قائد انقلاب اسلامی نے 2 تیر سنہ 1394 ہجری شمسی مطابق 23 جون 2015 کو اپنے اس خطاب کے آغاز میں ماہ رمضان المبارک کا حوالہ دیا جو تقوی کا مہینہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق تقوے کی دو قسمیں ہیں شخصی تقوا اور سماجی تقوا۔ آپ نے فرمایا کہ شخصی تقوی در حقیقت دائمی طور پر محتاط اور چوکنا رہنے کی حالت ہے جو انسان کو روحانی میدان میں مہلک ضربوں سے محفوظ رکھتی ہے اور انسان کے دنیوی امور پر بھی اس کے بہت اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مسئلے کے تعلق سے انتہائی حساس اور کلیدی نکات بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی ریڈ لائنوں کی واضح طور پر نشاندہی کی۔ آپ نے پہلی ریڈ لائن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ہم امریکیوں کے برخلاف دس سال اور بارہ سال جیسی طولانی مدت تک ایٹمی پروگرام محدود کرنے پر تیار نہیں ہیں اور اس سلسلے میں جس 'مدت' پر ہم رضامند ہیں اس کے بارے میں امریکیوں کو ہم نے بتا دیا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کے بقول دوسری ریڈ لائن یہ ہے کہ ایٹمی سرگرمیاں محدود ہو جانے کی مدت کے دوران بھی تحقیق و ترقی اور تعمیرات کا عمل جاری رہنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا: وہ کہتے ہیں کہ بارہ سال تک آپ کوئی کام نہ کیجئے لیکن یہ حد درجہ منہ زوری اور احمقانہ بات ہے۔ تیسری ریڈ لائن کی نشاندہی کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقتصادی، مالیاتی اور بینکنگ کے شعبے کی پابندیاں خواہ وہ سلامتی کونسل سے متعلق ہوں ، امریکی کانگریس سے مربوط ہوں یا ان کا تعلق امریکی حکومت سے ہو، سب کی سب معاہدے پر دستخط ہوتے ہی فورا ختم ہوں اور بقیہ پابندیاں قابل فہم وقفوں میں اٹھا لی جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم ‌(۱)
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الأطیبین الأطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الأرضین.
اللّهمّ سدّد السنتنا بالصّواب و الحکمة

ماہ مبارک رمضان کی دعاؤں میں ایک چیز جو بار بار دہرائی گئی ہے وہ دنیوی زندگی کے بعد کی مراحل کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے۔ موت، عالم قبر، عالم قیامت، اللہ تعالی کے حساب و کتاب اور سوال و جواب سے روبرو ہونے کے موقع پر انسان کو پیش آنے والی مشکلات، کی جانب توجہ دلانا ہے۔ یہ ماہ رمضان کی دعاؤں کا بڑا نمایاں پہلو ہے۔ ہم لوگوں کے لئے جو عہدوں پر فائز ہیں، ان معانی پر توجہ دینا بہت زیادہ اہم ہے۔ انسان کو قابو میں رکھنے اور اس پر ہمیشہ نظر رکھنے کا ایک طریقہ مادی دنیا سے ماورا کائنات کی جانب توجہ مبذول رکھنا ہے۔ اگر ہم اس بات کی طرف متوجہ ہیں کہ «لایَعزُبُ عَنهُ مِثقالُ ذَرَّة»(۲) ہمارا چھوٹا سا عمل بھی، ہمارا معمولی سا قدم، ایک لمحے کے لئے کہیں ٹھہر جانا اور منہ سے نکلنے والی چھوٹی سی بات بھی بعد از مرگ محاسبہ کرنے والے کی نظر سے بچنے والی نہیں ہے اور ہم سے یقینا اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا، تو اس چیز کا ہمارے کردار پر، ہماری گفتار پر اور ہمارے حرکات و سکنات پر بہت اثر ہوگا۔
دعائے شریفہ ابو حمزہ (میں ہم پڑھتے ہیں): اِرحَمنی صَریعاً عَلَی الفِراشِ تُقَلِّبُنی اَیدی اَحِبَّتی (یا اللہ احتضار کی اس حالت میں مجھ پر رحم فرما جب میرے رشتہ داروں کے ہاتھ مجھے کروٹ بدلوا رہے ہوں گے۔)(۳) یہ حالت جو ہر ایک کے لئے پیش آتی ہے اور شاید بہت سے لوگوں نے دوسروں کی جاں کنی کے لمحات کو، موت سے قبل کے لمحات کو دیکھا ہوگا۔ ان لمحات میں ہمارے اور آپ کے اختیار میں کچھ نہیں ہوتا۔ ان لمحات میں خداوند عالم سے زیادہ ہم سے قریب کوئی نہیں ہوتا۔ وَ نَحنُ اَقرَبُ اِلیهِ مِنکُم وَ لکِن لا تُبصرِون (۴) اس حالت میں اور ہمیں در پیش اس کیفیت میں کوئی بھی ہمارے کام نہیں آ سکتا، سوائے عمل صالح اور فضل پروردگار کے۔ اس دعا میں ہم التجا کرتے ہیں کہ «اللّهُمَّ ارحَمنی» اس حالت میں مجھ پر رحم فرما۔ وَ تَفَضَّل عَلَیَّ مَمدوداً عَلَی المُغتَسَلِ یُقَلِّبُنی صالحُ جیرَتی مرنے کے بعد جب ہمیں غسل دیا جائے تو اے اللہ اس حالت میں اپنی رحمت اور اپنا فضل ہمارے شامل حال فرمائے اور ہم پر رحم کرے۔ ہم غسل دینے والے کے ہاتھوں میں بے اختیار پڑے ہوں گے۔ یہ ہم اور آپ میں سے ہر ایک کو پیش آنے والی حالت ہے۔ اس حالت سے ہم میں کسی کو نجات اور مفر نہیں ہے۔ یہ صورت حال ہم سب کو پیش آنی ہے۔ اس لمحے کی فکر میں رہئے۔
وَ تَحَنَّن عَلَیَّ مَحمولاً قَد تَناوَلَ الاَقرِباءُ اَطرافَ جِنازَتی ہمیں اٹھائيں گے، کاندھوں پر بلند کریں گے اور ہمارے دائمی ٹھکانے کی جانب ہمیں لے جائیں گے۔ وَ جُد عَلَیَّ مَنقولاً قَد نَزَلتُ بِکَ وَحیداً فی حُفرَتی ہمیں قبر میں اتاریں گے۔ یہ یاددہانی ہے۔ ان حالات سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ حالت ہمارے پیش نظر رہنا چاہئے۔ یہ جو ہدایت کی گئی ہے کہ قبرستان جایا کرو، اس دنیا سے چلے جانے والوں کی زیارت کو جایا کرو، اس کی ایک وجہ اور اس کا ایک پہلو یہی ہے۔ بعض لوگوں کو اگر کوئی موت کی یاد دلا دے تو بہت برا لگتا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے، یہ تو علاج ہے، یہ تو دوا ہے، یہ خود پسندی کا علاج ہے، یہ ہماری غفلتوں کا علاج ہے، یہ ہماری ہوس و خواہشات کا علاج ہے۔ دعائے شریفہ ابو حمزہ میں ہی ہم ایک مقام پر پڑھتے ہیں؛ اِلهی اِرحَمنی اِذَا انقَطَعَت حُجَّتی وَ کَلَّ عَن جَوابِکَ لِسانی وَ طاشَ عِندَ سُؤالِکَ اِیّایَ لُبّی اس وقت جب اللہ کی جانب سے ہونے والے محاسبے میں ہم ناکام ہو جائیں گے، لاچاری کا عالم ہوگا، ہماری ساری دلیلیں ختم ہو جائیں گی، یہاں جیسی صورت حال نہیں ہوگی کہ فریق مقابل کی لاعلمی کا فائدہ اٹھا کر، اس کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر اور اس کے جذبات کا فائدہ اٹھا کر ہم اس کی توجہ حقائق سے ہٹا دیں۔ وہاں اس کے سامنے جو سوال کر رہا ہے ساری حقیقت عیاں ہے۔ اس لمحے کو یاد رکھنا چاہئے۔ ایک فقرہ اور ہے؛ اَبکی لِخُروجی مِن قَبری عُریاناً اس دعا کو ماہ رمضان میں وقت سحر دھیان سے پڑھئے؛ ذَلیلاً حامِلاً ثِقلی عَلَی ظَهری اَنظُرُ مَرَّةً عَن یَمینی وَ اُخری‌ عَن شِمالی اِذِ الخَلائِقُ فی شَأنٍ غیرِ شَأنی، ہر کسی کو اپنی فکر لاحق ہے، وہاں میری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ لِکُلِّ امرِئٍ مِنهُم یَومَئِذٍ شَأنٌ یُغنیهِ، وُجوهٌ یَومَئِذ مُسفِرَةٌ، ضاحِکَةٌ مُستَبشِرَة مومنین، متقین، وہ لوگ جو اپنے اعمال کے بارے میں بہت محتاط تھے، جو کبھی بھی حق و انصاف اور دینی فرائض کی ادائیگی کے جادے سے منحرف نہیں ہوئے۔ وہ اس جملے کے مصداق ہیں؛ وُجوهٌ یَومَئِذٍ مُسفِرَةٌ، ضاحِکَةٌ مُستَبشِرَة کھلے ہوئے، خنداں اور درخشاں چہرے۔ کچھ لوگ ہیں جن کا کچھ اور عالم ہے؛ وَ وُجوهٌ یَومَئِذٍ عَلَیها غَبَرَةٌ، تَرهَقُها قَتَرَة قرآن کی آیت یہیں تک ہے (5)، دعا میں اس لفظ کا اضافہ ہے؛ وَ ذِلَّة البتہ صرف یہی مضمون نہیں ہے۔ ماہ رمضان کی ساری دعائیں دوسری دعاؤں کی مانند ہمیں رحمت خداوندی کے لطیف و شیریں چشمے کی جانب لے جاتی ہیں۔
