اس ملاقات میں رہبر انقلاب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کی۔ 29 دسمبر 2015 کو اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے اسلام کے طلوع اور بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نتیجے میں، آفت زدہ اور مردہ دور جاہلیت میں، نئی جان پڑ جانے، حقیقی روحانیت اور حیات نو کی لہر دوڑ جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آج بھی دنیائے اسلام اور خاص طور پر سچے مفکرین اور علماء کا فرض ہے کہ ظلم و تفریق اور قسی القلبی سے پر موجودہ دنیا میں اسلام و معنویت کی حقیقی روح پھونکیں۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ اب عالم اسلام کی باری ہے کہ عالمی علم و دانش اور وسائل نیز عقل و خرد و تدبر و بصیرت کی مدد سے جدید اسلامی تمدن کی تشکیل کی سمت قدم بڑھائے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ عالم اسلام سے جس سطح پر توقعات ہیں ان کے مقابلے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یوم ولادت جس انداز سے منایا جاتا ہے وہ بہت کم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج امت مسلمہ کا فریضہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یوم ولادت یا یوم بعثت کا جشن برپا کرے، بلکہ دنیائے اسلام کو چاہئے کہ جدید اسلامی تمدن کی منزل تک پہنچنے کے لئے کمر ہمت کسے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ سامراجی محاذ کا اصلی ہدف مسلمانوں کے درمیان داخلی جنگیں شعلہ ور کرنا اور شام، یمن، اور لیبیا جیسے ممالک کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا: دشمن کی ان سازشوں پر خاموش ہوکر سر نہیں جھکا دینا چاہئے بلکہ بصیرت حاصل کرکے اور استقامت کا جذبہ قائم رکھتے ہوئے سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب کے اس خطاب کا ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.

آپ حاضرین محترم، ملک کے اعلی عہدیداران، وحدت اسلامی اسمبلی کے مہمانوں اور اسلامی ممالک کے محترم سفرا کو جو اس نشست میں تشریف فرما ہیں، پیغمبر اکرم اور آپ کے فرزند بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، اسی طرح تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں تمام ملت ایران، مسلم امہ اور ساری دنیا کے آزاد منش انسانوں کو جو فضیلت و اخلاقیات کو اور فضیلت و اخلاقیات کی راہ میں مساعی و جدوجہد کو اہمیت دیتے ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت اور اسی طرح آنحضرت کی بعثت ایک حیات نو تھی جو اس دور کی بے جان دنیا کے پیکر میں ڈال دی گئی۔ وہ دنیا ظاہری طور پر تو زندہ تھی، حکومتیں، سلطنتیں، سعی و کوششیں، سرگرمیاں سب تھیں، لیکن اس دنیا میں انسانیت کی موت ہو چکی تھی، فضیلتیں مردہ ہو چکی تھیں۔ صرف جفا، ظلم، تفریق اور قسی القلبی باقی بچی تھی۔ فضیلتیں مر چکی تھیں۔ رسول اکرم نے اپنے وجود سے اور اپنے پیغام سے اس دنیا میں ایک نئی جان ڈال دی۔ ہم جو یہ کہتے ہیں کہ اپنے وجود سے اور اپنے پیغام سے جان ڈال دی تو اس لئے کہ خود پیغمبر اکرم سراپا اسلام تھے۔ پیغمبر اکرم کی زوجہ مکرمہ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا؛ «کانَ خُلقُهُ القُرآن» (۲) وہ قرآن مجسم تھے۔ پیغمبر اکرم نے اور آپکے ذریعے لائے گئے دین نے اس دنیا کے پیکر میں روح پھونکی؛ اِستَجیبوا للهِ‌ وَ لِلرَّسولِ اِذا دَعاکُم لِما یُحییکُم (۳) یعنی وہ حیات کا درجہ رکھتے تھے اور آپ عوام الناس کے لئے، اس ظلمانی، بے جان اور بیمار دنیا کے لئے جو کچھ لائے وہ بھی حیات نو کے برابر ہے۔
ہم اور آپ آج یہ تقریب منعقد کر رہے ہیں۔ زبان سے خراج عقیدت پیش کرنا اور ایک ساتھ جمع ہونا بھی پسندیدہ فعل ہے، لیکن یہ، اسلام اور پیغمبر کی پیروی کے ہم اور آپ جیسے دعویداروں سے جو توقعات ہیں ان کے اعتبار سے کافی نہیں ہے۔ ہمیں بھی اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ آج کی اس بے جان اور بیمار دنیا کے پیکر میں نئی جان ڈالیں۔ آج بھی دنیا ظلم کا شکار ہے، بے رحمی سے روبرو ہے، تفریق و امتیاز میں مبتلا ہے۔ آج بھی سب سے بڑا غم فضیلتوں کی موت کا ہے۔ فضائل کو مادی قوتوں کے وسائل کے ذریعے کچل دیا گيا ہے۔ انصاف کا گلا گھونٹا جا رہا ہے، انسانیت اور اخلاقیات کو کچلا جا رہا ہے، بے قابو قوتوں کے ہاتھوں انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، بڑی طاقتوں کی لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے کچھ قومیں بھوکوں مر رہی ہیں۔ یہ آج کی دنیا کی حالت ہے۔ یہ بھی اسلام کی آمد سے پہلے کے دور جاہلیت جیسا زمانہ ہے، یہ بھی دور جاہلیت ہے۔
آج مسلم امہ کا فرض صرف یہ نہیں ہے کہ یوم ولادت پیغمبر یا یوم بعثت پیغمبر کی یاد میں جشن برپا کرے۔ یہ مسلم امہ کی فریضے کی نسبت بہت محدود عمل ہے۔ دنیائے اسلام کے دوش پر آج یہ ذمہ داری ہے کہ خود اسلام کی طرح، خود پیغمبر اکرم کی طرح اس دنیا کے پیکر میں نئی روح پھونکے۔ نئی فضا ایجاد کرے۔ نیا راستہ تعمیر کرے۔ اس نئے افق کو جس کا ہمیں انتظار ہے، ہم 'جدید اسلامی تمدن' کہتے ہیں۔
ہمیں بشریت کے لئے جدید اسلامی تمدن کی سوچ میں لگ جانا چاہئے۔ بہت بنیادی قسم کا فرق ہے اس سوچ اور بشریت کے بارے میں بڑی طاقتوں کے طرز فکر اور طرز عمل کے درمیان۔ یہ سوچ سرزمینوں پر قبضہ کرنے کے معنی میں نہیں ہے۔ اس کا مقصد قوموں کے حقوق سے تعرض کرنا نہیں ہے۔ اس کا ہدف اپنی ثقافت اور طور طریقوں کو دوسری قوموں پر مسلط کرنا نہیں ہے۔ اس کا مقصد ہے قوموں کو تحفہ الہیہ پیش کرنا، تاکہ قومیں خود اپنے انتخاب سے، اپنے اختیار سے اور اپنی تشخیص کی بنیاد پر صحیح راستہ چنیں۔ آج دنیا کی بڑی طاقتوں نے قوموں کو جس راستے پر گھسیٹ لیا ہے وہ غلط اور گمراہی کی سمت لے جانے والا راستہ ہے۔ آج ہمارے دوش پر یہ ذمہ داری ہے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ یورپ کے لوگوں نے مسلمانوں کے علم و دانش اور مسلمانوں کے فلسفے سے استفادہ کرکے، اس دانش و فلسفے کی مدد لیکر اپنے لئے ایک تمدن کا خاکہ تیار کر لیا۔ البتہ وہ تمدن ایک مادی تمدن تھا۔ سولہویں سترہویں صدی سے اہل یورپ نے ایک نئے تمدن کی داغ بیل ڈالنے کا سلسلہ شروع کیا، چونکہ یہ مادی تمدن تھا اس لئے انھوں نے گوناگوں وسائل اور ذرائع کو بے روک ٹوٹ استعمال کیا، نتیجتا ایک طرف وہ استعمار کی جانب نکل گئے، قوموں کو مغلوب کرنے میں لگ گئے، قوموں کی ثروت لوٹنے میں جٹ گئے اور دوسری جانب انھوں نے سائنس و ٹیکنالوجی اور تجربات کی مدد سے خود کو اندرونی سطح پر مضبوط بنایا اور اسی تمدن کو عالم بشریت پر مسلط کر دیا۔ یہ وہ کام ہے جو یورپیوں نے چار پانچ صدیوں کے اندر انجام دیا ہے۔ یہ تمدن جو انھوں نے دنیا کے سامنے پیش کیا اس نے لوگوں کو ٹیکنالوجی، سرعت، رفاہ اور زندگی میں استعمال ہونے والے وسائل کی جھلکیاں فراہم کیں، لیکن انھیں خوشبختی نہیں دی، انصاف نہیں دیا۔ بلکہ اس کے برخلاف مساوات کو کچل کر رکھ دیا، کچھ قوموں کو غلام بنا لیا، کچھ قوموں کو مفلسی میں مبتلا کر دیا، کچھ قوموں کی توہین کی اور پھر یہ تمدن اپنی اندرونی سطح پر تضادات سے بھی دوچار ہو گیا۔ یہ لوگ اخلاقیات کے اعتبار سے دیوالیہ ہو گئے، روحانیت و پاکیزگی کے اعتبار سے کھوکھلے ہو گئے۔ آج خود اہل مغرب اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ ایک معروف مغربی رہنما نے مجھ سے کہا کہ ہماری دنیا کھوکھلی اور بے معنی ہے، ہمیں اس کا پورا احساس ہے۔ انھوں نے بالکل صحیح کہا۔ اس تمدن میں ظاہری زرق برق تو ہے لیکن وہ بشریت کے لئے بڑے خطرناک باطن کا حامل ہے۔ آج مغربی تمدن کے تضادات سامنے آ رہے ہیں؛ امریکا میں کسی انداز سے، یورپ میں کسی اور صورت میں، دنیا بھر میں ان کے زیر تسلط علاقوں میں ایک الگ روپ میں۔
اب ہماری باری ہے۔ اب اسلام کی باری ہے؛ وَ تِلکَ الاَیّامُ نُداوِلُها بَینَ النّاس (۴) آج مسلمانوں کی باری ہے کہ ہمت و حوصلے کے ساتھ جدید اسلامی تمدن کی داغ بیل رکھیں۔ جس طرح اس زمانے میں یورپیوں نے مسلمانوں کے علم و دانش سے استفادہ کیا، مسلمانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا، مسلمانوں کے فلسفے سے استفادہ کیا، ہم بھی اسی طرح آج دنیا کے علم و دانش سے استفادہ کریں، دستیاب بین الاقوامی وسائل کی مدد لیں اسلامی تمدن کو قائم کرنے کے لئے، البتہ اسلامی ماہیت کے ساتھ، روحانیت و معنویت کے ساتھ۔ یہ ہمارا عصری فریضہ ہے۔
یہ خطاب بنیادی طور پر علمائے دین اور سچے دانشوروں سے ہے۔ اس حقیر کو اب سیاستدانوں سے کچھ خاص امید نہیں رہ گئی ہے۔ پہلے یہ تصور ذہن میں آتا تھا کہ دنیائے اسلام کے سیاسی رہنما بھی اس میدان میں مددگار واقع ہو سکتے ہیں، لیکن افسوس کہ یہ امید اب کمزور پڑ چکی ہے۔ اب ہماری امیدیں دنیائے اسلام کے علمائے دین اور سچے دانشوروں سے وابستہ ہیں جو مغرب کو اپنی قبلہ گاہ مان کر نہیں بیٹھے ہیں۔ اب انھیں سے توقعات ہیں اور یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ ایسا کر پانا ممکن نہیں ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے، اس کام کو انجام دیا جا سکتا ہے۔ عالم اسلائے کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے۔ ہمارے پاس اچھی آبادی ہے، اچھی سرزمینیں ہیں، ممتاز جغرافیائی محل وقوع ہے، دنیائے اسلام میں ہمارے پاس بے پناہ ذخائر ہیں۔ دنیائے اسلام میں ہمارے پاس نمایاں اور باصلاحیت افرادی قوت ہے۔ اگر ہم اس سرمائے کو اسلامی تعلیمات کی مدد سے خود مختار بنا سکیں تو ہم علم کے میدان میں، سیاست کے میدان میں، ٹیکنالوجی کے میدان میں اور گوناگوں سماجی میدانوں میں اپنی خلاقانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھا سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایک مثالیہ ہے۔ یہ عالم اسلام کے لئے ایک طرح سے مثالی تجربہ ہے۔ اس ملک میں جب تک اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی، ہماری قوم حقیقت میں ایک پسماندہ، دوسروں کی محتاج، علمی اعتبار سے بہت پیچھے، سیاسی اعتبار سے بہت پیچھے، سماجی اعتبار سے بہت پیچھے اور عالم سیاست میں الگ تھلگ پڑی ہوئی ایک قوم تھی۔ مگر آج ہماری ترقی و پیشرفت نے دشمنوں کو بھی اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی فتح کو تقریبا پینتیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد آج علمی دنیا میں، سائنس و ٹیکنالوجی کی رینکنگ میں، دنیا کی بہت سی جدید ٹیکنالوجیوں کے میدان میں ہم پیشرفتہ ممالک کی صف میں شامل ہیں۔ ایسی رپورٹیں جو پوری طرح مسلمہ اور مصدقہ ہیں، بتاتی ہیں کہ ہم کسی میدان میں ساتویں مقام پر، کسی میدان میں چھٹے مقام پر اور کہیں پانچویں مقام پر ہیں۔ ملت ایران اسلام کی برکت سے اپنے تشخص اور اپنی ماہیت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس تجربے کو دوسری جگہوں پر بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ ملکوں پر سپر طاقتوں کا منحوس سایہ نہ رہے۔ یہ اولیں شرط ہے۔ البتہ اس کے لئے قیمت چکانی پڑتی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی بڑا کام بغیر قیمت چکائے ہو نہیں پاتا۔ میں اس پرمغز اور انتہائی اہم نشست میں جہاں بہت بڑی اور اہم شخصیات تشریف فرما ہیں، یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ امت مسلمہ مجاہدانہ اور سنجیدہ سعی و کوشش کے ذریعے موجودہ دور کے لئے اسلامی تمدن کا خاکہ تیار کر سکتی ہے، اسے عملی جامہ پہنا سکتی ہے اور اسے بشریت کے سامنے پیش کر سکتی ہے۔
ہم بالجبر کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ ہم کسی بھی ملک کو جبرا دنیائے اسلام کے زیر تسلط نہیں لانا چاہتے۔ ہم یورپیوں کی طرح کام نہیں کرتے، ہماری روش امریکیوں جیسی نہیں ہے۔ یورپ والے تو بحر اوقیانوس کے ایک جزیرے سے اٹھے بحر ہند تک آگے بڑھتے گئے۔ ہندوستان جیسے عظیم ملک اور اس کے اطراف کی کئی ریاستوں پر قبضہ کرلیا۔ انھیں خوب لوٹا۔ خود تو مالدار ہو گئے جبکہ ان ریاستوں کو بدبختی میں مبتلا کر دیا۔ اس انداز سے انھوں نے کام کیا۔ وہ آج بھی یہی کام دوسرے طریقوں سے کر رہے ہیں، دوسری روشوں سے انجام دے رہے ہیں۔ دوسروں کے سرمائے سے، دوسروں کے پیسے سے، دوسروں کی دولت سے اور دوسروں کی محنتوں کے ثمرات سے اپنی ترقی کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور اپنے ظاہری روپ کو سنوراتے ہیں۔ البتہ ان کا باطن تباہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا باطن بوسیدہ ہوتا جا رہا ہے۔جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا؛ وہ اندر سے کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ مسلمانوں کو اگر کوئی کامیابی ملے گی تو ان کو برا لگے گا۔ اگر آپ کے اوپر مصیبت پڑتی ہے تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا؛ اِن تَمسَسکُم حَسَنَةٌ تَسُؤهُم وَ اِن تُصِبکُم سَیِّئَةٌ یَفرَحوا بِها (۵) یہ مزاج ہے ان لوگوں کا۔ قرآن یہی کہتا ہے۔ ہمیں ان کو نہیں دیکھنا چاہئے، ان کا دست نگر نہیں بننا چاہئے، ان کے اشارہ ابرو کا منتظر نہیں رہنا چاہئے۔ ہمیں اپنا راستہ خود تلاش کرکے اس پر آگے بڑھنا چاہئے۔ یہ ہمارا اور ساری دنیائے اسلام کا فرض ہے۔
دشمنوں کا ایک اہم حربہ ہمارے اندر تفرقے کے بیج بونا ہے۔ میں ہمیشہ اس نکتے پر خاص تاکید کرتا ہوں، اس پر زور دیتا ہوں۔ بھائیو اور بہنو! دنيائے اسلام کے مسلمانو! اگر میری آواز آپ کے کانوں تک پہنچ رہی ہے تو غور سے سنئے! جس دن امریکیوں کے بیانوں میں شیعہ اور سنی کا لفظ استعمال کیا گيا، ہمیں اسی دن سے تشویش لاحق ہو گئی، اہل نظر اسی وقت سے فکرمند ہو گئے۔ سنی اور شیعہ کے فرق کا امریکا سے کیا مطلب ہے؟ ایک صیہونی یہودی امریکی سیاستداں کہ جو اسلام اور مسلمین کے خلاف شرانگیزی کے علاوہ کچھ کر ہی نہیں سکتا، اس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ دنیائے اسلام کے اندر شیعہ اور سنی کے جھگڑوں کا فیصلہ کرے! اہل سنت کے بارے میں کچھ کہے اور شیعوں کے تعلق سے اپنی رائے دے! جس دن امریکیوں کی زبان سے شیعہ اور سنی کے کلمات سنائی دئے، یہاں اہل نظر افراد اور دقت نظر سے کام کرنے والے لوگ مضطرب ہو گئے۔ وہ سمجھ گئے کہ کوئی نیا فتنہ برپا ہونے والا ہے اور یہی ہوا۔ شیعہ سنی تنازعہ طویل تاریخ رکھتا ہے۔ برطانیہ اس کام میں بہت ماہر تھا۔ ماضی کے بہت سے واقعات ہیں اور ہمارے پاس ایسی بہت سی اطلاعات ہیں کہ برطانیہ کے عناصر کے ذریعے کس طرح شیعہ سنی اختلافات اور تنازعات کی آگ بھڑکائی گئی ہے۔ یہاں بھی، سابق حکومت عثمانیہ کے دور میں بھی اور عرب ممالک کے اندر بھی۔ انھیں آپس میں الجھائے رکھنے کے لئے یہ چالیں چلی جاتی تھیں۔ مگر اس وقت امریکیوں نے اس سلسلے میں جو سازش رچی ہے وہ بڑی خطرناک ہے۔ کیا اسلام کے اندر کسی فرقے کی (امریکا کی طرف سے) حمایت پر ہمیں خوشی ہونی چاہئے؟ اگر انھوں نے ہماری طرفداری کر دی تو کیا ہمیں خوش ہونا چاہئے؟ ہرگز نہیں، ہمیں مضطرب ہونا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ ہمارے اندر کہاں خامی اور کمزوری ہے کو دشمن اس کا غلط استعمال کرنے کی کوشش میں لگ گيا ہے۔ وہ ہماری طرفداری کا دکھاوا کر رہے ہیں۔ ورنہ یہ لوگ تو سرے سے اسلام کے دشمن ہیں۔ حقیقت ماجرا وہی ہے جو نیویارک میں گیارہ ستمبر کے واقعے اور ان ٹاوروں میں ہونے والے دھماکوں کے بعد اس وقت کے امریکی صدر نے کہا تھا کہ؛ یہ صلیبی جنگ ہے۔ امریکی صدر نے بالکل صحیح کہا تھا۔ وہ برا انسان تھا لیکن اس کی یہ بات بالکل درست تھی۔ یہ اسلام اور سامراج کی لڑائی ہے۔ البتہ امریکی صدر نے تو عیسائیت کا لفظ استعمال کیا تھا اور صلیبی جنگ کی بات کی تھی، مگر یہ دروغگوئی تھی۔ عالم اسلام میں عیسائی پورے تحفظ کے ساتھ زندگی بسر کرتے آئے ہیں۔ آج بھی ہمارے ملک میں یہی ماحول ہے۔ بعض دوسرے ملکوں میں بھی یہی ماحول ہے۔ امریکی صدر کی مراد تھی استکباری طاقتوں اور دنیائے اسلام کے مابین جنگ۔ یہ بات صحیح تھی۔ یہ بیان صادقانہ تھا۔ امریکا کے موجودہ حکمراں جو کہتے ہیں کہ ہم اسلام سے اتفاق رکھتے ہیں، مگر فلاں اسلامی فرقے کے ہم مخالف ہیں، فلاں اسلامی فرقہ ہمیں پسند نہیں ہے، یہ سراسر جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ لوگ منافقت کر رہے ہیں، یہ ریاکاری کر رہے ہیں۔ یہ بھی اسلام کے دشمن ہیں۔ انھیں بھی ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب پین ایرانزم، پین ترکزم، پین عربزم اور اس جیسے موضوعات کی مدد سے اختلافات کو ہوا دی جاتی تھی۔ یہ چال زیادہ کرگر نہیں رہی۔ آج مذہب و مسلک کے نام پر اختلاف پھیلانا چاہتے ہیں، نوجوانوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنانا چاہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ داعش جیسے دہشت گرد فرقے امریکا اور اس سے وابستہ طاقتوں کے پیسے اور سیاسی حمایت سے وجود میں آتے ہیں اور عالم اسلام میں یہ المئے رقم کرتے ہیں۔ یہ نتیجہ نکلتا ہے۔
اگر یہ (امریکی اور ان کے ہمنوا) کہتے ہیں کہ ہم توصرف شیعوں کے مخالف ہیں، اہل سنت کی ہم حمایت کرتے ہیں تو یہ ان کا جھوٹ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ فلسطین کے عوام شیعہ ہیں یا سنی؟ تو پھر وہ فلسطینیوں کے سلسلے میں اتنے بے رحم کیوں ہیں؟ فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کو وہ جارحیت کیوں نہیں مانتے؟ غزہ کو کس طرح مسمار کیا گيا؟ غرب اردن کے علاقوں پر کس طرح کی سختیاں کی گئیں اور اب بھی کی جا رہی ہیں؟ یہ لوگ تو شیعہ نہیں ہیں، یہ تو سنی ہیں۔ دراصل امریکیوں کے لئے شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ جو بھی مسلمان اسلام کے ساتھ، اسلامی قوانین اور اسلامی احکامات کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہے گا، اس کے لئے جدوجہد کرے گا اور اس راستے میں قدم آگے بڑھائے گا، اسے وہ اپنا دشمن مانیں گے۔
