رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ماہ رمضان کے آخری ایام اور شبہائے قدر سے بخوبی مستفیض ہونے کی سفارش کی اور فرمایا کہ یہ راتیں اور یہ سحر کے لمحات تضرع اور توسل کے لمحات ہیں، ہمیں بلند مرتبہ ارواح منجملہ شہدا کی روحوں سے طلب نصرت کرکے اور انھیں اپنا شفاعت کنندہ قرار دیکر حضور قلب کے ساتھ اس طرح دعا کرنا چاہئے کہ اللہ کی نظر عنایت ہم پر ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس موقع پر حرم اہل بیت کے دفاع کے مسئلے اور اس راہ میں جان نچھاور کرنے والے شہدا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مسئلہ تاریخ کے حیرت انگیز واقعات میں ہے کہ ایران اور دیگر ملکوں سے کچھ مومن اور پرعزم نوجوان اپنی زوجہ، کمسن بچے اور آسودہ حال زندگی کو چھوڑ کر ایک غیر ملک میں جاکر راہ خدا میں جہاد کریں اور اسی راہ میں جام شہادت نوش کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حرم اہلبیت کے محافظ شہدا کی قوت ایمانی اور ان کے خاندانوں کے صبر و ضبط کو بھی بہت حیرت انگیز قرار دیا اور فرمایا کہ اس ماجرا کا ایک اور پہلو اس اسلامی جمہوری نظام کے اقتدار کے عوامل ہیں جو مومن و مجاہد انسانوں اور شہدا کے ایمان اور عزم و ارادے پر استوار ہے۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

عزیز بھائیو اور بہنو! شہیدوں کے محترم اہل خانہ! کہ یقینا اور بلا مبالغہ ملک کی سلامتی، ملک کی پیشرفت اور انقلاب کی بقا انھیں شہیدوں کے خون اور ان کے محترم اہل خانہ کے صبر و استقامت کی مرہون منت ہے، آج کل کے یہ ایام بھی بڑی اہم مناسبت رکھتے ہیں۔ مولائے متقیان کی شہادت کے ایام ہیں، یہ عظیم ہستی ہے، یہ تاریخ اسلام ہی نہیں تاریخ بشریت کے سب سے عظیم شہید ہیں۔ جس طرح سید الشہدا حضرت ابو عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے لئے 'ثار اللہ' کا لقب استعمال کیا جاتا ہے، یعنی وہ ہستی کے جس کا خوں بہا خود اللہ تعالی ہے۔ ثار اللہ کے معنی یہی ہیں، ان کے خون کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کچھ بھی خوں بہا نہیں بن سکتا۔ یہی لقب حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ (زیارت امام حسین علیہ السلام میں) پڑھتے ہیں؛ یا ثارَ اللهِ وَ ابنَ ثارِه(۲) تو «وَ ابنَ ثارِه» یعنی ثار اللہ کے فرزند، تو یہاں پر ثار اللہ یعنی حضرت امیر المومنین علیہ السلام۔ یعنی خون کی عظمت کے اعتبار سے حضرت امیر المومنین بھی اسی مقام پر ہیں۔ مولائے کائنات شہید محراب ہیں، شہید در راہ حق ہیں، شہید راہ استقامت ہیں، شہید راہ عزم راسخ ہیں، ان الفاظ سے اس عظیم شہید کی عظمت نمایاں ہے۔
یہ ایام دعا، تضرع، توسل کے ایام ہیں۔ اللہ سے توسل کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کی جانب ذہن و دل کو مرکوز کرنا ہے۔ یعنی ان راتوں میں، خواہ وہ قدر کی راتیں ہوں، یا ماہ رمضان کی دیگر شبیں ہوں، ہر رات اپنے آپ میں بڑی عظمتیں سمیٹے ہوئے ہے، ہر شب اکیلے ہی ایک طولانی بحث رکھتی ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ توسل کریں، تضرع کریں، ہماری دعائیں مستجاب ہوں تو ہمیں چاہئے کہ ارواح عالیہ سے طلب شفاعت کریں، انھیں اپنا شفیع قرار دیں۔ ان ارواح عالیہ میں ہمارے عزیز شہدا کی ارواح بھی شامل ہیں۔ شہدا کے اہل خانہ کے لئے یہ اچھا ذریعہ ہے، ماں باپ، بچے، شریکہ حیات اسی طرح دیگر متعلقین کہ جن کے دل عزیز شہدا کی ارواح سے وابستگی رکھتے ہیں، تقرب الی اللہ کے لئے ان سے طلب نصرت کریں۔
