قائد انقلاب اسلامی نے امام خمنیی کی شخصیت کے حقائق میں تحریف کا سختی سے مقابلہ کئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ مکتب امام خمینی کے مسلمہ اصولوں کا بار بار مطالعہ اس عظیم شخصیت کے بارے میں تحریف کی کوششوں کے سد باب کا واحد راستہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے 14 خرداد 1394 ہجری شمسی مطابق 4 جون 2015 کو اپنے اسے خطاب میں کہا کہ ان اصولوں میں حقیقی اسلام محمدی کا اثبات اور امریکی اسلام کی نفی، اللہ کے وعدوں کی صداقت پر اعتماد اور مستکبرین کے سلسلے میں بے اعتمادی، عوام کی قوت ارادی و توانائیوں پر اعتماد اور حکومتوں پر ارتکاز کی مخالفت، محروم طبقات کی بھرپور حمایت اور اشرافیہ کلچر کی مخالفت، دنیا کے مظلومین کی حمایت اور بین الاقوامی غنڈوں کی بغیر کسی بات کا لحاظ کئے صریحی مخالفت، خود مختاری پر زور اور بیرونی تسلط کی مخالفت اور قومی اتحاد پر تاکید ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دار باقی کی جانب امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے کوچ کی چھبیسویں برسی کے موقع پر اپنے اس خطاب کی تمہیدی گفتگو میں نیمہ شعبان اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے یوم ولادت کا سعادت کا ذکر کرتے ہوئے آخری زمانے کے منجی بشریت کے موضوع کو تمام ادیان ابراہیمی کے نزدیک مسلمہ عقیدہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق مہدی موعود عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے عقیدے کی سب سے بڑی خاصیت امید آفرینی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس عمیق اور نجات بخش عقیدے کی شمع فروزاں، شیعوں کو ظلم و تاریکی کے تمام ادوار میں مستقبل کے تعلق سے پرامید اور متحرک رکھتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله‌ الرّحمن‌ الرّحیم ‌(1)
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الأطیبین الأطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الأرضین. اللّهمّ کن لولیّک الحجّة بن الحسن صلواتک علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّاً و حافظاً و قائداً و ناصراً و دلیلاً و عیناً حتّی تسکنه ارضک طوعاً و تمتّعه فیها طویلاً. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذریّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقرّ به عینه و تسرّ به نفسه.

اپنے معروضات کے آغاز میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی مقدس بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں گا۔ آخری زمانے میں دنیا کے نجات دہندہ کے بارے میں تمام ادیان ابراہیمی میں اتفاق رائے ہے۔ یہ عقیدہ کہ کوئی آئے گا اور دنیا کو ظلم و جور کی دلدل سے نجات دلائے گا، تمام ادیان ابراہیمی کے نزدیک مسلمہ اور ہمہ گیر عقیدہ ہے۔ اسلام میں اس نجات دہندہ کا نام معین کر دیا گیا ہے۔ اس ملکوتی شخصیت کو اس غیر معمولی اور عظیم ہستی کو تمام اسلامی مسالک مہدی کے نام سے جانتے ہیں۔ شاید اسلامی فرقوں میں کوئی بھی فرقہ ایسا نہ ہوگا جس میں یہ عقیدہ نہ ہو کہ مہدی علیہ السلام ظہور فرمائیں گے اور وہ ذریت پیغمبر میں سے ہوں گے۔ حضرت کا نام اور آپ کی کنیت تک معین کر دی گئی ہے۔ شیعہ مسلک کے عقیدہ مہدویت کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ فرقہ اس ہستی کو بالکل واضح طور پر متعارف کراتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام میں سے گیارہویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ہیں۔ شیعہ مورخین اور علمائے علم کلام کے نزدیک آپ کی تاریخ ولادت بھی واضح اور معین ہے۔ دیگر اسلامی فرقوں نے اس نظرئے کا تذکرہ نہیں کیا ہے یا اسے قبول نہیں کیا ہے۔ تاہم شیعہ مسلک مسلمہ اور محکم دلیلوں کی روشنی میں حضرت کی ولادت اور آپ کے وجود کو ثابت کرتا ہے۔ کچھ لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی انسان پیدا ہونے کے بعد اتنے طویل عرصے تک زندہ رہے؟ اسے کچھ لوگ بہت بعید قرار دیتے ہیں۔ حضرت مہدی علیہ السلام کے مسئلے میں مخالفین نے یہی اعتراض کیا ہے اور بار بار اس کا اعادہ کرتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم میں اس اعتراض کو مسترد کر دینے والی نص صریح موجود ہے۔ پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: فَلَبِثَ فیهِم اَلفَ سَنَةٍ اِلّا خَمسینَ عامًا (۲) یعنی حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے درمیان 950 سال کی زندگی گزاری ہے۔ حضرت نوح کی عمر یہ نہیں ہے۔ آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 950 سال آپ کی تبلیغ کا زمانہ ہے۔ لہذا اس قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
شیعہ مسلک کے اندر پائے جانے والے اس عقیدے کی سب سے بڑی خاصیت اس کی امید آفرینی ہے۔ شیعہ معاشرہ صرف گزشتہ تاریخ کی نمایاں ہستیوں اور تغیرات سے وابستہ نہیں بلکہ اس کی نظر مستقبل پر ہے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق مہدویت پر یقین رکھنے والا انسان انتہائی دشوار حالات میں بھی قنوطیت کا شکار نہیں ہوتا، بلکہ امید کی شمع اس کے وجود میں ہمیشہ روشن رہتی ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ تاریکی کا یہ دور، یہ ظلم و جور کا زمانہ اور باطل کے تسلط کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ یہ اس عقیدے کا انتہائی اہم پہلو ہے۔ البتہ مہدویت کے سلسلے میں شیعہ مسلک کا عقیدہ یہیں تک محدود نہیں ہے؛۔ بِیُمنِهِ رُزِقَ الوَری‌ وَ بِوُجُودِهِ ثَبَتَتِ الأرضُ و السَّماء (۳) یہ ہے عقیدہ مہدویت کی کیفیت۔ یہ ضو فشاں چراغ، یہ شمع فروزاں شیعہ معاشروں میں تمام ادوار میں موجود رہی اور موجود رہے گی۔ ان شاء اللہ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوں گی۔ کل کا دن حضرت کے یوم ولادت کی سالگرہ کا دن تھا۔ چنانچہ آپ خواہران و برادران گرامی کے اس اجتماع میں اختصار کے ساتھ میں نے اس با برکت دن کی مناسبت سے خراج عقیدت پیش کیا۔
