بسم الله الرّحمن الرّحیم

الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

عید بعثت پیغمبر اکرم کی مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام ملت ایران، پوری مسلم امہ اور دنیا کے تمام آزاد منش انسانوں کو۔ عید بعثت دنیا کے تمام آزادی پسند افراد کی عید ہے، دنیا کے تمام عدل پسند افراد کی عید ہے، یہ ملت اسلامیہ کو متنبہ اور آگاہ کرنے والی عید ہے۔ میں آج بعثت کے تعلق سے کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں اور انقلاب کے مسائل سے مربوط کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

بعثت : پیغمبر کا برانگیختہ ہونا اور عوام الناس کو برانگیختہ و متحرک کرکے نیکیوں کی سمت لے جانا

بعثت کے موقع پر آج کے دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قلب مقدس اللہ کی گراں بہا ترین امانت کا خزانہ بنا، یعنی وحی پروردگار اور عالم وجود کی سب سے سنگین ذمہ داری اس عظیم ہستی کے مضبوط کاندھوں پر رکھی گئی، یہ رہتی دنیا تک بشریت کی ہدایت کی ذمہ داری ہے۔ البتہ یہ بعثت تمام انسانیت کے لئے بڑا عظیم تحفہ بھی تھی۔

بعثت کا مطلب ہے برانگیختہ ہونا۔ یعنی اللہ کا برگزیدہ انسان کہ جو رسول خدا ہے اس کا برانگیختہ ہونا۔ اس برانگیختگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کا رابطہ اللہ کی لا زوال قوت و علم کے سرچشمے سے قائم ہو جاتا ہے۔ یہی پیغمبری اور رسالت کے وجود میں آنے کا معاملہ ہے۔ پیغمبر کا برانگیختہ ہونا بعد کے مرحلے میں عوام الناس کے برانگیختہ ہونے کا موجب بنتا ہے۔ یعنی ہر دور میں پیغمبر اکرم اور رسول الہی، اللہ کے تمام عظیم انبیا مبعوث برسالت ہونے کے بعد انسانوں کو متحرک کرتے ہیں، حرکت میں لاتے ہیں، نئی راہ کی سمت انھیں لے جاتے ہیں، اس کے سامنے خوش بختی اور اچھی راہ پیش کرتے ہیں، یہ بعثت کا معنی و مفہوم ہے۔

دعوت توحید، انبیا کی بعثت کا سب سے عظیم مقصد

تمام انبیا کو مبعوث کئے جانے کے کچھ مقاصد رہے ہیں، الہی مقاصد رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پروردگار کی اطاعت میں یہی مقاصد انبیا کے بھی مقاصد ہوں گے۔ تو تمام انبیا کی بعثت کے کچھ مقاصد رہے ہیں اور ان میں سب سے اہم مقصد توحید ہے۔ توحید بعثت کا سب سے عظیم ہدف ہے۔ وَ لَقَد بَعَثنا فی کُلِّ اُمَّةٍ رَسولًا اَنِ اعبُدُوا اللهَ وَ اجتَنِبُوا الطّاغوت(۲) خالص توحید، دوسرے ہر تصور سے پاک توحید۔ یہ سورہ نحل کی آیہ کریمہ ہے۔ اسی طرح سورہ اعراف میں اور سورہ ہود میں بھی حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح اور دیگر انبیا کی زبانی اس انداز سے یہ بات کہی گئی ہے؛ «یٰقَومِ اعبُدُوا اللهَ ما لَکُم مِن اِلٰه غَیرُه»(۳) یہ توحید انبیا کی بعثت کا اولین ہدف ہے۔ البتہ آپ جانتے ہیں کہ توحید کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ انسان اپنے ذہن میں یہ عقیدہ بٹھا لے کہ اللہ ایک ہے دو نہیں ہے۔ بے شک یہ معنی بھی ہے لیکن توحید کا بڑا اہم مفہوم ہے جو حاکمیت پروردگار کا مفہوم ہے۔ توحید کا مفہوم عالم تخلیق اور عالم تشریع (قانون اور ضوابط حیات کا تعین)دونوں پر اللہ کی مطلق حکمرانی ہے۔ امر الہی نافذ ہونا چاہئے، عالم تخلیق میں بھی، عالم وجود کے تمام تغیرات میں «لا حول و لا قوّة الّا بالله» اسی طرح عالم تشریع میں بھی۔ تمام تغیرات اور تمام حالات قدرت پروردگار سے انجام پاتے ہیں۔ تو یہ اصلی ہدف ہے۔

