7 ستمبر 2016 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ ایک بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جانی چاہئے جو وہاں جائے اور حقیقت ماجرا کو سامنے لائے۔ آل سعود اگر اپنے اس دعوے میں سچے ہیں کہ اس سانحے میں ان کی کوئی غلطی نہیں ہے تو بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیم کو اس واقعے کی تحقیقات کرنے دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آل سعود کو ملعون شجرہ خبیثہ قرار دیا اور فرمایا کہ ان میں حرمین شریفین کے خادم ہونے کی لیاقت نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
 
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین.

سب سے پہلے میں گزشتہ سال منٰی اور مسجد الحرام کے سانحے کے اپنے مظلوم شہیدوں کے عزیز اہل خانہ کو خوش آمدید کہنا چاہوں گا۔ ہر سال موسم حج سے قبل حج کے امور سے متعلق عہدیداران اور بعض حجاج کرام کے ساتھ ہماری ایک نشست ہوا کرتی تھی۔ یہ نشستیں ہمیشہ بڑی شیریں اور پرمسرت ہوتی تھیں۔ ہمارے عوام میں سے کچھ لوگ، کچھ مخلص مومنین، پیر و جواں ملک کے گوشے گوشے سے حج کے لئے روانہ ہوتے تھے اور یہ دیکھ کر افتخار کا احساس ہوتا تھا، خوشی ہوتی تھی کہ یہ سب دیگر ممالک کے مسلمانوں کے درمیان جا رہے ہیں اور فریضہ حج بجا لائیں گے۔ مگر اس سال ہماری یہ نشست بد قسمتی سے خوشی کی نشست نہیں ہے۔ غم و مصیبت کی نشست ہے، گزشتہ سال منٰی میں رونما ہونے والے دردناک سانحے کی یاد دلانے والی نشست ہے۔ ہمارے عزیزوں کا منٰی میں شہید ہو جانے کا مسئلہ بہت اہم ہے۔
یہ جو ہم نے کہا کہ یہ سانحہ ہرگز فراموش نہیں کیا جانا چاہئے تو اس کی وجہ صرف ان عزیزوں سے محروم ہو جانا نہیں ہے، یہ سانحہ اپنے آپ میں بہت اہم ہے۔ اس کے گوناگوں پہلو ہیں۔ یہ سانحہ سیاسی لحاظ سے، سماجی، اخلاقی اور دینی اعتبار سے حقائق کا آئینہ ہے۔ ظاہر ہے ہم ملت ایران کے لئے اور یقینا اسی طرح دیگر ملکوں میں شہدا کے پسماندگان کے لئے یہ سانحہ غم انگیز سانحہ ہے۔ یہ غم فطری اور ناگزیر ہے۔ ہمارے دل غم میں ڈوبے ہوئے ہیں، اندوہ سے لبریز ہیں۔ بیتنے والا وقت ہمارے دلوں اور ہمارے سینوں میں اس سانحے کے سوزش اور اس کی اہمیت کو کم نہیں کر سکا ہے۔ ہم اس سانحے سے غمگین ہیں۔ ہمارے عزیز منٰی میں اور اسی طرح مسجد الحرام میں عبادت کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے، تشنہ لب دنیا سے گئے، جھلسا دینے والی تیز دھوپ میں انھوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات گزارے۔ یہ سب دردناک باتیں ہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے ہمارے دل تڑپ اٹھتے ہیں۔ ہم ان چیزوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔ لیکن اس معاملے کے پہلو اس سے بھی کہیں وسیع تر ہیں۔
