1394/07/08 ہجری شمسی مطابق 30 ستمبر 2015 کوبدھ کی صبح نوشہر میں بحریہ کی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کیڈٹ یونیورسٹی کی تقریب سے خطاب میں مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران سمیت مسلم ممالک کی شمولیت سے تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جاں بحق ہو جانے والوں کے پاکیزہ جنازوں کی منتقلی کے سلسلے میں سعودی حکومت اپنے فرائض پر عمل نہیں کر رہی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران نے اب تک تحمل اور اسلامی اخلاقیات کا ثبوت دیتے ہوئے عالم اسلام میں اخوت و برادری کا پاس و لحاظ رکھا ہے، لیکن سب جان لیں کہ مکہ و مدینہ میں موجود دسیوں ہزار ایرانی حجاج کرام کے ساتھ ذرا سا بھی بے احترامی کا سلوک اور پاکیزہ جنازوں کی منتقلی کے سلسلے میں فرائض پر عمل آوری سے گریز ایران کے سخت رد عمل کا باعث بنے گا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایران سمیت اسلامی ملکوں کی شمولیت سے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سانحے کی وجوہات کے بارے میں ہم قبل از وقت کوئی فیصلہ نہیں کریں گے لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سعودی حکومت نے سانحہ منی کے زخمیوں کے سلسلے میں اپنے فرائض پر عمل نہیں کیا اور انھیں تشنگی اور بیکسی کے عالم میں چھوڑ دیا۔
تقریب میں فوج کے کمانڈر انچیف جنرل عطاء اللہ صالحی نے استقبالیہ کلمات ادا کئے اور کہا کہ فوج ملت ایران کے جذبہ ایثار و شہادت سے الہام لیتے ہوئے اعلی دفاعی توانائیوں اور بھرپور قوت کے ساتھ خطرات کا سامنا اور جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی آرمی کی بحریہ کے یونیورسٹی کامپلیکس میں منعقدہ تقریب کے آغاز میں گراؤنڈ کے کمانڈر ایڈمرل حکیمی نے بھی رپورٹ پیش کی۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌

آپ عزیز جوانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی کیڈٹ یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونا اور امام زمانہ علیہ السلام کی فوج کا افسر بننے کا افتخار آپ کو مبارک ہو۔ اسی طرح جن نوجوانوں نے ابھی ان یونیورسٹیوں میں داخلہ لیا ہے اور اس راہ پر قدم رکھا ہے، انھیں بھی یہ افتخار مبارک ہو۔ آج فوج میں سپاہ پاسداران انقلاب میں اور تمام مسلح فورسز میں ہمارے نوجوان افسران کے چہرے اور نوجوانوں کے جذبات و احساسات اسلامی جمہوری نظام کے امید افزا مستقبل کی نوید دیتے ہیں۔ عید قربان اور عید غدیر کے یہ ایام ہیں۔ لیکن ہماری عید کو عصری جاہلیت نے منی کے سانحے سے سوگ میں تبدیل کر دیا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں میری دعا ہے کہ ملت ایران کی ان قربانیوں کو اور اس ایثار کو درجہ قبولیت عطا فرمائے اور امت اسلامیہ کے افق کو روز بروز زیادہ روشن اور تابناک بنائے۔
آپ عزیز نوجوانوں کے بارے میں جو اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج میں داخل ہوئے ہیں، کہنے کے لئے بہت سی باتیں ہیں۔ مختصر طور پر یہ کہ کسی بھی مسلح فورس کی نمایاں خصوصیات میں ایمان، شجاعت اور دانش ہے۔ یہ تین خصوصیات کسی بھی مسلح فورس کی ماہیت و شناخت کی تشکیل کرنے والے بڑے اہم عناصر ہیں۔ اگر شجاعت نہ ہو تو مسلح فورس خطرات کا سامنا ہونے پر اپنے فرائض پورے نہیں کریگی۔ یعنی اس کے اندر یہ توانائی ہی نہیں رہیگی۔ اگر ایمان نہ ہو تو فوج کے اندر 'کمزور کشی' کی خصلت آ جائے گی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جدید ترین جنگی وسائل جنھیں استعمال کرنے والا ہر طرح کے خطرات سے محفوظ ہوتا ہے، ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جنگی طیارے میں بیٹھ کر آتے ہیں اور یمن کے بے گھر ہو چکے لوگوں پر، ان کے بازاروں پر، مسجدوں پر، شادی کی تقاریب پر، سوگ کے پروگراموں پر اور دوکانوں پر بمباری کرکے چلے جاتے ہیں۔ یعنی جب جذبہ ایمانی نہ ہو، جب خوف خدا نہ ہو تو پھر کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ وہ کن لوگوں پر موت برسا رہے ہیں، کن لوگوں پر آگ برسا رہے ہیں، کن لوگوں کے خلاف یہ جنگی وسائل استعمال کر رہے ہیں۔ جب خطرات سامنے ہوں، جہاں انسان کو اپنے وجود اور اپنی ماہیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے، وہاں ایسے افراد کا کہیں اتا پتا نہیں رہتا، ہاں اگر مظلوموں سے لڑنا ہو، اگر بے گھر لوگوں کو مارنا ہو، اگر نہتے لوگوں پر حملہ کرنا ہو تو ان سے بڑا شجاع کوئی نہیں ہے۔ جہاں طاقت نمائی کی ضرورت ہے وہاں یہ غائب رہتے ہیں، لیکن جب سامنے کمزور افراد ہوں تو رجز خوانی کرتے ہیں۔ طیاروں، میزائلوں اور دیگر بھیانک جنگی وسائل کے بلبوتے پر شجاعت کا دم بھرتے نہیں تھکتے۔ ہم جو عام تباہی کے ہتھیاروں، ایٹمی ہتھیاروں اور کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف ہیں تو اس کی یہی وجہ ہے۔ ان کے استعمال کے وقت (گنہگار اور بے گناہ کی) تمیز نہیں کی جا سکتی۔ تاریخ میں مشہور ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام جنگ میں فریق مقابل کے مستقبل کو بھی مد نظر رکھتے تھے اور اس کے بعد ہی شمشیر سے وار کرتے تھے۔ پورے حساب کتاب کے ساتھ۔ تو اگر ایمان نہ ہو تو اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے، اگر شجاعت نہ ہو تو اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے اور اگر علم و دانش نہ ہو تو جو وسائل موجود ہیں وہ شیطانوں کے حملے کا سامنا ہونے پر کند ہو جائیں گے۔ تو یہ تینوں چیزیں بہت ضروری ہیں۔ آپ نوجوان ہیں، ہماری آنکھوں کی روشنی ہیں، ہمارے عزیز ہیں، مستقبل آپ کا ہے، یہ ملک آپ کا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے اندر ان ضروری عناصر و خصوصیات کو پروان چڑھائیے۔ اپنے ایمان کو، اپنی شجاعت کو تحقیق و ایجادات کو، علم و دانش حاصل کرنے کے عمل کو تحقیق و مطالعے کے اس عمل کو تقویت پہچانئے۔ یہ فوج بھی آپ کی ہے۔ کچھ دن کے اندر آپ اس عظیم مجموعے کے اعلی عہدیدار ہوں گے۔ ہر کوئي کسی جگہ پر اور کسی عہدے پر ہوگا۔ اس یونیورسٹی کے محترم کمانڈر جو آج اس گراؤنڈ کے کمانڈر کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے، ان کی رپورٹ میں نے سنی اور دوسرے ذرائع سے بھی مجھے رپورٹیں ملی ہیں۔ فوج کی چھے یونیورسٹیوں نے بحمد اللہ بڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بڑے اچھے اقدامات انجام پائے۔ اس سے واقعی خوشی ہوتی ہے، لیکن ہرگز اس پر اکتفا نہ کیجئے۔ میں اعلی عہدیداران سے کہنا چاہوں گا کہ آپ متلاشی نگاہوں سے، باریک بینی سے خامیوں کی، نقائص کی اور کمیوں کی نشاندہی کیجئے اور ان یونیورسٹیوں کو مطلوبہ مقام تک اور بلندیوں تک لے لیجئے۔ ہمارے جو پیارے نوجوان ان یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، خود کو مستقبل کے لئے آمادہ کریں۔ جہاں تک ہو سکے خود کو ایمان و روحانیت و علم اور بلند ہمتی سے آراستہ کیجئے۔