شہدا کے اہل خانہ مجھے بہت عزیز ہیں۔ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ اقدار، انقلاب، اسلام اور قرآن کے دفاع کے اگلے محاذ پر شہدا ہیں اور پھر ٹھیک ان کے پیچھے ان کے اہل خانہ ہیں؛ ماں، باپ، بیوی، بچے، ان کی قدر کرنا چاہئے۔ ان شہادتوں سے اسلام اور مسلمین پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ معمولی نہیں ہیں۔ آج ہفتم تیر (مطابق 28 جون) کے واقعے کو 35 سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ان عزیزوں کی شہادت آج بھی الہام کا سرچشمہ بنی ہوئی ہے۔ ملک کے اندر ایک خبیث و بے رحم دہشت گرد گروہ نے کلیدی شخصیات اور ملک کے اہم ستون سمجھے جانے والے افراد کو حملے کا نشانہ بنایا، انھیں قتل کر دیا اور ملک کو ان کے وجود سے محروم کر دیا، پھر اس گروہ کے افراد یہاں سے فرار ہوکر انھیں ملکوں کی آغوش میں جا بیٹھے جو دہشت گردی کے مقابلے کا ساری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، ان ملکوں نے انھیں پناہ دی۔ خود یورپی حکومتوں، ایشیائی حکومتوں اور علاقے کی رجعت پسند حکومتوں کا تو ذکر ہی چھوڑئے، جو دہشت گردی کی مخالفت، انسانی حقوق کی پاسداری اور اس طرح کی باتیں بہت زور شور سے کرتی ہیں اور خود کو سب سے اہم سمجھتی ہیں، آج تک اس سوال کا جواب نہیں دے سکیں کہ انھوں نے اس ملت کے قاتلوں کو اپنی آغوش میں جگہ کیوں دی؟ انھیں کیوں پناہ دی؟ انھیں اسلامی جمہوریہ کی حکومت کے حوالے کیوں نہیں کیا کہ ان پر شریعت کا حکم نافذ کیا جاتا؟ آخر کیوں؟ اس قضیئے میں مغربی حکومتوں، یورپی حکومتوں اور امریکا کی یہ بہت بڑی رسوائی ہے جو ایک تاریخی واقعہ ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ اس کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ اس سانحے سے چشم پوشی نہیں کر سکتی۔ یہ قضیئے کا ایک رخ ہے۔ قضیئے کا دوسرا رخ خود یہ دہشت گرد ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کے دفاع کے نام پر، بلکہ بعض تو اسلام کے دفاع کے نام پر جدوجہد میں شامل ہوئے اور پھر انھوں نے اپنے نامہ اعمال میں یہ المیہ اور یہ بھیانک جرم رقم کر لیا۔ اس کے بعد وہ صدام جیسے شخص کی پناہ میں چلے گئے۔ یہی لوگ جو امریکا مخالف ہونے کے بڑے بڑے دعوے کرتے تھے، صدام کی پناہ میں چلے گئے اور آج امریکا کی حمایت کے زیر سایہ زندگی گزار رہے ہیں، عراق میں بھی اور یورپ کے بعض ملکوں میں بھی جہاں انھیں منتقل کیا گیا ہے۔ 7 تیر سنہ 60 ہجری شمسی (مطابق 28 جون 1981) کا یہ واقعہ بڑا عجیب تھا۔ اس عظیم واقعے میں بڑے سبق اور بڑی عبرتیں ہیں۔
