشی کا شکار ہیں، ایسے گروہوں کے قبضے کی مشکل سے دوچار ہیں جنہیں خدا کا خوف نہیں ہے اور ان سب کے پیچھے کارفرما بڑی سامراجی طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکا کی سازشی چالوں کا شکار ہیں۔ یہ طاقتیں اپنے مفادات کی حفاظت کے نام پر میدان میں دراندازی کرتی ہیں اور ان کا جو بھی دل چاہتا ہے یعنی اپنی اسی شہوت و غضب کے مطابق ہر کام کرتی ہیں۔ یعنی بے گناہ انسانوں کا قتل عام کرتی ہیں اور شرپسند گروہوں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔
ان کا تشہیراتی شعبہ بھی واقعی بہت وسیع ہے اور ان تمام اقدامات پر ملمع چڑھانے کا کام کرتا ہے۔ برطانیہ کی گزشتہ نسل کا سیاستداں چرچل کا، جس کے نام سے ہم ایرانی بھی بخوبی آشنا ہیں، ایک جملہ ہے جس میں بڑا عجیب طنز پوشیدہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ 'سچائی' اتنی عزیز اور پسندیدہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ اسے جھوٹ کی تہوں میں لپیٹ پر محفوظ رکھے! آپ دیکھئے، یہ طرز فکر ہے۔ جھوٹ، خلاف حقیقت پروپیگنڈا، حقائق کے بالکل برخلاف بات کرنا، مغربی حکومتوں کو پالیسیوں میں یہ چیز نظر آتی ہے۔
آج امریکی بڑے دعوے کرتے ہیں کہ دہشت گردی سے لڑ رہے ہیں! جبکہ سب سے بڑے سفاک اور خوں آشام دہشت گرد گروہ کو خود انھوں نے ہی وجود بخشا ہے۔ داعش کی تشکیل کس نے کی؟ وہ خود بھی اعتراف کرتے ہیں کہ داعش کی تشکیل میں ان کا کردار اور ہاتھ رہا ہے۔ داعش کی مانند دوسرے چھوٹے بڑے متعدد دہشت گرد گروہوں کو کس نے شام ، عراق اور دوسرے ممالک کے گلے ڈالا ہے؟ ان جرائم پیشہ اور قاتل عناصر کو اسلحہ اور پیسہ کہاں سے ملتا ہے؟ یہ پیسے کہاں سے آ رہے ہیں؟ جو لوگ امریکی پالیسیوں کے مطابق علاقے میں سفاک و درندہ صفت دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں، وہ کون ہیں؟ کیا اس میں کوئی شک باقی رہ گیا ہے کہ ہمارے علاقے میں دہشت گردی کو وجود میں لانے، دہشت گردوں کو چاروں طرف پھیلانے، ان کی مدد اور پشت پناہی میں سامراج کا سب سے زیادہ ہاتھ رہا ہے؟ اس علاقے میں جہاں کہیں بھی دیکھئے، دہشت گردی کو وجود عطا کرنے میں ان خبیث دشمنوں کا ہاتھ ضرور نظر آتا ہے۔ جعلی صیہونی حکومت کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے جو غزہ میں اور مغربی کنارے کے علاقے میں فلسطین کو مظالم کا نشانہ بنا رہی ہے؟ اس کی حمایت کون کر رہا ہے؟ اس کے لئے راستہ کس نے صاف کیا ہے؟ ان کی پشت پر کون کھڑا ہے؟ یہ مغربی طاقتیں ہی تو ہیں جن میں سر فہرست امریکا ہے۔ اس سب کے بعد بھی وہ اپنے نعروں میں اور بیانوں میں یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے مخالف ہیں، ہم داعش کے مخالف ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں، غلط بیانی کر رہے ہیں۔ یہ جاہلیت ہے، یہ وہی جاہلیت ہے جو آج کی دنیا میں موجود ہے۔
ہمیں چاہئے کہ بیدار رہیں۔ برادران عزیز، عظیم ملت ایران، پوری اسلامی دنیا اور ملکوں کے عمائدین! آپ سب یاد رکھئے کہ ہم اس جاہلیت کا مقابلہ کرنے کی توانائی رکھتے ہیں۔ آج ہمارے علاقے کے سلسلے میں سامراج کی پالیسی نیابتی جنگوں کی آگ بھڑکانا ہے۔ سامراج اپنے مفادات کے لئے علاقے کے ملکوں کو یا ملکوں کے اندر موجود گروہوں کو اشتعال دلاتا ہے اور ایک دوسرے سے الجھ پڑھنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ اسے اپنے مفادات کی فکر ہے، اسے اسلحہ ساز کمپنیوں کی جیبیں بھرنے کی فکر ہے۔ یہ پالیسیاں دیوالئے پن کے دہانے پر پہنچ چکی اپنی معیشتوں کو بچانے کے لئے ہیں، یہ ہے ان کا ہدف۔ ہمیں بیدار رہنا ہوگا۔
