29 شہریور 1394 ہجری شمسی مطابق 20 ستمبر 2015 کو ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے اپنے مختصر خطاب میں 'جانبازوں' کی جسمانی تکالیف اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان تکلیفوں کی وجہ سے ان سپاہیوں کا اجر مسلسل بڑھتا رہے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے شہید فاؤنڈیشن کے سربراہ اور ولی امر مسلمین کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین شہیدی محلاتی نے شہدا کے اہل خانہ اور دفاع وطن میں جان کی بازی لگا دینے والے سپاہیوں کو فراہم کی جانے والی خدمات کی رپورٹ پیش کی۔ اس موقع پر سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ جنرل جعفری نے 'جانبازوں' کی قدردانی کے لئے منعقدہ دوسری قومی کانفرنس کے بارے میں بریفنگ دی اور کہا کہ جن سپاہیوں کے گلے میں 'جانبازی' کا تمغہ آویزاں ہے وہ اسلامی انقلاب اور اس کے ثمرات کی حفاطت و پاسبانی کی ذمہ داری سے کبھی بھی خود کو فارغ تصور نہ کریں، بلکہ مختلف میدانوں میں موجود رہ کر عزم راسخ کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

مجھے بڑی خوشی ہے کہ بحمد اللہ ایک بار پھر آپ عزیزوں میں سے کچھ کی زیارت کی توفیق ملی۔ البتہ یہ کافی نہیں ہے۔ ان عزیز 'جانبازوں' میں سے بعض نے مجھ سے کہا کہ ہم بیس سال سے، تیس سال سے اس ملاقات کے منتظر تھے۔ میں نے عرض کیا کہ واقعی مجھے بڑی شرمندگی ہے کہ آپ اس معمولی سے بات کی خاطر بیس سال سے انتظار کر رہے تھے! واقعی یہ ہماری کوتاہی، توانائی کی کمی اور اسی طرح کے کچھ مسائل ہیں۔ یعنی اس سے زیادہ توانائی نہیں ہے، ورنہ اگر ممکن ہوتا تو میرا دل تو یہ چاہتا تھا کہ اس سے زیادہ آپ کے درمیان رہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کی زحمتیں اور آپ کا اجر اللہ تعالی کی بارگاہ میں محفوظ ہے اور ان شاء اللہ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ کیونکہ آپ کی زحمتیں یکبارگی ختم نہیں ہوئیں، بلکہ بتدریج انجام پانے والی یہ آزمائش اور یہ امتحان آپ پر طاری ہے، شہدا کے برخلاف۔ شہدا کی صورت حال یہ ہے کہ انھیں کوئی مارٹر گولہ لگا، کوئی گولی لگی اور وہ بہشت کی جانب روانہ ہو گئے، جنت کی سمت پرواز کر گئے، ان کا کام ختم ہو گیا۔ مگر آپ کا نہیں۔ گزرنے والا ہر دن اور ہر لمحہ رنج و درد کے ساتھ ہے، مشکلات کے ہمراہ ہے۔ البتہ آپ اس سختی اور مشکل پر راضی و مطمئن ہیں، اللہ تعالی بخوبی آپ کے دلوں کا حال جانتا ہے کہ آپ صبر کر رہے ہیں۔ مگر ہر منٹ، ہر گھنٹا اور ہر دن آپ کا صبر بے پناہ اجر کا سبب ہے۔ بنابریں یہ کہنا درست ہے کہ 'جانباز' کا اجر روز افزوں اجر ہے۔ روایتوں میں بھی ہے کہ کبھی انسان کوئی چیز، ایک درہم یا کچھ رقم راہ خدا میں دے دیتا ہے تو قیامت کے دن اللہ اسے کوہ احد کے برابر اس کا اجر عطا فرمائے گا۔ آپ کا کام اسی زمرے میں آتا ہے۔ آپ نے اپنے جسم کا ایک عضو قربان کر دیا ہے اور اس عضو سے محرومی منظور کی ہے۔ یہ اپنی جگہ پر بہت بڑا عمل ہے اور اس کا بہت زیادہ اجر ہے، البتہ یہ ثواب لگاتار بڑھتا جا رہا ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اجر میں مسلسل اضافے پر اللہ کا شکر ادا کیجئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ 'جانباز' ہیں۔ ان موجودہ لمحات میں بھی آپ حالت جہاد میں ہیں۔ اپنی اس 'جانبازی' کی کیفیت کے ذریعے آپ اس وقت بھی جہاد کر رہے ہیں۔ کیسے؟ میری مراد ثقافتی و علمی جہاد سے نہیں ہے۔ میری مراد یہ نہیں ہے کہ آپ کہیں جاکر تقریر کریں، کوئی کام انجام دیں، راہ خدا میں کچھ خرچ کریں، کسی کو تعلیم دیں۔ یہ ساری چیزیں اپنی جگہ اہم ہیں اور جہاد کے زمرے میں آتی ہیں، مگر یہ جو آپ وہیل چیئر پر بیٹھے ہیں، یا بیڈ پر لیٹے ہوئے ہیں، یا بینائی سے، ہاتھ سے یا پیر سے محروم ہوکر آپ کوچہ و بازار سے گزرتے ہیں تو خود یہ عمل بھی جہاد ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ ایک سخت دور میں اس ملت کے عظیم امتحان و آزمائش کی علامت اور نشانی ہیں۔ آپ در حقیقت کسی تصویر کی مانند، کسی مرقعے کی طرح جنگ اور مقدس دفاع کے حالات سے دیکھنے والوں کو باخبر کر رہے ہیں۔ آپ ملت ایران کی اس عظیم آزمائش اور اس عظیم امتحان کا آئینہ ہیں۔ آپ کا یہ وجود اپنے آپ میں ایک جہاد ہے، ایک تبلیغ اور ترجمانی ہے۔ آپ کو دیکھ کر ان طاقتوں کے مجرمانہ اقدامات روز روشن کی مانند نمایاں ہو جاتے ہیں، جنھوں نے صدام کی حکومت کی مدد کی تھی اور اس کا دفاع کیا تھا۔ آپ کو دیکھنے سے اس عظیم قائد (امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اور اس انقلاب کی عظمت و بلندی کا اندازہ ہوتا ہے جس نے اس انداز سے آپ کی تربیت کی اور میدان جنگ میں اترنے کا جذبہ پیدا کر دیا۔ آپ کو دیکھ کر ملت ایران کی تاریخ کے ایک باب کو پڑھا جا سکتا ہے۔ اس طرح 'جانباز' اپنے وجود سے اور عوام الناس کے درمیان اپنی موجودگی سے، کچھ حقائق کی عکاسی اور ترجمانی کرتے ہیں، خواہ وہ اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہ کہیں، خواہ مبلغ اور مقرر کی حیثیت سے کسی بھی پروگرام میں شرکت نہ کریں۔ خود آپ کا وجود ہی حقائق کا آئینہ ہے؛ تاریخی حقائق، سیاسی حقائق، عالمی حقائق اور معرفت کا مرقع ہے۔ اس کا بھی اللہ تعالی کی بارگاہ میں خاص اجر و ثواب ہے۔ یہ رہا دوسرا نکتہ۔
تیسرا نکتہ ان خواتین کے بارے میں جو زوجہ کی حیثیت سے آپ کی خدمت کر رہی ہیں اور انھوں نے آپ کا رنج و الم بخوشی قبول کیا ہے۔ جیسا کہ ان صاحب نے اپنے ان خوبصورت اشعار میں بیان کیا؛ یہ عورتیں حقیقی معنی میں ایثار کر رہی ہیں، یہ ایثار ہے، یہ بہت بڑا ایثار ہے۔ یہ جو خدمت کر رہی ہیں وہ بڑی گراں قدر ہے۔ تیمارداری کی سختیاں خود بیماری کی سختیوں سے اگر زیادہ نہیں ہیں تو کم بھی نہیں ہیں۔ اگر کوئی انسان ایک 'جانباز' کی خدمت کر رہا ہے، اس کی تمام تر مشکلات اور جسمانی معذوری کے ساتھ، اس کا ہر چھوٹا بڑا کام انجام دے رہا ہے، اس کی باتوں کو سنتا ہے، ایک 'جانباز' شخص کی جو فطری بے صبری اور عدم تحمل کی کیفیت ہوتی ہے اسے صبر و تحمل سے برداشت کر رہا ہے، اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس کا اجر بہت زیادہ ہے۔ میں خواتین کی خدمت میں آپ 'جانباز' حضرات کی بیویوں کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ اللہ تعالی آپ کو بشارت دے رہا ہے اس کام کی عظمت کی وجہ سے جو آپ انجام دے رہی ہیں۔ یہ واقعی ایک جہاد اور پیکار ہے۔ یہ رہا تیسرا نکتہ۔
آخری نکتے کے طور پر یہ عرض کرنا ہے کہ آپ عزیز 'جانباز' حضرات بھی، آپ کی بیویاں بھی، آپ کے بچے اور رشتے دار بھی جو آپ کی خدمت انجام دینے میں شریک ہیں، سب اس عظیم روحانی سرمائے کی حفاظت کریں۔ آپ یاد رکھئے کہ بعض اوقات ہماری غفلت کی وجہ سے عظیم سرمایہ جو ہمارے پاس ہے، ہمارے ہاتھ سے چلا جاتا ہے۔ اگر ہم نے غفلت برتی، بے توجہی کی، اس روحانی الہی امر کے تقاضوں کو پورا نہ کیا تو ہمارے پاس جو یہ روحانی دولت ہے وہ ہاتھ سے چلی جائے گی۔ لہذا محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو توفیق دے کہ خدائی عطیوں کو جن میں بعض عطیئے مادی ہوتے ہیں اور بعض روحانی و معنوی ہوتے ہیں، ہم محفوظ رکھیں اور ان نعتموں پر اللہ کا شکر ادا کریں۔
میں اس ملاقات پر اور حیسینہ میں آپ کی آمد پر ایک بابر پھر آپ سب برادران و خواہران گرامی کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ایک بار پھر سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اللہ تعالی سے آپ کے دلوں کی خوشنودی، آپ کے امور کی پیشرفت اور آپ کی حاجتیں پوری ہونے کی دعا کرتا ہوں۔ اللہ تعالی آپ کو اولاد کی نعمتوں سے مالامال رکھے، آپ کی زندگی کو شیریں بنائے، آپ کو شفائے کامل اور طول عمر عنایت فرمائے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