آج ایران کے اسلامی جمہوری نظام کو جنگی و دفاعی وسائل کی بھی ضرورت ہے اور تشہیراتی و نفسیاتی جنگ کے ہتھیاروں کی بھی احتیاج ہے۔ شیطانی قوتوں کے زیر فرمان آج کی دنیا، وہ دنیا جس کی اعلی کمان میں ایسے افراد ہیں جن کے لئے مادی وسائل، دولت اور دیگر امکانات ہی سب کچھ ہیں، ایسی دنیا نیک و خداترس انسانوں کے لئے بڑی خطرناک ہے۔ انھیں چاہئے کہ خود کو آمادہ رکھیں، خود کو آراستہ کریں۔ اگر اسلامی جمہوریہ ایران نے اور ایران کی شجاع و انقلابی قوم نے دنیا کی غاصب قوتوں کو یہ موقع دیا ہوتا کہ اسے ہضم کر لیں اور اپنے سسٹم کے اندر ضم کر لیں۔ یعنی اگر یہ قوم اس بات پر تیار ہو جاتی کہ اپنے اصلی جوہر اور حقیقی ماہیت کو ظاہر نہ کرے اور اسے خاص اہمیت نہ دے تو اس قوم کو دشمنی و عناد کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ظالم و جابر قوتیں چاہتی ہیں کہ سب ان کے تابع فرمان رہیں۔ اگر کوئی فرمانبرداری سے انکار کر دے تو وہیں سے دشمنی شروع ہو جاتی ہے، اس کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
مسلح فورسز جن میں فوج، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، رضاکار فورس اور بقیہ فورسز شامل ہیں، ان کی آمادگی کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ جنگ میں دشمن پر غلبہ حاصل کیجئے۔ بلکہ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ملک کو دشمنوں کی بری نیتوں سے بھی محفوظ رکھئے۔ جب آپ آمادہ ہوں گے، پوری طرح وسائل سے آراستہ ہوں گے، جب آپ کے اندر جذبہ ایمانی موجزن ہوگا، جب علم و شجاعت سے آپ بہرہ مند ہوں گے تو دشمن کوئی بھی معاندانہ کارروائی کرنے کی جرئت نہیں کرے گا۔ بیشک وہ دھمکیاں دیتے رہتے ہیں، رجز خوانی کرتے رہتے ہیں، لیکن تقریبا چار دہائیوں کے اس عرصے میں ملت ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ طاقتور ہے، وہ قوی و توانا ہے، اپنا تشخص رکھتی ہے، اپنا خاص جوہر اور ماہیت رکھتی ہے۔ ثابت قدم رہتی ہے۔ اس کی ایک مثال آٹھ سالہ مقدس دفاع تھا۔
اپنے عزیز نوجوانوں سے میں یہ کہوں گا کہ اپنے سینیئر افراد سے، پرانے لوگوں سے مقدس دفاع کے واقعات ضرور سنئے۔ متعلقہ علاقوں میں جائیے، آپریشنوں کے آئیڈیاز کا اور شجاعانہ و فداکارانہ اقدامات کا فوجی نقطہ نگاہ سے باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیجئے۔ دیکھئے کہ کیا ہوا تھا؟ ملت ایران نے مقدس دفاع کے دوران ابدی وقار حاصل کیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلح فورسز دفاعی توانائی کی بھی حامل ہیں۔
آج دنیا میں بڑے سرمایہ دار، بڑی کمپنیوں کے مالکان، دنیا کو ہڑپ لینے کے خواہشمند اور اقتدار کے بھوکے افراد تشہیراتی وسائل اور سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا کے سیاسی میدان میں منمانی کر رہے ہیں، اپنا حکم چلاتے ہیں۔ اگر کوئی خود مختار قوم بات ماننے سے انکار کر دے تو ان کے عتاب کا نشانہ بنتی ہے۔ کچھ ممالک ہیں جو ڈٹ جاتے ہیں، کچھ ہیں جو محدود پیمانے پر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں، کچھ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ مقابلے کی تاب نہیں لا پاتے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے یہ ثابت کر دیا کہ اس کے اندر دم خم ہے، وہ پوری طرح آگاہ ہے، بصیرت رکھتا ہے، اپنے تشخص کا احترام کرتا ہے اور ساتھ ہی ساری انسانیت کو قابل احترام سمجھتا ہے۔ استکبار کے مقابلے میں استقامت بشریت کا احترام ہے، تمام قوموں اور انسانوں کا احترام ہے۔ بیشک یہ استکباری طاقتیں غراتی ہیں، لیکن مومن انسانوں کا زوردار مکا انھیں پاؤں پیچھے کھینچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی یہی ہوگا۔