انبیا کا دوسرا ہدف حیات طیبہ

دیگر اہداف بھی موجود ہیں۔ بشر کا تزکیہ یعنی انسانوں کی روح کو آلودگی سے پاک کرنا اور پستی و انحطاط پیدا کرنے والے عناصر سے دور کرنا، انسانوں کی تعلیم اور انسانوں کے علمی ادراک کو بلند کرنا۔ عدل و انصاف قائم کرنا کیونکہ انسانی معاشرہ عدل و انصاف کے ذریعے چلتا ہے: لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط(۴) حیات طیبہ کو عملی جامہ پہنانا: فَلَنُحیِیَنَّه حَیٰوةً طَیِّبَةً(۵) حیات طیبہ سے کیا مراد ہے؟ حیات طیبہ سے مراد یہ ہے کہ ایک طرف عقل انسانی اور علم بشر ارتقائی منزلیں طے کرے اور دوسری جانب نوع بشر کو فکری آسودگی ملے، مادی آسائش حاصل ہو، انسانی زندگی کی فضا میں تحفظ کا ماحول قائم ہو، انسان کو رفاہ حاصل ہو، مسرت و شادمانی کا ماحول قائم ہو، ان سب سے بڑھ کر روحانی تکامل اور انسان کی روحانی رفعت کا راستہ صاف ہو۔ حیات طیبہ سے یہ چیزیں مراد ہیں۔ یہ انبیا کی بعثت کے اہداف ہیں۔ البتہ ان آیتوں میں اللہ کے بڑے انبیاء کے بارے میں بات کی گئی ہے، مگر دوسرے پیغمبر بھی تھے جو انہی حقائق کے مبلغ کی حیثیت سے مختلف خطوں میں بھیجے گئے۔

بعثت کے اہداف کے حصول کے وسائل: سماجی روابط اور سیاسی طاقت کے لئے منصوبہ بندی

آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ یہ اہداف بڑے عظیم اہداف ہیں اور ساتھ ہی بڑے دشوار اہداف بھی ہیں۔ تو ان اہداف کو کیسے حاصل کیا جائے؟ ظاہر ہے کہ اس کے لئے سب سے پہلے تو سماجی تعلقات کے سلسلے میں وسیع البنیاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یعنی اگر نبی اسلام، نبی حق، نمایندہ الہی کسی بھی دور میں ان اہداف کی تکمیل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ان اہداف کے مطابق اس کے لئے وسیع سماجی روابط قائم کرنا بھی ناگزیر ہے۔ دوسرا اہم نکتہ ہے سیاسی قوت۔ یعنی یہ سماجی تعلقات گوشہ تنہائی میں پڑا انسان اور ناصح قائم نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے طاقت کی ضرورت ہے، سیاسی قوت کی ضرورت ہے۔ بنابریں انبیا کی بعثت کے ساتھ بڑی سیاسی قوت کا بھی پہلو ضروری ہے اور ساتھ ہی ان اہداف کی تکمیل کے لئے وسیع البنیاد منصوبہ بندی بھی لازمی ہے۔

