1394/05/31 ہجری شمسی مطابق 22 اگست 2015 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے دیگر اسلامی واجبات کی نسبت حج میں پائی جانے والی منفرد خصوصیات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: حج میں شخصی اور سماجی دو الگ الگ پہلو ہیں اور دونوں پہلوؤں کو ملحوظ رکھنا حجاج کرام اور مسلم اقوام کی دنیوی و اخروی سعادت و کامرانی میں استثنائی تاثیر کا حامل ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل ولی امر مسلمین کے نمائندے اور ایرانی حجاج و زائرین کے سرپرست حجت الاسلام و المسلمین قاضی عسکر نے کہا کہ اس سال حج کے لئے ہمارا نعرہ ہے؛ حج، روحانیت، بصیرت و اسلامی ہمدلی، انھوں نے اس سال حج کے لئے بنائے گئے پروگراموں کی تفصیلات کا ذکر کیا۔ ادارہ حج و زیارات کے سربراہ جناب اوحدی نے بھی ادارے کی خدمات کی ایک رپورٹ پیش کی۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌ (1)

برادران و خواہران گرامی خوش آمدید! حج کے امور انجام دینے والے آپ برادران و خواہران عزیز ایک انتہائی پرکشش اور باشکوہ فریضہ انجام دے رہے ہیں جو عبارت ہے ہمارے مومن و مسلمان عوام کے لئے حج یعنی اس بے نظیر اور عدیم المثل اسلامی واجب کی تمہید اور مقدمات کی فراہمی سے۔ میں شکریہ ادا کرتا ہوں متعلقہ عہدیداروں کا جنہوں نے مومنین کی خاطر حج کی بنحو احسن ادائیگی کے لئے تیاریاں کی ہیں؛ جن کا ذکر جناب قاضی عسکر اور اسی طرح ادارہ حج و زیارات کے سربراہ (جناب سعید اوحدی) نے کیا۔ یہی مناسب روش ہے کہ روز بروز حج کے اعلی اہداف تک لے جانے والے امور اور کاموں کو بہتر اور آسان بنانے کی کوشش کی جائے۔ آپ خواتین و حضرات بھی جو ذمہ داری اور جو رول بھی ادا کر رہے ہیں اسے خوش اسلوبی کے ساتھ، دلچسپی اور جذبے کے ساتھ، بمقدار کافی وقت دیکر اور دردمندی کے ساتھ انجام دیجئے۔ ان تمام مساعی کا مجموعہ بڑا شیریں اور میٹھا ثمرہ ثابت ہوگا جو عوام کے لئے مطلوبہ انداز میں حج کی ادائیگی سے عبارت ہے۔
میں سفارش کے طور پر یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حج صرف ہم ایرانیوں سے متعلق نہیں ہے۔ حج کا تعلق اسلام سے ہے۔ حج کا تعلق پوری امت مسلمہ سے ہے۔ یہ اسلام کے دوام کا ضامن ہے۔ اللہ تعالی نے حج کے مہینوں کے لئے خاص احترام کی بات کہی ہے، وقت اور جگہ کا احترام ہے۔ حج کے ان مہینوں کے احترام سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عمل کتنا عظیم اور موثر ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ فریضہ حج پوری امت مسلمہ کے لئے خاص اثرات و اوصاف کا حامل ہے جو دوسرے کسی واجب فریضے میں نہیں ہیں۔ اس پر توجہ ہونی چاہئے۔