البتہ ہم نے کوتاہی کی۔ ابھی شہیدی صاحب نے فرمایا کہ ہم شہید فاؤنڈیشن کی سطح پر کام کر رہے ہیں، لیکن کام صرف یہ نہیں ہے کہ ہم شہدا کے اہل خانہ سے اظہار عقیدت کر دیا کریں، ان کی تعظیم کریں، ان کی قدردانی کریں، نہیں، اس واقعے کا احیاء کرنا چاہئے، اسے زںدہ رکھنا چاہئے۔ یہ واقعات آج تک اگر زندہ ہیں تو یہ عوام اور عوام کے انقلابی جذبے کی دین ہے۔ ورنہ آپ دیکھئے کہ اتنے عظیم واقعے کے بارے میں ہمارے پاس ایک فلم تک نہیں ہے۔ ہفتم تیر کے سانحے کے بارے میں کوئي فنی شاہکار نہیں ہے جو اس کے حقائق کو روشنی میں لائے، معلوم ہو کہ یہ کون لوگ تھے؟ کیا تھے؟ جو لوگ شہید ہوئے وہ کون لوگ تھے؟ شہید بہشتی کون تھے؟ وہ مخلص و مومن اور پاکیزہ صفت وزرا جو اپنے پورے وجود سے اس میدان میں خدمت کر رہے تھے، ہم ان کے ساتھ رہ چکے ہیں، ان کے ساتھ کام کر چکے ہیں، ہم انھیں قریب سے جانتے تھے، یہ کون لوگ تھے؟ کیا تھے؟ ہمارے پاس کوئی فلم نہیں ہے، کوئی فنپارہ نہیں ہے، کوئی اسٹیج ڈراما نہیں ہے، کوئی اچھا ناول تک نہیں ہے، یہ کام ہم نے انجام نہیں دیا، ہمیں انجام دینا چاہئے۔ یہ چند باتیں تھیں اس مجموعے کے تعلق سے۔
مقدس دفاع کے زمانے کے شہدا کے بارے میں کچھ کام ہوا ہے، لیکن اس میدان میں جتنا بھی کام کیا جائے کم ہے۔ مختلف حالات میں، مختلف شہروں سے، مختلف سطح کے، چودہ پندرہ سالہ نوجوان سے لیکر ساٹھ ستر سالہ بوڑھے تک اس میدان میں گئے، جنگ کو عوامی جنگ میں تبدیل کر دیا، جنگ کو سرکاری فورسز کے انحصار سے باہر نکالا۔ جب بھی سرکاری فورسز کی پشت پر اور ان کے ہمراہ عوام آکر مصروف کار ہو جائیں اور پورے جذبے سے کام کریں تو کامیابی ضرور ملتی ہے۔ آج بھی سرکاری عہدیداران کو تمام شعبوں، اقتصادی شعبے اور دیگر شعبوں کے بارے میں یہی ہماری یہی سفارش ہے۔ جنگ میں یہی ہوا؛ عوام گئے، انھوں نے خود کو اس عجیب امتحان و آزمائش میں ڈالا، کوئی معمولی بات نہیں ہے، ان فوجی آپریشنوں کی تفصیلات بیان کرنے والی کتابوں کو پڑھئے؛ بالکل اعلی سطح سے لیکر فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی چھاونیوں سے لیکر نچلی سطح تک، یونٹ اور بٹالین کی سطح تک ان جوانوں میں سے ایک ایک کی سوانح حیات ہمارے لئے سبق آموز ہے۔ جام شہادت نوش کرنے والے ہر جوان کی روش، گفتار، طرز عمل، دنیائے معرفت کی سمت کھلنے والا ایک دریچہ ہے، انسان کو بیدار کرتا ہے، آگاہی عطا کرتا ہے۔
اس وقت حرم اہل بیت کے دفاع کا مسئلہ سامنے ہے۔ یہ بھی تاریخ کے حیرت انگیز واقعات میں سے ہے۔ زمانہ جنگ میں ہم نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ میدان جنگ میں جاؤ، وہ ہماری دعوت قبول کرتے تھے اور جاتے تھے۔ امام خمینی ایک تقریر کرتے تھے تو نوجوان جوق در جوق روانہ ہو جاتے تھے۔ لیکن آج ہم اس طرح کی ترغیب بھی نہیں دلا رہے ہیں، مگر پھر بھی جذبے کے استحکام اور ایمان کی روشنی کا یہ عالم ہے کہ کوئی نوجوان ایران سے، کوئی افغانستان سے اور کوئی کسی اور ملک سے جا رہا ہے، اپنی نوجوان زوجہ، خرد سال بچے اور آسودہ زندگی کو چھوڑ کر جاتا ہے ایک اجنبی ملک میں، ایک نئی سرزمین پر اور راہ خدا میں جہاد کرتا ہے اور شہید ہوتا ہے۔ یہ معمولی بات ہے؟ اسلامی انقلاب کی تاریخ ہر ہر قدم پر اسی طرح کے تاریخ ساز عجائب سے بھری ہوئی ہے۔ یہ عجائب ہیں۔