یہ مہینہ خضوع و خشوع کا مہینہ ہے۔ یہ استغفار کا مہینہ ہے۔ یہ تقوی کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں لوٹ جانے کا مہینہ ہے۔ خود سازی کا مہینہ ہے۔ اخلاقیات کا مہینہ ہے۔ ماہ شعبان کے آخری جمعے کے خطبے میں رسول اکرم نے کچھ فقرے ارشاد فرمائے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مہینہ صرف عبادت کے لئے نہیں ہے۔ یہ اخلاقیات کا مہینہ بھی ہے۔ اخلاقی فضائل سے خود کو آراستہ کرنے کا مہینہ ہے۔ اخلاقی خصائص پر عمل کرنے کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں ان باتوں پر ہمیں توجہ دینی چاہئے۔
اس انتہائی اہم اور حساس جلسے میں تین موضوعات پر گفتگو کرنے کا میرا ارادہ ہے۔ ایک تو معیشت و اقتصادیات کا موضوع ہے کہ جس کی جانب ہمارے صدر محترم کی تقریر میں بھی اشارہ کیا گیا۔ آپ نے بہت اچھے نکات بیان کئے اور بڑے اچھے اعداد و شمار پیش کئے۔ اس سلسلے میں میرا ایک نظریہ ہے جو میں عرض کروں گا۔ دوسرا، ایٹمی مسئلہ ہے جو اس وقت ہماری مساعی کا محور و مرکز بنا ہوا ہے، خارجہ پالیسی کی سطح پر ہماری کوششوں کا بھی محور ہے اور داخلی سطح پر بھی ہماری سعی و کوشش کا یہ محوری مسئلہ ہے۔ کچھ باتیں بیان کرنا ضروری ہیں۔ اگر وقت رہا تو علاقے کے مسائل کے بارے میں بھی مختصرا کچھ عرض کروں گا۔
اقتصادیات کے مسئلے میں اپنی گفتگو کا آغاز میں اس طرح کرنا چاہوں گا کہ ماہ رمضان ماہ تقوی ہے۔ تقوا کیا ہے؟ تقوی دائمی طور پر محتاط اور چوکنا رہنے کی کیفیت ہے۔ جس کی وجہ سے انسان غلط راستے پر نہیں جاتا اور پاؤں میں چبھ جانے والے کانٹوں سے محفوظ رہتا ہے۔ تقوا در حقیقت انسان کے وجود کے لئے ایک ڈھال کا کام کرتا ہے، اسے زہر آلود تیروں کے گزند سے محفوظ رکھتا ہے، مہلک روحانی ضربوں سے بچائے رکھتا ہے۔ البتہ صرف روحانی امور میں ہی نہیں۔؛ وَ مَن یَتَّقِ اللهَ یَجعَل لَه مَخرَجاً * وَ یَرزُقهُ مِن حَیثُ لا یَحتَسِب (۶) دنیوی امور پر بھی تقوا کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ تو شخصی تقوی کی کیفیت ہے۔ یہی چیز ایک معاشرے اور ایک ملک کی سطح پر بھی صادق آتی ہے۔ ایک ملک کا تقوی کیا ہو سکتا ہے؟ ایک معاشرے کا تقوی کیا ہے؟ اگر کوئی معاشرہ ایسا ہے جس کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران جیسے اعلی اہداف و مقاصد ہیں تو دائمی طور پر وہ حملوں کی آماجگاہ بنا رہے گا۔ زہر آلود تیر اس کی طرف ہمیشہ آتے رہیں گے۔ اس ملک کے لئے بھی تقوی کی ڈھال کی ضرورت ہے۔ سماج کا تقوی کیا ہے؟ سماجی تقوے کی مختلف میدانوں میں نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ معاشی میدان میں سماج کے تقوے سے مراد ہے مزاحمتی و استقامتی معیشت۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ عالمی سطح کی دگرگونیاں یا مخالف عالمی پالیسیوں کے زہر آلود تیر آپ کی معیشت کو نقصان نہ پہچائيں تو لا محالہ آپ کو مزاحمتی معیشت کا رخ کرنا ہوگا۔ مزاحمتی معیشت استحکام کا باعث بنتی ہے ان افراد کے مد مقابل اور ان طاقتوں کے مد مقابل جو اپنی تمام سیاسی، اقتصادی، تشہیراتی اور سیکورٹی توانائیاں اس مقصد کے لئے استعمال کرتی ہیں کہ کسی قوم کو، کسی ملک یا کسی نظام کو نقصان پہنچائیں۔ ان طاقتوں کو اس وقت ایک راستہ یہ سوجھا ہے کہ اقتصادی پہلو سے دراندازی کی جائے۔ ہم نے کئی سال پہلے سے یہ انتباہ دینا شروع کر دیا تھا۔ ہمارے حکام نے بھی اپنی اپنی توانائی کے مطابق اچھی محنت کی۔ لیکن ہمیں چاہئے کہ اپنی پوری توانائی سے اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کی مدد سے ملک کے اندر مزاحمتی و استقامتی معیشت کے ہدف کو پورا کریں۔ یہ اقتصادی میدان میں ہمارا سماجی تقوا کہلائے گا۔
البتہ یہ صرف ہم سے مختص نہیں ہے۔ مزاحمتی معیشت کو دوسرے بہت سے ملکوں نے بھی اپنے لئے منتخب کر لیا ہے، اس کے بارے پہلے ہی فیصلہ کر لیا ہے اور اس کے ثمرات بھی انھیں حاصل ہو رہے ہیں۔ مزاحمتی معیشت کا مرکزی نکتہ ہے بیرونی دنیا کی جانب رجحان کے ساتھ ساتھ اس کا اندرونی طور پر نمو و شکوفائی کی منزلیں طے کرنا۔ اندرونی طور پر نمو و شکوفائی کی منزلیں طے کرنے کا مطلب خود کو الگ تھلگ کر لینا نہیں ہے۔ بلکہ یہ اندرونی نمو بیرونی دنیا پر توجہ کے ہمراہ ہے۔ دوسرے معاشروں پر توجہ رہے گی لیکن اس معیشت کا انحصار اور تکیہ داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں پر ہوگا۔ میں اس کی تھوڑی تشریح کروں گا۔ پہلے بھی اس بارے میں کچھ باتیں بیان کر چکا ہوں (7)۔
مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیاں جو تدوین کی گئيں اور جن کا نوٹیفکیشن جاری کیا گيا، ذاتی سوچ کی بنیاد پر ذہن میں یکبارگي پیدا ہو جانے والے خیال کی دین نہیں ہیں۔ یہ اجتماعی خرد کا ثمرہ ہے، یہ طولانی مشاورتی عمل اور بحث و تحقیق کا نتیجہ ہے۔ جب ان تمام خصوصیات اور اوصاف کی حامل مزاحمتی معیشت کا نوٹیفکیشن جاری کیا گيا، اسے بیان کیا گيا اور میڈیا میں اس پر گفتگو شروع ہو گئی اور حکومت کے اندر ہمارے احباب نے، رفقاء نے اس سلسلے میں کام شروع کر دیا تو بہت سے ماہرین اقتصاد نے اس کی حمایت کی اور مزاحمتی اقتصاد کی اصطلاح ملک کے اقتصادی شعبے میں رائج ہو گئی، ملک کے عام ماحول میں اس اصطلاح نے اپنی جگہ بنا لی۔ اس سے اس راستے کی پختگی اور درستگی کا پتہ چلتا ہے۔
مزاحمتی معیشت بڑی طاقتوں کی طرف سے ترقی پذیر یا تیسری دنیا کا حصہ کہے جانے والے ممالک کے لئے ڈکٹیٹ کی جانے والی معیشت کے مد مقابل اقتصاد کا نام ہے۔ انھوں نے ایک ماڈل ڈکٹیٹ کر دیا جس کی میں یہاں تشریح نہیں کرنا چاہتا۔ اب اگر تیسری دنیا کے ملکوں کو اقتصادی نمو چاہئے، اگر اقتصادی روق کی ضرورت ہے، اگر خود کو عالمی معیشت کی سطح پر لے جانا چاہتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ اس رول ماڈل کی پیروی کریں، جس کا بنیادی طور پر انحصار اور پوری توجہ بیرونی دنیا پر ہے۔ جبکہ اپنی خاص تفصیلات کے ساتھ۔ مزاحمتی معیشت اس کے عین مخالف سمت میں ہے۔ یہ پوری طرح الگ ہے اور اس قدیمی ماڈل میں جن چیزوں پر زور رہتا تھا، مزاحمتی معیشت کا راستہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ اب بھی گوشہ و کنار میں کچھ لوگ اسی پرانے رول ماڈل کا ذکر کرتے ہوئے اور اسے یاد کرتے ہوئے نظر آ جائیں گے۔ مزاحمتی معیشت میں تکیہ داخلی توانائیوں پر ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ یہ تصور کریں کہ بحث اور گفتگو کی حد تک تو یہ نیا رول ماڈل بہت اچھا ہے لیکن انھیں اس کے عملی جامہ پہنائے جانے میں شک و تردد ہو۔ میں پوری قطعیت کے ساتھ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ملک میں اسے عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ مزاحمتی معیشت کے رول ماڈل کو ملک کے موجودہ حالات میں جامہ عمل پہنانا ممکن ہے۔