چودہ خرداد (مطابق چار جون امام خمینی کی رحلت کی تاریخ) کی مناسبت سے اس پرشکوہ اجتماع میں تشریف فرما بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں اور تمام ملت ایران کی خدمت میں جو باتیں مجھے عرض کرنی ہیں وہ ہمارے عظیم قائد و امام کے تعلق سے ہیں۔ اس بارے میں ہم بہت کچھ بیان کر چکے ہیں، لیکن اس عظیم انسان کے بارے میں کہنے کے لئے اب بھی بہت کچھ باقی ہے۔ آج میں 'امام خمینی کی شحصیت کے بارے میں تحریف' کے عنوان سے کچھ نکات عرض کروں گا۔ کیا شخصیات کے بارے میں بھی تحریف ممکن ہے؟ عام طور پر تحریف کی اصطلاح کتب اور متن کے بارے میں اسعمال کی جاتی ہے۔ کیا شخصیات کے بارے میں بھی تحریف ہو سکتی ہے؟ جی ہاں، شخصیات کے بارے میں تحریف کا مطلب یہ ہے کہ کسی عظیم انسان کی شخصیت کے اصلی ستون یا تو نامعلوم رہ جائیں یا ان کا غلط مفہوم نکال لیا جائے اور یا پھر ان کا بہت سطحی اور سادہ سے مفہوم اخذ کرنے پر اکتفاء کر لیا جائے۔ یہ سب کچھ شخصیت کی تحریف کے دائرے میں آتا ہے۔ جو شخصیت نمونہ عمل ہے، امام اور پیشوا ہے، اس کی رفتار و گرفتار اور اس کا کردار آئندہ نسلوں کے لئے رہنما اور قابل تقلید نمونہ ہوتا ہے۔ اگر اس کے بارے میں تحریف ہو جائے تو بہت بڑا نقصان ہوگا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو صرف ایک محترم تاریخی شخصیت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ البتہ کچھ لوگوں کی یہی خواہش ہے۔ ان کے مطابق امام خمینی اس ملک کی تاریخ کی ایک محترم شخصیت ہیں جو کسی زمانے میں تھے، بہت فعال تھے، بہت فائدہ پہنچایا، پھر لوگوں کے درمیان سے رخصت ہو گئے اور ان کا زمانہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ ہم ان کا احترام کرتے ہیں، بڑے احترام سے ان کا نام لیتے ہیں، بس قصہ ختم۔ کچھ لوگ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو اس طرح متعارف کرانا چاہتے ہیں اور اس طرح کا تاثر رکھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔
امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اس تحریک کا مظہر ہیں جس کا آغاز ملت ایران نے کیا اور اپنی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) ایک علمی، سیاسی اور سماجی مکتب فکر کے معمار ہیں۔ ملت ایران نے اس مکتب فکر کو، اس راستے کو اور اس روڈ میپ کو سینے سے لگایا اور بدستور اس پر عمل پیرا ہے۔ اس سفر کے تسلسل کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس روڈ میپ کو صحیح طور پر سمجھا جائے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کو بخوبی پہچانے بغیر اور آپ کے اصولوں کی صحیح شناخت حاصل کئے بغیر اس روڈ میپ کو نہیں پہچانا جا سکتا۔ ظاہر ہے ہم اس وقت امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے فکری اصولوں کی بات کر رہے ہیں، کسی خاص وقت اور مقام کے لئے کئے گئے وقتی فیصلوں سے بحث نہیں ہے۔ ہماری بحث اپنے عظیم قائد کے بنیادی فکری خاکے سے ہے۔ ہم اسے پوری درستگی کے ساتھ سمجھنا چاہتے ہیں۔
بیشک امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) ایک عظیم اور نمایاں فقیہ بھی تھے، ایک فلسفی بھی تھے، عرفان نظری کے میدان میں صاحب نظر شخصیت تھے، ان امور میں اور علمی میدانوں میں بڑی نمایاں ہستی تھے لیکن آپ کی شحصیت ان میں سے کسی ایک میدان سے مختص نہیں تھی بلکہ آپ کی اصلی شخصیت اس آیہ کریمہ «وَ جهِدوا فِی اللهِ حَقَّ جِهادِه» (۴) کی عینی مصداق تھی۔ ان تمام علمی میدانوں میں اپنی نمایاں حیثیت کے ساتھ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) جہاد فی سبیل اللہ کے میدان میں وارد ہوئے اور آخری سانس تک اس جہاد کو جاری رکھا۔ اس طرح آپ ایک عظیم تحریک برپا کرنے میں کامیاب ہوئے، صرف ملک کے اندر نہیں بلکہ پورے علاقے کی سطح پر، عالم اسلام کی سطح پر اور ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو عالمی سطح پر۔ اس تحریک کا ثمرہ بے مثال تھا۔
امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے ہاتھوں ملک کی تاریخ میں دو بہت عظیم اور عدیم المثال کارنامے سرانجام پائے۔ ایک تو کئی ہزار سال سے ہمارے ملک میں چلے آ رہے ظالمانہ اور نامعقول موروثی سلطنتی نظام کی سرنگونی تھی۔ یہ بوسیدہ، پرانا اور غلط نظام کہ جس کے تحت اقتدار کچھ افراد کے ہاتھ میں رہے اور موروثی طور پر ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل ہو، یا شمشیر اور فوجی طاقت کے ذریعے حکومت حاصل کی جائے اور پھر ایک نسل سے دوسری نسل کو وراثت میں ملے، ہزاروں سال سے ہمارے ملک میں غیر عاقلانہ طور پر جاری تھا۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے پہلا کام یہ کیا کہ اس غلط نظام کی بساط لپیٹی اور ملک کے امور عوام کے ہاتھوں میں دے دئے۔
امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے دوسرا عظیم کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ اسلام کی بنیاد پر نئے نظام اور حکومت کی تشکیل کی۔ یہ ہمارے ملک کی تاریخ میں بھی اور صدر اسلام کے علاوہ پوری تاریخ اسلام میں بھی بے نظیر کارنامہ تھا۔ ہمارے عظیم قائد کے جہاد کا یہ بیش بہا ثمرہ تھا۔ لہذا بجا طور پر یہ کہنا چاہئے کہ «جاهَدَ فِی اللهِ حَقَّ جِهادِه» (۵) جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے؛ وَ جهِدوا فِی اللهِ حَقَّ جِهادِه (۶) یہ بات اولیائے دین کے بارے میں کہی جاتی ہے۔ یہ عظیم انسان بھی «جاهَدَ فِی اللهِ حَقَّ جِهادِه» کا مصداق ہے۔
البتہ اپنی اس گفتکو کے ضمن میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اس عظیم انسان کا جہاد صرف سیاسی، سماجی یا فکری جہاد نہیں تھا بلکہ جہاد کی ان تمام اقسام کے ساتھ ہی باطنی جہاد اور جہاد بالنفس بھی تھا، اللہ تعالی سے دائمی رابطہ بھی تھا۔ یہ بھی ایک سبق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم فکری جہاد، علمی جہاد، سیاسی جہاد یا عسکری جہاد میں مصروف ہیں تو ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ جہاد کے ان دیگر پہلوؤں سے خود کو بے نیاز سمجھیں۔ ہمارے عظیم قائد بارگاہ خداوند میں خضوع و خشوع رکھنے والے انسان تھے، گریہ کرتے تھے، دعا میں مصروف رہتے تھے، توسل کرتے تھے۔ ماہ مبارک شعبان میں مناجات شعبانیہ کے جملے آپ کی تقریروں میں بار بار سننے کو ملتے تھے؛ اِلهی هَب لی کَمالَ الِانقِطاعِ اِلیکَ وَ اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضِیاءِ نَظَرِها اِلَیکَ حَتَّی تَخرِقَ اَبصارُ القُلوبِ حُجُبَ النّورِ فَتَصِلَ اِلی‌ مَعدِنِ العَظَمَة (۷) یہ تھا ان کا کردار۔ صبح صادق کے وقت کا گریہ، ان کی مناجاتیں، دعائیں، اللہ تعالی سے دائمی رابطہ یہ اس عظیم انسان کے جہاد کے تسلسل کا معنوی سرمایہ تھا۔ جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ ہی ہمیں یہ سبق بھی ہمارے عظیم الشان قائد سے ملتا ہے۔
امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا فکری نظام ایک مکمل فکری، سیاسی و سماجی مکتب کا آئینہ ہے۔ اس کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ فکری نظام ایک نظریہ کائنات پر استوار ہے اور یہ نظریہ کائنات یکتا پرستی سے عبارت ہے۔ آپ کے تمام اقدامات اور آپ کی روش کی بنیاد توحید پر تھی جو در حقیقت اسلامی افکار کی بنیاد ہے۔
