قائد انقلاب اسلامی نے ایٹمی مذاکرات کے نتائج سے غلط فائدہ اٹھانے اور ایران میں سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی اثر و رسوخ قائم کرنے کی امریکی کوششوں کا سنجیدگی سے مقابلہ کئے جانے کا حوالہ دیا اور فرمایا: علاقے میں سامراج کے منصوبے تفرقہ انگیزی اور اپنا اثر قائم کرنے جیسے دو ستونوں پر استوار ہیں، چنانچہ صحیح دفاعی اور اقدامی منصوبوں کے ذریعے ہوشیاری سے اس کا دائمی طور پر مقابلہ کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اہل بیت (علیہم السلام) عالمی اسمبلی کے چھٹے اجلاس کے انعقاد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اہل بیت پیغمبر صلوات اللہ اجمعین کے اتباع کا لازمہ اسلامی تعلیمات کی ترویج، احکام الہیہ کا نفاذ، پورے وجود سے راہ خدا میں جدوجہد اور ظلم و ظالم کا مقابلہ کرنا ہے۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ راہ خدا میں جہاد کے معنی صرف جنگ کرنا نہیں ہے بلکہ اس میں ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی مقابلہ آرائی بھی شامل ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ آج راہ خدا میں جہاد کا عینی مصداق، اسلامی خطے اور خاص طور پر مغربی ایشیا کے حساس اور اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل علاقے میں استکبار کی سازشوں کی شناخت اور اس کے مقابلے کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہے اور اس مقابلہ آرائی میں دفاعی اور اقدامی دونوں منصوبے شامل ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی پالیسیوں کو اس علاقے کے سلسلے میں امریکی پالیسیوں سے بالکل مختلف قرار دیا اور فرمایا کہ امریکی، علاقے کے ملکوں کی تقسیم اور چھوٹے چھوٹے تابعدار ممالک کی تشکیل کی کوشش میں ہیں، لیکن اللہ کی نصرت و مدد رہی تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکا اور اختلافات کو ہوا دینے والے مراکز کی تفرقہ انگیز پالیسیوں کے مقابلے کو ایران کی بنیادی حکمت عملی قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ ہم اس تشیع کو جس کا تشہیراتی مرکز اور ٹھکانا لندن ہے اور جو استکبار کا راستہ صاف کرنے کا کام کرتا ہے، سرے سے تشیع ہی نہیں مانتے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے تمام مظلومین منجملہ بحرین اور یمن کے عوام کی حمایت و پشت پناہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جو بے بنیاد دعوے کئے جاتے ہیں ان کے بالکل برخلاف ہم ان ملکوں میں کوئی مداخلت نہیں کر رہے ہیں، لیکن مظلوم عوام کی حمایت ہم جاری رکھیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
الحمد للَّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

خوش آمدید کہتا ہوں تمام حاضرین محترم کو، برادران و خواہران گرامی کو، اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کو بھی جو اہل بیت (علیہم السلام) عالمی اسمبلی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان بھائیوں اور بہنوں کو بھی جن کا تعلق اسلامی ملکوں کی ریڈیو او ٹی وی نشریات کی یونین سے ہے۔ اسی طرح یہاں تشریف فرما شہدا کے اہل خانہ کا بھی خیر مقدم کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ سب کے لئے رحمت و برکت کی دعا کرتا ہوں۔