بڑی دلچسپ چيز یہ ہے کہ حج کے دو الگ الگ مگر ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے پہلو ہیں۔ ایک انفرادی اور شخصی پہلو ہے اور دوسرا سماجی پہلو ہے۔ دونوں کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور دونوں پر توجہ دینا چاہئے۔ حج کا انفرادی اور شخصی پہلو ہر ایک حاجی سے متعلق ہے۔ ہر عازم حج ان خاص ایام میں جو عمرے اور حج کے ایام ہیں اپنا رابطہ بارگاہ خداوندی سے جوڑے اور استغفار کرے، اپنی ذات کے لئے زاد راہ حاصل کرے۔ حج سے متعلق آیات کریمہ میں کہا گیا ہے؛ وَ تَزَوَّدوا فَاِنَّ خَیرَ الزّادِ التَّقوی‌ (2) تقوا کی بڑی سفارش کی گئی ہے۔ جس کسی کو بھی یہ عظیم موقع نصیب ہوا ہے اسے یہ فکر لاحق رہنی چاہئے کہ اپنے ظرف کو پر کرکے واپس لوٹنا ہے، اپنی جھولی بھر کے پلٹنا ہے۔؛ وَاَنِ‌استَغفِروا رَبَّکُم-(3) استغفار کریں، مناجات کریں، دعا کریں، اللہ تعالی سے مانگیں، پروردگار عالم کی بارگاہ میں اپنے مستقبل کے تعلق سے، اپنی زندگی کے تعلق سے اور اپنی کارکردگی کے تعلق سے ضروری عہد کریں، یہ شخصی اور انفرادی عمل ہے۔ اس شخصی پہلو کے تحت حاجی کو چاہئے کہ اپنے اس سفر کے ذریعے خود کو اللہ تعالی کے قریب کرے، اپنے باطن کو پاکیزہ بنائے، اپنی بقیہ زندگی کے لئے توشہ و زاد راہ حاصل کرے، اس سفر میں ان اعمال میں اور ان ایام میں انسان کے لئے روحانیت اور برکتوں کے سرچشمے فراہم رہتے ہیں، حجاج کرام اس موقع کو غنیمت جانیں!
ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو صرف اسی سفر میں حاصل ہو سکتی ہیں؛ کعبے کو دیکھنا عبادت ہے، کعبے کے گرد طواف کرنا عبادت ہے، مسجد الحرام میں نماز ادا کرنا عبادت ہے، نبی اکرم کی قبر کی زیارت کرنا عبادت ہے۔ عرفات، اللہ سے راز و نیاز کرنے کی وادی ہے۔ مشعر اللہ کی جانب ذہن و دل مرکوز کرنے کی جگہ ہے، منی بھی اسی طرح ہے۔ ان میں سے ہر ایک عمل سے حاجی کو بخوبی مستفیض ہونا چاہئے طہارت باطن کے لئے، درجات کی بلندی کے لئے، اپنی ساری عمر کی خاطر زاد راہ حاصل کرنے کے لئے۔ یہ حج کا انفرادی اور شخصی پہلو ہے۔
حج کا ایک اور سماجی و اجتماعی پہلو بھی ہے۔ حج اسلامی وحدت و یگانگت کا مظہر ہے۔ مختلف رنگ، مختلف قومیتیں، مختلف شناختی کارڈ، مختلف فرقے، مختلف مزاج ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اور ایک جیسے نظر آنے لگتے ہیں۔ سب ایک ساتھ طواف کرتے ہیں، سب ایک ساتھ 'سعی' کرتے ہیں، ساتھ ساتھ عرفات و مشعر میں توقف کرتے ہیں۔ یہ اتحاد و یگانگت بہت اہم ہے۔ اسلامی ہمدلی اور ہمدلی و ہم زبانی کا حقیقی مظہر حج ہے۔ صرف ملت ایران کے لئے نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے، تمام امت اسلامیہ کے لئے۔ اللہ کی لعنت ہو ان لوگوں پر جو مسلم امہ کی حقیقت کو اور مسلم امہ کی اہمیت کو ذہنوں سے دور کرنے کے لئے کوشاں رہے۔ مسلمانوں کو الگ الگ صنفوں میں اور الگ الگ جذبات و احساسات میں تقسیم کرنے کے لئے کام کرتے رہے۔ عظیم الشان مسلم امہ کی عظمت کے مقابلے میں قومیت کی بات کرتے ہیں اور قوموں کو ایک دوسرے سے دور کر دینا چاہتے ہیں۔ جبکہ بحیثیت ایک ملت کے ملت اسلامیہ کی کلیدی اہمیت ہے۔ عظمت امت اسلامیہ کا مقدر ہے۔ اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں امت اسلامیہ پر۔ حج مسلم امہ کی تشکیل کا مظہر ہے۔ یہ مشتی از خروارے کا مصداق ہے؛ مِن کُلِ‌ّ فَجٍ‌ّ عَمیق (4)۔ ہر جگہ سے اور دور دراز کے خطوں سے آکر مسلمان یہاں جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ بہترین موقع ہوتا ہے آپس میں گفت و شنید کا، ہمدلی و مفاہمت قائم کرنے کا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد سے باخبر ہوں۔ آپس میں اظہار ہمدردی و یکجہتی کریں۔ حج کہ علاوہ یہ موقع کہاں مل سکتا ہے؟ تو حج کا ایک اہم سماجی پہلو ہے اتحاد و یگانگت۔
ایک اور سماجی و اجتماعی پہلو ہے مسلم امہ کی عظمت کی نمائش۔ کچھ خاص اعمال کی انجام دہی کے لئے دسیوں لاکھ انسان جمع ہوں تو یہ ایک جگہ پر امت اسلامیہ کی حقیقت کی پیشکش ہے۔ مثال کے طور پر سات آٹھ کروڑ کی آبادی والے ملک سے پچاس ساٹھ یا ستر ہزار لوگ جاکر جمع ہو گئے ہیں تو یہ عظیم منظر منصہ ظہور پر نمودار ہوا ہے، یہ ہے امت اسلامیہ کی حقیقت۔
ایک اور پہلو تجربات کے لین دین سے متعلق ہے۔ بہت سے اسلامی ممالک کے پاس کافی تجربات ہیں۔ مثال کے طور پر ملت ایران کے پاس دشمن کا مقابلہ کرنے، دشمن کی نشاندہی کرنے، دشمن پر اعتماد نہ کرنے اور دوست و دشمن کی پہچان میں غلطی نہ کرنے کا تجربہ ہے، ہمارے پاس اس کا تجربہ موجود ہے۔ دوست اور دشمن کو پہچاننے میں کبھی ہم سے چوک نہیں ہوئی ہے۔ انقلاب کے اوائل سے لیکر اب تک ہمیں بخوبی علم تھا اور ہم پورا ادراک رکھتے تھے کہ حقیقی، جنگ پسند، ضدی اور اڑیل دشمن عالمی استکبار اور صیہونزم ہے۔ ہم نے اسے سمجھ لیا۔ کبھی کبھی اسی حقیقی اور سب سے بڑے دشمن نے اپنی بات دوسروں کی زبان سے کہلوائی ہے، لیکن ہم سے کبھی اشتباہ نہیں ہوا کہ غلطی سے ہم ان دوسروں کو اصلی دشمن سمجھ بیٹھیں! ایسا نہیں ہوا، ہم نے ہمیشہ صریحی طور پر اعلان کیا کہ دشمن استکبار ہے۔
آپ گیارہ فروری (اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی تاریخ) کے جلوسوں، یوم القدس کی ریلیوں اور دیگر عظیم اجتماعات میں لگائے جانے والے ملت ایران کے نعروں پر غور کیجئے! یہ استکبار کے خلاف، امریکا کے خلاف، صیہونیوں کے خلاف اور غاصب صیہونی حکومت کے خلاف لگائے جانے والے نعرے ہیں۔ حالانکہ بعض اوقات یہی طاقتیں اپنے بیان کسی اور ملک سے دلواتی ہیں، اپنے اقدامات کسی اسلامی ملک کے ذریعے انجام دیتی ہیں، لیکن ہم کبھی بھی اس اسلامی ملک کے خلاف نعرے نہیں لگاتے، ہماری قوم نے کبھی بھی اس اسلامی ملک کے خلاف نعرے بازی نہیں کی، کیوں؟ اس لئے کہ اسے معلوم ہے کہ وہ اصلی دشمن نہیں ہے۔ وہ تو فریب خوردہ ہے، وہ محض آلہ کار ہے۔ اسے کہتے ہیں دشمن شناسی۔ یہ ہمارا تجربہ ہے۔ بعض تنظیمیں جو اسلام نواز بھی تھیں، بعض ملکوں میں انھیں کچھ مواقع بھی ملے، لیکن یہ تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے ان سے غلطیاں ہوئیں۔ جو اصلی دشمن تھا اس سے تو ہاتھ ملا لیا، لیکن جو در حقیقت دوست تھا اس کے خلاف کارروائی کی اور پھر اس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑا۔ اللہ تعالی نے انھیں ایک نعمت عطا کی تھی لیکن انھوں اس نعمت کی قدر نہیں کی۔