ہمارے پاس اس ہدف کے لئے بے پناہ توانائیاں موجود ہیں، ایسی صلاحیتیں موجود ہیں جنھیں اب تک استعمال نہیں کیا گيا تھا۔ ان توانائیوں میں ایک افرادی قوت کا سرمایہ ہے۔ یعنی تعلیم یافتہ، گوناگوں مہارتیں رکھنے والے اور خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار نوجوان ہمارے ملک میں کثیر تعداد میں موجود ہیں اور یہ اسلامی انقلاب کی برکت ہے۔ البتہ شرط یہ ہے کہ غلط پالیسیوں کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ بڑھاپے کی حالت سے دوچار نہ ہونے پائے۔ اس وقت نوجوانوں کی کثرت ہے۔ اس وقت ملک کی افرادی قوت کا بہت بڑا حصہ بیس سے چالیس سال کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن کے پاس اچھی تعلیم ہے، جو فکری و ذہنی اعتبار سے بہترین آمادگی رکھتے ہیں، جو جوش و جذبے سے بھرے ہوئے ہیں، جن کے اندر جذبہ خود اعتمادی موجزن ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوانوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ چالیس لاکھ طلبہ یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، یہ تعداد اوائل انقلاب کے مقابلے میں پچیس گنا زیادہ ہے۔ اوائل انقلاب کے مقابلے میں اس وقت ملک کی آبادی دگنی ہے۔ لیکن یونیورسٹی طلبہ کی تعداد پچیس گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ اسلامی انقلاب کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ عظیم افرادی قوت ہے جو بہترین مواقع فراہم کر سکتی ہے۔
ہمارے پاس ایک اور اہم توانائی اور صلاحیت وطن عزیز کی اقتصادی پوزیشن ہے۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی معیشت میں بیسواں مقام اسلامی جمہوریہ ایران سے متعلق ہے۔ ہمارا ملک دنیا کی بیسویں معیشت ہے اور بارہویں نمبر پر خود کو پہنچانے کی ضروری توانائیاں اور صلاحیتیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس لئے کہ ملک کے اندر بڑے پیمانے پر ایسی توانائیاں ہیں جو اب تک استعمال نہیں ہوئی ہیں۔ ہمارے پاس قدرتی ذخائر ہیں، تیل ہے، تیل اور گیس کے مجموعی ذخائر کے اعتبار سے ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ تیل اور گیس کے مجموعی ذخائر جو ہمارے پاس ہیں وہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ دوسری گوناگوں معدنیات بھی ہیں۔
اسی طرح ایک اور اہم خصوصیت وطن عزیز کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ علاقے اور دنیا کے جغرافیا میں ہمارا ملک شمال کو جنوب سے اور مشرق کو مغرب سے جوڑنے والے رابطہ پل کی جگہ پر واقع ہے، جو ٹرانزٹ کے لئے، انرجی اور سامان کے نقل و حمل کے لئے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
مزید خصوصیات میں وطن عزیز کا پندرہ ملکوں کے پڑوس میں واقع ہونا ہے جن کی مجموعی آبادی سینتیس کروڑ ہے۔ یعنی ہماری نگاہ کے سامنے ایک بڑا بازار موجود ہے جہاں جانے کے لئے ہمیں کوئی طولانی راستہ طے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح سات کروڑ کی آبادی والا داخلی بازار ہے۔ اگر ہم اپنے اسی داخلی بازار پر بھرپور توجہ دیں، قومی پیداوار پر توجہ دیں، تو پیداواری شعبے کی حالت بدل جائے گی۔ ایک اور خصوصیت فضائی، زمینی اور ریلوے ٹرانسپورٹ، انرجی، مواصلات، تجارتی مراکز، بجلی گھروں اور ڈیمز وغیر کے شعبے میں بہترین انفراسٹرکچر ہے، جو ان گزشتہ برسوں کے دوران الگ الگ حکومتوں کی محنت و بلند ہمتی سے اور عوام کے تعاون اور مدد سے تیار ہوا ہے اور آج ہمارے پاس موجود ہے۔
ان سب کے علاوہ مینجمنٹ کے ہمارے طویل تجربات ہیں۔ انھیں تجربات سے ہمیں مدد ملی اور ہم گزشتہ برسوں کے دوران غیر پیٹرولیم اشیاء کی پیداوار کے شعبے میں برآمدات کو فروغ دینے میں کامیاب ہوئے۔ صدر محترم نے سنہ 1393 (ہجری شمسی مطابق مارچ 2014 الی مارچ 2015) کے اعداد و شمار پیش کئے۔ اس سے پہلے کے برسوں میں بھی غیر پیٹرولیم اشیاء کی برآمدات کو کافی فروغ ملا، جو بہترین نمونہ ہے۔ یہ توانائیاں ملک کے اندر موجود ہیں۔ البتہ یہ توانائیوں کا صرف ایک حصہ ہے۔ جو ماہرین ہمارے ساتھ بیٹھتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں یا بعض اوقات رپورٹ پیش کرتے ہیں اس کے مطابق ملکی معیشت کے لئے مددگار ثابت ہونے والی توانائیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہ بالکل صحیح رپورٹ ہے۔ ان توانائیوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے ملک کے سامنے اس وقت مشکل یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس منصوبے نہیں ہیں، صحیح سوچ اور نظریہ نہیں ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس اچھی فکر اور اچھے منصوبے موجود ہیں مگر ہم ان پر بخوبی عمل نہیں کرتے۔ یہ ہے ہماری بنیادی مشکل۔ ملک کی ممتاز علمی شخصیتوں کی سطح پر بھی یہ بحث رہتی ہے کہ ہمارے سامنے مشکل اچھی فکر اور خیالات کی کمی نہیں ہے بلکہ مشکل یہ ہے کہ ہم ان اچھی اور صحیح باتوں پر اس طرح عمل نہیں کرتے جس طرح کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم نتیجے تک پہنچ سکیں اور اس کے ثمرات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکیں، انھیں محسوس کر سکیں۔
بیشک مسائل بھی در پیش ہیں۔ مسائل کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ رکاوٹوں کی وجہ سے آگے بڑھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے، مشکلات پیش آنے لگتی ہیں۔ لہذا ان رکاوٹوں کو دور کرنا ضروری ہے۔
ایک اہم مسئلہ اور رکاوٹ خود ہمارے اندر موجود ہے۔ امور کو سطحی نگاہ سے دیکھنا۔ ہم بعض کام انجام دیتے ہیں تو سطحی فکر کی بنا پر بہت جلدی خوش ہو جاتے ہیں اور قضیئے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔
روشن خیالی کی بڑی بڑی باتوں سے، نشستوں کی گرما گرم بحثوں سے کوئی کام انجام پانے والا نہیں ہے۔ آگے بڑھنے اور اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ عمل میں تساہلی بہت بڑی مشکل ہے۔ بڑے کام ایسے ہوتے ہیں کہ بسا اوقات ان کے مکمل ہونے میں پوری ایک نسل گزر جاتی ہے، اس میں تندہی سے لگے رہنا ہوتا ہے، مسلسل آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ بہت سے کام ایسے ہیں کہ اگر ہم نے انھیں دس سال پہلے، پندرہ سال پہلے شروع کر دیا ہوتا تو آج نتائج اور ثمرات تک پہنچ چکے ہوتے۔ بہت سے کام ہم نے دس سال، پندرہ سال پہلے شروع کر دئے تھے اور آج ان کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ جس وقت مختلف یونیورسٹیوں میں ملک کے اندر علمی تحریک کی بات شروع ہوئي تھی، مختلف صنف کے لوگوں سے اس بارے میں بات کی گئی تو اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ علمی تحریک جو دس سال یا پندرہ سال پہلے شروع ہوئي، وہ شروع ہو پائے گی، لیکن بہر حال اس کا آغاز ہوا۔ ہمارے اساتذہ، ہمارے مفکرین، یونیورسٹی کی علمی شخصیات اور ہمارے بالیاقت نوجوانوں نے اس کا آغاز کیا۔ علمی اعتبار سے ہم اس وقت دس پندرہ سال قبل کے مقابلے میں بہت اہم کام انجام دے چکے ہیں۔ بالکل نمایاں اور بعض میدانوں میں تو ناقابل یقین حد تک ترقی ملی ہے۔ اگر ہم کام آج شروع کرتے ہیں تو اس کا نتیجہ پندرہ سال بیس سال بعد ملے گا۔
ہمارے سامنے ایک اور مشکل آسان موازی اور مہلک راستوں کا موجود ہونا ہے۔ یہ بھی بہت بڑی مشکل ہے۔ میں کبھی نہیں بھولوں گا؛ میری صدارت کا زمانہ تھا، یہ پچیس سال پرانی بات ہے، معاشرے کی ضرورت کی ایک چیز تھی جسے امپورٹ کرنا تھا۔ ہم بڑی زحمتیں برداشت کرے اسے یورپ سے خریدتے تھے۔ افریقا میں بھی وہی چیز موجود تھی بلکہ بہتر کوالٹی کی تھی، مگر ہمارے بعض دوست وہاں سے خریدنے پر تیار نہیں تھے۔ ان سے کہا گیا، تاکید کی گئی، جو نشست ہوئی اس میں ان دوستوں نے تصدیق بھی کی اور ہامی بھی بھری۔ مگر یہ راستہ ذرا دشوار تھا۔ یورپ سے خریدنا زیادہ آسان تھا۔ تو یہ موازی اور آسان مگر ساتھ ہی ساتھ ضرر رساں عمل ہے جو انسان کو پھنسا دیتا ہے۔ دوست کمزور ہونے لگتے ہیں، دشمن کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور ملک کے اندر کے امور کی باگڈور ایسے افراد کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے جو دل ہی دل میں ہم سے عناد رکھتے ہیں۔
ایک اور بڑی مشکل یہ ہو سکتی ہے کہ لوگ اس خام خیالی میں پڑ جائیں کہ اگر ہم اپنے اصولوں سے، اسلامی جمہوری نظام کے اصولوں سے دست بردار ہو جائیں تو راستے کھل جائیں گے، بند دروازے وا ہو جائیں گے، یہ بہت بڑی اور بنیادی غلطی ہے۔ بیشک خدمت گزار حکومت کے اندر موجود ہمارے برادران گرامی پورے یقین کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ واقعی انقلاب پر ان کا عقیدہ ہے، انقلاب کے اصولوں پر عقیدہ ہے، انقلاب کی بنیادوں پر عقیدہ رکھتے ہیں۔ ہمیں ان سے کوئی شکوا نہیں ہے۔ لیکن متعلقہ افراد میں کچھ لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے بعض اصولوں اور بنیادوں کو ترک کر دیں تو بہت سے بند دروازے ہمارے لئے کھل جائیں گے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی بھول ہے۔ ہم اس بھول کے عواقب بعض ملکوں میں دیکھ چکے ہیں، میں یہاں ان کا نام نہیں لینا چاہوں گا۔ ہم نے انھیں گزشتہ چند برسوں کے اندر اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ ترقی کا راستہ استقامت ہے، اصولوں پر ثابت قدم رہنا ہے۔
یہ بھی ایک اہم مشکل ہو سکتی ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ خیال سر ابھارنے لگے کہ عوام اب برداشت نہیں کر پائيں گے۔ ایسا نہیں ہے، عوام نے مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ اگر حقیقت میں عوام کے سامنے صورت حال بالکل درست شکل میں پیش کر دی جائے، پوری سچائی و صداقت کے ساتھ حقائق کو عوام کے سامنے بیان کر دیا جائے تو ہمارے عوام بڑے وفادار ہیں وہ استقامت و پامردی کا مظاہرہ کریں گے۔
ایک اور بڑی مشکل، اندرونی توانائیوں کے بارے میں شک و شبہ ہے۔ یہ بہت بڑی مشکل ہے کہ ہم اپنے نوجوان سائنسداں پر اعتماد نہ کریں۔ اقتصادی میدان میں نجی سیکٹر اور عوام کی صلاحیتوں پر اعتماد نہ کریں۔ ان پر اعتماد کرنا چاہئے۔ عوام کو ملکی معیشت کے اصلی بہاؤ اور دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔
مزاحمتی معیشت کے تعلق سے ہمیں جو شرطیں پوری کرنی ہیں ان میں ایک عزم راسخ ہے۔ ہمیں پختہ عزم کے ساتھ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ملک کے اندر مزاحمتی معیشت حقیقی معنی میں وجود میں آئے۔ اسی طرح تساہلی سے اجتناب، آرام طلبی سے اجتناب، مجاہدانہ انتظام و انصرام پر توجہ، میں نے گزشتہ سال مجاہدانہ انتظام و انصرام کا موضوع پیش کیا تھا (8)۔ میں نے یہ بھی تاکید کر دی تھی کہ یہ موضوع صرف اسی سال تک محدود نہیں ہے، بلکہ دائمی مسئلہ ہے۔ ہمیں مجاہدانہ انتظام و انصرام کی ضرورت ہے۔ انقلاب کے ابتدائی برسوں میں، جنگ کے دوران، گزشتہ تیس پینتیس سال کے عرصے میں، جہاں بھی مجاہدانہ انتظام و انصرام پر توجہ دی گئی، وہاں کامیابی ملی ہے۔ مینیجمنٹ کے اس انداز میں کبھی مشکلات بھی پیش آتی ہیں لیکن پیشرفت حاصل ہوتی ہے، کام آگے بڑھتے ہیں۔ قدرت خداوندی پر تکیہ، اللہ تعالی کی ذات پر توکل، کاموں کو تدبر کے بعد اور سوچ سمجھ کر لیکن عزم راسخ کے ساتھ، کسی شک و تردد میں پڑے بغیر، ذیلی منفی اثرات سے خوفزدہ ہوئے بغیر انجام دینا، مجاہدانہ انتظام و انصرام کا مصداق ہے۔ البتہ مزاحمتی معیشت کے لئے سازگار ثقافت و کلچر کی ترویج بھی ضروری ہے۔ سب کے سب، قومی نشریاتی ادارہ بھی، اخبارات و جرائد اور ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران بھی، حکومتی عہدیداران بھی، پارلیمنٹ کے ارکان بھی، ملک بھر کے ائمہ جمعہ بھی، اسی طرح ہر وہ شخص جس کے پاس کوئی پلیٹ فارم ہے اور عوام تک اس کی بات پہنچتی ہے، مزاحمتی معیشت کے لئے مناسب اور سازگار ماحول کی ترویج کریں، منجملہ کفایت شعاری، ملکی مصنوعات کے استعمال کی ترویج کریں۔ البتہ کفایت شعاری اور داخلی مصنوعات کو استعمال کرنے کے سلسلے میں بنیادی طور پر ہمارا خطاب ملک کے حکام سے ہے، کیونکہ ملک میں ایک اہم اور بڑی صارف خود حکومت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس بات پر اصرار کرے اور خود کو اس اصول کی پابند بنا لے کہ اسے داخلی مصنوعات استعمال کرنی ہیں، اس میں تھوڑا سمجھوتا کرنا پڑے تو کوئی مصائقہ نہیں ہے۔ کبھی سننے میں آتا ہے کہ فلاں چیز میں وہ غیر ملکی برانڈ والی بات نہیں ہے۔ کوئی بات نہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر تیار کی جانے والی اس چیز کا معیار بھی غیر ملکی اشیاء جتنا بلند ہو تو اس کی مدد کریں۔ اگر ہم مدد کریں گے تو اس کی کوالٹی روز بروز بہتر ہوتی جائے گی۔ ورنہ دوسری صورت میں اس میں روز بروز تنزل ہی آئےگا۔ بغیر معقول وجہ کے کئے جانے والے امپورٹ کا سد باب ضروری ہے۔ اسمگلنگ پر روک لگانا ضروری ہے۔ چھوٹی اور اوسط درجے کی پیداواری یونٹوں پر توجہ دینا حد درجہ ضروری ہے، اس پر میں نے اس سال کے آغاز کے موقع پر بھی تاکید کی تھی (9)۔ مالیاتی پالیسیوں پر اور بینکنگ نظام کی روش پر نظر ثانی بھی بہت ضروری ہے۔ میں نے سال نو کے آغاز کے موقع پر اس پر بھی تاکید کی تھی۔ صاحب نظر افراد اور ہمدردی رکھنے والے افراد اس سلسلے میں بہت اہم تجاویز رکھتے ہیں، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سب ضروری کام ہیں جو انجام دئے جانے چاہئے۔