اہل بیت عالمی اسمبلی کے بارے میں اور ریڈیو او ٹی وی نشریات کی یونین سے متعلق کچھ نکتے آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اہل بیت عالمی اسمبلی کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی ساری اہمیت اہل بیت علیہم السلام سے اس کی نسبت کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے اہل بیت اطہار علیہم السلام کے بارے میں قرآن کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ ایک 'بیان' رکھا ہے۔ اتنی صراحت کسی اور جماعت کے بارے میں کوئی بیان نظر نہیں آتا۔ وہ بیان یہ ہے؛ اِنَّما یُریدُ اللهُ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ البَیتِ وَ یُطَهِّرَکُم تَطهیرًا (۱) اہل بیت کی شناخت اور تعارف ان کی طہارت اور ان کے سلسلے میں تطہیر خداوندی ہے۔ اس تطہیر کے مختلف پہلو ہیں۔ اگر کوئی گروہ اور جماعت خود کو اہل بیت علیہم السلام سے منسوب سمجھتی ہے تو اسے کچھ لوازمات کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ یہ ہمارا نظریہ ہے۔ کچھ لوازمات ہیں جن کا التزام ضروری ہے۔ ائمہ علیہم السلام نے کچھ اہداف کے لئے جدوجہد فرمائی ہے۔ پہلا ہدف ہے اسلام کی حقیقی تعلیمات، اسلامی اصولوں اور بنیادوں کو زندہ رکھنا۔ ان کو زندہ رکھنے کے لئے ان ہستیوں نے مجاہدت کی۔ ظالم حکومتوں اور امت میں پیدا ہونے والی طاغوتی طاقتوں کی یہ کوشش تھی کہ اسلامی تعلیمات یا تو مٹ جائیں، یا بدل جائیں اور ان میں تحریف ہو جائے۔ ائمہ علیہم السلام نے جو اقدامات انجام دئے ان اقدامات کا ایک اہم ترین سلسلہ انھیں کوششوں کے مقابلے سے متعلق تھا۔ تو اسلامی تعلیمات کی حفاظت اور اسلامی تعلیمات کا احیاء۔
ائمہ علیہم السلام کے مشن کا ایک اور اہم باب احکام الہیہ کا قیام و نفاذ تھا۔ احکام الہیہ کو رائج اور نافذ کرنے کی کوشش اس زمانے میں بھی کی جب حکومت ان کے ہاتھ میں رہی اور اس زمانے میں بھی یہ کوشش جاری رکھی جب انھیں حکومت سے دور رکھا گیا۔ ان کی پوری کوشش اس ہدف پر مرکوز رہتی تھی کہ سماج میں اسلامی احکام پر عمل ہو۔ ائمہ علیہم السلام کا ایک اور اہم کام راہ خدا میں جہاد تھا۔ آپ ائمہ علیہم السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں؛ أشهَدُ أنّکَ جاهَدتَ فِی‌اللهِ حَقَّ جِهادِه۔( میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے راہ خدا میں اس طرح جہاد کیا جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے۔) حق جہاد کا مطلب یہ ہوا کہ راہ خدا میں ان کے جہاد میں کہیں کوئی خامی اور کمی نہیں تھی۔ انھوں نے اپنے پورے وجود سے، اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاکر، اپنی تمام تر صلاحیتوں کی مدد سے راہ خدا میں جہاد کیا۔
اس مجاہدت کا ایک اہم حصہ جو اپنے آپ میں مکمل ایک باب ہے، ظلم سے جنگ اور ظالم سے پیکار رہا ہے۔ ائمہ علیہم السلام کی پوری زندگی شروع سے آخر تک ظالمین کے خلاف جدوجہد اور ظلم سے جنگ کا آئینہ ہے۔ ان کے ساتھ جو سختیاں برتی گئیں، زہر خورانی کے جو اقدامات ہوئے اور انھیں جو شہید کیا گیا، وہ سب کچھ اسی وجہ سے تھا کہ وہ ظلم اور ظالم کے خلاف محور پیکار بنے رہتے تھے۔ یہ ہے ائمہ علیہم السلام کی زندگی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان اوصاف کے حامل اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار بنیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان چیزوں کو مد نظر رکھیں! ہمیں چاہئے کہ اسلامی تعلیمات کی ترویج کریں، ہمیں چاہئے کہ احکام الہیہ کے نفاذ کو اپنے اہداف کا جز سمجھیں۔ ہمیں چاہئے کہ راہ خدا میں اپنے پورے وجود سے جہاد کریں، ظلم سے لڑیں، ظالم کا مقابلہ کریں، جنگ کریں! یہ ہمارا فریضہ ہے۔ مجاہدت صرف عسکری مقابلہ آرائی کا نام نہیں ہے۔ مجاہدت میں مختلف طرح کی مقابلہ آرائیاں شامل ہیں، اس میں ثقافتی جدوجہد سے لیکر سیاسی اور اقتصادی پیکار تک گوناگوں مقابلے شامل ہیں۔ سب کو مجاہدت کہا جاتا ہے۔ ذہن صرف فوجی جنگ کی طرف نہ جائے۔ کبھی ممکن ہے کہ فوجی مقابلہ آرائی کا موقع بھی آ جائے لیکن جہاد کی صرف یہی ایک قسم نہیں ہے۔