ایک امریکی سیاستداں کا انٹرویو لیا گيا۔ انٹرویو لینے والے نے اس سے سوال کیا کہ امریکا کا دشمن کون ہے؟ وہ (امریکی سیاستداں) جواب میں کہتا ہے کہ امریکا کی دشمن دہشت گردی نہیں ہے، امریکا کے دشمن مسلمان بھی نہیں ہیں، امریکا کی دشمن ہے اسلام پسندی، اسلام نوازی۔ یعنی جب تک مسلمان بے غفلت کے عالم میں عام زندگی گزارے اور اسلام کے بارے میں اس کے کوئی خاص جذبات نہ ہوں، اس وقت تک یہ لوگ اس مسلمان سے دشمنی نہیں کرتے۔ لیکن جیسے ہی اسلام پسندی کا معاملہ بیچ میں آیا، اسلام کی پابندی اور اس پر عمل آوری کی بات آئی اور اسی اسلامی تمدن کی تشکیل کا معاملہ بیچ میں آیا، وہیں سے دشمنی شروع ہو جائے گی۔ اس نے بالکل صحیح کہا، اس کا دشمن ہے اسلامی رجحان۔ اسی لئے جب عالم اسلام میں بیداری کی لہر اٹھتی ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ کس طرح وہ سراسیمہ ہو جاتے ہیں، جی جان سے لگ جاتے ہیں، محنت کرتے ہیں کہ اسے کچل دیں، نابود کر دیں۔ انھیں کچھ جگہوں پر کامیابی بھی ملی ہے۔ البتہ میں آپ سے یہ عرض کر دوں کہ اسلامی بیداری کی لہر نابود ہونے والی نہیں ہے۔ اسلامی بیداری ان شاء اللہ فضل پروردگار سے، نصرت الہیہ سے اپنی منزل تک ضرور پہنچے گی۔
ان کا مقصد مسلمانوں کے درمیان داخلی جنگوں کی آگ بھڑکانا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ وہ کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ اسلامی ملکوں کو ایک ایک کرکے وہ تاراج کر رہے ہیں۔ شام کو تباہ کر رہے ہیں، یمن کو برباد کر رہے ہیں، لیبیا کو اجاڑ رہے ہیں۔ انفراسٹرکچر تباہ کر رہے ہیں۔ کیوں؟ ہم ان سازشوں کے سامنے بے بس کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ان کے شوم اہداف ہماری نظروں سے پوشید ہیں؟ ہمیں اپنے اندر بصیرت پیدا کرنی ہوگی۔ اگر ہم اس میدان میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اپنے اندر آگاہی پیدا کرنا ہوگی۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا؛ اَلا وَ لا یَحمِلُ هذَا العَلَمَ اِلاّ اَهلُ البَصَرِ وَ الصَّبر (۶) اس کا مطلب ہے کہ بصیرت ہونا ضروری ہے اور اس راستے میں صبر و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ وَ اِن تَصبِروا وَ تَتَّقوا لا یَضُرُّکُم کَیدُهُم شَیئًا (۷) اگر ہم بصیرت سے کام لیں، اگر صبر و تحمل سے کام لیں، اگر استقامت و پائیداری کا ثبوت دیں تو یہ سازشیں بے اثر ہو جائیں گی۔ لیکن اگر ہم خود بھی دشمنوں کی طرح بات کرنے لگیں گے، انھیں کے انداز میں کام کرنے لگیں گے تو نتیجہ یہی ہوگا۔
بحرین میں مسلمانوں کو کیوں اس طرح کچلا جائے؟ نائیجیریا میں ایک مومن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کوشاں مصلح شیخ کے سلسلے میں اس طرح کیوں المئے رقم کئے جائیں، تقریبا ایک ہزار لوگ کیوں قتل کئے جائیں، ان (شیخ زکزکی) کے چھے بیٹوں کو کیوں شہید کیا جائے؟ ان ہولناک واقعات پر عالم اسلام کیوں خاموش رہے؟ تقریبا ایک سال سے یمن پر شب و روز جاری بمباری کو دنیائے اسلام کیوں برداشت کرے؟ تقریبا ایک سال ہو رہے ہیں، دس مہینے سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے کہ یمنی عوام کے گھروں، اسپتالوں، اسکولوں، سڑکوں، بے گناہ لوگوں، مرد و زن سب پر بم برسائے جا رہے ہیں، کیوں؟ کیا اس سے دنیائے اسلام کا بھلا ہونے والا ہے؟ شام میں کسی الگ انداز سے اور عراق میں کسی اور طرح سے۔ دشمن کے اہداف بے حد خطرناک ہیں۔ ان کے یہ اہداف بقول خود ان کے تھنک ٹینکوں میں طے پاتے ہیں، ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔
ہم نے عرض کیا کہ اصلی ذمہ داری دنیائے اسلام کے علما اور سچے روشن فکر افراد کے دوش پر ہے۔ انھیں چاہئے کہ عوام الناس سے اس سلسلے میں بات کریں، اپنے سیاسی رہنماؤں کو متوجہ کریں۔ دنیائے اسلام کے کچھ سیاسی رہنماں بیدار ضمیر کے مالک ہیں، ہم نے قریب سے یہ چیز دیکھی ہے، یہ لوگ اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ اس نشست میں میری گزارش یہ ہے کہ ہم پیغمبر اکرم کے یوم ولادت کے جشن سے یہ استفادہ کریں کہ اسلام نے جو کام روز اول انجام دیا تھا اور اس زمانے کی مردہ دنیا کے پیکر میں نئی جان ڈال دی تھی، اسی چیز کو ہم آج اپنا نصب العین قرار دیں۔ اس کے لئے عقل و منطق، تعقل و تدبر، بصیرت و آگاہی اور دشمن کی شناخت کی ضرورت ہے۔ ہمیں دشمن کو پہنچاننا ہوگا، دشمن کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا، دشمن کے فریب میں آنے سے خود کو بچانا ہوگا۔ اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے، ہمیں اپنے سیدھے راستے پر قرار دے اور ثابت قدم رکھے۔ عرب شاعر نے بالکل درست کہا ہے؛

الدَّهرُ یَقظان وَ الأَحداثُ لم یَنَم‌
فَما رُقادُکُم یا أَفضَلَ الأُمَم(۹)

جب دنیائے قدرت، دنیائے زر و زور اپنے تمام وسائل کے ساتھ آپ کی گھات میں ہے تو آپ کو اونگھنے کا حق نہیں ہے، غفلت کی نیند سو جانے کا حق نہیں ہے۔
پالنے والے اس انداز سے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے جو اس دنیا اور اسلام کے لئے پسندیدہ ہے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) رہبر انقلاب اسلامی سے پہلے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے تقریر کی اور اہم نکات کا ذکر کیا۔
۲) شرح نهج‌ البلاغه‌ ابن‌ ابی‌الحدید، جلد ۶، صفحہ ۳۴۰
۳) سوره‌ انفال، آیت نمبر 24 کا ایک حصہ؛ «...جب اللہ اور رسول تمھیں ایسی چیز کی دعوت دیں جو تمھیں حیات عطا کرتی ہے تو اس پر لبیک کہو۔ ...»
۴) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر 140 کا ایک حصہ «...اور یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ (تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں) ...»
۵) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر 120 کا ایک حصہ « تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں...»
۶) نهج ‌البلاغه، خطبه‌ نمبر ۱۷۳
۷) سوره‌ آل‌ عمران، آیت نمبر 120 کا ایک حصہ؛ «... اور اگر تم صبر سے کام لو تو ان کی کوئی بھی تدبیر تمہارے خلاف کارگر ثابت نہیں ہو سکتی...»
۸) شیخ ابراهیم الزّکزکی‌
۹) احمد شوقی، تھوڑے سے فرق کے ساتھ