ایٹمی ڈیل کے تحت فریق مقابل وعدے کر رہا ہے۔ بس ایک بات کہوں گا: باتیں اور وعدے تو ہم نے بہت سنے، عملا جنہیں نظر انداز ہی نہیں بلکہ ان کے برخلاف عمل کیا گيا۔ باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس بار عمل! صرف عمل! اگر اسلامی جمہوریہ کو فریق مقابل کا عمل نظر آئے گا تو وہ بھی عمل کرے گی۔

بڑی طاقتیں شروع سے اسلامی انقلاب کی دشمنی پر تل گئیں۔ دشمنی کی کیا وجہ تھی؟ یہ وجہ تھی کہ اسلامی نظام نے دنیا پر حکمفرما استعماری سسٹم (جس میں کچھ استعماری قوتیں اور کچھ استعمار کی شکار قومیں ہوں) کو مسترد کر دیا تھا اور یہ سسٹم تسلط پسندانہ نظام کی شہ رگ تھا۔

تسلط پسندانہ نظام نے اسلامی انقلاب کے خلاف اقدامات کے لئے بہانے تراشے ہیں۔ کبھی انسانی حقوق، کبھی دینی حکومت کی شبیہ مسخ کرنا، کبھی ایٹمی مسئلہ، کبھی علاقائی بحث۔ یہ بہانے ہیں۔ اصلی ماجرا یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ تسلط پسندانہ نظام میں ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے۔

اسلامی انقلاب نے آکر ملک کے انتظامی سسٹم کو ایک استبدادی، سلطنتی اور شخصی نظام سے تبدیل کرکے عوامی، جمہوری اور ڈیموکریٹک نطام بنا دیا۔ آج ملت ایران کا مستقبل خود عوام کے ہاتھ میں ہے۔ عوام ہی منتخب کرتے ہیں۔

اسلامی انقلاب نے ایران کو علمی میدان میں پسماندہ اور بڑی طاقتوں کے طفیلی و محتاج ملک سے بدل کر علمی میدان میں دنیا کے دس ممتاز ممالک کے زمرے میں شامل اور خود مختار، آزاد اور باوقار ملک بنا دیا۔

دوسری عالمی جنگ میں ایران کچھ برطانوی اور غیر برطانوی حملوں کے سامنے چند گھنٹے بھی ٹک نہیں سکا۔ اسلامی انقلاب کے بعد آٹھ سال امریکہ، سوویت یونین، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دوسروں نے صدام کی آڑ میں ایران سے جنگ کی مگر کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے۔

تفصیلی خبر کچھ دیر میں۔۔۔