آج ہماری نظر میں جہاد کا اہم مصداق جو ہم مسلمانوں کے سامنے اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے سامنے موجود ہے، اسلامی علاقوں میں استکبار کی سازشوں کے خلاف پیکار ہے۔ آج سب سے بڑا جہاد یہی ہے۔ سامراج کے منصوبوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ان منصوبوں کو پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کی چیرہ دستیوں کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ دشمن کیا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد ہمیں چاہئے کہ بیٹھیں، منصوبہ بندی کریں اور دشمن کے منصوبوں کے خلاف محاذ کھولیں۔ صرف دفاعی پوزیشن میں نہیں رہنا ہے۔ جہاد میں دفاع اور اقدامی کارروائی دونوں ہوتی ہے۔ کبھی ضرورت ہوتی ہے کہ انسان دفاعی حالت میں آ جائے اور کبھی ضروری ہوتا ہے کہ بڑھ کے حملہ کرے۔ دونوں ہی حالتوں میں ہدف استکبار کے منصوبوں کے خلاف لڑنا ہے، جو اس علاقے میں بھی اور تمام مسلم علاقوں میں بھی خاص طور پر مغربی ایشیا کے اس خطے میں، ہمارا سب سے بڑا اور اصلی دشمن ہے۔ مغربی ایشیا کا یہی علاقہ جس کے بارے میں یورپیوں کا اصرار یہ ہے کہ اسے مشرق وسطی کہا جائے۔ یعنی وہ یورپ کو بنیاد قرار دیکر مشرق کو ماپنا چاہتے ہیں؛ اس طرح کوئی جگہ مشرق بعید قرار دے دی جاتی ہے، کوئی جگہ مشرق وسطی بن جاتی ہے، کوئی جگہ مشرق قریب ہے۔ آپ یورپیوں کا یہ تکبر تو دیکھئے۔ شروع ہی سے اس خطے کا نام مشرق وسطی رکھ دیا گیا۔ مشرق وسطی غلط نام ہے۔ یہ علاقہ مغربی ایشیا ہے۔ ایشیا بہت بڑا براعظم ہے۔ ہم مغربی ایشیا میں واقع ہیں۔ یہ علاقہ بڑا حساس علاقہ ہے۔ یہ علاقہ اسٹریٹیجک پہلو سے بہت اہم ہے، عسکری زاوئے سے بھی بہت اہم ہے، زیر زمین ذخائر کے اعتبار سے بھی بہت اہم ہے، تین بر اعظموں یعنی ایشیا، یورپ اور افریقا کا رابطہ پل ہونے کے اعتبار سے بھی بیحد اہم ہے۔ یہ بڑا اہم علاقہ ہے۔ اس علاقے کے بارے میں انھوں نے منصوبے بنا رکھے ہیں، سازشیں تیار کر رکھی ہیں۔ ہمیں ان منصوبوں کی تہہ تک پہنچنا چاہئے، اسے سمجھنا چاہئے اور اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اسے کہتے ہیں مجاہدت۔ قرآن کہتا ہے؛ جٰهِدوا فِی اللهِ حَقَّ جِهادِه (۲)۔ آج جہاد فی سبیل اللہ یہی ہے۔
دنیائے اسلام کے خلاف اور اس علاقے کے خلاف سازش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ برسوں پہلے، سو سال قبل، پہلی عالمی جنگ کے وقت سے ہی یہ علاقہ سامراجی طاقتوں کے شدید دباؤ کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ ایک زمانے میں برطانیہ تھا، آج امریکا ہے، ایک وقت تھا کہ جب فرانس تھا۔ سو سال یا اس سے بھی زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے کہ استکباری طاقتیں اس علاقے میں ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ مگر ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ان سازشوں میں اور بھی شدت آ گئی۔ کیونکہ ایران جیسے انتہائی اہم، حساس اور بڑے ملک میں اسلام کی کامیابی کا واقعہ استکبار کو بوکھلا دینے والا تھا۔ شروع میں تو ان کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا؟! ہم حالات پر نظر رکھتے تھے اور دیکھتے تھے۔ شروع میں وہ سراسیمہ تھے۔ جب انھیں ہوش آیا تو پھر انھوں نے دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ اس دباؤ کا نشانہ اسلامی جمہوریہ ایران تھا۔ ان کی پہلی کوشش تو یہ تھی کہ یہ تجربہ دیگر ملکوں میں دہرایا نہ جائے، وہ اس کوشش میں تھے۔ اسی لئے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جائے۔ 35 سال سے ہم دشمن کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ملت ایران دباؤ، سختیوں، دھمکیوں، پابندیوں، سیکورٹی سے متعلق دباؤ اور گوناگوں سیاسی سازشوں کا سامنا کر رہی ہے۔ ہم 35 سال سے طرح طرح کے دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے دور میں ہوا۔ مگر جب اسلامی بیداری کی لہر اٹھی، چار پانچ سال پہلے شمالی افریقا سے اس کا آغاز ہوا، مصر تیونس اور بعض دیگر جگہوں پر یہ لہر نمودار ہوئی تو دشمنوں کی کارروائیاں تیز تر ہو گئیں۔ یعنی حقیقت میں دشمن پر اضطراب طاری ہو گیا، وہ مبہوت ہوکر رہ گیا۔ دشمنوں نے متعدد اقدامات انجام دئے اور اب بھی انجام دے رہے ہیں۔ اب وہ اس گمان میں ہیں کہ اسلامی بیداری کی لہر کو انھوں نے کچل دیا ہے۔ لیکن اس حقیر کا نظریہ یہ ہے کہ اسلامی بیداری کی لہر کو کچلنا ناممکن ہے۔ بیشک انھوں نے کچھ اقدامات انجام دے دئے ہیں، مگر اسلامی بیداری کی تحریک اب بھی موجود ہے۔ کبھی نہ کبھی یہ تحریک اپنا صحیح راستہ تلاش کر ہی لیگی۔ ان گزشتہ برسوں میں انھوں نے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں، انھوں نے بہت سے اقدامات انجام دئے اور نئے مہروں کو میدان میں اتار دیا ہے۔
سب سے پہلے تو میں یہ واضح کر دوں کہ جب ہم دشمن کی بات کرتے ہیں تو یہ کسی خیالی اور تصوراتی چیز کی جانب اشارہ نہیں ہے۔ دشمن سے ہماری مراد استکباری نظام ہے۔ یعنی استکباری قوتیں۔ وہ قوتیں جن کی زندگی کا انحصار دوسروں پر تسلط قائم رکھنے پر ہے، دوسروں کے امور میں دخل اندازی جاری رکھنے پر ہے، دوسروں کے مالیاتی اور دیگر حیاتی وسائل کو اپنے قبضے میں رکھنے پر ہے۔ یہ استکباری طاقتیں ہیں۔ یا دوسرے الفاظ میں کہا جائے کہ سامراجی نظام کے عمائدین۔ تسلط پسندانہ نظام کے جو عمائدین ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں۔ اگر اس کا خارجی مصداق ہم معین کرنا چاہیں تو وہ ریاستہائے متحدہ امریکا ہے۔ توسیع پسندانہ نظام کی مظہر کامل امریکی حکومت ہے۔ اور بھی کچھ حکومتیں ہیں لیکن سب سے واضح، سب سے نمایاں اور عینی مصداق ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت ہے جو انسانی اخلاقیات سے بالکل بے بہرہ ہے۔ مجرمانہ کارروائیوں میں، کسی بھی قسم کی مجرمانہ کارروائی میں اسے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ وہ ان جرائم کو، اس وحشی پنے کو بڑے آرام سے کچھ خاص الفاظ، بڑے اچھے اور پرکشش کلمات کے پردے میں چھپا لیتی ہے۔ اس کا مظہر یہ حکومت ہے۔ بنابریں جب ہم دشمن کی بات کرتے ہیں تو مراد یہ ہوتی ہے۔
اس علاقے میں دشمن کی سازش دو بنیادوں پر استوار ہے۔ البتہ اس کے بہت سے پہلو ہیں لیکن دو پہلو بہت بنیادی ہیں۔ ایک ہے اختلافات کی آگ بھڑکانا اور دوسرے اثر و رسوخ بڑھانا۔ یہ اس علاقے میں دشمن کی سازش کی بنیادیں ہیں؛ اختلاف پیدا کرنا، حکومتوں کے درمیان اختلاف، پھر قوموں کے درمیان اختلاف جو حکومتوں کے اختلاف سے زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔ یعنی قوموں کو ایک دوسرے کی نسبت بدگمانی میں مبتلا کر دیتے ہیں، نفرتوں کو ہوا دیتے ہیں۔ الگ الگ ناموں سے یہ کام کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں 'پین ایرانزم'، 'پین عربزم'، 'پین ترکزم' وغیرہ کی باتیں تھیں۔ پھر شیعہ، سنی اور تکفیری وغیرہ کا مسئلہ اٹھا۔ جس طرح بھی ممکن ہو اختلاف بھڑکاتے ہیں۔ یہ ان کے اقدامات کی ایک مثال ہے جس پر وہ بڑی تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ ویسے اس کام کے ماہر تو برطانوی تھے۔ مذہبی تنازعے کھڑے کرنے میں وہ خاص مہارت رکھتے ہیں، امریکیوں نے بھی یہ فن انھیں سے سیکھا ہے اور آج اس کام پر اپنی پوری توانائی صرف کر رہے ہیں۔ یہ تکفیری گروہ جو آپ دیکھ رہے ہیں، یہ سب انھیں کے ایجاد کردہ ہیں۔ ہم کئی سال پہلے سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کو ہماری اس بات میں شبہ تھا۔ مگر آج خود امریکی یہ اعتراف کر ہے ہیں۔ وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ داعش کو انھوں نے تشکیل دیا ہے۔ وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ النصرہ فرنٹ کو انھوں نے ہی ایجاد کیا ہے۔ تکفیریوں کی تشکیل انھوں نے ہی کی ہے۔ انھوں نے خود بنایا ہے۔ اب کچھ سچے مگر سادہ لوح مسلمان بھی ان کے فریب میں آ گئے ہیں، یہ سب سے اہم چیز ہے۔ جو چیز ہمارے لئے بڑی عبرت آموز ہے اور جس پر ہمیں بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ کبھی کبھی نیک نیت رکھنے والے افراد بھی بے بصیرتی کی وجہ سے، دشمن کے منصوبے کے مطابق کام کرنے لگتے ہیں۔ یہی ہوا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال شام کی ہے۔ جب تیونس میں اور مصر میں اسلامی نعروں کی گونج سے طاغوتی حکومتیں گر گئیں تو فی الفور امریکیوں نے اور اسرائیل کے آلہ کاروں نے مزاحمتی حکومتوں اور مزاحمتی ملکوں کو نابود کرنے کے لئے یہی فارمولا استعمال کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ وہ شام کی طرف بڑھے۔ بصیرت سے عاری کچھ سادہ لوح مسلمان اس منصوبے کا جز بن گئے اور شام کی ایسی درگت کر دی کہ آج آپ چار پانچ سال سے دیکھ رہے ہیں کہ ملک تلاطم میں مبتلا ہے اور کچھ نہیں معلوم کہ کب تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ یہ کام دشمن نے کیا اور کچھ سادہ لوح مسلمان دشمن کے منصوبے کا حصہ بن گئے اور اس کے بچھائے جال کی تکمیل کا کام انھوں نے کیا۔ یہ چیز بہت سے مواقع پر دیکھنے میں آتی ہے۔ تکفیری تنظیموں کی تشکیل انھوں نے ہی کی۔ گستاخ، خونخوار اور بے رحم تنظیموں کی تشکیل انھیں کے ہاتھوں ہوئی اور پھر یہی تنظیمیں امت مسلمہ کی جان کو آ گئی ہیں۔ اسے وہ مذہبی جنگ کا نام دیتے ہیں۔ میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ آج آپ عراق میں، شام میں اور دیگر جگہوں پر جو تنازعات دیکھ رہے ہیں اور جنھیں فرقہ وارانہ جنگ کا نام دیا جا رہا ہے، یہ فرقہ وارانہ جنگ نہیں ہے۔ یہ سیاسی تصادم ہے۔ یمن میں جاری جنگ، سیاسی تصادم ہے۔ اسے شیعہ سنی جھگڑے کا نام دینا غلط ہے۔ یہ شیعہ سنی جنگ نہیں ہے۔ یمن پر سعودی عرب کی بمباری کے نتیجے میں جو عورتیں، بچے اور شیر خوار قتل ہو رہے ہیں، جو اسپتالوں اور اسکولوں سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں ان میں کچھ تعداد شافعی مسلک افراد کی ہے، کچھ لوگ زیدی ہیں۔ تو یہ شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ سیاسی مفادات کا جھگڑا ہے، یہ سیاست کی لڑائی ہے۔
علاقے میں انھوں نے اس طرح کے حالات پیدا کر دئے ہیں۔ اختلافات کے شعلے بھڑکا دئے ہیں۔ یہ کوشش ہونی چاہئے کہ اختلافات کی آگ ٹھنڈی ہو۔ ہم نے اعلانیہ طور پر صریحی انداز میں سب سے کہا ہے کہ؛ ہم علاقے کی تمام مسلم حکومتوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ مسلم حکومتوں سے ہمیں کوئی مشکل نہیں ہے۔ بہت سے ہمسایہ ممالک بلکہ اکثر ہمسایہ ملکوں سے ہمارے روابط برادرانہ اور دوستانہ ہیں۔ شمال میں، جنوب میں، مغرب میں اور مشرق میں جو ممالک اسلامی جمہوریہ ایران کے اطراف میں واقع ہیں، ان کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ البتہ بعض کے ساتھ تھوڑا بہت اختلاف بھی ہے اور وہ اڑیل رویہ اختیار کرتے ہیں، خباثت کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہ بھی ہو رہا ہے۔ لیکن بہرحال ہمارا عزم ہمسایہ ملکوں سے، حکومتوں سے اور خاص طور پر قوموں سے، اچھے روابط رکھنے کا ہے۔ قوموں سے ہمارے ملک کے تعلقات اچھے ہیں۔
البتہ ہم اپنے اصولوں کے پابند رہنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اصولوں کی پاسبانی کی جانی چاہئے۔ ہمارے عظیم قائد (امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اصولوں کی پابندی کی برکت سے اسلامی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے، اسے محفوظ رکھنے اور اسلامی جمہوریہ کو ثبات عطا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ اصولوں کے پابند تھے۔ ایک اصول ہے؛ «اَشِدّآءُ عَلَی الکُفّارِ رُحَمآءُ بَینَهُم» (۳)۔ ہم دشمنوں سے، استکباری طاقتوں سے آشتی کے قائل نہیں ہیں اور مسلم بھائیوں سے دشمنی و عداوت نہیں چاہتے۔ ان سے ہم دوستی و صداقت و اخوت کے خواہشمند ہیں۔ کیونکہ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ کفار کے سلسلے میں سختگیر اور آپس میں رحمدل ہونا چاہئے۔ یہ ہمارے عظیم قائد امام خمینی کا درس ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی مسلمہ پالیسی ہے۔ ہم مظلوم کی حمایت کے معاملے میں اس کے مسلک و مذہب کو نہیں دیکھتے۔ ہم نے کبھی اسے بنیاد نہیں بنایا۔ یہی امام خمینی کی روش تھی۔ امام خمینی لبنان میں شیعہ مزاحمتی تحریک کے سلسلے میں جو فکر رکھتے تھے وہی برتاؤ فلسطین کی سنی مزاحتمی تحریک سے کرتے تھے۔ کوئی فرق نہیں تھا۔ ہم نے لبنان میں اپنے بھائیوں کی جو مدد و حمایت کی، وہی مدد غزہ میں بھی اپنے بھائیوں کو فراہم کی۔ بغیر کسی فرق اور امتیاز کے۔ وہ سنی ہیں، یہ شیعہ ہیں۔ ہمارا ہدف اسلامی تشخص کی حمایت و دفاع کرنا ہے، مظلوم کی مدد کرنا ہے، مسئلہ فلسطین کی مدد کرنا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے علاقائی مسائل میں سب سے اہم مسئلہ بحران فلسطین ہے۔ یہ ہمارے لئے کلیدی مسئلہ ہے۔ اسی طرح ہماری دشمنی میں بھی اس طرح کے فرق نہیں ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے محمد رضا پہلوی کے خلاف بھی، جو ظاہری طور پر شیعہ تھا، وہی جدوجہد کی جو جدوجہد صدام حسین کے خلاف کی، جو ظاہری طور پر سنی تھا۔ البتہ حقیقت میں دیکھا جائے تو نہ محمد رضا پہلوی شیعہ تھا اور نہ صدام حسین سنی تھا۔ دونوں ہی اسلام سے بیگانہ تھے۔ مگر ظاہری طور پر یہ سنی تھا اور وہ شیعہ تھا۔ امام خمینی نے ان دونوں سے یکساں انداز میں جہاد کیا۔ تو یہ شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ اسلام کے اصولوں کا معاملہ ہے۔؛ کونوا لِلظّالِمِ خَصمًا وَ لِلمَظلُومِ عَونًا (۴) یہ اسلام کا حکم ہے۔ یہ ہمارا راستہ ہے، یہ ہماری سمت و جہت ہے۔
دنیائے اسلام میں اختلافات کو ہوا دینا ممنوع ہے۔ بعض شیعہ جماعتیں اپنے اقدامات سے اختلاف کی جو آگ بھڑکاتی ہیں، ہم اس کے خلاف ہیں۔ ہم نے صریحی طور پر اعلان کر دیا ہے کہ اہل سنت کے مقدسات کی توہین کے ہم خلاف ہیں۔ کچھ لوگ ایک طرف سے اور کچھ دوسرے لوگ دوسری جانب سے دشمنی کی آگ پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں، اس میں اور شدت پیدا کرتے ہیں۔ ان میں بہت سے افراد کی نیت صاف ہے، لیکن بصیرت کا فقدان ہے۔ بصیرت بہت ضروری ہے۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ دشمن کی سازش کیا ہے۔
دشمن کی سازش کا سب سے پہلا باب اختلافات کی آگ کو ہوا دینا ہے۔ دشمن چاہتے ہیں کہ اسلامی ملکوں میں، اس علاقے کے ملکوں میں ایسا اثر و رسوخ پیدا کر لیں جو دسیوں سال تک قائم رہے۔ آج اس علاقے میں امریکا کی ماضی جیسی عزت نہیں رہ گئی ہے۔ امریکی اپنی اسی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ہمارے وطن عزیز کے اندر بھی وہ یہی کرنے کے خواہاں ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی وہ یہی کرنا چاہتے ہیں۔ ایران کے سلسلے میں بھی ان کی یہی نیت ہے۔ وہ بخیال خویش ایٹمی مذاکرات میں اور اس اتفاق رائے کے ذریعے جس کا مستقبل ابھی واضح نہیں ہے، نہ امریکا میں اور نہ ہی ہمارے یہاں ابھی یہ پتہ نہیں ہے کہ اسے قبول کیا جائے گا یا مسترد کر دیا جائے گا، ان کا ارادہ یہ تھا کہ ان مذاکرات کو اور اس معاہدے کو وطن عزیز کے اندر پاؤں جمانے کا ذریعہ بنائیں۔ ہم نے یہ راستہ بند کر دیا اور آگے بھی سختی کے ساتھ اس کا سد باب کرتے رہیں گے۔ ہم اپنے ملک میں امریکا کو نہ تو اقتصادی رسوخ قائم کرنے دیں گے، نہ سیاسی اثر پیدا کرنے کا موقع دیں گے، نہ سیاسی دخل اندازی کی اجازت دیں گے، نہ ثقافتی غلبہ حاصل کرنے کا موقع دیں گے۔ اپنی پوری توانائی سے جو بحمد اللہ آج کافی زیادہ ہے، ہم مقابلہ کریں گے اور اجازت نہیں دیں گے۔