کتاب خدا کے محور پر پیغمبروں کی حکمرانی کے منصوبے اور ضوابط

تو پیغمبر کی آمد کے ساتھ ہی ایک سیاسی نظام وجود میں آتا ہے۔ یعنی مقصد یہ ہے کہ ایک سیاسی نظام قائم ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ انبیا میں سے کس کو اس کام میں کامیابی نہیں ملی۔ مگر مقصد یہی ہے کہ ایک سیاسی نظام وجود میں آئے جو منصوبہ بندی کے ساتھ، سماجی روابط اور گوناگوں انسانی رشتوں کی مدد سے ان اہداف کی تکمیل کرے۔ اس سیاسی نظام میں حکمرانی کا دستور العمل کتاب خدا سے اور اللہ کی جانب سے پیغمبر پر جو کچھ نازل ہوا اس سے لیا جاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: فَبَعَثَ اللهُ النَّبِیّینَ مُبَشِّرینَ وَمُنذِرینَ وَ اَنزَلَ مَعَهُمُ الکتٰبَ بِالحَقِّ لِیَحکُمَ بَینَ النّاسِ فیمَا اختَلَفوا فیه(۶) «لِیَحکُمَ»یعنی «لِیَحکُمَ کتاب» یعنی عوام الناس جو بھی عمل اور سرگرمیاں انجام دیتے ہیں ان کے سلسلے میں اس کتاب کا فرمان نافذ ہونا چاہئے، تمام سماجی روابط اور امور کے سلسلے میں اسی کتاب کا حکم چلے گا۔ یعنی اہل انجیل کے لئے حکمرانی کا دستور انجیل سے لیا جائے گا۔ اسی طرح دیگر انبیاء کے سلسلے میں جن کی طرف یہ آیتیں اشارہ کرتی ہیں: «وَ مَن لَم یَحکُم بِما اَنزَلَ اللهُ فَاُولئٰکَ هُمُ الکافرون»(۸)  اور «اُولئٰکَ هُمُ الظٰلِمونَ»(۹) اور «اُولئٰکَ هُمُ الفسِقونَ»(۱۰)۔ ان تمام آیتوں میں جس چیز کو حکمرانی کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے اور حکومتی دستور العمل جہاں سے اخذ کرنے کی تاکید کی گئی ہے وہ کتاب اللہ ہے جو پیغمبر پر نازل ہوئی۔ اصول اور بنیادی احکامات اسی کتاب میں ہیں۔ تمام انسانی منصوبوں اور ایجنڈوں کا انھیں اصولوں کے دائرے میں رہ کر تعین ہونا چاہئے۔

حکومت کی سربراہی و رہنمائی نیز فرامین خداوندی کا نفاذ انبیاء کا فریضہ

یہ حکمرانی کا دستور العمل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس دستور العمل کو نافذ کون کرے گا؟ اگر کوئی انتظامی قوت اور سربراہ نہ ہو تو ان فرامین کو نافذ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ تو ایک انتظامی طاقت کی ضرورت ہے اور یہ انتظامی ذمہ داری اور اساسی رہنمائی خود پیغمبر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ یعنی پیغمبر اکرم اور تمام انبیاء، نبی اسلام اور آپ سے پہلے دیگر پیغمبر سب ایسے منتظم اور رہبر ہیں جن کی ذمہ داری معاشرے میں وہ دینی و الہی حکومت قائم کرنا اور اسے عملی جامہ پہنانا ہے، جو انبیاء کی بعثت کا ثمرہ ہے اور جس کی پیشکش کتاب خداوندی کے ذریعے کی گئی ہے۔