البتہ ان تمام کاموں کی انجام دہی کی لازمی شرط ہے ہم دلی و ہم زبانی اور وہ یگانگت و یکجہتی جس کا ذکر صدر محترم نے کیا۔ حکومت کی مدد کی جانی چاہئے، حکام سے تعاون کیا جانا چاہئے، کیونکہ وہ اجرائی میدان میں ہیں۔ تضادات اور فروعی باتی سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ کسی بھی جانب سے حاشئے والے امور کو موضوع بحث بنایا جانا ناقابل قبول ہے۔ سب مدد کریں تا کہ یہ عظیم مہم بحمد اللہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ یہ ہمارے معروضات تھے اقتصادی شعبے کے تعلق سے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ اقتصادی میدان میں ہم بنیادی اور بڑے کام انجام دے سکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ ہم اس دشوار گزرگاہ کو عبور کر لیں گے۔
ایٹمی مسئلے میں تین نکات میں مقدمے اور تمہید کے طور پر بیان کرنا چاہوں گا، اسکے بعد اسی سلسلے میں کچھ معروضات پیش کروں گا۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ میں جو کچھ اس جلسے میں اور دیگر عمومی جلسوں میں کہتا ہوں وہی سب بعینہ حکام کے ساتھ، صدر محترم کے ساتھ اور دیگر عہدیداروں کے ساتھ اپنی نجی ملاقاتوں میں بھی کہتا ہوں۔ یہ پروپیگنڈہ لائن جو ہم دیکھتے اور سنتے ہیں اور جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ جو ریڈ لائنیں رسمی طور پر بیان کی جاتی ہیں، نجی ملاقاتوں میں ان سے صرف نظر کر لیا جاتا ہے، یہ خلاف حقیقت اور جھوٹ ہے۔ ہم جو کچھ یہاں آپ سے اور اسی طرح کی عمومی نشستوں میں بیان کرتے ہیں، بعینہ وہی باتیں حکام سے اور مذاکراتی ٹیم سے اپنی ملاقاتوں میں بھی کہتے ہیں۔ بات ایک ہی رہتی ہے۔
دوسرا نکتہ؛ میں مذاکراتی ٹیم کو، ان دوستوں کو جنھوں نے اس مدت کے دوران یہ زحمتیں اپنے دوش پر اٹھا رکھی ہیں، دیانت دار بھی سمجھتا ہوں، غیور بھی مانتا ہوں، شجاع بھی مانتا ہوں اور دیندار بھی سمجھتا ہوں، یہ بات سب سن لیں! یہاں تشریف فرما آپ لوگوں کی اکثریت کو مذاکرات کی تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ اگر آپ بھی مذاکرات کی تفصیلات سے اور مذاکرات کی میز پر جو کچھ پیش آ رہا ہے اس سے باخبر ہوں تو جو کچھ میں نے کہا ہے اس کے کچھ حصے پر آپ کو خود ہی یقین ہو جائے گا۔ ان چیزوں کے علاوہ بھی میں ان میں سے بعض دوستوں کو قریب سے جانتا ہوں، بعض کو ان کی ماضی کی کارکردگی کی بنیاد پر پہچانتا ہوں؛ یہ دیندار اور امین افراد ہیں۔ یہ دیانت دار ہیں۔ ان کی نیت یہ ہے کہ ملک کا کام انجام پائے اور گرہیں کھولی جا سکیں۔ وہ اس مقصد کے لئے محنت کر رہے ہیں۔ واقعی ان میں قومی حمیت بھی ہے، شجاعت بھی ہے۔ یہ لوگ ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد سے روبرو ہیں جن کے بارے میں، میں وہ الفاظ نہیں استعمال کرنا چاہتا جو ان کے لئے موزوں ہیں، کیونکہ بعض اوقات کچھ افراد خاص الفاظ اور اصطلاحات کے مستحق ہوتے ہیں، مگر ہمارے لئے ان الفاظ کا زبان پر لانا مناسب نہیں ہوتا۔ (ہمارے مذاکرات کار) واقعی ایسے افراد کے سامنے پوری شجاعت سے اور پوری توجہ اور باریک بینی سے اپنا موقف بیان کرتے ہیں اور اس موقف کے سلسلے میں کام کرتے ہیں۔
تیسرا نکتہ محترم ناقدین کے تعلق سے ہے۔ میں تنقید کئے جانے کے خلاف نہیں ہوں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ تنقید ضروری اور مددگار بھی ہے۔ مگر اس بات پر سب توجہ رکھیں کہ تنقید کر دینا عمل کرنے سے آسان ہوتا ہے۔ کسی محاذ پر کوئی انسان مصروف عمل ہے تو ہمیں اس کے عیوب آسانی سے نظر آ جاتے ہیں، مگر ہم اسے در پیش خطرات کو، دشواریوں کو، تشویشوں کو اور اس کی مشکلات کو نہیں دیکھ پاتے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے آپ کسی سویمنگ پول کے کنارے کھڑے ہوں اور جائزہ لے رہے ہوں۔ ایک شخص اونچائی پر جائے اور دس میٹر کی بلندی سے جست لگائے۔ اس نے چلانگ لگائی اور آپ یہاں کنارے کھڑے ہوکر کہیں کہ ارے! اس کا تو پاؤں خم ہو گیا، زانو خم ہو گئے، یہ تو خامی ہے۔ جی ہاں، بیشک یہ خامی ہے، لیکن آپ زحمت فرمائیے اور دس میٹر کی اس بلندی پر جائیے اور وہاں سے پانی پر ایک نظر ڈالئے، تب فیصلہ کیجئے! تنقید کرنا آسان ہے۔ البتہ میری اس بات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تنقید بند ہو جائے۔ تنقید کیجئے! مگر یہ خیال رہے کہ تنقید کے وقت یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ جس شخص کے عیوب ہم اپنی تنقید میں بیان کر رہے ہیں، ممکن ہے وہ خود بھی ان عیوب سے آگاہ ہو، لیکن وہ اسی نتیجے پر پہنچا ہو یا ضرورتوں نے اسے اس منزل پر پہچا دیا ہو۔ البتہ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ یہ افراد معصوم ہیں۔ نہیں، معصوم نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ انسان بعض مقامات پر تشخیص میں اور اقدام میں غلطی کر بیٹھے۔ لیکن یہ بنیادی بات ہے کہ ہمیں ان افراد کی دیانت داری پر، ان کی حمیت پر، ان کی شجاعت اور دینداری پر پورا یقین ہے۔ یہ تین نکتے بہت ضروری تھے جنھیں میں نے مقدمے کے طور پر عرض کر دیا۔
میں ان مذاکرات کی مختصر تاریخ بیان کر دوں؛ یہ مذاکرات جو گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ ہمارے مذاکرات سے الگ ہٹ کر ہیں، یہ امریکیوں سے ہمارے مذاکرات ہیں۔ ان مذاکرات کا تقاضہ امریکیوں نے کیا تھا۔ یہ دسویں حکومت کے زمانے کی بات ہے۔ موجودہ حکومت کی تشکیل سے پہلے ہی یہ مذاکرات شروع ہو گئے تھے۔ انھوں نے درخواست کی اور ایک ثالثی کی مدد لی، علاقے کی ایک محترم شخصیت نے یہاں آکر مجھ سے ملاقات کی اور کہا کہ امریکی صدر نے ان سے رابطہ کیا، گزارش کی اور کہا کہ ہم ایران کے ساتھ ایٹمی مسئلے کا تصفیہ کرنا چاہتے ہیں اور پابندیاں بھی اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان (امریکیوں) کی بات میں دو بنیادی نکات تھے۔ ایک تو انھوں نے یہ کہا کہ ہم ایران کو ایٹمی طاقت کے طور پر تسلیم کریں گے، دوسری بات یہ کہی کہ ہم چھے مہینے کی مدت میں بتدریج پابندیوں کو اٹھا لیں گے۔ آئيے بیٹھئے بات کیجئے تاکہ یہ کام انجام پا جائے! میں نے اس محترم شخصیت سے کہا کہ ہمیں امریکیوں پر کوئی بھروسہ نہیں ہے، ان کی باتوں پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ آزما کے دیکھئے! میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، ایک بار پھر آزما کے دیکھتے ہیں۔ اس طرح مذاکرات شروع ہوئے۔