اس فکری نظام کی دیگر خصوصیات میں جنھوں نے اسے مکمل مکتب فکر میں تبدیل کر دیا، ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا فکری نظام عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تھا۔ وہ انسانی معاشروں کو در پیش مسائل اور ایرانی معاشرے کی مشکلات کو زیر بحث لاتے تھے اور لوگ ان مسائل کا بخوبی احساس و ادراک کر لیتے تھے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے مکتب فکر میں استبداد اور استعمار کی مخالفت بالکل نمایاں تھی۔ اسے ملت ایران بھی بخوبی محسوس کرتی تھی اور مسلم اقوام بلکہ غیر مسلم اقوام کو بھی اس کا مکمل ادراک تھا۔ اسی لئے یہ پیغام بہت تیزی سے پھیلا۔
اس مکتب فکر کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ زندہ، ترقی پذیر، متحرک اور قابل عمل مکتب فکر تھا۔ یہ ایسی روشن فکرانہ نظریہ پردازی اور تھیوری نہیں تھی جو بحث کی نشست میں تو بڑی خوبصورت اور پرکشش معلوم ہوتی ہے مگر میدان عمل میں آنے کے بعد بے اثر ہو جاتی ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا طرز فکر، آپ کا نظریہ، آپ کا راستہ سب عملی میدان کی چیزیں تھیں۔ اسی لئے آپ کو کامیابی ملی اور پیشرفت حاصل ہوئی۔ اس تحریک نے ہمارے ملک کی تاریخ ہی بدل کر رکھ دی۔
ایرانی قوم دوسروں کے تسلط میں رہنے کی عادی اور ہدف و امید سے خالی قوم تھی۔ ہمیں عمدا پسماندگی میں مبتلا کر دیا گيا تھا۔ ہمارے اوپر دوسروں کی سوچ بھی مسلط کر دی گئی تھی، اغیار کی ثقافت بھی مسلط کر دی گئی تھی۔ ہمارے اقتصادی وسائل کو اغیار لوٹ رہے تھے اور ہمارے ملک کو اپنے کریہ و مذموم عادات و اطوار کی آماجگاہ بنائے ہوئے تھے۔ یہ تھی ہماری قوم کی حالت۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے اسے جوش و جذبے سے بھری ہوئی قوم، امید و نشاط سے معمور قوم، عمل و اقدام کی جرئت رکھنے والی قوم اور اعلی اہداف کی مالک قوم میں تبدیل کر دیا۔ البتہ ابھی ان اعلی اہداف سے ہمارا فاصلہ کافی زیادہ ہے لیکن یہی کیا کم ہے کہ ہم گامزن ہیں، یہ کیا کم ہے کہ ہماری قوم کے اندر ترقی کی منزلیں طے کرنے کا جذبہ متحرک ہے، یہ بہت بڑی بات ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو اعتماد ہے کہ وہ ان اہداف کو حاصل کر لیں گے، سماجی انصاف کو مکمل طور پر رائج کرنے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ ملک میں ثروت و پیشرفت لائیں گے۔ وطن عزیز کو پیشرفتہ اور اپنی تاریخی شناخت کے شایان شان قدرت و توانائی سے بہرہ مند ملک بنا دیں گے۔ آج ہمارے ملک میں یہ امید موجیں مار رہی ہے اور ہمارے نوجوان اس سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم عفلت و بے ہوشی کی حالت سے باہر نکل آئے ہیں، نیند سے جاگ چکے ہیں۔ یہ کارنامہ ہمارے عظیم قائد اور آپ کی تحریک نے سرانجام دیا ہے۔
اگر ملت ایران اعلی اہداف تک پہنچنا چاہتی ہے اور اس راستے پر اپنا سفر جاری رکھنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ امام خمینی کے راستے کو بخوبی پہچانے، آپ کے اصولوں سے صحیح طور پر آشنا ہو اور امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی شخصیت کے بارے میں کوئی تحریف نہ ہونے دے۔ کیونکہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف در حقیقت راہ امام خمینی کے بارے میں تحریف اور ملت ایران کو صراط مستقیم سے منحرف کر دینے کے مترادف ہے۔ اگر ہم نے امام خمینی کے راستے کو فرموش کر دیا، اگر ہم اس راستے سے بھٹک گئے یا خدانخواستہ دانستہ طور پر اسے نظر انداز کر دیا تو ملت ایران چوٹ کھا جائے گی۔ یہ بات سب ذہن نشین رکھیں کہ عالمی استکبار کی کبھی نہ سیر ہونے والی نگاہیں ہمارے ملک پر لگی ہوئی ہیں۔ ایران جیسا بڑا ملک، دولتمند ملک، دنیا کے حساس چوراہے پر واقع ملک، دنیا کی عیار طاقتوں کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ان کی حریصانہ نگاہیں ہٹی نہیں ہیں، طمع ختم نہیں ہوئی ہے۔ یہ تبھی پسپا ہوں گی جب آپ ایرانی عوام کے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جائے، آپ اتنی ترقی کر لے جائیں کہ ان پر مایوسی طاری ہو جائے۔ اسی لئے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اگر امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں تحریف کی گئی یا اس کا صحیح تعارف نہ کرایا گيا، یا اسے غلط طریقے سے پیش کیا گيا تو یہ سارے بڑے خطرات ملت ایران کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اسی لئے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی شخصیت کے بارے میں تحریف کے خطرے کو ملک کے حکام، انقلاب سے متعلق مفکرین، امام خمینی کے پرانے شاگرد، امام خمینی کے راستے سے لگاؤ رکھنے والے افراد، تمام نوجوان، علمی شخصیات، یونیورسٹیوں اور دینی درسگاہوں سے وابستہ افراد ایک سنجیدہ انتباہ کے طور پر لیں۔ یہ میری تمہیدی گفتگو تھی۔
امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی زندگی میں بھی آپ کی شخصیت کے بارے میں تحریف کی کوششیں ہوئیں۔ ایک طرف دشمن تھے جو انقلاب کے ابتدائی ایام سے ہی اپنے عالمی پروپیگنڈے میں امام خمینی کی شخصیت کو دنیا کے معروف تاریخی انقلابوں جیسے انقلاب فرانس، سوویت یونین کے اشتراکی انقلاب اور بعض دیگر انقلابات (کے رہنماؤں) کے بارے میں ہم سنتے ہیں، ایک خشک اور سخت گیر انقلابی شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایسے انسان کے طور پر جو بالکل خشک مزاج، انتہائی تند خو، ہمیشہ چیں بجبیں رہنے والا، ہمیشہ دشمن سے لڑنے کے بارے میں سوچنے والا انسان ہے جس کے اندر کسی طرح کی لطافت و نرمی نہیں ہے۔ امام خمینی کآ اس طرح تعارف کراتے تھے جو کہ غلط تھا۔ بیشک امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے اندر قطعیت تھی، تزلزل نہیں پایا جاتا تھا، اپنے فیصلے میں جس کے بارے میں ابھی میں عرض کروں گا، پختہ ارادہ رکھتے تھے، لیکن اس کے ساتھ ہی جذبات و احساسات کا مرقع بھی تھے۔ لطیف مزاج رکھتے تھے، محبتی انسان تھے، اللہ تعالی کی بارگاہ میں اور خلق خدا خاص طور پر معاشرے کے مظلوم اور مستضعف طبقات کے تعلق سے محبت و الفت سے سرشار انسان تھے۔ دشمن نے انقلاب کے بعد روز اول سے عالمی سطح پر یہ زہریلا پروپیگنڈہ کیا۔