حالیہ سانحہ منی کے تعلق سے بھی چند باتیں عرض کرنی ہیں۔ یہ سانحہ دو اعتبار سے ہمارے لئے بہت بڑا سوگ اور بہت بڑی مصیبت بن گیا۔ ایک تو اس اعتبار سے کہ اس سانحے میں ہمارے کئی سو حاجی بڑی مظلومیت میں اور شاید ان میں کئی شدت عطش میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کے اہل خانہ خوش تھے کہ یہ افراد حج سے لوٹیں گے، گھر والے آغوش پھیلائے ان کے منتظر تھے، مگر اب وہ ان کے جنازے اٹھائيں گے۔ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ ہنوز جاں بحق ہونے والے ہمارے افراد کی تعداد معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ ممکن ہے یہ تعداد سیکڑوں میں ہو۔ یہ ہماری قوم کے سوگوار ہو جانے کی پہلی وجہ ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ موصولہ رپورٹوں کے مطابق عالم اسلام اور مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے پانچ ہزار سے زائد افراد اس سانحے میں موت کی نیند سو گئے۔ حج امن و سلامتی کی جگہ ہے۔؛ وَ اِذ جَعَلنَا البَیتَ مَثابَةً لِلنّاسِ وَ اَمنا (1) قرآن کہتا ہے کہ ہم نے خانہ کعبہ کو امت اسلامیہ کے رجوع اور اجتماع کی جگہ اور امن و سلامتی کا مقام قرار دیا ہے۔ اس جگہ پر امن و طمانیت ہونی چاہئے۔ کیا یہ تحفظ اور سلامتی ہے کہ مناسک حج ادا کرنے کے دوران ظلم و سمت کے ذریعے انسانوں کی جان لے لی جائے؟
تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اس سانحے کے علل و اسباب کے بارے میں قبل از وقت میں کوئی رائے قائم نہیں کرنا چاہتا، لیکن حتمی طور پر عالم اسلام سے منجملہ خود ہمارے ملک سے کچھ افراد جائیں اور قریب سے تحقیق کریں اور پتہ لگائیں کہ سانحے کا سبب کیا تھا۔ اس میں کسی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ ہماری بحث ان فرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں ہے جو زخمیوں کے تعلق سے ہر حکومت، ہر قوم، ہر ڈاکٹر، ہر نرس اور صحتمند دل و دماغ رکھنے والے ہر انسان پر عائد ہوتی ہیں۔ ان ذمہ داریوں پر عمل نہیں ہوا ہے۔ اسپتال میں، کنٹینروں میں اور صحرائے منی میں بیماروں کا خیال نہیں کیا گیا، پیاسوں پر توجہ نہیں دی گئی، مظلوم انسانوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ اب ان کے پاکیزہ جنازوں کی وطن واپسی کا مسئلہ ہے تو الگ طرح کی مشکلات ہیں۔ ہمارے ملک کے حکام مصروف ہیں، کام کر رہے ہیں، محنت سے لگے ہوئے ہیں، یہ کام اور سخت کوشی اسی طرح جاری رہنی چاہئے، لیکن سعودی عرب کے حکام اپنی ذمہ داری پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ بعض مواقع پر اپنی ذمہ داریوں کے برعکس اقدام کرتے ہیں، موذیانہ حرکتیں کر رہے ہیں۔
اگر ہمارا ملک اور ہماری قوم ان موذی افراد کے خلاف جوابی کارروائی کرے تو ان کی حالت خراب ہو جائے گی۔ ہم نے اب تک تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا ہے۔ متعدد معاملات میں ہم نے صبر و ضبط کیا ہے۔ ایران کے ہاتھ بہتوں سے زیادہ کھلے ہوئے ہیں۔ ہماری توانائیاں، ہمارے وسائل بہتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اگر اسلامی جمہوریہ سے مقابلہ آرائی کریں گے تو کسی بھی میدان میں ٹک نہیں پائيں گے۔ ہم تو اسلامی آداب کا پاس و لحاظ کر رہے ہیں، امت اسلامیہ کے اندر جذبہ اخوت کا خیال رکھ رہے ہیں، ورنہ جوابی کارروائی کرنے کی طاقت ہمارے پاس موجود ہے۔ اگر کبھی جوابی کارروائی کا فیصلہ کر لیا گیا تو ہماری جوابی کارروائی بہت شدید اور بہت سخت ہوگی۔