خلیج فارس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ خلیج فارس کا امن و استحکام خلیج فارس کے ملکوں کا مشترکہ مفاد ہے۔ خلیج فارس کے اطراف میں واقع ممالک کے مشترکہ مفادات ہیں۔ ہم آپس میں ہمسایہ ممالک ہیں۔ اس علاقے کا امن و استحکام ہم سب کے مفاد میں ہے۔ اگر خلیج فارس کے علاقے میں امن و استحکام رہے گا تو ہمیں اس کا فائدہ ملے گا اور اگر بدامنی رہے گي تو ہم سب کو بدامنی کا شکار ہوں گے۔ بدامنی کا شکار خلیج فارس کا علاقہ، سب کے کے لئے غیر محفوظ ہوگا۔ اس علاقے کے امن کو استحکام کی حفاظت کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے کہ خلیج جن کی ملکیت ہے، ان کا آشیانہ ہے۔ امریکا کون ہوتا ہے جو خلیج فارس کے علاقے کے بارے میں بیان بازی کرے، اتحادی جمع کرے۔ وہ لوگ امن قائم کرنے کی فکر میں نہیں ہیں۔ انھیں اگر ضرورت محسوس ہو تو کسی خطے کو بدامنی کی آگ میں جھونک سکتے ہیں اور وہ ایسا کر بھی رہے ہیں، وہ بدامنی پھیلانے والوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
یمن بدامنی کا شکار ہو گیا۔ یمن بچوں اور خواتین کی قتل گاہ بن گیا۔ یہ بدامنی نہیں ہے؟ اس بدامنی کی کون حمایت کر رہا ہے؟ امریکا۔ افسوس کی بات ہے کہ عملی اقدام کرنے والے وہ ممالک ہیں جنہیں مسلمان ملک کہا جاتا ہے، علاقے کے ممالک ہیں۔ لیکن یہ سب دھوکے میں آ گئے ہیں۔ منصوبہ ساز امریکا ہے، پشت پناہی امریکا کر رہا ہے۔ دہشت گردی کی ترویج کرنے والے امریکی ہیں۔ اور اس کے باوجود الزام لگاتے ہیں کہ ایران تو دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے۔ ہم نے دہشت گردی سے جنگ لڑی ہے۔ دہشت گردی کو ہم نے طمانچہ رسید کیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی دشمنوں کے پیسے سے اور امریکا کے منصوبے کے مطابق دہشت گردی نے سر ابھارا تھا لیکن ملت ایران ملک کے اندر دہشت گردی کے سر پر زوردار مکا رسید کرکے اسے کچل دیا اور آئندہ بھی ایسا ہی کرے گي۔
ہم نے اپنے ملک کے اندر، عراق میں، شام میں اور لبنان میں دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کرنے والوں سے تعاون کیا، ان کی مدد کی اور آئندہ بھی کریں گے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ اس علاقے کے خبیث ترین اور سب سے زیادہ خطرناک دہشت گرد صیہونی ہیں۔ ہم صیہونیوں کے مد مقابل کھڑے ہیں۔ ہم سے کہا جاتا ہے کہ ایران دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے۔ جبکہ دہشت گردی کی حمایت تو آپ کر رہے ہیں۔ امریکا دہشت گرد صیہونی حکومت کا حامی ہے۔ امریکا نے داعش کو وجود بخشا ہے۔ امریکا نے داعش کی حمایت کی ہے۔ شام میں جو دہشت گرد بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، جو انسانوں کو زندہ جلا رہے ہیں، جو مردے کا سینہ چاک کرکے اس کا دل باہر نکالتے ہیں اور اسے چباتے ہیں، آپ نے ان دہشت گردوں کی حمایت کی، ان کی پشت پناہی کی، آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ آپ کے بغیر پائلٹ کے طیاروں نے پاکستان اور افغانستان میں عوام الناس کے گھروں کو مسمار کیا۔ لوگوں کی شادی کی تقریب کو صف ماتم میں تبدیل کر دیا۔ عراق میں بھی یہی واقعہ ہوا۔ آپ یہ سارے کام انجام دے رہے ہیں۔ دہشت گردی آپ کی دین ہے۔ دہشت گرد آپ ہیں۔ اور الزام یہ لگاتے ہیں کہ ایران دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ دہشت گرد آپ کا کام ہے۔ ہم تو دہشت گردی کے خلاف ہیں اور ہر دہشت گرد کا ہم مقابلہ کریں گے۔ ہم ہر مظلوم کی حمایت کریں گے۔ آپ ملت یمن مظلوم قوم ہے۔ اس سے بڑا کیا ظلم ہوگا کہ ماہ حرام میں، ماہ رجب ماہ حرام ہے، آپ مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ ماہ رجب آ جاتا تھا تو مشرکین مکہ بھی جنگ روک دیا کرتے تھے۔