البتہ یہ رہبری اور قیادت یکساں نہیں ہے۔ بعض مواقع پر خود پیغمبر، خود نبی خدا کی ذات اس قیادت کی ذمہ داری سنبھالتی ہے، جیسے حضرت داوؤد، حضرت سلیمان اور پیغمبر اسلام، یہ پیغمبر خود حکمراں بھی بنے اور فرامین پروردگار کے نفاذ کے ذمہ دار قرار پائے۔ بعض مواقع پر یہ ہوتا ہے کہ پیغمبر حکم پروردگار سے کسی حاکم کا تعین کر دیتے ہیں، جیسے اس پیغمبر خدا نے کیا جس کا ذکر سورہ بقرہ میں ہے: «اِذ قالوا لِنَبِیٍّ لَهُمُ ابعَث لَنا مَلِکًا نُقاتِل فی سَبیلِ الله»(۱۱) عوام الناس جو شدید سختیوں میں تھے اور مشکلات کا سامنا کر رہے تھے، پیغمبر کے پاس گئے کہ وہ ان کے لئے کسی فرماںروا کا انتخاب کر دیں۔ پیغمبر نے ان کے لئے حکمراں کا انتخاب کر دیا۔ قالَ لَهُم نَبِیُّهُـم اِنَّ اللهَ قَد بَعَثَ لَکُم طالوتَ مَلِکًا(۱۲) طالوت فرماںروا بن گئے۔ بنابریں پیغمبر ہی اصلی رہبر، فرمانروا اور منتظم ہیں مگر امور کا انتظام پیغمبر کے علاوہ کسی شخص کو سونپا گیا ہے، اس مثال میں وہ دوسرا شخص حضرت طالوت ہیں۔ نبوت کی تاریخ میں اس قسم کی مثالیں کم نہیں بہت زیادہ ہیں۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ خود پیغمبر کسی کو منصوب نہیں کرتے لیکن وہ شخص حکومتی نظام کے اندر ایسی پوزیش کا حامل ہوتا ہے کہ اس کا حکم چلتا ہے۔ جیسے حضرت یوسف جن کا حکم اس نظام حاکمیت میں موثر تھا، ان کے حکم سے کام انجام پاتے تھے جبکہ وہ حاکم مطلق نہیں تھے، البتہ حکومت بھی رفتہ رفتہ حضرت یوسف کی جانب مائل ہوتی چلی گئی۔

دین انسانی زندگی کے لئے مکمل دستور العمل

تو بعثت کا ما حصل یہ ہے۔ بعثت کا مطلب ہے پیغمبر کا برانگیختہ ہونا۔ پیغمبر کو مبعوث کئے جانے کے ساتھ ہی کتاب الہی اور حکومت الہی کے دستور العمل کو بھی پیغمبر پر نازل کیا جاتا ہے۔ اس حکومت الہی کے مضمون کو نبی خدا نافذ کرتے ہیں، عملی جامہ پہناتے ہیں، اسے عمل میں لاتے ہیں، اسی طرح الگ الگ انداز سے رہبری کرتے ہیں جن کا میں نے ذکر کیا۔ ممکن ہے کہ اس کی دیگر شکلیں بھی ہوں مگر قرآن میں ہمیں ان کا کوئی سراغ نظر نہیں آتا۔ تاہم عین ممکن ہے کہ ان کا وجود ہو۔ ہم تاریخ کے تمام واقعات و حوادث کا علمی احاطہ نہیں رکھتے۔ اس وسیع البنیاد طرز فکر کے ساتھ دین کیا ہے؟ اس نظر سے جب ہم دیکھتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ دین سے مراد ہے انسانی زندگی کا جامع دستور العمل، ایک جامع پروگرام۔ یہ شخصی و ذاتی زندگی کا پروگرام اور محض عبادت کا پروگرام نہیں ہے۔ کچھ لوگ یہی تصور کرتے ہیں کہ دین ایک ذاتی اور نجی پروگرام ہے۔ گوناگوں سیاسی، اقتصادی اور سماجی امور دین کے دائرے سے خارج ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے، یہ طرز فکر بتاتا ہے کہ دین بہت جامع ہے، اس کے اندر ہمہ گیریت ہے۔