وہ ملت ایران کو آزما چکے ہیں۔ آٹھ سالہ جنگ کے وقت یہ سارے کے سارے، یہ اطراف کے لوگ اور اسی طرح مشرق و مغرب کی تمام قوتیں ایک خبیث و بد عنوان شخص کی حمایت کر رہی تھیں، اس کا دفاع کر رہی تھیں اور سب کو طمانچہ پڑا تھا۔ خود اس خبیث شخص کو بھی طمانچہ پڑا تھا اور اس کے ساتھ ہی ان تمام قوتوں کو طمانچہ پڑا تھا جو اس کی حمایت کر رہی تھیں۔ ایران کو سب پہچان چکے ہیں، اور اگر کسی نے نہیں پہچانا ہے تو اب پہچان لیگا۔
اس وقت ہمارے دسیوں ہزار ہم وطن مکہ و مدینہ میں ہیں۔ مناسک حج ادا کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ذرہ برابر بھی بے احترامی کا سلوک ہوا تو جوابی کارروائی کی جائے گی۔ جاں بحق ہو جانے والے ہمارے عزیزوں کے پاکیزہ جنازوں کے سلسلے میں اگر انھوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تو جوابی کارروائی کی جائے گی۔ انھیں چاہئے کہ حواس بجا رکھیں اور اپنے فریضے پر عمل کریں۔ البتہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جائے گا۔ بلکہ یہ معاملات ابھی جاری رہیں گے۔ اسلامی جمہوریہ کسی پر ظلم کرنا پسند نہیں کرتی لیکن ظلم سہنے کے لئے بھی تیار نہیں ہے۔ ہم کسی پر ستم نہیں کرتے، لیکن کسی کا ستم برداشت کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ ہمارا نظریہ ہے کہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہر انسان کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اور ہم ان حقوق سے تعرض نہیں کرتے۔ لیکن اگر کسی نے ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران کے حقوق سے تعرض کرنے کی کوشش کی تو ہمیں معلوم ہے کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے، ہم بہت سختی سے پیش آئیں گے۔ بحمد اللہ اس کے لئے ضروری توانائی بھی موجود ہے۔ ملت ایران ایک طاقتور قوم ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایک مستحکم اور پائیدار طاقت ہے، ہم اپنا دفاع کرنے پر قادر ہیں۔
میرے عزیزو! یاد رکھو کہ عظمت کا میدان، شرف کا میدان، اسلامی تشخص کا میدان اور ایرانی شناخت کا میدان ایسا میدان ہے جہاں شجاعت کی ضرورت پڑتی ہے، جہاں ایثار و قربانی کی ضرورت پیش آتی ہے، جہاں علم و دانش کی احتیاج ہوتی ہے، جہاں گہرے ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو آپ خود کو آمادہ کیجئے۔ میرا یہ خطاب تمام نوجوانوں سے ہے۔ تاہم مسلح فورسز سے تعلق رکھنے والے آپ عزیزوں کے لئے میری یہ تاکید ایک اعتبار سے دوسروں سے زیادہ ہے۔ آپ خود کو آمادہ کیجئے۔ حقیقی معنی میں محکم قلعہ بنئے۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ آپ نے آج پیش کئے جانے والے ترانے میں پڑھا کہ آپ ملک کے 'قلعہ و حصار ہیں۔ آپ نے پڑھا کہ آپ ملک کی پناہ گاہ ہیں تو حقیقی معنی میں پناہ گاہ بنئے۔
پالنے والے! ملت ایران کو اپنی رحمت و رہنمائی سے بہرہ مند فرما۔ ان عزیز نوجوانوں پر اور مسلح فورسز سے تعلق رکھنے والے تمام اہلکاروں پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔

والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته‌

۱) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۲۵