اس سلسلے میں ایک زاویہ نگاہ آپ اہل خانہ اور پسماندگان کا ہے۔ میں یہ عرض کروں گا کہ آپ کے ان عزیزوں کی جدائی، خواہ وہ اولاد کے لئے ماں باپ کا فقدان ہو، یا ماں باپ کے لئے اولاد کی جدائی ہو، یا شریک حیات کی جدائی ہو یا پھر بھائیوں اور بہنوں کی جدائی ہو، یقینا آپ کے لئے بہت سنگین اور بہت دشوار سانحہ ہے۔ میں جب آپ کی جگہ پر خود کو رکھ کر سوچتا ہوں تو اس سانحے کی سنگینی اور سختی کا اندازہ ہوتا ہے۔ مجھے انداز ہے کہ دلوں پر غم کا یہ کتنا بڑا پہاڑ ہے کہ حاجی کو مکے بھیجا ہے امید کے ساتھ، خوشی کے ساتھ، اس مسرت کے ساتھ کہ اللہ نے یہ توفیق عطا کی ہے، سب حاجی کی واپسی کے منتظر ہیں، حاجی کی واپسی بھی خوشیوں میں ڈوبی ہوئي ہوتی ہے، مسرتوں سے بھری ہوتی ہے۔ مگر اچانک خبر ملتی ہے کہ اب لاش واپس آئے گی۔ یہ بڑا سخت مرحلہ ہے، یہ بے حد دشوار مرحلہ ہے۔ آپ سب کے لئے بہت شاق ہے، پوری ملت ایران کے لئے، یعنی ان تمام افراد کے لئے جو اس سانحے کی سنگینی کا ادراک رکھتے ہیں، یہ صورت حال بڑی دشوار ہے۔ تاہم آپ کے دلوں کو جس چیز سے تسلی مل سکتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے یہ عزیز بے شک اس دنیا سے چلے گئے، ان کی جدائی آپ کے لئے بہت دشوار ہے، مگر وہ ان شاء اللہ نعمت خداوندی کے سائے میں ہیں۔ اچھی موت تھی۔ مرنے اور اس دنیا سے جانے کی کیفیت انسان کے انجام کا تعین کرتی ہے۔ ہم سب کو جانا ہے۔ بوڑھا ہو یا جوان ہو، مرد ہو یا عورت ہو، مرنا سب کو ہے۔ مگر بعض موتیں ایسی ہیں کہ انسان حقیقت بیں نگاہ سے جائزہ لے تو موت کے اس انداز کو دیکھ کو خوش ہوتا ہے، شادمانی کا احساس کرتا ہے۔ شہیدوں کی طرح، سارے شہید ایسے ہی ہیں۔ آپ کے یہ عزیز عبادت کے عالم میں اور ذکر و مناجات کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ احرام کے لباس میں اس دنیا سے گئے۔ اللہ کی بارگاہ کی جانب متوجہ اپنے قلوب کے ساتھ اور فریضہ دینی ادا کرتے ہوئے اس دنیا سے گئے۔ یہ سب مغفرت خداوندی، رحمت الہی اور بارگاہ خداوندی میں بلندی درجات کے ذرائع اور وسائل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے بڑی سختی جھیلی۔ ان میں بعض تو شاید کئی گھنٹے زںدہ تھے (2)، سختیوں میں تھے، دھوپ میں پڑے تھے یا پھر گرم اور جھلستے ہوئے کنٹینروں میں پیاس سے جاں بلب تھے۔ یہ ساری ہی چیزیں رحمت خداوندی کا باعث بننے والی ہیں۔ بے شک آپ سوگوار ہیں، مصیبت زدہ ہیں، آپ کی اولاد، آپ کے ماں باپ اور آپ کے شوہر یا بیوی اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہ بہت بڑا غم ہے۔ مگر آپ سوچئے کہ وہ اس وقت کس حالت میں ہیں۔ ہم تو یہاں مسائل میں گرفتار ہیں۔ دنیاوی آزمائشوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ گوناگوں اقسام کے گمراہ کن اور تباہ کن عوامل و عناصر سے آلودہ اس دنیا میں بڑی مشکلوں سے آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنا راستہ طے کر رہے ہیں۔ مسائل میں گرفتار تو ہم ہیں جو یہاں ہیں۔ ہمیں رحمت خدا کے سائے میں پناہ لینے والے اور نعمت الہیہ اور لطف خداوندی کی آغوش میں سما جانے والے ان عزیزوں کے مقابلے میں اپنی اس حالت زار پر اور زیادہ گریہ کرنا چاہئے اور اپنے تعلق سے اور زیادہ غمگین ہونا چاہئے۔ بے شک آپ کا جوان چلا گیا، یا آپ کے ماں باپ بچھڑ گئے یا آپ کو اپنے شوہر یا زوجہ کی جدائی کا داغ اٹھانا پڑا ہے۔ یہ بہت سخت مرحلہ ہے، مگر انھیں نعمت خداوندی کا سایہ نصیب ہوا ہے۔ ہم بھی جائیں گے۔ ہم جن مشکلات سے دوچار ہیں اور جن مسائل میں گرفتار ہیں ان میں تو بس اللہ ہی ہم پر رحم کرے۔ انھیں تو اللہ تعالی نے بہترین مقام پر اور بہترین حالت میں آلودگیوں کی اس دنیا سے نجات دی، عبادت کی حالت میں۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو گناہ کرتے ہوئے مرتے ہیں، کچھ ناشکری کے عالم میں اس دنیا سے جاتے ہیں۔ اس طرح کی موتیں واقعی ان افراد کے لئے مصیبت و سوگ ہیں، مگر ذکر خداوندی کرتے ہوئے مر جانا، اللہ کی عبادت کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہونا یہ متوفی کے لئے باعث راحت اور باعث اطمینان ہے۔ یہ بھی اس قضیئے کا ایک پہلو ہے۔
