یہ فیسٹیول 5 اکتوبر 2015 کو منعقد ہوا تھا۔ منتظمہ کمیٹی سے رہبر انقلاب کی گفتگو 21 دسمبر کو تہران کے ایوان شمس ہال میں نشر کی گئی جہاں یہ فیسٹیول منعقد ہوا تھا۔
اس گتفگو کا ایک حصہ ملاحظہ ہو؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
دینی علوم کے اعلی مرکز میں گوناگوں صلاحیتیں موجود ہیں اور یہ صرف موجودہ دور کی بات نہیں ہے، بلکہ ماضی میں بھی یہی صورت حال رہی۔ بزرگ شیعہ علما و فقہا میں وہ ہستیاں جو شاعر بھی تھیں، کم نہیں ہیں، ان میں بعض کا شمار تو معروف شعراء میں ہوتا تھا۔ جیسے محقق حلی اور ان کے والد علامہ حلی اور اسی طرح دوسرے بھی فقہا۔ اسی طرح بعد کے ادوار میں میر داماد مرحوم، فیاض مرحوم، حزین لاہیجی اور دوسرے بہت سے فقہا۔ نجف میں بھی اسی طرح، جناب بحر العلوم مرحوم۔ جناب بحر العلوم کا ایک واقعہ بتاتا ہوں جو بہت دلچسپ ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ دو سو سال پہلے جناب بحر العلوم کے زمانے میں نجف کا ماحول اور فکر کیا تھی؟ جناب مرحوم بہبہانی کے بعد آپ مرجع تقلید بنے۔ یعنی مرحوم بحر العلوم کو جناب کاشف الغطا کی طرح مرحوم بہبہانی کے بقیہ شاگردوں اور بزرگ علما کے نزدیک بڑی مقبولیت ملی۔ سب نے ان کی تعظیم کی اور بخوشی و رضا انھیں سربراہ منتخب کیا۔ شروع کی بات ہے کہ جناب بحر العلوم مرحوم نجف سے کربلا پیدل سفر زیارت کے لئے روانہ ہوئے۔ آغاز سفر میں ہی ایک منزل پر پہنچ کے وہ تھک کر بیٹھ گئے۔ مرحوم بحر العلوم نے کہا کہ مجھے کمزوری کا احساس ہو رہا ہے اور میں اس رات اور آگے سفر نہیں کر سکوں گا۔ کچھ ساتھیوں نے کہا کہ آگے بڑھنا چاہئے لیکن انھوں نے کہا کہ نہیں، میں یہیں رکوں گا اور اس کے بعد انھوں نے یہ شعر پڑھا؛
از ضعف به هرجا که نشستیم وطن شد
وز گریه به هر سو که گذشتیم چمن شد
(ضعف کے باعث جہاں بھی بیٹھ گئے وہی جگہ وطن بن گئی اور گریہ کی وجہ سے جس سمت سے بھی گزرے وہ چمنستاں بن گئی۔)
یہ شعر (ایرانی شاعر) طالب آملی کا ہے۔ جناب بحر العلوم کے ہمراہ عرب شعرا تھے اور میری نظر میں دلچسپ نکتہ یہیں پر ہے؛ جناب بحر العلوم نے طالب آملی کا ایک شعر پڑھ دیا تو اس میں کوئی زیادہ تعجب والی بات نہیں ہے۔ کربلا کی زیارت کے سفر میں انھوں نے کچھ عرب شعرا کو اپنے ساتھ رکھا یہ میری نظر میں بہت اہم چیز ہے۔ عرب شعرا نے کہا کہ سیدنا! شِنوا معنی‌ هذا البیت؟ یعنی یہ جو آپ نے شعر پڑھا اس کا کیا مطلب تھا؟ جناب بحر العلوم نے شعر کی تشریح کی اور اس کا ترجمہ بیان کیا اور بتایا کہ میں نے جو شعر پڑھا ہے اس کے یہ معنی ہیں، آپ اسی مفہوم کو باندھئے۔ عرب شعرا طبع آزمائی میں لگ گئے۔ میرے خیال میں میں نے یہ واقعہ مرحوم حرز الدین کی کتاب میں پڑھا ہے۔ وہاں ذکر کیا گیا ہے کہ فلاں شاعر نے یہ شعر کہا، دوسرے شاعر نے اس انداز سے کہا اور خود جناب بحر العلوم نے اسے اس انداز سے پرویا۔ یعنی مرحوم بحر العلوم جیسا ممتاز فقیہ جو روحانی و معنوی اعتبار سے بڑی رفعت کے مالک تھے، آپ جانتے ہیں کہ روحانی بلندیوں کے اعتبار سے جناب بحر العلوم غیر معمولی شخصیت سمجھے جاتے تھے اور شاید یہی روحانی بلندی ہی وجہ بنی کہ تمام بڑے فقہا اور مرحوم بہبہانی کے شاگردوں نے ان کو سربراہ تسلیم کیا۔ تو وہ اتنے بلند روحانی مقامات اور عرفانی مدارج پر فائز ہونے کے باوجود جن کے بارے میں امام زمانہ علیہ السلام کی ملاقات جیسے واقعات نقل کئے جاتے ہیں، اس سب کے باوجود جب وہ نجف سے زیارت کے لئے کربلا جاتے ہیں تو اپنے ساتھ شعرا کو بھی لے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علوم دینیہ کے مرکز میں شعر و سخن پر بھی خاص توجہ دی جاتی تھی۔ دینی علوم کے مراکز میں یہ ماحول تھا۔ قم میں جناب صدر مرحوم ایک بڑے شاعر تھے۔ آپ نے آقا شیخ عبد الکریم کے لئے جو تاریخ کہی وہ اشعار مرحوم الحاج شیخ کے سنگ قبر پر کندہ کئے گئے ہیں۔ یہ دونوں ہی بڑے عالی مضمون کے شعر ہیں۔ یہ دو تین شعر ہیں جن میں مرحوم الحاج شیخ کی تاریخ کو سمو دیا گیا ہے۔
شعر و سخن ان میدانوں میں شامل ہے جن پر علوم دینیہ کے مراکز نے ہمیشہ توجہ دی ہے۔ یہ مناسب بھی ہے، یعنی علم و فضل سے اس کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ شاعر ہونا اور اچھا شاعر ہونا نہ تو فقاہت سے تضاد رکھتا ہے، نہ فلسفے سے متصادم ہے، نہ فلسفی ہونے سے کوئی ٹکراؤ رکھتا ہے۔ یہ جتنے بھی اہم موضوعات ہیں جو دینی درسگاہوں میں پڑھائے جاتے ہیں ان سے کوئی تضاد نہیں ہے۔ مرحوم الحاج شیخ محمد حسین اصفہانی غزل کہتے ہیں، قصیدے کہتے ہیں، عربی زبان میں بھی اور فارسی زبان میں بھی۔ مرحوم سید محمد سعید حبوبی جو نجف کے عرب مراجع تقلید میں سے تھے اور مرحوم آخوند کے معاصرین میں تھے، ان کا ایک ضخیم دیوان ہے، یہ دیوان میرے پاس موجود ہے۔ اس میں بڑے عجیب اشعار ہیں۔ عاشقانہ اشعار بھی ہیں، عربی غزلیں بھی ہیں، حالانکہ عربوں کے یہاں اس طرح غزلیں نہیں کہی جاتیں جو ہمارے یہاں فارسی میں رائج ہیں، لیکن غزلیات کی گوناگوں قسمیں وہاں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ مرحوم سید محمد سعید حبّوبی بھی فقہا میں سے تھے، وہ مجاہد بھی تے، ان افراد میں شامل تھے جنھوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کی، اس کے ساتھ ہی وہ شاعر بھی تھے۔ ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ بھی تازہ نمونے کے طور پر ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ آپ نے بھی عاشقانہ غزلیں کہی ہیں، البتہ ان میں عرفانی مفاہیم ہیں، لیکن غزلیات کی ظاہری شکل عاشقانہ ہی ہے۔ یہ در حقیت علوم دینیہ کے مراکز کی اس سنجیدہ اور پرحجم علمی کاوشوں کی فضا میں ایک فرحت و نشاط پیدا کرنے والی چیز ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ دینی درسگاہوں کا ماحول بہت پرحجم علمی کاموں کا ماحول ہوتا ہے، یونیورسٹیوں سے الگ وہاں کی فضا ہوتی ہے۔ یہ بالکل علمی فضا ہوتی ہے، جیسے کہ کوئی بند کمرہ ہو۔ اب اس فضا میں کبھی شعر کی عطر انگیز خوشبو پھیلتی ہے تو میری نظر میں یہ ایک اچھی چیز ہے۔ بحمد اللہ بڑی اچھی استعداد موجود ہے۔ جو حضرات یہاں تشریف فرما ہیں یا ان محترمہ نے جو اشعار پڑھے وہ بہت اچھے تھے۔ دینی دار العلوم میں دوسرے بھی بہت سے افراد کو میں جانتا ہوں جو بڑے اچھے شاعر ہیں۔ چونکہ ان کا طرز فکر اسلامی ہے اور ا سلامی دینی مآخذ سے اس کا فکری بہاؤ شروع ہوتا ہے اس لئے ان کے اشعار بھی بڑے مفید واقع ہو سکتے ہیں۔ یہ بڑا اچھا کام ہے، لیکن آپ بس اتنے پر ہی مطمئن نہ ہو جائیے۔ زیادہ بلند منزلوں کی طرف قدم بڑھائیے۔
نجف اشرف میں ایسے شعرا جو جید علما میں تھے، ان کی تعداد کم نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو ان کے اشعار شہرہ آفاق ہو جاتے تھے۔ امریکا میں سکونت پذیر وہ معروف لبنانی شاعر ایک معروف شاعر ہے، اس وقت اس کا نام مجھے یاد نہیں آ رہا ہے؛ (1) بڑے معروف اشعار کہے ہیں۔ اس کی ایک غزل کا نام 'الطلاسم' ہے۔ اسی طرح اس کی 'سخن ترجیع' البتہ یہاں 'ترجیع' سے مراد وہ نہیں ہے جو ہمارے یہاں اس لفظ سے مراد لی جاتی ہے، یا 'لست ادری' نام کی نظم ہے۔ جس کا جواب مرحوم سید رضا ہندی نے دیا؛ 'انا ادری'۔ یہ نظمیں ساری دنیائے عرب میں چھا گئیں اور سب کو ان کے بارے میں معلوم ہوا۔ مختصر یہ کہ نجف کے علما میں بڑے ممتاز شعرا بھی تھے۔ خود مرحوم محمد رضا مظفر جن کی علمی کتب دینی درسگاہوں کے نصاب میں شامل ہیں اور آج بھی پڑھائی جاتی ہیں، وہ بھی شاعر تھے۔ بڑے پائے کے شاعر تھے۔ بہت اچھے شاعر تھے اور نجف میں شعرا کے حلقے میں شامل رہتے تھے۔ بہرحال شاعری اچھی چیز ہے۔ علوم دینیہ کے مراکز کے اندر اس کی استعداد بھی موجود ہے۔ جہاں تک ہو سکے اس استعداد کو پروان چڑھایا جائے، البتہ اس شرط کے ساتھ کہ درس اور علمی بحثوں پر اس کا اثر نہ پڑے۔ یعنی یہ نہ ہو کہ حضرات اپنا وقت شاعری پر ہی صرف کرنے لگیں۔
اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب و کامران فرمائے!
1) ایلیا ابوماضی (۱۹۵۷ - ۱۸۸۹)