دین سے شر پسندوں کی دشمنی کی وجہ دین اور اس کے قلمرو کے تعلق سے خاص سوچ ہے

ظاہر ہے کہ جب دین کا یہ نقطہ نگاہ ہوگا تو اس کے دشمن بھی ضرور پیدا ہو جائیں گے۔ تمام ادوار میں دنیا کی شر پسند طاقتیں ایسے دین کی مخالف رہی ہیں۔ کبھی اس عظیم وادی اور قلمرو کو کمتر ظاہر کرکے اسے شخصی و ذاتی امور تک محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی اعلانیہ اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلنا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِنَ المُجرِمین(۱۳) یہ سورہ فرقان میں ہے کہ مجرمین، گنہگاروں اور شر پسندوں میں سے کچھ افراد ہر پیغمبر کے دشمن رہے ہیں۔ سورہ انعام میں بھی ارشاد ہوا: وَ کَذٰلِکَ جَعَلنا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطینَ الاِنسِ وَ الجِنِ یوحی بَعضُهُم اِلیٰ بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا(۱۴) بنابریں جب نبی کی بعثت ہوتی ہے اور پیغمبر کو مبعوث کیا جاتا ہے اور حکم الہی کے نفاذ و اجرا کا منصوبہ پیش کیا جاتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ دنیا کے فسادی، استعماری مستکبر اور انسانی زندگی میں رخنہ اندازی کرنے والے عناصر اس کی مخالفت کریں گے، لٹیرے اس کی مخالفت کریں گے، ظالمین اس کی مخالفت کریں گے۔ کیونکہ وہ ظلم کے خلاف ہے، کیونکہ وہ انسانی سرمائے کی غارت گری کے خلاف ہے، انسان پر غیر منصفانہ تسلط کے خلاف ہے، ظاہر ہے کہ جو لوگ شر پسند عناصر کے زمرے میں آتے ہیں وہ پیغمبر کی مخالفت کریں گے۔ آپ آج بھی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ دشمن کے پروپیگنڈے میں سیاسی اسلام کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ سیاسی اسلام یہی ہے جو ایران کے اسلامی نظام کے تحت نافذ ہوا ہے۔ میں بعد میں ذکر کروں گا کہ ہمارے عظیم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے کیسی عظیم تحریک چلائی، دشمن کے حملوں کی آماجگاہ سیاسی اسلام ہے۔ سیاسی اسلام یعنی یہی اسلام جو حکومت کی تشکیل کرکے، گوناگوں اداروں کی تشکیل کرکے، اقتصادی، سماجی، سیاسی اور عسکری نظام قائم کرکے ایک مجموعہ تشکیل دیتا ہے اور ایک پوری قوم کے لئے اسلامی و دینی تشخص پیدا کرتا ہے۔ یہ بات دین کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ دین کے بارے میں قرآنی تعریف یہی ہے۔ اسے کمتر کرکے چھوٹے اور صرف عبادی امور تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح بعثت ایک عظیم تبدیلی ہے جو انسان کی نجات کا جامع پروگرام متعارف کراتی ہے اور انسانوں کو عظیم عمل کے لئے آمادہ کرتی ہے۔