اس قضیئے کا ایک پہلو امت مسلمہ سے متعلق ہے۔ امت مسلہ اس سانحے پر بہت وسیع پیمانے پر سوگوار ہے۔ ہمارے شہدا، سانحہ منٰی اور مسجد الحرام کے سانحوں کے ہمارے شہدا کل ملا کر 470 یا 480 تھے، مگر اعداد و شمار سے جو نتیجہ نکلتا ہے اس کے مطابق مختلف ملکوں کے شہیدوں کی تعداد تقریبا سات ہزار ہے! یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ دوسرے ممالک، دوسری حکومتیں دیگر ملکوں کی اقوام اور خاندان اس سانحے پر کوئی رد عمل کیوں ظاہر نہیں کر رہے ہیں؟ یہ کیسی مصیبت ہے جس میں امت مسلمہ مبتلا ہو گئی ہے؟ یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔ حکومتیں سیاسی رواداری اور تکلف میں چپ ہیں۔ مختلف ممالک کے عمائدین حکومت پیسے، اقتدار اور سیاسی روابط وغیرہ جیسی چیزوں کے اسیر ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ دانشور طبقہ کیوں خاموش ہے؟ علمائے کرام کیوں نہیں بول رہے ہیں؟ سیاسی کارکن کچھ کیوں نہیں کہتے؟ روشن فکر افراد نے مقالے کیوں نہیں لکھے؟ اعتراض کیوں نہیں کیا؟ بیان کیوں نہیں دیا؟ البتہ دیگر ممالک کے شہدا کی تعداد ہمارے ملک جتنی نہیں تھی، مگر مصر، مالی، نائيجیریا اور دیگر ممالک کے سو دو سو افراد شہید ہوئے ہیں۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ ملکوں کے سربراہان سیاسی مسائل اور اقتدار کے مسائل کا لحاظ کر رہے ہیں اور اعتراض کرنے سے گریزاں ہیں، ان سے بہت زیادہ توقع بھی نہیں رکھی جاتی، خاص طور پر اس صورت حال کی وجہ سے جو بد قسمتی سے حکومتوں پر طاری ہے، انسان ان سے کچھ خاص توقع نہیں رکھ سکتا۔ مگر سماج کے دانشور طبقے کے افراد کیوں نہیں بولتے، چپ کیوں ہیں؟ دنيائے اسلام کے لئے یہ آفت ہے، یہ مصیبت ہے کہ اتنے بڑے سانحے کے سلسلے میں بھی کوئی رد عمل نہ دکھایا جائے، جو خانہ خدا میں، بیت الہی کے جوار میں رونما ہوا اور کچھ لوگ حد درجہ ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ اتنے بڑے اور شرمناک واقعے سے پہلو تہی کر لیتے ہیں، دنیائے اسلام سے معذرت خواہی کے چند کلمات بھی ادا کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔
سعودی حکام نے عالم اسلام سے زبانی طور پر معافی تک نہیں مانگی! یہ لوگ کتنے پست ہیں، کتنے بے شرم ہیں؟! انھوں نے جو کوتاہی برتی، جس بد انتظامی کا ثبوت دیا، جس نااہلی کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ عمدا ایسا کیا گیا، لیکن اگر عمدا نہیں کیا گيا تب بھی ایک حکومت کے لئے اور ایک سیاسی نظام کے لئے خود یہ بدانتظامی اور نااہلی اپنے آپ میں جرم ہے کہ کیسے ایسا ہوا کہ وہ حالات کو سنبھال نہیں سکی؟ افراد کے اس مجمع کی، جو اللہ کے مہمان ہیں، ، ضیوف الرحمان ہیں، آپ ان سے اتنا زیادہ پیسہ بھی کما رہے ہیں اور آپ خود کو القاب سے بھی نوازتے ہیں، آپ حفاظت کیوں نہیں کر پائے؟ کیا گارنٹی ہے کہ اسی موقع پر ایسے ہی سانحے پھر رونما نہیں ہوں گے؟ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ دنيائے اسلام کو چاہئے کہ ان کا گریبان پکڑے، ان سے سوال کرے، سوال کیوں نہیں کرتی؟ دنیائے اسلام کا المیہ یہی ہے۔ یہ جو اسلامی جمہوریہ دوسروں کی اس وسیع جہالت کے مقابل، اس وسیع گمراہی کے مقابل، اس وسیع مادہ پرستی کے مقابل، اس وسیع تساہلی کے مقابل اور بسا اوقات بے غیرتی کے مقابل اکیلے ہی اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اپنا قرآنی موقف، اسلامی موقف، بر حق موقف اعلانیہ اور صریحی طور پر بیان کرتی ہے تو یہ در حقیقت وہی امتیازی صفت ہے جس پر آپ ملت ایران کو فخر ہونا چاہئے اور آپ اس پر فخر کرتے بھی ہیں۔ یہ توانائی اور یہ شجاعت اپنے اندر خود آپ ایرانی عوام نے پیدا کی ہے کہ تاریکی میں ڈوبی جاہل دنیا کے مقابل حرف حق بیان کریں اور حقائق کا اعلان کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے، دنیائے اسلام کے حجاج کرام کے لئے جو وہاں سال میں ایک دفعہ جمع ہوتے ہیں، یہ بدامنی پیدا کر دی ہے، حقیقت میں یہ اس قابل نہیں ہیں کہ حرمین شریفین کا انتظام و انصرام سنبھالیں، اس لایق نہیں ہیں کہ حرمین شریفین کی خدمت کریں، یہ حقیقت امر ہے۔ عالم اسلام میں یہ فکر عام ہونی چاہئے، اس کی ترویج کی جانی چاہئے۔ یہ بھی اس قضیئے کا ایک پہلو ہے۔
ایک اور پہلو انسانی حقوق کی پاسبانی کی دعویدار دنیا سے متعلق ہے۔ اگر کہیں کسی ملک میں کوئی ایک شخص کسی جرم کی سزا کے طور پر پھانسی پر چڑھا دیا جاتا ہے یا جیل میں ڈال دیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ انسانی حقوق کے نام پر کیا ہنگامہ آرائی ہوتی ہے۔ البتہ یہ سب ان ملکوں کے سلسلے میں ہوتا ہے جو ان دعویداروں کی مخالفت اور مزاحمت کی جرئت رکھتے ہیں۔ جبکہ یہاں اس قضیئے میں کئی ہزار افراد ایک حکومت کی نااہلی، بدانتظامی اور ناقص کارکردگی کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں مگر انسانی حقوق کے ان اداروں اور انسانی حقوق کی دعویدار ان حکومتوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے، وہ ایک لفظ بولنے پر تیار نہیں ہوتیں، منہ نہیں کھولتیں! یہ بھی بہت اہم نکتہ ہے۔ جو لوگ بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے بڑے پرستار ہیں اور ان سے بڑی امیدیں لگا لیتے ہیں، اس حقیقت کو دیکھیں، اس حقیقت کا ادراک کریں، دیکھیں کہ ان اداروں اور سسٹموں کی ماہیت میں کتنا تضاد اور جھوٹ ہے۔ اس معاملے میں وہ بالکل خاموش رہے، کسی نے کچھ نہیں کہا۔ کبھی تو جانوروں کے حقوق بھی ان کے لئے اتنے اہم ہو جاتے ہیں کہ وہ آسمان سر پے اٹھا لیتے ہیں، مگر کئی ہزار انسان ایک ایسے سانحے میں، یکبارگی رونما ہو جانے والے حادثے میں نہیں، ہوائی جہاز گر جانے کے کسی حادثے میں نہیں، بلکہ ایک ایسے سانحے میں جس کے تعلق سے کچھ افراد پر یہ ذمہ داری تھی کہ اس صورت حال کو ٹھیک سے سنبھالتے، کیونکہ یہ لوگ صاحب خانہ ہیں، امور کے ذمہ دار ہیں، ان کی ذمہ داری تھی کہ ان لوگوں کو تحفظ دیتے، مگر یہ ہزاروں افراد خاک و خوں میں غلطاں ہو گئے اور یہ ادارے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اپنے اوپر سکوت طاری کئے ہوئے ہیں۔