ملک کے اندر بھی بعض لوگ نادانستہ طور پر اور بعض عمدا امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں تحریف کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اس وقت بھی جب آپ حیات تھے۔ کچھ لوگ ایسی ہر بات جو انھیں پسندیدہ معلوم ہوتی تھی، امام خمینی سے منسوب کر دیتے تھے، حالانکہ ان باتوں کا امام سے کوئی ربط نہیں ہوتا تھا۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رحلت کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ حد یہ ہو گئی کہ بعض باتیں اور اظہار خیال ایسے بھی سامنے آئے کہ ان میں جو تعارف امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا کرایا گيا اس کے مطابق وہ گویا کوئی لبرل انسان تھے اور سیاسی میدان میں اور اسی طرح فکری و ثقافتی میدان میں بھی کسی قید و شرط اور ضابطے کے قائل نہیں تھے۔ یہ بات بھی بالکل غلط اور خلاف حقیقت ہے۔ اگر ہم حقیقی معنی میں امام خمینی کی شخصیت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ موجود ہے۔ اگر ہم اس راستے پر چلے جو میں ابھی عرض کروں گا، تو مسئلہ حل ہو جائے گا، ورنہ دوسری صورت میں کچھ لوگ آئیں گے اور اپنی پسند اور مرضی کے مطابق امام خمینی کا تعارف کرائیں گے، کل کو کچھ اور لوگ آئيں گے تو وہ اپنے مزاج کے مطابق اور دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کے پیش نظر اور اس وقت کی مصلحتوں کے مد نظر امام خمینی کو کسی اور انداز میں متعارف کرائیں گے۔ یہ تو درست نہیں ہے۔ عوام الناس کے درمیان امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی مقبولیت دائمی ہے۔ دشمن اسے ختم نہیں کر سکتا۔ اسی لئے ملک کے اندر اور باہر کثیر تعداد میں لوگوں کے دلوں میں بسنے والی امام خمینی کی شخصیت کے بارے میں تحریف کا خطرہ زیادہ سنگین ہے۔
اس تحریف کا راستہ روکنے کا طریقہ امام خمینی کے اصولوں کا بار بار مطالعہ ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے کچھ فکری اصول اور بنیادیں ہیں۔ یہ اصول اور یہ بنیادیں اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد کے دس سال میں اور اس سے قبل پندرہ سال کی تحریک کے دوران امام خمینی کے بیانوں اور تقاریر میں مذکور ہیں۔ ان تقاریر و خطبات سے ان اصولوں کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ان اصولوں اور ان خطوط کو اگر ایک ساتھ جمع کر دیا جائے تو امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی شخصیت کا ایک خاکہ سامنے آ جائے گا۔ یہی امام خمینی کی شخصیت ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام فروعات کا مطالعہ کیا جائے۔ دیگر انسانوں کی طرح امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی زندگی میں بھی نشیب و فراز ہیں۔ بہت سے واقعات رونما ہوئے اور ہر واقعے کا کچھ تقاضا بھی رہا۔ میں اصولوں کی بات کر رہا ہوں۔ ان چیزوں کی بات کر رہا ہوں کہ جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جو امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی مسلمہ باتیں ہیں۔ اسلامی حکومت کی تشکیل سے قبل کا دور ہو یا اسلامی حکومت کی تشکیل کا زمانہ ہو، یا مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کا دور ہو، یا اس کے بعد یا پہلے کے ادوار ہوں اس پوری مدت میں امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان مسلمہ اصولوں کو بار بار بیان کیا ہے۔ ان اصولوں میں بعض کو چن لینا اور دیگر کو ترک کر دینا بھی درست نہیں ہے۔ میں آج ان میں سے پانچ چھے اصول بیان کروں گا۔ تاہم یہیں یہ بھی کہتا چلوں کہ امام خمینی کے بنیادی اصول ممکن ہے کہ صرف یہی اتنے نہ ہوں۔ جو اہل نظر ہیں اور جو فکری توانائی کے حامل ہیں وہ جائیں مطالعہ کریں، تلاش کریں، امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے خطبات کا تجزیہ کریں، بحمد اللہ ان کی تدوین ہو چکی ہے اور یہ خطبات موجود ہیں اور سب کی دسترس میں بھی ہیں، ان کے اندر سے اصولوں کو اخذ کریں۔ میں امام خمینی کے خطبات سے حاصل ہونے والے تمام اصولوں کو بیان نہیں کر پاؤں گا۔ صرف پانچ چھے اصول بیان کروں گا۔ ان اصولوں میں سے صرف چند کو اپنا لینا درست نہیں ہے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ لوگ خود آگے بڑھیں اور مزید کچھ اصول تلاش کریں، تاہم آج میں جو اصول بیان کر رہا ہوں وہ امام خمینی کے مکتب فکر کے مسلمہ حقائق ہیں، امام خمینی کے راستے کے بدیہی اصول ہیں۔
امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے مکتب فکر میں سب سے پہلی چیز جو موجود نظر آتی ہے وہ خالص اسلام محمدی کا اثبات اور امریکی اسلام کی نفی ہے۔ امام خمینی نے خالص اسلام کو امریکی اسلام کی ضد قرار دیا ہے۔ امریکی اسلام کیا ہے؟ ہمارے زمانے میں، امام خمینی کے زمانے میں اور تمام ادوار میں جہاں تک ہماری معلومات ہے، ممکن ہے آئندہ بھی یہی رہے کہ امریکی اسلام کی دو شاخیں ہیں۔ ایک ہے ملحدانہ اسلام اور دوسرے رجعت پسندانہ اسلام۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے ان لوگوں کو جو الحادی فکر رکھتے تھے یعنی دین کو، سماج کو، انسانوں کے سماجی روابط کو اسلام سے الگ رکھنے کے قائل تھے، ہمیشہ ان لوگوں کے زمرے میں رکھا جو دین کے سلسلے میں رجعت پسندانہ نظریہ رکھتے تھے۔ یعنی دین کے بارے میں ایسا قدامت پسندانہ نظریہ جو نئی فکر کے انسانوں کے لئے ناقابل فہم ہو، جو متعصبانہ طور پر غلط بنیادوں پر اور بنیاد پرستی پر زور دیتا ہو۔ امام خمینی ان دونوں نظریات کے حامل لوگوں کا ہمیشہ ایک ساتھ ذکر کرتے تھے۔ آج اگر آپ غور کیجئے تو دیکھیں گے کہ دنیائے اسلام میں ان دونوں شاخوں کے نمونے موجود ہیں اور دونوں کو دنیا کی توسیع پسند طاقتوں اور امریکا کی حمایت و پشت پناہی حاصل ہے۔ آج منحرف گروہوں جیسے داعش اور القاعدہ وغیرہ کو بھی امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے، اور اسی طرح ایسے حلقوں کو بھی امریکا کی سرپرستی حاصل ہے جن کا نام تو اسلامی ہے لیکن اسلامی عمل اور اسلامی فقہ و شریعت سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے عظیم قائد کی نگاہ میں خالص اسلام وہ ہے جو کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر استوار ہو۔ جو روشن فکر کے ساتھ، زمان و مکان کے تقاضوں سے واقفیت کے ساتھ، مسلمہ علمی طریقوں اور روشوں سے اور دینی درسگاہوں میں تکمیل کے مراحل طے پانے والے عمل کے ذریعے اخذ کیا جاتا ہے اور حاصل ہوتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ استنباط کی خاص روش کو نظر انداز کر دیا جائے اور جو بھی چاہے قرآن کھولے اور اس روش کا استنباط کر لے جس کے ذریعے سماج کو چلانا ہے۔ نہیں، اس کا اپنا خاص طریقہ ہے۔ استنباط کی ایک روش ہے۔ یہ علمی روش ہے۔ اس پر بڑا کام ہوا ہے۔ کچھ ہی لوگ ہیں جن میں یہ قابلیت ہوتی ہے کہ اس روش کے مطابق آگے بڑھیں۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی نظر میں خالص اسلام اسی کو کہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ جسے بھی وہ روش اور طریقہ پتہ ہے وہ اس استنباط پر قادر ہو جائے گا۔ اس کے اندر روشن فکری بھی ہونی چاہئے۔ حالات اور زمان و مکان سے پوری آگاہی رکھنا ضروری ہے۔ اس کے بعد خالص اسلام کا تعین کر پانا، اسے پہچاننا اور پہچنوانا ممکن ہوگا۔ درباری ملاؤں کا اسلام، امام خمینی ان علماء کے لئے ہمیشہ یہی اصطلاح استعمال کرتے تھے، داعشی اسلام ہے۔ دوسری جانب صیہونی جرائم پر خاموش رہنے والا، امریکی جرائم پر مہر بلب رہنے والا، امریکا اور بڑی طاقتوں کے آسرے پر اور ان کے اشارے کا منتظر رہنے والا اسلام ہے۔ یہ سب ایک ہی زمرے میں آتے ہیں۔ ایک منزل وہ آتی ہے جہاں یہ سب پہنچ کر ایک ساتھ جمع ہو جاتے ہیں۔ امام خمینی کی نگاہ میں یہ سب مسترد کر دئے جانے کے قابل ہیں۔ جس اسلام پر امام خمینی تاکید کرتے ہیں وہ ان سب کے مد مقابل نظر آتا ہے۔ جو شخص امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے نقش قدم پر چلنے والا ہے اسے چاہئے کہ حد بندی کرے۔ رجعت پسند اسلام کے سامنے بھی اور ملحدانہ اسلام کے سامنے بھی اپنی حد بندی کرے اور حقیقی اسلام کو پہچانے اور اس پر عمل کرے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا ایک اصول یہ ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے امام خمینی نے بس ایک آدھ بار بیان کر دیا ہو، امام خمینی کے خطبات میں یہ چیز ہر جگہ نظر آئے گی۔