میں یہ عرض کروں گا کہ اس کے تین پہلو ہیں؛ ایک تو خود اس شہید کا صبر و ضبط، اس کا ایمان اور جذبہ ہے، دوسرا پہلو اہل خانہ کا صبر و تحمل ہے۔ کیونکہ یہ نوجوان زوجہ چاہتی تو اپنے شوہر کو جانے سے روک دیتی، والدین اپنے نوجوان کو جانے سے منع کر دیتے۔ انھوں نے صبر کا دامن تھاما؛ اس کے جاتے وقت بھی اور اس شہید کا پاکیزہ جنازہ لوٹ کر آنے کے وقت بھی، اسی طرح بعد کے دور میں بھی۔ تیسرا پہلو خود یہ واقعہ ہے جو اسلامی انقلاب کی تاریخ کا آئینہ ہے۔ یہی انقلاب ہے، یہی اسلامی نظام ہے۔ یہ جذبے، یہ ایمان، یہ روحانی طاقت، یہ عزم و ارادہ جو اسلامی جمہوریہ نے پیدا کیا ہے۔ کیا اسلامی جمہوریہ کو معمولی شئے تصور کیا جا سکتا ہے؟ دشمن اسلامی جمہوری نظام کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ یہ ایک عظیم پیکر، سراپا قوت اور سراپا توانائی ہے، یہ اسلامی جمہوریہ کے عناصر ترکیبی ہیں۔
بے شک کسی جگہ کوئی کمزوری بھی ہوگی، کوئی شخص کم ہمت اور کمزور ارادے کا بھی ہے جو نشے کی لت میں پڑ جاتا ہے، بدعنوانی میں گرفتار ہو جاتا ہے، گوناگوں خرابیوں میں ملوث ہو جاتا ہے۔ یہ سبھی معاشروں میں ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ معاشرے کے اندر وہ حفاظتی ستون ہونے چاہئے جو بڑے حوادث کے وقت اس کی حفاظت کریں، کسی چٹان کی مانند اسے اپنی جگہ پر قائم رکھیں، اسے آگے لے جائیں، وہ فولادی ستون یہی شہدا ہیں، شہدا کے اہل خانہ ہیں، ایثار و قربانی کے یہی مجسمے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ گوناگوں چیلنجوں پر غالب آتی رہی ہے، اکثر بیشتر مسائل کو حل کرتی رہی ہے۔
عزیز بھائیو اور بہنو! میں یہ بات درجنوں بار کہہ چکا ہوں اور ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ؛ ہم نے جہاں بھی انقلاب پر تکیہ کیا، انقلابی جذبے کو بنیاد قرار دیا، ہم نے وہاں پیش قدمی کی ہے، جب بھی ہم نے اقدار سے سمجھوتا کیا، انقلاب کو نظر انداز کیا، کاٹ چھانٹ شروع کر دی، توجیہ اور تاویل کرنے لگے کہ استکباری عناصر کو خوش کریں جو اسلام کے اصلی دشمن ہیں، اس نظام کے اصلی دشمن ہیں، جب ہم نے اپنی آواز دبائی، اپنی بات کہنے میں کوتاہی برتی تب ہم پیچھے رہ گئے، یہ عین حقیقت ہے۔ اسلامی مملکت ایران کی پیشرفت کا واحد راستہ انقلابی جذبے کا احیا اور مجاہدت کے جذبے کو بیدار رکھنا ہے۔
مجاہدت کے میدان بہت سارے ہیں اور یقینا مجاہدت کے تمام میدانوں میں خطرات بھی ہیں۔ آپ ایٹمی شہدا کی مثال لے لیجئے! انھوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کام کیا لیکن دشمن کے حملے کا نشانہ بنے۔ یہ بھی جہاد ہے۔ فَضَّلَ اللهُ المُجاهِدینَ عَلَی القاعِدینَ اَجرًا عَظیمًا (3)، اللہ تعالی نے مجاہدین کے لئے فضیلت رکھی ہے، مجاہدت کے لئے خاص رتبہ و مقام قرار دیا ہے تو اس کی یہی وجہ ہے۔ ہم دنیا میں کتنے سال زندہ رہیں گے؟ ہم سے قبل اور ہمارے بعد اس دنیا کی عمر اربوں سال پر محیط ہے۔ اربوں سال کی اس مدت میں سے پچاس سال، ساٹھ سال، ستر سال ہمیں اور آپ کو ملے ہیں۔ ہمیں اس موقع سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ خود کو حقیقی زںدگی کے لئے جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے؛ «اِنَّ الدّارَ الآخِرَةَ لَهِیَ الحَیَوان» (4)، آمادہ کریں۔ اس مدت میں کچھ لوگ مجاہدت کرتے ہیں اور اس مجاہدت کی برکت سے بلند مقامات پر پہنچ جاتے ہیں، صرف اپنی آخرت نہیں سنوارتے بلکہ دوسروں کی دنیا بھی سنوار دیتے ہیں، تقویت پہنچاتے ہیں، نیا ماحول تعمیر کر دیتے ہیں۔ تب مجاہدت اور شہدا کو یہ صلہ ملتا ہے؛ وَ لا تَحسَبَنَّ الَّذینَ قُتِلوا فی سَبیلِ اللهِ اَمواتًا، وہ مرے نہیں ہیں؛ بَل اَحیآءٌ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقون فَرِحینَ بِمآ ءاتاهُمُ اللهُ مِن فَضلِه‌ وَ یَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم وَ لا هُم یَحزَنون.(5) امر واقعہ یہ ہے۔ یہ کلام اللہ ہے، یہ اللہ کی جانب سے دی جانے والی مژدگانی ہے کہ وہ زندہ ہیں، اللہ کے پاس ہیں، ان پر لطف خداوندی کا سایہ ہے، وہ رزق الہی سے بہرہ مند ہیں، خوش ہیں، شادمان ہیں، ہمیں اور آپ کو پیغام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جان لو کہ اگر اس راستے پر چلے تو پھر اس منزل پر پہنچنے کے بعد نہ کوئی غم ہے، نہ تشویش ہے، نہ خوف ہے، نہ حزن ہے؛ اَلّا خَوفٌ عَلَیهِم؛ راستہ یہ ہے۔ وہ صحیح راستے پر چلے، صحیح انداز سے چلے اور صحیح انداز میں آگے بڑھے۔
بے شک آپ اہل خانہ کو غم ہے، رنج ہے، آپ بالکل حق بجانب ہیں، نوجوان کو قربان کر دینا خواہ وہ شوہر ہو، بیٹا ہو، داماد ہو یا بھائی، بہت سخت مرحلہ ہے۔ پسماندگان کے لئے بہت دشوار ہوتا ہے بہت سخت ہوتا ہے، لیکن آپ یاد رکھئے کہ وہ بہت خوش ہیں، وہ نعمت خداوندی کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
جب مستکبر دشمن کا سامنا ہو تو اس طرح سے عمل کرنا چاہئے۔ مستکبر دشمن اس حقیقت سے بے خبر ہیں، اپنے اندازوں اور تخمینوں میں انھیں اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا۔ آپ نے غیر مساوی جنگ کے بارے میں سنا ہوگا۔ غیر مساوی جنگ کا مطلب یہ ہے کہ مد مقابل دو افواج میں سے ایک کے پاس کچھ ایسے وسائل ہوں جو فریق مقابل کے پاس نہیں ہیں۔ دونوں کی نوعیت، دونوں کی روش، دونوں کے وسائل اور بسا اوقات دونوں کی قوت و طاقت کے سرچشمے ایک دوسرے کے لئے ناشناختہ ہوں، اسے غیر مساوی جنگ کہتے ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ اللہ پر ایمان رکھنے کی کیا طاقت ہے اور جہاد کے عقیدے کے اندر کتنی توانائی ہے۔ اس کے اثرات تو وہ دیکھتے ہیں، لیکن اس کا صحیح تجزیہ نہیں کر پاتے۔ نتیجتا جنونی حرکتیں کرتے ہیں۔ یہ داعش کا قضیہ، تکفیری دہشت گردوں کا معاملہ یہ سب اسی کے نمونے ہیں۔ انھیں اسلامی جمہوریہ کو شکست دینے کے لئے بنایا گیا ہے۔ عراق مقدمہ تھا، شام مقدمہ تھا، مقدمہ تھا اس سرزمین (ایران) کو کمزور کرنے کا، لیکن یہاں جو توانائی موجود ہے اس کے نتیجے میں وہ وہاں ڈھیر ہو گئے۔ ورنہ ان کے نشانے پر ایران تھا۔ جو بھی یہاں سے عراق یا شام جاتا ہے اور حرم اہل بیت کے دفاع میں تکفیری دہشت گردوں کے سامنے ثابت قدمی سے کھڑا ہو جاتا ہے، وہ در حقیقت خود اپنے شہر کا دفاع کر رہا ہے۔ البتہ ان کے ذہن و دل میں صرف اللہ ہے، لیکن امر واقعہ یہی ہے۔ یہ ایران کا دفاع ہے، اسلامی معاشرے کی حفاظت ہے۔ یہ صرف شیعوں سے مختص نہیں ہے، تکفیری فورسز کی نظر میں شیعہ اور سنی میں فرق نہیں ہے، وہ اہل سنت کو بھی مار رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں کتنے اہل سنت علما ہیں؛ سنندج میں مرحوم شیخ الاسلام (6)، بلوچستان میں حسن بر مرحوم (7)، اسی طرح دیگر علما جنھیں تکفیریوں نے قتل کیا اور مظلومیت کے عالم میں ان کا خون بہایا۔ ان کی نظر میں شیعہ و سنی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ تو ہر اس شخص کو نشانہ بناتے ہیں جو انقلاب کا حامی ہے، جو استکبار کا مخالف ہے، جو امریکا کا دشمن ہے اور پھر اپنے اس عمل کو شیعہ سنی جنگ کا نام دے دیتے ہیں۔
آج آپ بحرین کو دیکھئے! بحرین میں شیعہ سنی جنگ نہیں ہے، وسیع اکثریت پر ایک خود غرض اور استعماری اقلیت کی جائرانہ اور ابلہانہ حکمرانی کا قضیہ ہے۔ ایک چھوٹی سی اقلیت ہے جو بحرین کے ستر فیصدی، اسی فیصدی عوام پر حکومت کر رہی ہے اور اب اس نے مجاہد عالم دین جناب شیخ عیسی قاسم سے بھی تعرض کیا ہے، یہ ان حکام کی حماقت ہے، وہ اپنی حماقت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ شیخ عیسی قاسم وہ شخص ہیں جو اب تک، اس وقت تک جب تک وہ عوام سے گفتگو کر سکتے تھے، ہمیشہ عوام کو مسلحانہ کارروائی سے روکتے تھے، منع کرتے تھے۔ ان حکام کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ کس سے الجھ رہے ہیں، ان کی عقل میں یہ بات نہیں آ رہی ہے کہ شیخ عیسی قاسم سے تعرض کا مطلب ہے بحرین کے جوشیلے اور بہادر نوجوانوں کو کنٹرول میں رکھنے والی رکاوٹ کو ہٹانا۔ اگر یہ نوجوان، حکمراں نظام پر ٹوٹ پڑے تو ان کو کسی بھی طرح قابو میں نہیں کیا جا سکے گا۔ میں نے جو عرض کیا کہ ان کے اندازے غلط ہوتے ہیں تو اس کی ایک مثال یہ بھی ہے۔ سماج کی زمینی حالت، عوام کی حالت، عوام کے ایمان اور عوام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اندازے کی غلطی۔
صحیح راستہ اسلام کا راستہ ہے، صحیح راستہ اللہ پر توکل کا راستہ ہے، صحیح راستہ درگاہ پروردگار میں توسل کا راستہ ہے، صحیح راستہ ایمان کا راستہ ہے۔ قوم ایمان کے ذریعے مجاہدت کے ذریعے اور عزم راسخ کے ذریعے تمام رکاوٹوں کو اپنے راستے سے ہٹا سکتی ہے۔ بحمد اللہ آج فعال مجاہد و مومن افراد کی کمی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اور دیگر ممالک میں بھی، چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کے آلہ کاروں کی اس وسیع یلغار کے سامنے مختلف ملکوں کے لوگ ڈٹے ہوئے ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں، حالانکہ وہ اپنی سرزمین پر بھی نہیں ہیں، اپنے ملک سے دور ہیں۔
عزیز بھائیو اور بہنو! ان شبوں کی قدر و قیمت کو سمجھئے، ان لمحات کی عظیم منزلت کو سمجھئے، دعا کیجئے اور تضرع اور حضور قلب کے ساتھ اللہ سے اپنی مرادیں مانگئے، دعا کیجئے اور اللہ سے التجا کیجئے کہ دوسرے لوگوں کی بھی دعائیں مستجاب کرے۔ ان شبوں میں، جیسے کل کی رات تھی، آئندہ کل کی جو رات ہے، یا تیئیسویں شب ہے، ان راتوں میں دنیائے اسلام کے گوشہ و کنار میں جہاں لوگ ان امور پر عقیدہ رکھتے ہیں، تضرع اور گریہ و زاری کی آوازیں بلند ہوتی ہیں؛ اِلَیکَ عَجَّتِ الاَصواتُ بِصُنوفِ اللُّغات (8)، آوازیں بلند ہیں۔ گریہ، استغاثہ، اپنے لئے دعائیں، دوسروں کے لئے دعائیں، آپ کی ایک دعا یہ ہونی چاہئے کہ ان شبوں میں دعا مانگنے والے مومنین کی دعا پوری ہو۔ آپ اللہ سے یہ دعا کیجئے۔