علاقے کے سلسلے میں بھی ان کا یہی منصوبہ ہے۔ وہ علاقے میں اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے لئے جگہ بنانا چاہتے ہیں۔ علاقے میں وہ اپنے خاص مفادات کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔ اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے ہم جہاں تک ممکن ہوا، ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ علاقے میں ہماری پالیسیاں امریکی پالیسیوں کے عین مخالف سمت میں ہیں۔ علاقے کے ملکوں کی ارضی سالمیت ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ عراق کی ارضی سالمیت اور شام کی ارضی سالمیت ہمارے لئے حد درجہ اہمیت رکھتی ہے۔ مگر وہ تقسیم کے لئے کوشاں ہیں۔ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ امریکی عراق کو تقسیم کر دینا چاہتے ہیں۔ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو شام کو بھی تقسیم کر دیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مطیع فرمان رہنے والے چھوٹے چھوٹے ممالک تشکیل دئے جائیں۔ اللہ نے چاہا تو یہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ہم علاقے میں اسلامی مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں۔ فلسطین کی مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں۔ امت اسلامیہ کی تاریخ کا ایک انتہائی نمایاں اور اہم باب فلسطین کی مزاحمت ہے۔ جو بھی اسرائیل کا مقابلہ کرے، صیہونی حکومت پر حملہ کرے اور اسلامی مزاحمت کی مدد کرے، ہم اس کی حمایت کریں گے، اس کی پشت پناہی کریں گے۔ ہر طرح کی حمایت کریں گے جو ہمارے امکان میں ہو۔ صیہونی حکومت سے لڑنے والے ہر شخص کی جس طرح بھی ممکن ہے ہم حمایت کریں گے۔ اسلامی مزاحمت کی حمایت کریں گے، ملکوں کی ارضی سالمیت کی حمایت کریں گے۔ امریکا کی تفرقہ انگیز پالیسیوں کا مقابلہ کرنے والے تمام افراد کی حمایت کریں گے۔ جو بھی تفرقہ انگیزی کرے ہم اس کے خلاف ہیں۔ وہ تشیع جس کی تشہیراتی مہم کا مرکز اور ٹھکانہ لندن ہے، ہم اسے قبول نہیں کرتے۔ یہ وہ تشیع نہیں ہے جس کی ترویج ائمہ علیہم السلام نے فرمائی اور جس کا حکم دیا۔ جس تشیع کی بنیاد ہے اختلاف ڈالنا اور دشمنان اسلام کی دراندازی کے لئے راستہ ہموار کرنا، وہ تشیع نہیں ہے۔ یہ سراسر انحراف ہے۔ تشیع حقیقی اور خالص اسلام کا مظہر و آئینہ ہے، قرآن کا آئینہ ہے۔ ہم اتحاد بین المسلمین کو تقویت پہنچانے والوں کے حامی ہیں، اتحاد کے خلاف کام کرنے والوں کے ہم مخالف ہیں۔ ہم تمام مظلومین کا دفاع کرتے ہیں۔ اس طرح کی باتوں سے جو کہی جاتی ہیں کہ آپ تو بحرین وغیرہ کے معاملات میں دخل اندازی کر رہے ہیں! ہم میدان سے باہر نکلنے والے نہیں ہیں۔ ہم نے کوئی دخل اندازی نہیں کی ہے، لیکن ان کی حمایت کرتے ہیں۔ بحرین کے مظلوم عوام کے لئے اور یمن کے مظلوم عوام کے لئے ہمارا دل جلتا ہے، ہم ان کے لئے دعا کرتے ہیں، جیسے بھی ممکن ہو ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ آج واقعی یمن کے عوام اور یمنی قوم بہت مظلوم ہے۔ ایک ملک کو استکباری اہداف اور سیاسی مفادات کی خاطر مسمار کر رہے ہیں، بڑے احمقانہ انداز میں۔ سیاسی مفادات کی تکمیل دوسرے راستوں سے بھی ہو سکتی ہے۔ یہ لوگ اپنے سیاسی اہداف حماقت آمیز انداز میں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے لئے یمن کے واقعات بڑے دردناک ہیں، اسی طرح عالم اسلام میں، پاکستان میں، افغانستان میں اور دوسری جگہوں پر رونما ہونے والے دوسرے بھی واقعات واقعی بڑے المناک ہیں۔ عالم اسلام کو چاہئے کہ بیداری و بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان مسائل کو حل کرے۔