دوم؛ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے اصولوں میں سے ایک ہے نصرت خداوندی پر اعتماد۔ اللہ کے وعدوں کی صداقت پر اعتماد، دوسری جانب دنیا کی مستکبر اور استبدادی طاقتوں کی طرف سے بے اعتمادی۔ یہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے مکتب فکر کا جز ہے۔ قدرت خداوندی پر توکل۔ اللہ تعالی نے مومنین سے وعدہ کیا ہے اور جو لوگ اس وعدے پر یقین نہیں رکھتے کلام خداوند میں ان پر لعنت بھی کی گئی ہے؛۔ وَ لَعنَهُمُ الله (۸) وَ غَضِبَ اللهُ عَلَیهِم (۹) جو لوگ «اَلظّآنّینَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوءِ عَلَیهِم دائِرَةُ السَّوءِ وَ غَضِبَ اللهُ عَلَیهِم وَ لَعَنَهُم وَ اَعَدَّ لَهُم جَهَنَّمَ وَ سآءَت مَصیرًا» (۱۰) اللہ کے وعدے پر یقین، اللہ کے وعدے کی صداقت پر ایقان جس نے فرمایا ہے؛ «اِن تَنصُرُاللهَ یَنصُرکُم» (۱۱) امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک ستون یہ ہے کہ اللہ کے وعدوں پر یقین و توکل کیا جائے۔ اس کے برعکس دشمنوں، مستکبرین اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے خوش کن وعدوں پر قطعی اعتماد نہ کیا جائے۔ یہ چیز امام خمینی کے عمل میں، کردار میں اور تقاریر میں بالکل واضح دکھائی دیتی ہے۔ قدرت پروردگار پر تکیہ اور اس پر اعتماد کی وجہ سے امام خمینی اپنا انقلابی موقف بالکل صریحی طور پر بیان کر دیا کرتے تھے۔ امام خمینی واضح اور صریحی انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ جو نظریہ ہوتا تھا اسے کھلے الفاظ میں بیان کر دیتے تھے۔ کیونکہ اللہ پر توکل تھا۔ ایسا نہیں ہے ک انھیں اس کا اندازہ نہ رہا ہو کہ بڑی طاقتوں کو یہ بات بری لگے گی اور چراغ پا ہو جائیں گی۔ وہ جانتے تھے۔ لیکن انھیں اللہ کی قوت پر، نصرت خداوندی پر اور کمک الہیہ پر ایقان و اطمینان تھا۔ گوناگوں حوادث ہوئے لیکن کبھی امام خمینی اس مسئلے میں کسی تکلف میں نہیں پڑے۔ دنیا کی سامراجی حکومتوں یا ان کی آلہ کار ریاستوں کے سربراہوں نے جو خطوط امام خمینی کو لکھے ان میں سے غالبا دو کا جواب آپ نے دیا۔ امام خمینی نے جوابی خط واشگاف الفاظ میں تحریر فرمایا جو اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے نشریاتی ادارے سے نشر بھی ہوا۔ امام خمینی ہمیشہ ادب و اخلاق کے ساتھ بات کرتے تھے لیکن انھوں ان خطوط میں اپنا موقف بالکل صاف طور پر اور دو ٹوک انداز میں بیان کر دیا۔ امام خمینی نے اپنا یہ جذبہ توکل خون کی مانند ملت کی رگوں میں بھی جاری کر دیا۔ عوام الناس کے اندر بھی توکل علی اللہ کا جذبہ موجزن ہو گیا۔ سب کو نصرت خداوندی پر یقین ہو گیا۔ پورا ملک اس راستے پر چل پڑا۔ چونکہ امام خمینی کو مستکبرین پر کوئی اعتماد اور یقین نہیں تھا اس لئے وہ ان کے وعدوں پر کبھی توجہ نہیں دیتے تھے۔ امریکی صدر ریگن نے جو بہت طاقتور صدر تھے، امام خمینی کو خط لکھا، پیغام بھیجا، ایلچی بھیجا، مگر امام خمینی نے کوئی اعتنا نہ کی۔ ریگن کا کوئی جواب ہی نہیں دیا، کوئی توجہ ہی نہیں کی۔ جو وعدہ ریگن نے کیا تھا امام خمینی نے رتی بھر پر اسے در خور اعتنا نہیں سمجھا۔
ایک اور موقع پر مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کے سلسلے میں امریکا کی اتحادی ایک حکومت نے وعدہ کیا تھا۔ سیکڑوں ارب یا ایک ہزار ارب ڈالر کا معاملہ تھا، مگر امام خمینی نے اس پر بھی کوئی توجہ نہیں دی، بالکل اعتماد نہیں کیا۔ آج ہم در پیش معاملات میں خود بھی اس چیز کو محسوس کر رہے ہیں۔ ہماری سمجھ میں آ رہا ہے کہ کیوں مستکبرین پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ وہ نجی ملاقاتوں میں جو کچھ کہتے ہیں اس پر ہرگز بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، یہ چیز ہم باقاعدہ محسوس کر رہے ہیں۔ امام خمینی نے اسے اپنے مکتب فکر کے بنیادی اصولوں میں قرار دیا؛ اللہ پر توکل مستکبرین کے سلسلے میں عدم اعتماد۔ البتہ یہ دنیا سے قطع تعلق کر لینے کے معنی میں بھی نہیں تھا۔ کیونکہ دنیا کے حکام مختلف مناسبتوں پر امام خمینی کو تہنیتی پیغام بھیجتے تھے اور آپ ان پیغامات کا جواب بھی دیتے تھے۔ اس طرح کا معمول کی حد کا محترمانہ اور مودبانہ رابطہ بھی تھا مگر استکباری طاقتوں اور ان کے اتحادیوں پر کوئی اعتماد نہیں کرتے تھے۔
سوم؛ عوام کی قوت ارادی اور عوامی توانائی پر تکیہ کرنا اور حکومتوں سے آس لگانے کی مخالفت۔ یہ امام خمینی کی تحریک کا اہم اصول ہے۔ ان دنوں ایک غلط نظرئے کی بنیاد پر یہ کوشش ہو رہی تھی کہ ملک کے تمام اقتصادی امور حکومت کے سپرد کر دئے جائیں، لیکن امام خمینی بار بار انتباہ دے رہے تھے۔ یہ انتباہ آپ کی تقاریر اور بیانوں میں واضح طور پر موجود ہے؛ ان امور کو عوام کے سپرد کر دیجئے۔ انھیں عوام پر بڑا اعتماد تھا۔ اقتصادی مسائل میں بھی عوام پر بہت بھروسہ تھا اور دفاعی میدان میں بھی عوام پر انھیں بہت اعتماد تھا۔ اس پر سب توجہ دیں؛ امام خمینی روز اول سے فوج کے پشت پناہ رہے، فوج کو منحل ہونے سے جس نے بچایا وہ امام خمینی کی ذات تھی۔ مگر اس کے باوجود آپ نے پاسداران انقلاب فورس کی تشکیل انجام دی، رضاکار فورس تشکیل دی۔ دفاعی شعبے کو عوامی شعبہ بنا دیا۔ اقتصادی مسائل میں عوام پر تکیہ، دفاعی شعبے میں عوام پر اعتماد، تعمیراتی شعبے میں عوام پر بھروسہ جس کے تحت تعمیراتی جہاد شروع کیا گيا، تشہیراتی شعبے میں عوام پر بھروسہ اور سب سے بڑھ کر ملک میں انتخابات کا مسئلہ اور ملک اور سیاسی نظام کو چلانے میں عوام کی رائے اور ووٹوں پر اعتماد۔ ہمارے عظیم قائد کی حاکمیت کا زمانہ دس سال کا ہے، دس سال کی اس مدت میں سے آٹھ سال تک جنگ رہی۔ شہروں پر بمباری ہو رہی تھی، تمام محاذوں پر جنگ جاری تھی۔ مگر اس دوران ملک میں تقریبا دس انتخابات ہوئے۔ کوئي بھی الیکشن اپنی معینہ تاریخ سے ایک دن بھی تاخیر سے نہیں ہوا۔ تمام مراحل میں، ہر طرح کے حالات میں امام خمینی کی یہ تاکید رہی کہ انتخابات معینہ وقت پر ہوں۔ بعض ملکوں میں یہ دستور ہے کہ ایمرجنسی کا اعلان کر دیتے ہیں۔ امام خمینی نے ایک دن کے لئے بھی ہنگامی حالات کا اعلان نہیں کیا۔ انتخابات کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ الیکشن کے دن سب سے پہلا ووٹ امام خمینی کا پڑتا تھا۔ عوام پر انھیں بڑا یقین تھا اور حقیقی معنی میں عوام کی رائے کا عوام کے ووٹوں کا اور عوام کے فیصلے کا دل سے احترام کرتے تھے۔ اگر عوام نے کسی مسئلے میں کسی کو منتخب کر لیا اور وہ بعض پہلوؤں سے امام خمینی کو پسند نہیں ہے تب بھی امام خمینی عوام کے ووٹوں کا احترام کئے جانے کے قائل تھے۔ عوام کا احترام کرتے تھے۔ ووٹوں کا ان کی نظر میں بہت اعتبار تھا۔ یہ بھی امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک اصول ہے۔ امام خمینی نے اس معاملے میں اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ عوام کو ملک کے حکام کا مالک قرار دیا۔ امام خمینی نے بارہا فرمایا کہ عوام ہمارے مالک ہیں۔ کچھ مقامات پر خود کو عوام کا خدمت گزار قرار دیا۔ کہتے تھے؛ اگر مجھے قوم کا خادم کہا جائے تو یہ رہبر و قائد کہنے سے زیادہ بہتر ہے۔ یہ بہت بڑی چیز ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام خمینی کی نگاہ میں عوام، عوامی افکار، عوامی ووٹوں اور عوامی شراکت کا کتنا بلند مقام تھا۔ قوم نے بھی بہت مناسب رد عمل پیش کیا۔ میدان میں حاضر رہی۔ امام خمینی کی انگلی کا اشارہ ہوتے ہی عوام دل و جان سے میدان عمل میں اتر آئے۔ یہ جوابی برتاؤ تھا۔ امام خمینی کو عوام پر اعتماد تھا اور عوام کو امام خمینی پر بھروسہ تھا۔ امام خمینی عوام کو چاہتے تھے اور عوام امام خمینی کے شیدائی تھے۔ یہ باہمی رابطہ ایک فطری امر ہے۔
چوتھا اصول ملک کے داخلی مسائل سے متعلق ہے۔ امام خمینی محروم و مستضعف طبقات کی حمایت پر بہت زیادہ تاکید کرتے تھے۔ اقتصادی عدم مساوات کے شدید مخالف تھے۔ اشرافیہ کلچر کو ترش روئی سے مسترد کر دیتے تھے۔ امام خمینی حقیقی معنی میں سماجی انصاف کے طرفدار تھے۔ مستضعف طبقات کی حمایت شاید امام خمینی کی تقاریر اور بیانوں میں بہت زیادہ استعمال ہونے والے فقروں میں سے ایک ہے۔ یہ امام خمینی کا روشن راستہ ہے۔ یہ امام خمینی کا مسلمہ اصول ہے۔ غربت کو جڑ سے ختم کر دینے کے لئے سب کو محنت کرنی چاہئے۔ سب یہ کوشش کریں کہ محروم طبقات محرومیت کی حالت سے باہر آ جائیں۔ جہاں تک ملک کی توانائی اجازت دیتی ہے محروم طبقات کی مدد کی جائے۔ دوسری جانب امام خمینی ملکی حکام کو پر تعیش زندگی کی بابت انتباہ دیتے رہتے تھے۔ یہ نکتہ قرآن میں بھی آیا ہے؛ وَ سَکَنتُم فی مسکِنِ الَّذینَ ظَلَموا (۱۲) سب کو قصر نشینی کی عادت سے خبردار کرتے رہتے تھے۔ بار بار تاکید فرماتے تھے کہ کمزور طبقات کی وفاداری پر بھروسہ کیجئے۔ یہ بات امام خمینی بار بار کہتے تھے کہ یہ بوریا نشین، فقرا اور محروم طبقات ہی ہیں جو اپنی محرومیتوں کے باوجود میدان عمل کو رونق بخشتے ہیں۔ وہ شکوہ بھی نہیں کرتے۔ پرخطر میدانوں میں بھی اتر جاتے ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو زیادہ وسائل سے بہرہ مند ہیں۔ مختلف حالات میں اگر مشکلات پیش آ جائیں تو وہ زیادہ ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ متوسط طبقات اور غریب طبقات کی وفاداری امام خمینی کی نظر میں مسلمہ حقیقت تھی اور اس پر آپ بار بار تاکید بھی کرتے تھے۔ بیت المال کے صحیح استعمال پر تاکید کرتے تھے۔ اسراف سے اجتناب پر بہت تاکید کرتے تھے۔ یہ بھی ایک بنیادی اصول ہے۔ سماجی انصاف کا مسئلہ، محروم طبقات کی حمایت، اشرافیہ کلچر سے گریز، شان و شوکت کی زندگی سے اجتناب اور اس ہدف کے لئے محنت (بھی امام خمینی کے مکتب فکر کا اہم اصول ہے)۔
پانچواں نکتہ خارجہ امور سے متعلق ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) آشکارا طور پر عالمی استکبار اور بین الاقوامی غنڈوں کے مخالف محاذ کا حصہ تھے اور اس سلسلے میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ دنیا کی استبدادی طاقتوں، مستکبرین اور بین الاقوامی غنڈوں کے مقابلے میں مظلومین کا ساتھ دیتے تھے، مظلومین کی حمایت میں کھڑے دکھائی دیتے تھے۔ اس موقف کو صریحی طور پر دو ٹوک انداز میں بیان بھی کرتے تھے اور اسے چھپانے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ دنیا کے مظلومین کی خلوص دل سے حمایت کرتے تھے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) مستکبرین سے کسی مفاہمت کے قائل نہیں تھے۔ امریکا کے لئے 'شیطان بزرگ' کی اصطلاح آپ کی ایک عجیب ایجاد تھی۔ شیطان بزرگ کی اصطلاح کا عملی اور فکری دائرہ بہت وسیع ہے۔ جب آپ کسی شخص یا سسٹم کو شیطان مان چکے ہیں تو پھر یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ اس کے ساتھ آپ کا برتاؤ کیسا ہونا چاہئے، اس کے تعلق سے آپ کے تاثرات اور خیالات کیسے ہوں۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) آخر تک امریکا کے بارے میں یہی رائے رکھتے تھے۔ 'شیطان بزرگ' کی اصطلاح بھی آپ استعمال کرتے رہے اور تہہ دل سے اس پر یقین بھی رکھتے تھے۔ اس کے برخلاف ابتدائے انقلاب سے ہی کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اس بات پر توجہ نہیں دیتے تھے کہ امریکا طاغوتی (شاہی) حکومت کی پشتپناہ اور سرپرست ہے جسے ملت ایران نے سرنگوں کر دیا تھا۔ ملت ایران نے طاغوتی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا لیکن اس کے بعد بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو ملک کے اندر امریکیوں کی موجودگی، امریکیوں کی سرگرمیوں یہاں تک کہ بعض امریکی اداروں کی سرگرمیوں کے جاری رہنے کے حق میں تھے! عبوری حکومت اور امام خمینی کے درمیان بنیادی اختلاف ہی اسی بات پر تھا۔ ہم قریب سے اس کا مشاہدہ کرتے تھے۔ وہ لوگ اس بات پر توجہ نہیں دے رہے تھے کہ امریکا طاغوتی حکومت کا پشت پناہ ہے۔ جو اس وقت تو سرنگوں ہو چکی ہے لیکن اسے تقویت اور غذا پہنچانے والا نظام ابھی باقی ہے اور سرگرمیاں انجام دے رہا ہے۔ اگر اسے موقع ملا اور اگر ایک بار پھر میدان اس کے ہاتھ میں آ گیا تو دوبارہ اپنا کام شروع کر دے گا اور وار کرے گا۔ کمزوریوں کو تلاش کرے گا اور پھر انھیں کمزوریوں سے فائدہ اٹھائے گا۔ اس پر ان کی توجہ نہیں تھی۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اس حقیقت کو واضح طور پر دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ جاسوسی کے مرکز (تہران میں امریکی سفارت خانہ) پر طلبہ کا قبضہ ہو جانے کے مسئلے میں امام خمینی نے جو موقف اختیار کیا اس کی بنیاد آپ کی یہی فکر تھی۔ دنیا میں بعض لوگوں نے اس نکتے پر توجہ نہیں دی اور اس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑا۔ ہم اس وقت کسی کی ملامت اور سرزنش نہیں کرنا چاہتے، لیکن کچھ لوگوں کو یہ چوٹ کھانی پڑی۔ اس لئے کہ انھوں نے رجعت پسند اور سامراج نواز حکومت کو تو گرا دیا لیکن اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقت کو نظر انداز کر دیا۔ امام خمینی نے پشت پناہی کرنے والے سسٹم کو روز اول سے ہی مد نظر رکھا، اس کا مقابلہ کیا۔ اسی لئے آخر تک امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) امریکا اور اس ملک کے سیاسی و سیکورٹی اداروں کے خلاف اپنے موقف پر قائم رہے۔