آج اس زمانے کے مکے سے زیادہ بدتر اور پست وہ افراد ہیں جو ماہ رجب میں، ماہ حرام میں، یمنی خاندانوں کو صف ماتم بچھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ایک شب و روز کی مدت میں کسی جگہ پر سو بار دو سو بار جنگی طیاروں سے حملے کرتے ہیں، الٹے سیدھے بہانے پیش کرکے، غلط دلائل پیش کرے، جھوٹے دعوے کرکے۔ یمن کی قوم ایک مظلوم قوم ہے، یہاں کے عوام مظلوم عوام ہیں۔ ملت بحرین بھی ایک مظلوم قوم ہے۔ فلسطینی قوم تو عرصہ دراز سے مظلومیت میں مبتلا ہے اور برسوں سے یہ قوم سختیاں جھیل رہی ہے۔ جہاں تک ہمارے بس میں ہے ہم مظلوم کی حمایت کرتے ہیں۔ جہاں تک امکان ہے اور جتنی ہماری توانائی ہے اس حد تک مدد و حمایت ہمارا فریضہ ہے۔ اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے؛ «کُن للِظّالِمِ خَصماً وَ لِلمَظلومِ عَونا»(۵)، یہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا حکم ہے۔ ہمارا یہ نظریہ نہیں ہے کہ «اُنصُر اَخاکَ ظالِماً اَو مَظلوما» (اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم) ، یہ زمانہ جاہلیت کا نعرہ ہے۔ اس زمانے میں کہتے تھے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ مظلوم واقع ہوا ہو یا دوسروں پر ظلم کر رہا ہو۔ قرآن یہ نہیں کہتا، اسلامی تعلیمات اس سے روکتی ہیں۔ ظالم کوئی بھی ہو اس کا مقابلہ کیا جانا چاہئے، اس کے مظالم کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح مظلوم کی مدد کی جانی چاہئے خواہ وہ کوئي بھی ہو۔
علاقے کے ممالک بہت ہوشیار رہیں! اس علاقے سے دشمنی برتنے والوں اور اس اسلامی خطے کے دشمنوں کی پالیسی ان ملکوں کو ایک دوسرے سے ہراساں کرنے پر مرکوز ہے۔ خیالی دشمن تراش لیتے ہیں اور اصلی دشمن یعنی استکبار، یعنی جارح کمپنیوں اور ان سے وابستہ افراد اور صیہونی عناصر کو ایک کنارے پر رکھتے ہیں۔ تصوراتی دشمن ایجاد کر دیتے ہیں۔ ایران بمقابلہ عرب، فلاں قومیت بمقابلہ فلاں قومیت، شیعہ بمقابلہ سنی، یہ سب دشمن کی سازشیں ہیں۔ اس کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ ان پالیسیوں کا مقابلہ کرنا در حقیقت جاہلیت کا مقابلہ ہے۔ آج کی ماڈرن جاہلیت انتہائی بے رحم، سنگدل، قسی القلب اور انواع و اقسام کے وسائل سے لیس جاہلیت ہے۔ اس کا بہت ہوشیاری سے مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ ملت ایران نے اس کا مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔
خوش قسمتی سے علاقے کی قومیں بیدار ہو چکی ہیں۔ اسلامی بیداری کی لہر کو وقتی طور پر تو دبا دیا گیکا لیکن بیداری کی سرکوبی ممکن نہیں ہے، بصیرت کی سرکوبی نہیں کی جا سکتی۔ ملت ایران بیدار ہے، علاقے کی بہت سی قومیں بیدار اور آگاہ ہیں اور امت اسلامیہ بھی بحمد اللہ پوری طرح بیدار ہے۔ البتہ دشمنوں کو کبھی غلبہ حاصل ہو جاتا ہے؛ لِلباطِلِ جَولَة (۶) ، باطل بھی کبھی ریشہ دوانیاں کرتا ہے۔ بعثت پیغمبر علیہ السلام کی سالگرہ کے موقع پر ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم پوری طرح خیال رکھیں اور امت اسلامیہ کی ذمہ داریوں کو فراموش نہ کریں، امت اسلامیہ کی توانائي کو نظر انداز نہ کریں۔ خوش قسمتی سے امت اسلامیہ کی توانائياں بہت زیادہ ہیں۔ اس کی واضح دیلل یہ ہے کہ برسوں سے علاقے میں مزاحمتی جذبے اور بیداری کو کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اب تک ان عناصر کو کامیابی نہیں ملی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے جو اس بیداری کا محور ہے گزشتہ پینتیس سال سے وہ لڑ رہے ہیں اور لیکن بحمد اللہ انھیں شکست ہوئي اور آئندہ بھی ہزیمت اٹھائیں گے۔
پالنے والے اس راستے کے تمام شہیدوں اور تمام مجاہدین پر اپنی رحمتیں نازل فرما! پروردگار! ہمارے عظیم قائد (امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی روح طیبہ کو جنہوں نے یہ درس ہمیں دیا اور اس راستے کی تعمیر کی، اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ ہمارے عزیز شہیدوں کو پیغمبر کے ساتھ محشور فرما۔

والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے تقریر کی۔
۲) سوره‌ انعام، آیه‌ ۱۴۰ کا ایک حصہ
۳) ایضا
۴) سوره‌ فرقان، آیه‌ نمبر ۱ کا کچھ حصہ
۵) غررالحکم و درر الکلم، صفحہ ۵۲۹؛ تھوڑے سے فرق کے ساتھ
۶) غررالحکم و درر الکلم، صفحہ ۵۴۴