ریڈیو اور ٹی وی نشریات کی اس یونین کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ یونین بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ کام جو آپ نے شروع کیا یعنی یہ یونین جو تشکیل دی، یہ بہت بڑا کام ہے۔ آپ دیکھئے کہ آج مسلم ممالک میں کم از کم ستر فیصدی یا اسی فیصدی عوام دینی اصولوں اور عقائد کے پابند ہیں۔ آپ اسلامی ملکوں کے حالات کا جائزہ لیجئے، عوام آپ کو دیندار نظر آئیں گے، لوگ اپنے دین کو پسند کرتے ہیں۔ یہ ریڈیو اور ٹی وی نشریات جنھیں عوام کی منشا کی نمائندگی کرنا چاہئے، اسلامی ملکوں میں کس حد تک دین کی پابندی کا مظاہرہ کرتی ہیں؟ دونوں کے درمیان موجود فاصلہ بڑا عجیب ہے۔ یہ بہت بڑی خلیج ہے۔ 70 فیصد عوام، 80 فیصد عوام دینی رجحان رکھتے ہیں، لیکن انھیں ملکوں میں ریڈیو اور ٹی وی نشریات دینی سمت میں آگے نہ بڑھیں اور عوام کی مرضی و منشا کی عکاسی نہ کریں تو یہ بڑی حیرت کی بات ہے۔ یہ نشریات بھی وہی چیزیں دکھاتی اور پیش کرتی ہیں جو استکبار کے خطرناک ذرائع ابلاغ کی منشا ہوتی ہے۔ استکبار کے پاس آج ذرائع ابلاغ کا بہت وسیع سامراج ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق خبروں میں تحریف کر لیتے ہیں، حقائق کو چھپا دیتے ہیں، جھوٹی باتیں پھیلاتے ہیں، اپنی پالیسیوں کو اس طرح لوگوں کے ذہنوں میں ڈالتے ہیں۔ اوپر سے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہم تو غیر جانبدار ہیں! برطانیہ کا ریڈیو دعوی کرتا ہے کہ ہم غیر جانبدار ہیں۔ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ کیسی غیر جانبداری؟ یہ ادارے استعماری اور استکباری پالیسیوں سے پوری ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ خواہ وہ امریکی پالیسیاں ہوں، یا برطانوی پالیسیاں ہوں، خواہ وہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، نیوز ایجنسیاں ہوں یا وہ عجیب و غریب مواصلاتی ذرائع جو آج وجود میں آ گئے ہیں۔ سب کے سب استکباری پالیسیوں کے مطابق عمل کرتے ہیں، استکبار کی خدمت کرتے ہیں۔ صیہونزم کی خدمت کرتے ہیں۔ ان کے اہداف کی تکمیل کے لئے کام کرتے ہیں۔ اس خطرناک ابلاغیاتی سامراج اور اس تشہیراتی مافیا کے خلاف جو امریکی اور صیہونی سرمایہ داروں اور کمپنیوں کے اختیار میں ہے، کچھ کرنا چاہئے۔ جو کام آپ کر رہے ہیں وہ ایک نئی تحریک کی شروعات ہے۔ اس راستے پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس تحریک کو تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے۔ آپ کے شرکاء اور معاونین کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہئے۔
ان شاء اللہ بہت اچھا مستقبل انتظار میں ہے۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں کہ استکبار لاکھ رجز خوانی کر لے، استکباری قوتیں اور ان کی ہمنوا حکومتیں مالیاتی، عسکری، سیاسی اور سیکورٹی وسائل کی مدد سے لاکھ کوششیں کر لیں، اس علاقے میں اور ساری اسلامی دنیا میں مستقبل یقینی طور پر اسلام کا ہے۔ ان شاء اللہ اسلام کا وقار روز بروز بڑھتا جائے گا اور اسلام کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ البتہ اس کے لئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ بحمد اللہ ساری اسلامی دنیا میں مجاہد انسان، مجاہد عورتیں اور مرد، مجاہد نوجوان بکثرت موجود ہیں۔ ہمیں ان کی قدر کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنے نعروں، اپنے اقدامات، اپنے بیانوں اور سرگرمیوں کو اسی سمت و جہت کے مطابق ڈھالنا چاہئے۔ یقینا اللہ تعالی ہماری مدد کرے گا۔ اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم (۵(۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) سوره‌ احزاب، آیت نمبر ۳۳ کا ایک حصہ؛ بیشک خدا کا یہ ارادہ ہے کہ اے اہل بیت (پیغمبر) آلودگیوں کو آپ سے دور رکھے اور آپ کو پاک و پاکیزہ قرار دے۔
۲) سوره‌ حج، آیت نمبر 78 کا ایک حصہ ؛ راہ خدا میں اس طرح جہاد کرو جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے۔
۳) سوره‌ فتح، آیت نمبر 29 کا ایک حصہ ؛ کفار کے خلاف سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں۔
۴) نهج‌ البلاغه، مکتوب نمبر ۴۷ -تھوڑے سے فرق کے ساتھ - ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنئے۔
۵) سوره‌ محمّد، آیت نمبر 7 کا ایک حصہ ؛ اگر اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرے گا۔