دوسری جانب امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے اس پورے عرصے میں فلسطین کی حمایت جاری رکھی، فلسطین کا دفاع کیا۔ فلسطین کا بھی دفاع کیا اور افغانستان کا بھی دفاع کیا۔ جب سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو اس وقت ہم امریکا کی دشمنی کا شکار تھے لیکن پھر بھی ہمارے عظیم قائد نے ان حالات میں بھی سوویت یونین کے خلاف ٹھوس موقف اختیار کیا۔ ایسا دو ٹوک موقف تو بعض ایسی حکومتوں نے بھی نہیں اختیار کیا جو مغرب کی جانب جھکاؤ رکھتی تھیں۔ لیکن امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے کسی بھی تامل کے بغیر ملت افغانستان کی حمایت کی۔ لبنان کے عوام کی حمایت کی۔ فلسطینیوں کی پورے خلوص کے ساتھ حمایت کی۔ سامراج سے مقابلے کے سلسلے میں یہ امام خمینی کی حکمت عملی ہے۔ اسی فکر کی بنیاد پر دنیا کے مسائل کی ماہیت کا صحیح طور پر اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس کے بارے میں درست موقف کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ آج ہم عراق اور شام میں داعش تنظیم کے ظالمانہ اور وحشیانہ طرز عمل کی جس سختی کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں، امریکا کے اندر ایف بی آئی کے ظالمانہ روئے کے بھی ہم اتنے ہی مخالف ہیں۔ یہ دونوں ایک جیسے ہیں۔ ہم غزہ کے ظالمانہ محاصرے کے بھی اتنے ہی مخالف ہیں جتنے مخالف یمن کے مظلوم اور بے آسرا عوام پر ہونے والی بمباری کے ہیں۔ ہم بحرین میں عوام کے ساتھ کئے جانے والے سخت گیرانہ برتاؤ کے بھی اتنے ہی مخالف ہیں۔ ہم افغانستان اور پاکستان میں عوام پر امریکا کے بغیر پائلٹ کے طیاروں کے حملوں کے بھی خلاف ہیں۔ یہ منطق اور یہ طرز فکر امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کا ہے۔ جہاں بھی ظلم ہو رہا ہے وہاں دو فریق ہوں گے؛ ظالم اور مظلوم۔ ہم مظلوم کے طرفدار ہیں، ظالم کے مخالف ہیں۔ یہ ایک مستقل موقف ہے جسے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) صریحی طور پر بیان کرتے تھے۔ یہ ان کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسی وجہ سے آج بھی مسئلہ فلسطین ہمارے لئے بنیادی اور حیاتی مسئلہ ہے۔ یہ بات سب سن لیں! مسئلہ فلسطین اسلامی جمہوریہ ایران کے ایجنڈے سے کبھی خارج نہیں ہوگا۔ مسئلہ فلسطین اسلامی نقطہ نظر سے واجب و لازم جہاد کا میدان ہے۔ کوئی بھی واقعہ ہمیں مسئلہ فلسطین سے جدا نہیں کر سکتا۔ ممکن ہے کہ کچھ ایسے عناصر ہوں جو مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں اپنے فرائض پر عمل نہ کریں۔ ان کا معاملہ الگ ہے۔ لیکن فلسطین کے عوام، ملت فلسطین اور فلسطینی مجاہدین کو ہمیشہ ہماری حمایت حاصل رہے گی۔
امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک اور بنیادی اصول ملک کی خود مختاری پر تاکید اور بیرونی تسلط کی نفی ہے۔ یہ بھی بہت اہم باب ہے۔ میں نے گزشتہ سال اسی اجتماع میں سامعین کی خدمت میں عرض کیا تھا (13) کہ خود مختاری کا مطلب ہے ایک قوم اور ملت کی سطح کی آزادی۔ یہ ہے خود مختاری کا مفہوم۔ اب اگر کچھ لوگ زبان سے ذاتی اور شخصی آزادی کے خوب نعرے لگائیں لیکن ملکی خود مختاری کے خلاف بات کریں تو یہ کھلا ہوا تضاد ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ افراد کی شخصی آزادی تو محترم ہو لیکن مخالفین اور اغیار کی پابندیوں کے مد مقابل ایک قوم کی آزادی، ملکی سطح کی آزادی محترم نہ ہو! یہ بالکل قابل فہم نہیں ہے۔ یہ ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ افسوس کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو ملکی خود مختاری کی نفی کے لئے تھیوریاں پیش کرتے ہیں۔ خود مختاری کو کبھی تنہا ہو جانے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ کبھی اس نکتے پر قلم فرسائی کرتے ہیں کہ آج کی دنیا میں ملکوں کی خود مختاری کا شمار اقدار میں نہیں ہوتا۔ اس موضوع پر تقریریں کرتے ہیں۔ یہ باتیں معاشرے کے اندر پھیلتی ہیں۔ کچھ لوگ اس نہج پر کام کرتے ہیں۔ یہ بہت غلط بدعت ہے۔ یہ بہت بڑی اور خطرناک غلطی ہے۔ امام خمینی ملک کی خود مختاری کے قائل تھے۔ بیرونی تسلط کی نفی کرتے تھے۔ ان گزشتہ برسوں کے دوران ہمارے دشمنوں نے وطن عزیز کے خلاف اور ہماری قوم کے خلاف جو پے در پے اقدامات انجام دئے ان کا مقصد یہ تھا کہ اس خود مختاری کو متاثر کریں۔ خواہ پابندیوں کے ذریعے، یا دھمکیوں کے ذریعے انھوں نے ہماری خود مختاری کو ہی نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ سب کو چاہئے کہ ہوشیار رہیں اور دیکھیں کہ دشمن کے اہداف کیا ہیں۔ تو یہ بھی امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک اور اہم اصول ہے۔
امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک اور اہم اصول جو آخری بات کے طور پر میں آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں، قومی اتحاد کا مسئلہ ہے۔ تفرقہ اندازی کی سازشوں پر خواہ وہ تفرقہ مذہب و مسلک کے نام پر ہو، شیعہ سنی اختلاف کے نام پر یا قومیتوں کی بنیاد پر، فارس، عرب، ترک، کرد، لر اور بلوچ کے نام پر ہو، پوری توجہ رہنی چاہئے۔ تفرقہ انگیزی دشمن کی بہت اہم چال ہے اور امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے شروع ہی سے قومی اتحاد اور عوام الناس کی یکجہتی پر حد درجہ توجہ دی اور یہ آپ کے اہم اصولوں میں ہے۔ آج ہمیں بھی اس راستے پر چلنا چاہئے۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ عالم اسلام میں تفرقے کے بیج بونا عالمی استکبار کی بہت اہم اسٹریٹیجی ہے۔ امریکی اب اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ باقاعدہ شیعہ اور سنی کا نام لیتے ہیں۔ شیعہ اسلام اور سنی اسلام؛ پھر ان میں سے ایک کی حمایت کرتے ہیں اور دوسرے پر تنقید کرتے ہیں۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے روز اول سے مسلکی اختلاف کے سلسلے میں بالکل مساویانہ موقف اختیار کیا۔ ہم نے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ جو سنی ہیں بالکل ویسا ہی برتاؤ کیا جیسا برتاؤ ہم نے حزب اللہ لبنان کے ساتھ کیا جو شیعہ تنظیم ہے۔ ہم نے ہر جگہ ایک ہی نہج پر کام کیا ہے۔ ملک کے اندر ہمارے عظیم قائد امام خمینی کا نظریہ یہ تھا کہ دنیائے اسلام کی سطح پر اسلامی جمہوریہ ایران کا طرز عمل اور نقطہ نظر 'امت ساز' طرز عمل ہے۔ یہ جو امریکا کے دوسرے درجے کے مہرے آکر 'ہلال شیعی' کی بات کرتے ہیں، اس سے تفرقہ انگیز سیاست کی بو آتی ہے۔ یہ جو امریکی اپنے تمام تر تشہیراتی پروپیگنڈوں کے بر خلاف عراق و شام میں تفرقہ پھیلانے والے تکفیری گروہوں سے تعاون کر رہے ہیں، کبھی کبھی بعض موارد میں خاموشی سے اور خفیہ طور پر مدد کرتے ہیں جبکہ ان کے مہرے اعلانیہ طور پر مدد کر رہے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام و مسلمین کے دشمنوں اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی نظر میں تفرقہ انگیزی کا معاملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر سب توجہ دیں! شیعہ بھی توجہ دیں اور اہل سنت بھی دھیان دیں۔ دشمن کے فریب میں نہ آئيں۔ وہ تسنن جس کی پشت پناہی امریکا کرتا ہے اور وہ تشیع جو لندن کے سنٹر سے برآمد ہوتا ہے، دونوں ایک جیسے ہیں۔ یہ دونوں ہی برادران شیطان ہیں۔ یہ دونوں ہی امریکا، مغرب اور استکبار کے غلام ہیں۔
اس سال کے آغاز میں ہم نے ہمدلی اور ہم زبانی پر جو تاکید کی اور اس کے بعد بھی بارہا اس موضوع کا اعادہ کیا، اس کی وجہ یہی ہے۔ ملک کے اندر گوناگوں قومیتوں اور مسلکوں سے تعلق رکھنے والے برادران و خواہران عزیز آپس میں متحد ہوکر مستحکم بازو بن جائیں، بالکل اسی طرح جیسے اب تک وہ متحد رہے ہیں۔ دشمن کو دنیائے اسلام کے قلمرو میں قدم رکھنے کا موقع نہ دیں۔ وسیع سطح پر برادران اہل سنت اور اہل تشیع ایک ساتھ رہیں اور یہ یقین رکھیں کہ ایک دشمن موجود ہے جو اسلام کے وجود کے لئے خطرہ ہے۔ یہ بھی ایک بنیادی اصول ہے۔
میں نے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے مکتب فکر کے سات بنیادی اصول بیان کئے ہیں، البتہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے اصول انھیں سات تک محدود نہیں ہیں۔ دوسرے افراد بھی مطالعہ کریں، لیکن یہ نہ ہو کہ اگر کسی کو کوئی بات پسند آ رہی ہے تو اسے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) سے منسوب کر دے۔ ہم جس بات کو بھی امام خمینی سے منسوب کر رہے ہیں وہ امام خمینی سے متعلق مآخذ میں موجود ہونی چاہئے اور وہ بھی مکرر طور پر اور دائمی طور پر نظر آئے جس طرح یہ سات اصول نظر آتے ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی تقاریر کا آپ شروع سے لیکر آخر تک جائزہ لیجئے تو کئی سال کی ان تقاریر میں یہ نکات تواتر کے ساتھ نظر آتے ہیں، بنابریں یہ اصول قرار پائيں گے۔ اسی نہج پر دوسرے لوگ بھی تلاش کریں، اصول اخذ کریں۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کسی کو بھی اپنے سے قریب یا دور انھیں اصولوں کی بنیاد پر کرتے تھے۔ ہم بھی کچھ لوگوں کو اپنے سے قریب یا دور کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اگر کسی کو اپنے سے قریب یا دور کریں تو انھیں اصولوں کی بنیاد پر کریں۔
سب یہ بھی سمجھ لیں کہ ہمارے دشمن جو الگ الگ روپ میں نظر آتے ہیں، کبھی اکڑ جاتے ہیں، کبھی مسکرانے لگتے ہیں، کبھی وعدے کرتے ہیں، کبھی دھمکیاں دیتے ہیں، ان کا اصلی مقصد ہے ملک پر تسلط حاصل کرنا۔ دشمن چاہتا ہے کہ اس ملک پر اس کے مکمل تسلط کا دور پھر سے بحال ہو جائے۔ اسلام چونکہ اس صورت حال کے خلاف ہے اور دشمن کی اس سازش کے مقابلے میں سب سے بڑی رکاوٹ اسلام ہے، اس لئے وہ اسلام کے بھی دشمن ہیں۔ دشمنوں کی جانب سے اسلام کی مخالفت اس لئے ہے کہ انھیں معلوم ہے کہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکام ان کے سامنے ایک محکم دیوار کی مانند ہیں۔ ہماری قوم کے وہ مخالف ہیں، کیونکہ ملت ایران کسی کہسار کی مانند ان کے سامنے کھڑی ہے۔ قوم کے اندر جو کوئی بھی دشمن کے مقابلے میں زیادہ استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے، دشمن اس کا زیادہ مخالف ہو جاتا ہے۔ مومن افراد کے وہ زیادہ مخالف ہیں، انقلابی اداروں اور تنظیموں سے ان کی دشمنی زیادہ ہے، حزب اللہی افراد (مومن و انقلابی افراد) سے ان کی دشمنی زیادہ ہے۔ کیونکہ دشمنوں کو معلوم ہے کہ ان کے اثر و نفوذ کے راستے میں زیادہ بڑی رکاوٹ یہی طاقتیں ہیں۔ دشمن اپنا تسلط قائم کرنے کی فکر میں ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے ذریعے جاری اسلامی تحریک کو جو اس قوم کی ترقی و پیشرف اور سربلندی کا سبب بنی ہے، روک دے۔ ایک پرانے امریکی سیاستداں نے کہا تھا کہ تکفیری دہشت گرد گروہ ہم مغرب والوں کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ اگر موجود رہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمارے لئے سب سے بڑا مسئلہ اسلامی مملکت ایران ہے۔ کیونکہ ایران ایک عظیم تمدن کی تشکیل کے لئے کوشاں ہے، البتہ اس سیاسی رہنما نے سامراج کا لفظ استعمال کیا تھا جو بالکل بے محل تھا، لہذا ہمیں چاہئے کہ اسلامی مملکت ایران کو اپنا سب سے بڑا مخالف اور سب سے اہم دشمن مانیں۔ اس بات سے 'امت سازی' کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہ تھے آج کے ہمارے معروضات آپ برادران عزیز کی خدمت میں جو دور دراز کے علاقوں سے، مختلف شہروں سے، یہاں تشریف لائے۔ آپ سب کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت فرمائے۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کی تجھے قسم دیتے ہیں، اس عظیم اور بالیاقت قوم پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ پالنے والے! اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما اس عظیم انساس پر، اس عظیم قائد پر کہ جس نے ہمارے لئے اس نورانی راستے کی تعمیر کی۔ پالنے والے! ہمیں اس راستے کے سچے پیروکاروں میں قرار دے اور اسی راستے پر ہمیں شہادت کے ذریعے اس دنیا سے اٹھا۔ پالنے والے! حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) یہ تقریر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مزار پر عقیدت مندوں کے عظیم اجتماع میں ہوئی۔ قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل مزار کے متولی حجت الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی نے حاضرین سے خطاب کیا۔
۲) سوره‌ عنکبوت، آیت نمبر ۱۴ کا ایک حصہ
۳) شرح اصول کافی، جلد ۱، صفحہ ۴
۴) سوره‌ حج، آیت نمبر 78 کا ایک حصہ
۵) بحارالانوار، جلد ۳۳، صفحہ ۱۸
۶) سوره‌ حج، آیت نمبر 78 کا ایک حصہ
۷) اقبال الاعمال، جلد ۲، صفحہ ۶۸۷
۸) سوره‌ توبه، آیت نمبر 68 کا ایک حصہ
۹) سوره‌ مجادله، آیت نمبر ۱۴ کا ایک حصہ
۱۰) سوره‌ فتح، آیت نمبر 6 کا ایک حصہ
۱۱) سوره‌ محمّد، آیت نمبر 7 کا ایک حصہ
۱۲) سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر 45 کا ایک حصہ
۱۳) ۱۳۹۳/۳/۱۴ہجری شمسی مطابق 4/6/2014