دعا کو حضور قلب کے ساتھ پڑھئے۔ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ بعض اجتماعات جن میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں واقعی بڑے دل نشیں اجتماعات ہوتے ہیں۔ یعنی دعا پڑھنے والا صرف سامعین کے لئے دعا نہیں پڑھتا، بلکہ اپنے دل کا حال بیان کرتا ہے۔ بعض پڑھنے والے ایسے ہی ہیں، خود ان پر دعا کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ جب دعا پڑھنے والا اس انداز سے دعا پڑھے کہ گویا اللہ سے حال دل بیان کر رہا ہے، خود کو بارگاہ خداوندی میں حاضر دیکھتا ہے۔ جب یہ عالم ہوتا ہے تو سامع پر بھی وہی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی شاذ و نادر ایسا بھی نظر آتا ہے کہ دعا پڑھنے والا دعا کی وادی میں نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ٹیلی ویزن پر بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ دعا پڑھنے والا بس زبان سے کچھ کلمات ادا کر رہا ہے۔ اس پر دعا کی کیفیت طاری نہیں ہوتی، جب پڑھنے والا اس خاص کیفیت میں نہیں ہوگا تو سامع کے اندر بھی دعا کی کیفیت پیدا نہیں ہوگی۔ پھر نہ تو دعا پڑھنے والے کے آنسو نکلیں گے اور نہ سننے والے پر رقت طاری ہوگی۔ وہ سامعین کے دلوں کو متاثر نہیں کر سکتا، اس لئے کہ خود اس کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔ اس طرح دعا نہیں پڑھنا چاہئے۔
دعا اللہ سے گفتگو کا نام ہے۔ ہمارے عظیم قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول؛ «دعا قرآن صاعد است» (9)، اللہ سے حال دل بیان کرنے کا نام دعا ہے۔ جب آپ قرآن پڑھتے ہیں تو اللہ آپ سے کلام کرتا ہے، جب آپ دعا پڑھتے ہیں تو اس وقت آپ اللہ سے محو کلام ہوتے ہیں۔ جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو یہ 'قرآن نازل' ہے یعنی اللہ تعالی آپ سے مخاطب ہوتا ہے، کلام کرتا ہے، آپ کو حقائق سے روشناس کراتا ہے، اوپر سے نزول ہوتا ہے۔ جب آپ دعا پڑھتے ہیں تو اس وقت آپ کلام کرتے ہیں، مخاطب ہوتے ہیں اور آپ کی آواز 'صاعد' ہوتی ہے اوپر کی سمت جاتی ہے۔ دعا اگر خوش اسلوبی سے پڑھی جائے تو قبولیت پاتی ہے؛ وَ اسمَع دُعائی اِذا دَعَوتُک وَ اسمَع نِدائی اِذا نادَیتُک (10)، مناجات شعبانیہ میں ہم یہ دعا کرتے ہیں؛ پروردگار! میری دعا کو سن لے۔ دعا پڑھنے کا ایک طریقہ ایسا بھی ہے کہ اللہ اسے نہیں سنتا۔ چنانچہ دعا میں یہ بتایا گيا ہے؛ اَعوذُ بِکَ مِن نَفسٍ لا تَشبَع وَ مِن قَلبٍ لا یَخشَع وَ مِن دُعاءٍ لا یُسمَع، میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس دعا سے جو سنی نہ جائے، یعنی اللہ تعالی اس کی طرف اعتنا نہ کرے۔ وَ مِن صَلٰوةٍ لا تَنفَع (11)، میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس نماز سے جو مجھے کوئی نفع اور فائدہ نہیں پہنچاتی۔ اَلصَّلوةُ قُربانُ کُلِّ تَقیّ (12)، نماز ہمیں اللہ کے قریب کرتی ہے، نزدیک لے جاتی ہے، لیکن اگر نماز سے ہمیں تقرب پروردگار حاصل نہ ہو تو وہ بے فائدہ ہے۔ البتہ بے فائدہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نماز پڑھنا چھوڑ دیں اور سوچ کر بیٹھ جائیں جب فائدہ نہیں پہنچائے گی تو پھر کیوں پڑھیں؟ ہرگز نہیں، نماز ضرور پڑھئے، اس واجب کو بجا لائیے، لیکن کوشش یہ رہے کہ نماز نفع بخش بھی ہو۔ فائدہ پہنچائے، توجہ اور حضور قلب کے ساتھ پڑھی جائے۔