میں اعلی حکام کو متوجہ کرنے کے لئے ایک نکتہ عرض کرنا چاہوں گا، سب توجہ رکھیں کہ عالمی سطح پر جب دو فریق روبرو ہوتے ہیں تو اس قسم کے حالات کے سلسلے میں جو منطقی اصول ہیں وہ ہمیں دو میدانوں پر توجہ مرکوز رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ایک میدان حقائق اور عمل کا میدان ہے۔ یہ اصلی میدان ہے۔ زمینی حقائق کے میدان میں اور عمل کے میدان میں جو عہدیدار کام کرنا چاہتا ہے وہ اس میدان میں اپنا کچھ سرمایہ اور پونجی تیار کرتا ہے۔ یہ تو رہا ایک میدان۔ دوسرا میدان سیاست اور سفارت کاری کا میدان ہے۔ سفارت کاری، سیاست اور مذاکرات کے میدان میں وہ سرمایہ اور پونجی ملک کے لئے اور قومی مفادات کے لئے اہم امتیاز اور کارڈ کا کام کرتا ہے۔ اگر پہلے میدان میں انسان کے ہاتھ خالی ہیں، تو اس دوسرے میدان میں اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ پہلے میدان میں، یعنی میدان عمل میں اور زمینی حقائق کے میدان میں آپ کے پاس سرمایہ ہونا چاہئے، حصولیابیاں ہونی چاہئیں۔
جس دن ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہمارے پاس بہت اہم حصولیابیاں تھیں۔ ہمیں احساس تھا کہ مضبوط اور مستحکم پوزیشن میں ہم مذاکرات میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس وقت کی ہماری ایک اہم کامیابی یہ تھی کہ دنیا کی ایٹمی طاقتوں نے ہمیں تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر کے لئے بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم دینے سے انکار کر دیا تھا، اس ری ایکٹر سے نیوکلیئر دواؤں کی ہماری ضرورت پوری ہوتی تھی، ان پابندیوں کے باوجود ہم بیس فیصدی کے گریڈ تک یورینیم افزودہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، ہم نے بیس فیصدی کی سطح تک افزودہ یورینیم کو فیول پلیٹس میں تبدیل کر لیا تھا اور اسے باقاعدہ استعمال کرنے پر قادر تھے۔ فریق مقابل مبہوت ہوکر رہ گیا تھا! اس کی داستان بڑی طولانی ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگ شاید اس سے واقف بھی ہوں گے۔ طویل مذاکرات ہوئے مگر وہ ہمیں بیس فیصدی کی سطح تک افزودہ یورینیم دینے، یعنی ہمیں فروخت کرنے پر تیار نہیں ہوئے، وہ اس پر بھی تیار نہیں تھے کہ کوئی اور ملک ہمیں یہ ایندھن فروخت کرے۔ ہم نے طے کیا کہ یہ ایندھن ملک کے اندر ہمیں تیار کرنا ہے۔ ہمارے نوجوانوں نے، ہمارے انھیں سائنسدانوں نے، خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار اسی جفاکش طبقے نے فریق مقابل کو متحیر کر دیا اور ملک کے اندر بیس فیصدی کی سطح تک افزودہ یورینیم تیار کر لیا۔ آپ جانتے ہیں، میں نے شاید ایک دفعہ پہلے بھی کہا تھا (10) کہ یورینیم کی افزودگی کے پورے عمل میں تین فیصدی اور چار فیصدی کی سطح سے بیس فیصدی کی سطح تک کی افزودگی کا سفر سب سے زیادہ دشوار ہے۔ اس کے بعد بیس فیصدی سے نوے فیصدی کی سطح تک یورینیم افزودہ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ جب کوئی بیس فیصدی کی سطح تک یورینیم افزودہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بعد کے مراحل بہت آسان ہو جاتے ہیں۔ سخت اور دشوار مرحلہ ساڑے تین فیصدی کی سطح سے لیکر بیس فیصدی کی سطح تک یورینیم افزودہ کرنے کا ہے۔ ہمارے نوجوانوں نے یہ دشوار راستہ طے کر لیا اور بیس فیصدی کے گریڈ تک یورینیم افزودہ کر لیا اور ایٹمی فیول پلیٹس تیار کر لیں۔ یہ ہماری اہم کامیابی تھی۔ ہم اس اعتماد کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہوئے۔ دباؤ کے سامنے ڈٹ جانے اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کی اسٹریٹیجی رنگ لائی۔ امریکیوں نے اعتراف کیا کہ پابندیاں لا حاصل ہیں۔ جیسا کہ (صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے اپنی تقریر میں) اشارہ کیا، یہ بالکل صحیح تجزیہ ہے۔ امریکی اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ اب پابندیوں سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں۔ وہ کسی اور راستے کی تلاش میں تھے۔ دیکھئے وقت بھی ختم ہوتا جا رہا ہے، لہذا مجھے جلدی جلدی اپنی باتیں عرض کرنی ہیں۔ وہ سمجھ گئے کہ ہم اغیار کی مدد کے بغیر بھی پیشرفتہ ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ترقی کرنے پر قادر ہیں۔ ہم نے بھی اسی سوچ اور فکر کے ساتھ اللہ پر توکل کیا اور مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔ البتہ ہم نے احتیاط کا دامن ہرگز نہیں چھوڑا۔ شروع ہی سے مذاکرات کاروں اور امریکی فریق کو ہم شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ ہمارے جو تجربات تھے، ان کی بنیاد پر ہمیں امریکیوں پر اعتماد نہیں تھا۔ اسی وجہ سے ہم محتاط ہوکر مذاکرات میں شامل ہوئے۔ ہمارا نظریہ یہ تھا کہ اگر یہ لوگ اپنی بات پر قائم رہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے، ہم کچھ مراعات دینے کے لئے تیار تھے۔ یعنی ہمارا یہ اصرار نہیں ہے کہ مذاکرات میں کسی طرح کی کوئی مراعات نہ دی جائیں۔ کسی بھی معاملے کے سلسلے میں کوئی پسپائی نہ کی جائے۔ ہماری یہ ضد نہیں ہے، ہم منطقی اور عقلی دائرے میں مناسب مقدار میں مراعات دینے کے لئے بھی آمادہ تھے۔ لیکن ہمارا مقصد تھا ایک اچھا معاہدہ۔ میں یہیں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ ہم بھی اچھے معاہدے کی بات کرتے ہیں اور امریکی بھی اچھے معاہدے پر زور دیتے ہیں لیکن جب ہم اچھا معاہدہ کہتے ہیں تو ہماری مراد منصفانہ اور عادلانہ معاہدے سے ہوتی ہے، مگر جب وہ اچھا معاہدہ کہتے ہیں تو ان کی مراد ایسا معاہدہ ہوتا ہے کہ جس میں سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق ہو۔ مذاکرات میں ابھی تھوڑی سی پیشرفت ہوئی تھی کہ ان حضرات کے بیجا مطالبات شروع ہو گئے۔ آئے دن ایک نئی بات، کوئی نیا بہانہ۔ چھے مہینہ ایک سال میں تبدیل ہو گیا، یہ مدت اور بھی طویل تر ہو گئی۔ مذاکرات میں نئی نئی شکلیں پیش آنے لگیں، سودے بازی اور حد سے زیادہ مطالبات کی وجہ سے مذاکرات طول پکڑتے گئے۔ انھوں نے دھمکیاں دیں، مزید پابندیاں لگانے کی دھمکی دی، یہاں تک کہ فوجی راستے اختیار کرنے کی دھمکی دی، انھوں نے یہ دھمکیاں دیں۔ میز کے اوپر اور میز کے نیچے (تمام آپشن موجود ہونے) سے متعلق باتیں آپ نے خود سنیں (11)، تاحال یہ رویہ رہا ہے ان صاحبان ہے۔