انسانوں کی برانگیختگی اور تحرک پیغمبروں کی سرگرمیوں اور کاوشوں کا نتیجہ

ایسا بھی نہیں ہے کہ پیغمروں کے تحرک اور سرگرمیوں سے اس میدان میں عوام الناس کی سرگرمیوں کی گنجائش ختم ہو جائے۔ ایسا نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا پیغمبر کا برانگیختہ ہونا انسانوں کو متحرک کرتا ہے، پورے معاشرے میں تحرک پیدا کرتا ہے، انسان تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام اس معروف خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں:  وَ واتَرَ فیهِم رُسُلَهُ لِیَستَأدوهُم میثاقَ فِطرَتِهِ وَ یُذَکِّروهُم مَنسِیَّ نِعمَتِهِ وَ یُثیروا لَهُم دَفائِنَ العُقول(۱۵) انسان کے وجود میں پنہاں دانش و خرد کے خزانوں کو زندہ کر دیتے ہیں، متحرک کر دیتے ہیں، ان کی سوئی ہوئی فطرت کو بیدار کرتے ہیں اور ان کے اندر حرکت پیدا کر دیتے ہیں۔ اسی طرح نہج البلاغہ کے ایک اور خطبے میں پیغمبر کے تعلق سے ارشاد ہوتا ہے: «طَبیبٌ دَوّارٌ بِطِبِّه قَد اَحکَمَ مَرَاهِمَهُ وَ اَحمیٰ مَواسِمَه» اس میں مرہم بھی ہے اور [مَوْسم]  بھی ہے۔ ماضی میں یہ روایت تھی کہ جب زخم ٹھیک نہیں ہوتا تھا تو اس پر گرم سلاخ رکھ دی جاتی تھی۔ اس طرح زخم ٹھیک ہو جاتا تھا۔ عربی لغت میں [مَوْسم] اسی سلاخ کو کہا جاتا تھا جسے طبیب گرم کرکے زخم پر رکھتے تھے۔ «مَوْسِم» یا «مِیْسَم»- ارشاد فرماتے ہیں: «قَد اَحکَمَ مَراهِمَه»  پیغمبر اسلام مرہم بھی تیار کرتے تھے «وَ اَحمَیٰ مَواسِمَه» وہ سلاخ بھی فراہم کرتے تھے تاکہ «یَضَعُ حَیثُیَحتاج»(۱۶) یا «حَیثُ شاء» جہاں ضرورت ہوتی تھی، فائدہ ہوتا تھا وہاں مرہم رکھتے تھے اور جہاں ضرورت پیش آ جاتی تھی وہاں [موسم] کا استعمال کرتے تھے۔ آپ اسلام میں جو حدود شرعیہ دیکھتے ہیں وہ در حقیقت وہی پگھلی ہوئی سلاخیں ہیں جو زخم پر رکھی جاتی ہیں تاکہ زخم ٹھیک ہو جائے۔ یہ بعثت سے متعلق چند باتیں تھیں۔

ہمارا اسلامی انقلاب، بعثت نبوی کے مضمون کا تسلسل

اب کچھ باتیں اسلامی انقلاب کے مسائل کے بارے میں۔ ایران کے عظیم اسلامی انقلاب نے موجودہ زمانے میں بعثت نبوی کے مضمون کا احیاء کر دیا، یعنی خداوند متعال نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ توفیق عطا کی کہ وہ اس زمانے میں اپنی جدت طرازی سے، اپنی شجاعت سے، اپنے بلند افکار سے، اپنے ایثار سے بعثت نبوی کی ابدی راہ کو اجاگر اور نمایاں کریں، یہ بعثت کا وہی راستہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مدھم پڑ گيا تھا جسے امام خمینی نے اجاگر کر دیا اور اسلام کی جامعیت کو عملی طور پر پیش کیا اور یہ دکھایا کہ اسلام ایک جامع دین ہے اور انسان کی زندگي کے ہر شعبے پر محیط ہے۔ اس بات کو امام خمینی نے نمایاں کر دیا۔ انھوں نے طاق نسیاں کی زینت بن چکے دین کے سماجی اور سیاسی پہلوؤں کو پھر سے زندہ کر دیا اور اسے لوگوں کو یاد دلایا: وَ یُذَکِّرُوھُم مَنسیَّ نِعمَتِہ (لوگوں کو خدا کی بھولی ہوئي نعمتوں کو یاد دلائيں) اور اس جملے کا مصداق قرار دیا۔ تو یہ انقلاب، ظلم کے خلاف بعثت نبوی کی پیروی میں تھا، آمریت کے خلاف تھا، سامراج کے خلاف تھا، مظلوموں کا حامی تھا، حقیقی معنی میں مظلوموں کا حامی تھا خواہ وہ کسی بھی دین و مذہب کے ہوں، ہر قوم اور ہر مذہب و ملت کے مستضعفین کا حامی تھا اور اس انقلاب نے ہر حالت میں تمام انسانیت کو اسلام کے سیدھے راستے کی دعوت دی، اسلامی انقلاب کا بنیادی مشن یہ ہے۔