روزہ رکھنے کا یہ جو موقع آپ کو ملا ہے بڑا قیمتی ہے، اس سے دل نرم و لطیف ہو سکتا ہے، خشوع کی منزل کے قریب پہنچ سکتا ہے، آپ اللہ سے ہمکلام ہو سکتے ہیں، دعا کو اسی انداز سے پڑھنا چاہئے۔ ان شبوں میں سحر کے وقت کی جو دعائیں ہیں، شبوں میں پڑھی جانے والی جو دعائیں ہیں، صرف شبہائے قدر سے مختص نہیں ہیں، انھیں شبوں سے مختص نہیں ہیں، تمام راتوں کے لئے ہیں، ان کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ ان دعاؤں میں معرفتوں کے جو خزانے ہیں ان کے علاوہ دعا کے وقت جو خضوع و خشوع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ حد درجہ اہمیت کی حامل ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے عزیز شہدا کو، خواہ وہ ہفتم تیر (سنہ 1360 ہجری شمسی مطابق 28 جون 1981 عیسوی) کے سانحے کے شہدا ہوں، یا ایٹمی شہدا ہوں، یا مقدس دفاع کے شہدا ہوں، یا دفاع حرم کے شہدا ہوں یا شروع سے لیکر آخر تک اسلامی انقلاب کے شہدا ہو، یا فرائض کی انجام دہی کی راہ میں شہید ہونے والے افراد ہوں اللہ تعالی ان تمام شہدا کو پیغمبر کے ساتھ محشور فرمائے۔ آپ سب کو شہدا کے اہل خانہ کو، ملک بھر میں آباد عظیم خاندان شہادت کو اجر و جزا عنایت فرمائے۔ دلوں کو صبر و طمانیت اور آسودگی عطا فرمائے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) اس ملاقات کے آغاز میں ولی امر مسلمین کے نمائندے اور شہدا فاؤنڈیشن کے سربراہ حجت الاسلام سید محمد علی شہیدی محلاتی نے ایک رپورٹ پیش کی۔
۲) کافی، جلد ۴، صفحہ ۵۷۵
3) سوره‌ نساء، آیت نمبر ۹۵ کا ایک حصہ «...مجاہدین کو خانہ نشیں لوگوں پر برتری عطا کی ہے۔»
4) سوره‌ عنکبوت، آیت نمبر ۶۴ کا ایک حصہ «...بے شک حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔»
5) سوره‌ آل‌ عمران، آیات ۱۶۹ و ۱۷۰؛ «ہرگز ان لوگوں کو جو راہ خدا میں قتل کر دئے گئے، مردہ گمان نہ کرنا! بلکہ وہ زند ہیں اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں روزی پاتے ہیں۔ اللہ نے انھیں جو فضل عطا کیا ہے اس پر شادمان ہیں اور ان لوگوں کو جو ان کے راستے پر چل رہے ہیں اور اب تک ان سے ملحق نہیں ہوئے ہیں خوش خبری دیتے ہیں کہ ان کے لئے نہ تو خوف ہے اور نہ وہ محزون ہوں گے۔»
6) سنی عالم دین محمد شیخ الاسلام جو ماہرین اسمبلی کے رکن تھے، انھیں سید محمد قطب مسجد کے سامنے قتل کر دیا گيا۔
7) مولوی فیض ‌محمّد حسین ‌بُر سیستان و بلوچستان کے بزرگ علما میں تھے، انھیں بھی سنہ 1981 میں ان کے گھر کے اندر ہی قتل کر دیا گيا تھا۔
8) اقبال الاعمال، جلد ۱، صفحہ ۳۴۶
9) منجملہ صحیفه‌ امام، جلد ۲۱، صفحہ ۳۹۶؛ سیاسی و الهی‌ وصیت نامہ
10) اقبال الاعمال، جلد ۲، صفحہ ۶۸۵
11) کافی، جلد ۲، صفحہ ۵۸۶
12) کافی، جلد ۳، صفحہ ۲۶۵