اس مدت میں جس نے بھی امریکیوں کے مطالبات پیش کرنے کے عمل کا جائزہ لیا ہوگا اور ان کے طرز کلام پر نظر رکھی ہوگی، وہ اس نتیجے پر ضرور پہنچے گا کہ دو اساسی نکات ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ امریکیوں کا اصلی ہدف ایران کی ایٹمی صنعت کو نابود کرنا اور جڑ سے مٹا دینا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے۔ وہ اس مقصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ان کی مرضی یہ ہے کہ ایران کی ایٹمی شناخت ختم ہو جائے۔ بس فقط نام رہ جائے، مندرجات اور مضمون سے خالی ایک سائن بورڈ لٹکا رہ جائے، ایک کارٹون جیسی کوئی چیز باقی بچے۔ ان کا ارادہ یہ ہے کہ ملک کے اندر جو ایٹمی عمل جاری ہے اور جو ایٹمی صنعت چل رہی ہے وہ ان اہداف تک نہ پہنچنے پائے جو اسلامی جمہوری نظام کے مد نظر ہیں۔ ہم نے اعلان کر دیا ہے کہ ایک خاص مدت کے اندر بیس ہزار میگاواٹ ایٹمی بجلی کی پیداوار کی منزل تک ہمیں پہنچنا ہے۔ یہ ملک کی اہم ضرورت ہے۔ بیس ہزار میگاواٹ ایٹمی بجلی ملک کی اہم احتیاج ہے۔ یہ ملک کے متعلقہ اداروں کا ماہرانہ تخمینہ ہے۔ البتہ اس کے ذیل میں بہت سے دیگر مفادات اور دوسری گوناگوں ضروریات کی تکمیل بھی ہوگی۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ نہ ہونے پائے۔ وہ ایک طرف تو اس صنعت کو نابود کر دینا چاہتے ہیں اور دوسری طرف دباؤ بھی بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں؛ ان کا ارادہ پابندیوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کا نہیں ہے۔ دھمکی دیتے ہیں کہ ہم پابندیاں اور بھی بڑھا دیں گے۔ ایک نکتہ تو یہ ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارا فریق مقابل یعنی امریکا کی موجودہ حکومت اور موجودہ انتظامیہ کو اس معاہدے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی قضیئے کہ دوسرا پہلو ہے۔ ان کو اس کی ضرورت ہے۔ اگر وہ اپنے مقصد کی برآری میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ان کی بہت بڑی جیت ہوگی۔ یہ در حقیقت اسلامی انقلاب پر ان کی فتح ہوگی، ایسی قوم پر ان کی فتح کہلائے گی جو خود مختاری کی علمبردار ہے، یہ ایسے ملک پر ان کی فتح ہوگی جو دوسرے ملکوں کے لئے نمونہ عمل بنتا جا رہا ہے۔ امریکی انتظامیہ کو اس معاہدے کی ضرورت ہے۔ ساری بیان بازی، یہ ساری سودے بازی، یہ عہد شکنی، یہ دھوکہ دہی سب کچھ انھیں دو نکات کے گرد چکر کاٹتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہم شروع ہی سے منطقی انداز میں وارد عمل ہوئے، منطقی انداز میں ہم نے بات کی، کوئی بیجا مطالبہ نہیں کیا۔ ہم نے کہا کہ مد مقابل فریق نے ظالمانہ پابندیاں لگائی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ یہ پابندیاں ختم ہوں۔ ظاہر ہے یہ ایک ہاتھ سے لو اور دوسرے ہاتھ سے دو کا معاملہ ہے۔ لہذا اگر اس میدان میں ہمیں بھی کچھ دینا پڑتا ہے تو اس پر ہمیں اعتراض نہیں ہے۔ اس کے عوض ہم بھی کچھ حاصل کریں گے اور نتیجتا پابندیاں ختم ہوں گی، مگر ایٹمی صنعت بند نہیں ہونی چاہئے، اس کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ یہ پہلی بات ہے۔ ہم نے شروع ہی سے یہ بات کہی اور اب تک اس پر قائم ہیں۔ اہم ریڈ لائنیں یہی تھیں جو میں نے عرض کیں۔ ہم نے کچھ چیزوں کو اساسی نکات کے طور پر پیش کیا۔ ان میں سب سے اہم یہی ہیں۔ البتہ ان کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہیں۔
ایک چیز تو یہی ہے کہ ان کا اصرار ہے طویل مدت تک ایٹمی سرگرمیوں کو محدود رکھا جائے۔ مگر ہم نے کہا ہے کہ دس سال اور بارہ سال جیسی مدت ہمیں قبول نہیں ہے۔ دس سال کافی لمبی مدت ہے۔ اس عرصے میں ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے اس میں ہمیں تقریبا دس سال کا وقت لگا ہے۔ بیشک ملک کے اندر ایٹمی صنعت کی تاریخ اس سے کہیں زیادہ طویل ہے، جس کا ذکر بعض اوقات بعض بیانوں اور تقاریر میں دیکھنے میں آتا ہے، لیکن ان شروع کے برسوں میں در حقیقت کوئی کام انجام نہیں پا سکا تھا۔ حالیہ دس پندرہ سال کے اندر ہمارے اساسی اور بنیادی کام انجام پائے ہیں۔ دس سال تک سرگرمیوں کو محدود رکھنے کی شرط ہمیں قبول نہیں ہے۔ کچھ سال کی معینہ مدت سے ہم اتفاق کرتے ہیں، اس کے بارے میں مذاکراتی ٹیم کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ کتنی مدت تک ہم اس محدودیت کو قبول کر سکتے ہیں۔ ہم نے کہہ دیا ہے کہ یہ حضرات دس سال اور بارہ سال تک ایٹمی سرگرمیوں کو محدود رکھنے کی جو باتیں کر رہے ہیں وہ ہمیں قبول نہیں ہے۔
ہم محدودیت کی جو مدت قبول کر رہے ہیں اس کے دوران بھی تحقیق و پیشرفت اور تعمیرات کا کام جاری رہنا چاہئے۔ یہ بھی ایک ریڈ لائن ہے جس پر محترم حکام نے زور دیا ہے اور اعلان کر دیا ہے کہ ہم تحقیق و ترقی سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ انھوں بالکل بجا کہا ہے۔ محدودیت کے ان برسوں میں بھی تحقیق و پیشرفت کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔ وہ لوگ دوسری بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ دس سال بارہ سال یا اس سے بھی زیادہ مدت تک کوئی کام نہ کیجئے۔ اس کے بعد آپ پروڈکشن شروع کیجئے، تعمیرات کا سلسلہ شروع کیجئے! یہ حد درجہ منہ زوری ہے، یہ انتہائی احمقانہ بات ہے۔
ایک اہم نکتہ اور بھی ہے؛ میں بالکل کھل کر یہ بات کہتا ہوں کہ اقتصادی، مالیاتی اور بینکنگ کے شعبے کی جو پابندیاں ہیں، خواہ ان کا تعلق سلامتی کونسل سے ہو، یا وہ امریکی کانگریس سے مربوط ہوں یا پھر ان کا ربط امریکی حکومت سے ہو، ساری کی ساری پابندیاں معاہدے پر دستخط ہوتے ہی فورا منسوخ کی جائیں۔ بقیہ پابندیاں ایک مناسب مدت میں اٹھا لی جائیں۔ پابندیوں کے سلسلے میں امریکی ایک بڑا عجیب و غریب، پیچیدہ اور تہہ در تہہ فارمولا پیش کرتے ہیں جس کی ماہیت واضح نہیں ہے، اس کے نتیجے میں کیا چیز حاصل ہوگی کچھ پتہ نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میں بالکل صاف بات کرتا ہوں۔ سفارتی اصطلاحات سے مجھے کچھ زیادہ واقفیت نہیں ہے۔ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بالکل صاف ہے اور یہی سب ہے جو ہم نے عرض کیا۔ یہ ہمارا موقف ہے۔