ملت ایران کے پاس ایک اہم تجربہ اتحاد قائم کرنے کا بھی ہے۔ ہمارے ملک میں کیا سوچ اور مزاج کا اختلاف کم ہے؟! سیاسی مسائل میں، فکری امور میں، عقیدے سے متعلق امور میں اختلافات بہت زیادہ ہیں، لیکن عوام نے ان اختلافات کے باوجود، اتحاد قائم رکھا۔ ہمارے ملک میں بعض جگہوں پر خاص قومیتیں آباد ہیں۔ یہ قومیتیں بھی گیارہ فروری کے پروگراموں میں، یوم القدس کے جلوسوں میں، دیگر گوناگوں پروگراموں میں جو اسلامی انقلاب کے مظہر ہیں، اسی طرح شرکت کرتی ہیں جیسے ملک کے بقیہ حصوں کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں کردی زبان بولنے والوں کا علاقہ ہے، بلوچ زبان بولنے والوں کا ایک علاقہ ہے، ہمارے یہاں عربی زبان بولنے والا بھی ایک خطہ ہے، ہمارے یہاں ترکی زبان میں بات کرنے والوں کا بھی ایک علاقہ ہے۔ کبھی کبھی تو ان قوموں نے اپنے اقدامات اور سرگرمیوں سے انقلاب کے مفاد میں اور اسلامی جمہوری نظام کے مفاد میں ایسی عظیم خدمات انجام دی ہیں جو دیگر خطوں سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ہم نے یہ منظر بھی دیکھا ہے۔ یہی اسلامی وحدت و اتحاد بین المسلمین ہے اور ملت ایران کے پاس اس کا تجربہ ہے۔
ہمارے پاس اس کا پینتیس چھتیس سال کا تجربہ ہے کہ عوام کے اندر اتحاد و اتفاق رہنا چاہئے اور اس اتحاد و اتفاق کی برکت سے ہم نے بڑی عظیم کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ یہ چیز بعض دیگر ممالک میں ناپید ہے، وہ اس پہلو کو سمجھ نہیں سکے ہیں، آج تک وہ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ چھوٹے سے اختلاف کی وجہ سے، کبھی مسلکی اختلاف، کبھی قومیتی یا جماعتی اختلاف کی وجہ سے ملک کے اندر ہی ایک دوسرے کی جان کو آ جاتے ہیں، آپس ہی میں الجھ پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالی ایسے لوگوں سے اپنی نعمتیں سلب کر لیتا ہے؛ اَلَم تَرَ اِلَی الَّذینَ بَدَّلوا نِعمَتَ اللهِ کُفرًا وَ اَحَلّوا قَومَهُم دارَ البَوارِ * جَهَنَّمَ یَصلَونَها وَ بِئسَ القَرارُ (6) جب ہم نے اللہ کی دی ہوئی نعمت کو نہیں پہچانا، اس کے عطیئے کو نہیں سمجھا، اس کے انعامات کا ادراک نہیں کیا اور شکر ادا نہیں کیا تو یہ کفران نعمت ہوا۔ ظاہر ہے ایسی قوم کے ساتھ اللہ تعالی کا برتاؤ بھی یقینا تبدیل ہو جائے گا؛ لَم یَکُ مُغَیِّرًا نِعمَةً اَنعَمَها عَلی‌ قَومٍ حَتّی‌ یُغَیِّروا ما بِاَنفُسِهِم (7) جب تک ہم اور آپ راہ راست پر گامزن رہیں گے، جب تک راہ مستقیم پر چلتے رہیں گے، خود کو حتی المقدور مرضی پروردگار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے رہیں گے، اللہ تعالی اس وقت تک ہم پر اپنی نعمتیں بھی نازل کرتا رہے گا۔ لیکن جب ہم خود ہی اپنی جڑ کاٹنے لگیں گے، جب خود ہی اختلاف کے بیج بوئیں گے، آپس ہی میں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں رچیں گے، آپس میں دست و گریباں ہو جائیں گے، تو یقینا اللہ تعالی اپنی نعمتیں سلب کر لیگا۔ کسی سے پروردگار عالم کی رشتہ داری تو ہے نہیں۔؛ ذلِکَ بِاَنَّ اللهَ لَم یَکُ مُغَیِّرًا نِعمَةً اَنعَمَها عَلی‌ قَومٍ حَتّی‌ یُغَیِّروا ما بِاَنفُسِهِم۔ جو نعمت اللہ نے آپ کو دی ہے، اسے وہ اس وقت تک سلب نہیں کرے گا جب تک آپ خود ہی اس کی نابودی کا راستہ ہموار کرنا شروع نہ کر دیں۔ جب آپ نعمت کے مقدمات اور اسباب کو ختم کر دیں گے تو پھر نعمت بھی سلب ہو جائے گی۔ یہ ملت ایران کا تجربہ ہے جس نے اللہ کی دی ہوئی نعمت کی حفاظت کی ہے۔ یہ تجربات ہیں جو منتقل ہو سکتے ہیں۔
آج اسلامی ملکوں کو سازشوں کا سامنا ہے، اسے ہم سمجھ رہے ہیں یا نہیں؟ آج شیعہ کے خلاف نہیں، ایران کے خلاف نہیں، کسی خاص مسلک کے خلاف نہیں بلکہ پورے اسلام کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ قرآن تو پورے اسلام کا ہے اور یہ عظیم کتاب جو یہ کہتی ہے کہ «لَن یَجعَلَ اللهُ لِلکٰفِرینَ عَلَی المُؤمنینَ سَبیلاً» (8) تو یہ صرف تشیع کی تو بات نہیں ہے۔ یہ قرآن ہے اور یہ اسلام ہے۔ اس لئے خود اسلام کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ دشمن ایسے ہر مرکز اور ہر اس آواز کا مخالف ہے جو قوموں کو بیدار کرے، اس بازو کا مخالف ہے جو استکبار کے خلاف کام کرے، جبکہ یہ بازو اسلام کا بازو ہے، یہ آواز اسلام کی آواز ہے۔ پتہ یہ چلا کہ استکبار اسلام سے دشمنی رکھتا ہے۔
اسلام سے ٹکرانے اور عناد برتنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ ان کی گوناگوں قسمیں ہیں۔ دشمن سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں، غور کرتے ہیں، ہماری صفوں کے اندر جگہ بنانے اور ضرب لگانے کے راستے نکالتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کا شروعاتی دور تھا؛ ہمیں معلوم ہوا کہ صیہونی حکومت نے کچھ لوگوں کو پیسے دیکر اس بات پر مامور کیا ہے کہ بیٹھ کر اسلام کے بارے میں اور تشیع کے بارے میں سوچیں، مطالعہ کریں، غور و خوض کریں، جائزہ لیں۔ یہ مطالعہ اور غور و فکر آخر کس لئے ہے؟ اس مطالعے کا مقصد یہ پتہ لگانا ہے کہ اس عظیم تبدیلی کو، اسلامی بیداری کی اس لہر کو کیسے دبایا جا سکتا ہے؟ ان مسلم اقوام پر ضرب کیسے لگائی جا سکتی ہے جو بیدار ہو گئی ہیں، جنھیں اپنی طاقت کا اندازہ ہو گیا ہے اور جنھیں علم ہو گیا ہے کہ وہ بڑے کام انجام دے سکتی ہیں؟ اس کے لئے انھوں نے پیسے خرچ کئے۔ میں نے تو صرف ایک مثال دی ہے۔ اس طرح کے درجنوں مراکز، جن میں بعض کا ہمیں علم ہے اور بعض کے بارے میں ہمارا اندازہ ہے، امریکا میں، یورپ میں، صیہونی حکومت میں اور ان کے ہمنوا اور فرماں بردار بعض ممالک میں سرگرم عمل ہیں اور طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ نتیجتا آپ دیکھ رہے ہیں کہ اختلافات کی آگ بھڑکانا، تشدد کی لہر پھیلانا، اسلام کو بدنام کرنا، اسلامی ملکوں کو تقسیم کرنا، مسلم اقوام کو ایک دوسرے کے خلاف اور ایک ہی قوم کے افراد کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کر دینا، ان مراکز کے بنیادی کام ہیں۔ کبھی ان مقاصد کے لئے امریکی بلیک واٹر (9) کو ذریعہ بنایا جاتا ہے، کبھی عراقی یا شامی داعش وغیرہ کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ بیٹھ کر اختلاف پھیلانے کے ذرائع تلاش کرتے ہیں۔
یہ ہمارے تجربات ہیں۔ یہ ایسے امور اور ایسے اقدامات ہیں جنھیں ملت ایران بخوبی سمجھ چکی ہے اور اچھی طرح جانتی ہے۔ ہم مسلم مسلکوں کے درمیان، شیعہ سنی کے درمیان اور مسلم اقوام کے درمیان اتحاد پر جو زور دیتے ہیں تو یہ صرف زبانی جمع خرچ نہیں ہے، ہم نے درد کو سمجھا ہے، علاج کا بھی پتہ لگا لیا ہے۔ ہمارا دل امت اسلامیہ کے لئے جلتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اتنی محنت کرتے ہیں۔ ملت ایران کے لئے یہ چیز ثابت شدہ ہے تاہم ابھی بہت سی قومیں اس کا ادراک نہیں کر پائی ہیں۔ حج ان باتوں کو دوسروں تک پہنچانے، بیان کرنے اور منعکس کرنے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ بیشک اس کے کچھ مخالفین بھی ہیں۔ جو لوگ ان اختلافات کو لا ینحل باقی رکھنا چاہتے ہیں، وہ ہرگز پسند نہیں کریں گے کہ یہ رابطہ، تجربات کا یہ لین دین اور یہ دوستی ہو۔ لیکن بہرحال راستہ تلاش کرنا ہمارا فرض ہے۔
حج میں ایک اور اہم کام جو شخصی اور انفرادی پہلو سے تعلق رکھتا ہے یہ ہے کہ اگر ہم اجتماعی اور سماجی پہلو پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں تو حج کے انفرادی اور شخصی پہلوؤں کو نظر انداز نہ ہونے دیں۔ خضوع و خشوع، راز و نیاز اور دعا و مناجات۔ اس کا بہترین موقع ہے حج۔ کوئی بھی جگہ مسجد الحرام جیسی نہیں ہو سکتی، کوئی بھی جگہ مسجد النبی کے مثل نہیں ہو سکتی۔ یہ بہترین موقع آپ کو ملتا ہے، حاجی کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہوگی کہ کوئی انسان ان چیزوں کو نظر انداز کرکے بازار کی جانب نکل جائے، ایک دوکان سے دوسری دوکان پر گردش کرتا رہے۔ بتایا گیا کہ 'بازار گردی' پر روک لگا دی گئی ہے۔ مگر جو رپورٹیں ہمیں مل رہی ہیں ان کے مطابق تو ایسا نہیں ہوا ہے، اب بھی بعض حجاج کرام اس مشکل میں گرفتار ہیں؛ فلاں بازار میں فلاں دوکان پر جاؤ، فلاں دوکاندار سے مل لو! عورتیں کسی انداز سے اور مرد کسی اور انداز سے۔ غیر معیاری چیزیں دگنی قیمت پر خریدو اور اسے ہوائی جہاز پر لاد کر تہران یا کسی اور شہر میں لے جاؤ! یہ غلط ہے۔ یہ بہت غلط بات ہے۔ ہمارے عوام کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ کام غلط ہے۔ خریداری تو کہیں بھی کی جا سکتی ہے۔ ہر جگہ بازار جایا جا سکتا ہے۔ چیزیں کہیں بھی خریدی جا سکتی ہیں۔ پیسہ اس طرح کہیں بھی برباد کیا جا سکتا ہے۔ یہ پیسے کی بربادی ہی تو ہے۔ انسان کہیں بھی پیسہ پھونک سکتا ہے۔ آپ حج پر وہ کام انجام دیجئے جو کہیں اور آپ انجام نہیں دے پائیں گے، صرف حج کے دوران آپ اسے انجام دے سکتے ہیں۔ وہ عمل ہے کعبے کو دیکھنا، مسجد الحرام میں نماز ادا کرنا، پیغمبر کی 'جائے پا' کو بوسہ دینا۔ اس شہر کی گلیوں سے پیغمبر اسلام گزرے ہیں۔ یہاں انھوں نے باتیں کی ہیں، یہ فضا نبی اکرم کی آواز کی لہروں سے مملو ہے۔ افسوس کا مقام نہیں ہے کہ انسان اس فضا کی خوشبو سے محظوظ نہ ہو! یہ خصوصیت آپ کو دنیا میں کہاں مل سکتی ہے؟ ہمارے حجاج کرام ان چیزوں کی قدر کریں۔ ورنہ بازار جانا اور وہاں گھومنا وغیرہ تو انسان کہیں بھی کر سکتا ہے۔ تہران میں بھی یہ کام کیا جا سکتا ہے، اصفہان میں بھی کیا جا سکتا ہے، تبریز میں بھی انجام دیا جا سکتا ہے، مشہد میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ ان کاموں کو کیا جا سکتا ہے۔ آپ اس عمل میں مصروف ہوئیے جو ان شہروں میں انجام نہیں دئے جا سکتے بلکہ حج سے مختص ہیں۔ یہ ہماری سفارشات ہیں۔ اللہ تعالی آپ سب کو مقبول بارگاہ قرار پانے والا حج ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آپ سے دعا کی التجا ہے۔

و السّلام علیکم‌ و رحمة الله‌

1) اجلاس کے آغاز میں حج و زیارات کے امور میں ولی امر مسلمین کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین سید علی قاضی عسکر اور ادارہ حج و زیارات کے سربراہ جناب سعید اوحدی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
2) سوره‌ بقرہ، آیت نمبر ۱۹۷ کا ایک حصہ؛ اور اپنے لئے زاد سفر حاصل کرو کہ بہترین زاد راہ پرہیزگاری ہے۔
3) سوره‌ هود، آیت نمبر ۳ کا ایک حصہ؛ اور اپنے وردگار سے طلب مغفرت کرو۔
4) سوره‌ حج، آیت نمبر ۲۷ کا ایک حصہ؛ دور دراز کے راستے طے کرکے آتے ہیں۔
5) سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر 28 اور 29؛ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے کفران نعمت کیا اور اپنی قوم کو دار ہلاکت میں پہنچا دیا ( اس دار ہلاکت میں جو در حقیقت) جہنم ہے، اس میں وہ داخل ہوں گے اور یہ کتنا برا ٹھکانا ہے۔
6) سوره‌ انفال، آیت نمبر 53 کا ایک حصہ؛ اللہ کسی قوم کو عطا کی ہوئی نعمت دگرگوں نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ قوم اپنے نفس میں پائی جانے والی چیزوں کو تبدیل کر دے۔
7) سوره‌ نساء، آیت نمبر 141 کا ایک حصہ؛اللہ نے مومنین پر کفار کے غلبے اور بالادستی کا کوئی راستہ نہیں قرار دیا ہے۔
8) ایک بڑی نجی سیکورٹی کمپنی جو پنٹاگون اور سی آئی اے کے انتہائی حساس مشن کی انجام دہی کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