اسلامی انقلاب کے مقابلے میں دنیا بھر کے شیطانوں کی صف آرائي

جب یہ انقلاب برپا ہو گيا اور اس بنیاد پر اس نے ایک نظام کو وجود عطا کیا جو اسلامی جمہوری نظام ہے، تو اسی واقعے کا اعادہ ہوا جو پیغمبروں کے ساتھ پیش آیا کرتا تھا؛ یعنی دنیا بھر کے شیطان اس انقلاب کے مقابلے میں صف آرا ہو گئے جس طرح سے وہ پیغمبروں کے مقابلے میں صف آرا ہوا کرتے تھے۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلنا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِنَ المُجرِمینَ (17) دنیا بھر کے مجرمین، شر پسند افراد اور سامراجی عناصر، اسلامی انقلاب کے مقابلے میں اکٹھا ہو گئے اور اس کا مقابلہ کرنے لگے۔ البتہ یہ چیز ہمارے لیے بھی غیر متوقع نہیں تھی، ہمیں شروع سے ہی خدشہ تھا کہ یہ لوگ، اسلامی انقلاب کے خلاف ہو جائيں گے؛ شروع سے ہی یہ بات معلوم تھی کہ ایسا ہوگا: ھذا ما وَعَدَنَا اللہُ وَ رَسولہ وَ صَدَقَ اللہُ وَ رَسولُہ(18) یہ بات واضح تھی کہ ان خصوصیات کے حامل انقلاب سے امریکا، سامراجی طاقتیں اور اس وقت کا سوویت یونین مقابلہ کرے گا اور یہ سب اس کے مقابلے میں کھڑے ہو جائيں گے اور ہوا بھی ایسا ہی۔

سب سے نہیں بلکہ صرف دشمنان خدا سے اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کی جنگ اور مقابلہ آرائي

تو یہ مقابلہ آرائي یقینی طور پر موجود ہے لیکن ان لوگوں نے اسلامی جمہوریہ ایران سے مقابلے اور ٹکر کے اس معاملے میں بھی ہمیشہ کی طرح تحریف اور دروغگوئي کی۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پوری دنیا سے ٹکراؤ اور دشمنی چاہتا ہے، یہ صحیح نہیں ہے، یہ حقیقت کے برخلاف ہے۔ ہم نے قرآن مجید سے سیکھا ہے کہ جو لوگ، اسلامی نظام سے دشمنی نہیں کرتے، ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ سورۂ ممتحنہ میں ہے کہ "لا یَنہیٰکُمُ اللہُ عَنِ الَّذینَ لَم یُقاتِلوکُم فِی الدّینِ وَلَم یُخرِجوکُم مِن دِیارِکُم اَن تَبَرّوھُم وَ تُقسِطوا اِلَیہِم"(19) یہ کفار جو تم سے دشمنی نہیں کرتے، جنگ نہیں کرتے اور عملی طور پر تم سے عداوت نہیں کرتے، تم ان کے ساتھ نیکی کرو، ان کے ساتھ عدل و انصاف کا سلوک کرو۔ "اِنَّ اللہَ یُحِبُّ المُقسِطین"اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اِنَّما یَنہیٰکُمُ اللہُ عَنِ الَّذینَ قاتَلوکُم فِی الدّینِ وَاَخرَجوکُم مِن دِیـارِکُم وَ ظاہَروا عَلی اِخراجِکُم اَن تَوَلَّوھُم (20) بنابریں قرآن مجید کی آيت یہ کہتی ہے۔ ویسا نہیں ہے جو وہ لوگ کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ سب سے لڑنے پر تلی رہتی ہے، جی نہیں، ہمیں ان لوگوں سے کوئي مشکل نہیں ہے جو ہم سے دشمنی نہیں کرتے، چاہے وہ جس دین اور جس مذہب کے ہوں، ہم ان کے ساتھ بھلائي کرتے ہیں۔ اسلام کی تاکید یہ ہے کہ دشمنوں سے مقابلہ کرو، جو لوگ دشمنی کرتے ہیں، وہ لوگ نہیں جن کا دین، تمھارے دین سے الگ ہے۔