ایک اور اساسی نکتہ یہ ہے کہ پابندیوں کی منسوخی ایران کی جانب سے وعدوں پر عملدرآمد سے مشروط نہیں ہے۔ وہ یہ نہ کہیں کہ آپ اراک کے بھاری پانی کے ری ایکٹر کو منہدم کر دیجئے، سنٹری فیوج مشینوں کی فلاں تعداد تک گھٹا دیجئے، یہ کام کیجئے، وہ کام کیجئے، جب آپ نے یہ سارے کام کر لئے، تب آئی اے ای اے اس کی تصدیق کرے گی اور گواہی دے گی کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں اور آپ نے یہ سارے کام کر لئے ہیں، اس کے بعد ہم پابندیوں کو ہٹائیں گے! ہرگز نہیں، ہمیں یہ بالکل قبول نہیں ہے۔ ایران نے جو اقدامات انجام دینے کا وعدہ کیا ہے پابندیوں کا اٹھایا جانا ان کی انجام دہی سے مشروط نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ پابندیوں کی منسوخی کے کچھ اجرائی مراحل ہیں، ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ پابندیوں کی منسوخی سے متعلق اجرائی اقدامات ایران کی جانب سے وعدوں پر عملدرآمد کے اجرائی اقدامات کے ساتھ ساتھ انجام دئے جائیں، ایک طرف کچھ حصے پر عمل ہو تو دوسری جانب بھی اسی طرح عملی اقدام انجام دیا جائے، پھر دوسرے حصے پر عمل ہو تو جوابا دوسری طرف سے بھی کچھ اور اجرائی اقدامات انجام دئے جائیں۔
ایک اور اساسی نکتہ یہ ہے کہ ہم ہر اقدام کو آئی اے ای اے کی رپورٹ پر منحصر کر دئے جانے سے متفق نہیں ہیں۔ آئی اے ای اے پر ہمیں شبہ ہے۔ آئی اے ای اے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ تو خود مختار ادارہ ہے اور نہ ہی انصاف پسند ہے۔ خود مختار یوں نہیں ہے کہ اس پر بڑی طاقتوں کا اثر ہے، منصف نہیں ہے کیونکہ اس نے بارہا انصاف کے خلاف فیصلہ کیا ہے اور عدل کے برخلاف رائے دی ہے۔ اس کے علاوہ یہ جو کہتے ہیں کہ آئي اے ای اے آئے اور اس بات کا اطمینان کرے کہ ملک کے اندر ایٹمی سرگرمیاں انجام نہیں دی جا رہی ہیں تو یہ بھی غیر معقول بات ہے۔ اسے آخر کیسے اطمینان حاصل ہوگا؟ اطمینان حاصل ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا وہ گھر گھر کی تلاشی لیں گے اور اس ملک کی سرزمین کے ایک ایک انچ حصے کا معائنہ کریں گے؟! کیسے اطمینان حاصل ہوگا؟ اس چیز پر منحصر کرنا نہ تو عقل و منطق سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ ہی یہ منصفانہ طریقہ ہے۔
غیر معمولی قسم کے معائنوں سے بھی ہم اتفاق نہیں رکھتے۔ عہدیداروں سے باز پرس کو ہم کسی بھی حالت میں قبول نہیں کریں گے، اس سے ہم ہرگز متفق نہیں ہیں۔ فوجی مراکز کے معائنے کو بھی ہم قبول نہیں کریں گے۔ چنانچہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔ پندرہ سال اور پچیس سال کی مدت جس کے بارے میں وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ فلاں چیز پندرہ سال تک اور فلاں چیز پچیس سال تک، اس طرح کی مدت ہمیں قبول نہیں ہے۔ یہ مدت واضح ہونی چاہئے۔ اس مدت کا ایک آغاز ہے اور ایک اختتام ہے۔
یہ اہم اور بنیادی امور ہیں جن پر ہماری تاکید ہے۔ البتہ ریڈ لائنیں صرف اتنی ہی نہیں ہیں۔ مذاکرات کار ہمارے نظریات سے واقف ہیں، ہم نے انھیں تفصیلات سے آگاہ کر دیا ہے۔ البتہ یہ تفصیلات وہ ہیں جو ہمارے مد نظر ہیں اور جن کے بارے میں ہم بات کرتے ہیں، ورنہ بہت زیادہ جزوی باتوں میں میری مداخلت نہیں ہوتی۔
ہم معاہدہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے عہدیداروں میں کوئی ایسا بھی ہے جو معاہدہ نہیں کرنا چاہتا تو وہ خلاف حقیقت بات کر رہا ہے۔ یہ سب سن لیں! اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیداران؛ یہ حقیر، حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ، گوناگوں سیکورٹی اور فوجی ادارے، سب اس بات پر متفق ہیں اور اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ معاہدہ ہونا چاہئے۔ اسی طرح سب کی اجتماعی رائے ہے کہ معاہدہ آبرومندانہ طریقے سے ہو، اس میں اسلامی جمہوریہ کے مفادات کو پوری توجہ اور احتیاط کے ساتھ ملحوظ رکھا جائے۔ اس میں بھی کسی طرح کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حکومت، پارلیمنٹ، یہ حقیر اور دوسرے عہدیداران سب اس سلسلے میں اتفاق رائے رکھتے ہیں، ہم سب کا موقف ایک ہے۔ معاہدہ منصفانہ ہونا چاہئے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مفادات کی حفاظت کی جانی چاہئے۔
ہم یہ بھی عرض کر دیں کہ ہم پابندیوں کو اٹھوانے اور ختم کروانے کی کوشش میں ہیں۔ مذاکرات سے ہمارا ہدف پابندیوں کی منسوخی ہے۔ ہم پوری سنجیدگی سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ پابندیاں ختم ہوں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم ان پابندیوں کو نعمت اور سنہری موقع بھی سمجھتے ہیں۔ کوئی تعجب سے یہ نہ کہے کہ پابندی کیسے نعمت اور موقع ہو سکتی ہے؟! پابندی جو ایک بری چیز ہے موقع کیسے قرار پا سکتی ہے؟ یہ پابندیاں اس بات کا باعث بنیں کہ ہم اپنی توانائیوں کی جانب توجہ مرکوز کریں۔ یہ پابندیاں اس بات کا باعث بنیں کہ ہم اپنی داخلی توانائیوں پر غور کریں۔ داخلی صلاحیتوں کو تلاش کریں۔ اگر ہر چیز ہم تیل کے پیسے کے ذریعے بیرون ملک سے خرید رہے ہیں تو ہمارے ملک کے لئے یہ بد ترین مصیبت اور بہت بڑی مشکل ہے۔ بد قسمتی سے اسلامی انقلاب سے قبل کے دور سے یہ مشکل ہمارے ملک کے گریباں گیر ہو گئی ہے اور اب بھی ایک حد تک موجود ہے، ہمیں اس چیز کو ختم کرنا ہے۔ ہم نے سائنس و ٹیکنالوجی اور دوسرے مختلف میدانوں میں اپنی داخلی توانائیوں اور صلاحیتوں پر توجہ مرکوز کی۔ ان شاء اللہ معیشت کے سلسلے میں بھی یہی ہوگا۔ تو یہ ہمارے معروضات ہیں ایٹمی مسئلے سے متعلق۔ علاقے کے مسائل کے بارے میں بھی کچھ باتیں میں نے بیان کرنے کے لئے نوٹ کی تھیں، مگر گھڑی دیکھ رہا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ اذان ہو چکی ہے لہذا اب مزید آپ کو زحمت نہیں دوں گا۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ ہم نے جو کچھ کہا اور سنا اسے اپنی راہ میں اور اپنے بندوں کی خدمت میں قرار دے۔ ہماری نیتوں کو خالص بنا۔ پروردگارا! ہمارے حکام پر، مصروف کار افراد پر، جن کا تعلق حکومت سے یا پارلیمنٹ سے، یا عدلیہ سے یا مسلح فورسز سے ہے، اپنی توفیقات نازل فرما! انھیں اپنی ہدایت و اعانت سے بہرہ مند فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین حسن روحانی نے اپنی تقریر میں کچھ نکات بیان کئے۔
۲) سوره‌ سبأ، آیت نمبر 3 کا ایک حصہ
۳) مصباح المتهجّد، جلد ۲، صفحہ ۵۹۳
۴) سوره‌ واقعه، آیت نمبر ۸۵؛ «اور ہم اس جاں کنی کی کیفیت سے روبرو شخص کے تم سے زیادہ قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے۔»
۵) سوره‌ عبس، آیت نمبر ۳۷ الی ۴۱
۶) سوره‌ طلاق، آیت نمبر 2 اور 3 کا ایک حصہ «[اللہ] اس کے لئے نجات کا راستہ قرار دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی پہنچاتا ہے جس کے بارے میں اس نے نہیں سوچا تھا۔»
۷) منجملہ مشہد مقدس میں حرم امام رضا علیہ السلام میں زائرین اور خدام سے خطاب مورخہ 21 مارچ 2015
۸) اسلامی نظام کے اعلی حکام سے خطاب بتاریخ 7 جولائی 2014
۹) مشہد مقدس میں حرم امام رضا علیہ السلام میں زائرین اور خدام سے خطاب مورخہ 21 مارچ 2015
۱۰) یوم فضائیہ کے موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں سے خطاب مورخہ 8 فروری 2015
۱۱) اس جملے پر حاضرین بے ساختہ ہنس پڑے۔