امت مسلمہ اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی لازمی اور ناگزیر ذمہ داری یہ ہے کہ اس معاملے میں ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیں جو وہاں جائے اور حقیقت ماجرا کو سامنے لائے۔ حالانکہ ایک سال ہو گیا ہے، مگر کچھ انٹرویو لئے گئے ہیں، کچھ تصاویر لی گئی ہیں، دستاویزات موجود ہیں جن کی مدد سے کافی حد تک حقیقت ماجرا واضح ہو سکتی ہے۔ ایک تحقیقاتی ٹیم جائے اور امر واقعہ کا پتہ لگائے کہ آل سعود اس معاملے میں قصوروار ہیں یا نہیں۔ ان کا تو دعوی ہے کہ ان کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ تو پتہ چلنا چاہئے، حقیقت ماجرا واضح ہونی چاہئے کہ وہ قصوروار ہیں یا نہیں۔ یہ 'ملعون شجرہ خبیثہ' (آل سعود) پیسے سے منہ بند کر دیتا ہے، پیسے اور دنیا کے پرستار یہ (آل سعود) کسی کو اپنے خلاف بولنے کا موقع نہیں دیتے، اعتراض کرنے کا حق نہیں دیتے۔ ایک تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل لازمی ہے جو وہاں جائے، نزدیک سے معائنہ کرے، معاملے کا جائزہ لے، خواہ اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگے۔ اسے ہمارے حکام بھی مد نظر رکھیں، اس پر کام کریں، اسے اہمیت دیں۔ یہ بھی اس قضیئے کا ایک اہم پہلو ہے۔
قضیئے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس سانحے میں اور اسی طرح کے دیگر سانحوں میں آل سعود کی پشت پناہی کرنے والی طاقتیں بھی شریک ہیں۔ بے شک، منٰی کے سانحے میں امریکی تو موجود نہیں تھے، مگر اس کے باوجود ان کے ہاتھ ہمارے شہدائے منٰی کے خون سے رنگیں ہیں۔ یہ بدعمل حکام امریکا کی پشت پناہی اور امریکا کے تعاون سے ہی اس طرح عالم اسلام کے سامنے بے شرمی سے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں اور پھر معذرت خواہی کا ایک لفظ تک زبان پر لانے کی زحمت نہیں کرتے۔ یہ امریکیوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہے۔ اس طرح وہ بھی شریک جرم ہیں۔ اسی طرح یمن کے معاملے میں، عالم اسلام کے دیگر مسائل میں، شام کے قضیئے میں، عراق کے قضیئے میں، بحرین کے قضیئے میں، اگر مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو امریکی بھی اس جرم میں اور اس گناہ میں شریک ہیں۔ ان کی سرپرستی کی وجہ سے ہی یہ بے غیرت اور بے شرم لوگ اس طرح جرائم اور خیانت کر رہے ہیں اور امت مسلمہ کے پشت پر خنجر مار رہے ہیں، یہ اسی وجہ سے ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی ممالک کے تشہیراتی ادارے اور خفیہ ادارے اس کوشش میں ہیں کہ اس قضیئے کو بھی اسلامی سماجوں کے آپسی تنازعے سے جوڑ دیں۔ اسے بھی شیعہ سنی اختلاف اور عرب و غیر عرب کے جھگڑے سے جوڑ دیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یہ شیعہ سنی اختلاف کا معاملہ نہیں ہے۔ سانحہ منٰی میں جو لوگ شہید ہوئے، ان میں اکثریت اہل سنت کی تھی۔ خود ہمارے ملک سے بھی کافی تعداد اہل سنت کی تھی۔ یہ عرب و عجم کا معاملہ بھی نہیں ہے۔ یہ عرب و عجم کسی پر رحم نہیں کرتے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ وہ یمن میں مجرمانہ کارروائياں کر رہے ہیں۔ یمن تو عرب ملک ہے، شام بھی عرب ملک ہے، عراق بھی عرب ملک ہے۔ ان کے ایجنٹ، یہ قسی القلب جلاد دہشت گرد گروہ جو ان (آل سعود) کے پیسے سے اور انھیں کے دئے ہوئے ہتھیاروں سے عالم اسلام میں بڑے پیمانے پر المیوں کو جنم دے رہے ہیں۔ جبکہ یہ سب عرب ہیں۔ تو یہ عرب و عجم کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ تو مغربی ملکوں کا خباثت آلود پروپیگنڈا ہے کہ اسے شیعہ سنی تنازعہ اور عرب و عجم اختلاف قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ان کی تشہیراتی خباثت ہے جو حقیقت ماجرا کے بالکل برخلاف ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ عالم اسلام کے اندر موجود ایک گروہ کی نمائندگی کرتے ہیں جو امت مسلمہ کے دشمن کی طرح کام کرتا ہے، ان میں کچھ دانستہ طور پر اور کچھ نادانستہ طور پر یہ کام کر رہے ہیں۔
دنیائے اسلام کو چاہئے کہ ان کے مقابل کھڑی ہو جائے۔ عالم اسلام کو چاہئے کہ ان سے اور اسی طرح ان کے آقاؤں یعنی امریکا، خبیث برطانیہ اور بے ایمان اور اخلاقیات سے بے بہرہ مغربی طاقتوں سے اپنی بیزاری کا اعلان کرے۔ انھیں پتہ چلنا چاہئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ملت ایران نے خود مختاری کا پرچم بلند کیا ہے اور اسلام کے وقار کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج آپ ایرانی عوام کے نعرے، آپ کا مقام و مرتبہ، جو پوزیشن آپ نے حاصل کی ہے، ملک کے اندر جو کام ہو رہے ہیں، یہ پیشرفت، یہ عظیم عوامی تحریکیں، مغربی دنیا میں رائج فتنہ و فساد کے مقابل آپ کی یہ خود مختاری، یہ سب اسلام کے لئے باعث افتخار ہے، اس سے اسلام کا وقار اونچا ہوتا ہے۔ یہ عزت و وقار ملت ایران نے حاصل کیا ہے اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ملت ایران کی عزت و سربلندی میں روز افزوں اضافہ کرے۔ امت اسلامیہ کے اقتدار اور قوت میں اضافہ کرے۔ دنیائے اسلام کی ان مصیبتوں کو دور کرے۔ ہمارے ملک کے محترم حکام جن پر اس عظیم سانحے کے تعلق سے ذمہ داریاں ہیں وہ اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔ شہید فاؤنڈیشن، حج سے متعلق ادارے، اس اہم سانحے کے تعلق سے اپنے فرائض پر عمل کریں۔ چنانچہ اب تک بہت سے کام انجام دئے گئے ہیں۔ اس مسئلے پر پوری سنجیدگی سے کام کریں۔ سرکاری حکام اور وزارت خانے بھی، اسی طرح دوسرے عہدیداران بھی۔ سب کے ذمے کچھ کام ہیں، یہ بہت اہم واقعہ ہے۔ بہت بڑا واقعہ ہے، یہ کسی ایک گروہ اور ایک سماج کا معاملہ نہیں بلکہ ایک ملت اسلام، ملت ایران اور وسیع تر زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو پوری مسلم امہ سے متعلق معاملہ ہے۔ ہم سب کی ذمہ داریاں ہیں۔ خداوند عالم ہماری مدد فرمائے کہ ہم اپنے فرائض پر عمل کر سکیں۔

و السّلام علیکم و رحمة الله‌

۱) اس ملاقات کے آغاز میں جو 24 ستمبر 2015 کو رونما ہونے والے سانحہ منٰی اور اس سے چند روز قبل 11 ستمبر 2015 کو مسجد الحرام میں کرین گرنے کے دردناک سانحے کی پہلی برسی کی مناسبت سے انجام پائی، امور حج و زیارت میں ولی فقیہ کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین سید علی قاضی عسگر اور شہید فاؤنڈیشن میں ولی فقیہ کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین سید محمد علی شہیدی محلاتی نے اپنی اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
۲) حاضرین کی آواز گریہ بلند ہو گئی۔