ملک کے اندر نام نہاد روشن خیال افراد کے ایک گروہ نے کچھ برس پہلے اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں ایک دوسرا نظریہ پیش کیا، جو حالیہ دنوں میں بھی کبھی کبھی سامنے آتا ہے۔ میں نے ایک تقریر میں کہا کہ دوسرا نظریہ ہمارے لیے کوئي مسئلہ نہیں ہے؛ (21) آپ کا نظریہ الگ ہے، الگ رہے، اس میں کیا قباحت ہے؟ ہمیں آپ کے خیالات سے کوئي مطلب نہیں ہے لیکن آپ دشمنی نہ کجیے۔ قرآن مجید دشمن اور دشمنی کرنے والوں کی بات کرتا ہے۔ وہ سورۂ ممتحنہ میں کہتا ہے: یٰاَیُّھَا الَّذینَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّی وَ عَدُوَّکُم اَولِیٰاءَ تُلقونَ اِلَیہِم بِالمَوَدَّۃ(22) ان لوگوں سے جو میرے اور تمھارے دشمن ہیں، یعنی خدا کے بھی دشمن ہیں اور اسلامی سماج کے بھی دشمن ہیں، دوستی نہ کرو، انھیں اپنا ہمراہ اور اتحادی نہ بناؤ۔ یا سورۂ انفال کی وہ مشہور آيت وَ اَعِدّوا لَھُم مَااستَطَعتُم مِن قُوَّۃ وَ مِن رِباطِ الخَیل کہ جس کے بعد کہا گيا ہے تُرھِبونَ بِہ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّکُم(23) یہ طاقت پیدا کرنا، قوت پیدا کرنا، ہتھیار تیار کرنا اور خود کو مضبوط بنانا اس لیے ہے کہ تم اس کے ذریعے 'دشمن' کو ڈراؤ، بات کسی اور کی نہیں، صرف دشمن کی ہے۔ بنابریں، اسلام سرگرم دشمن سے ٹکرانے کی تاکید کرتا ہے۔ ہم نے ان دشمنوں کو اسلامی انقلاب کی ابتدا سے آزمایا ہے۔ اسلامی انقلاب کے پہلے دن سے، حالانکہ اسلامی جہوریہ ایران نے اغیار اور دوسروں کے سلسلے میں بہت زیادہ درگزر سے کام لیا ہے لیکن ابتدا سے ہی اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں۔ سب سے زیادہ دشمنی امریکا نے کی، اس کے بعد دوسروں نے اور یہ دشمنی اب تک جاری ہے۔

دشمنی سے مقابلے کے اہم عناصر

ان عداوتوں سے مقابلے کے لیے دو اہم عناصر ضروری ہیں، جن کی میں نے ہمیشہ نصیحت کی ہے اور ایک بار پھر نصیحت کر رہا ہوں، تمام لوگوں میں دو خصوصیات ضروری ہیں: ایک بصیرت اور دوسری صبر و استقامت۔ اگر یہ دونوں عناصر موجود ہوں تو دشمن کچھ بگاڑ نہیں سکتا، کوئي نقصان نہیں پہنچا سکتا، اسلامی نظام سے ٹکراؤ میں اسے کوئي کامیابی نہیں مل سکتی؛ بصیرت اور صبر۔ یہ وہی چیز ہے جسے امیر المومنین نے فرمایا ہے: "وَ لا یَحمِلُ ھذَا العَلَمَ اِلّا اَھلُ البَصَرِ وَ الصَّبرِ وَ العِلمِ بِمَواضِعِ الحَقّ" (اس پرچم کو وہی اٹھا سکتا ہے جو صاحب بصیرت و  صبر ہو اور حق کے موقف کا شناسا ہو ) یہ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 173 میں ہے۔

-1 بصیرت، یعنی تیز بینی اور صحیح راہ کی شناخت

بصیرت کا مطلب کیا ہے؟ بصیرت کا مطلب ہوتا ہے تیز بیں ہونا اور صحیح راستے کو پہچاننا۔ کبھی انسان غلطی کرتا ہے، نئے اور کسی کام کی شروعات کرنے والوں کی غلطی کا امکان زیادہ ہوتا ہے لیکن پرانے اور تجربہ کار لوگ بھی بعض موقعوں پر غلطی کر بیٹھتے ہیں اور صحیح راہ کو سمجھ نہیں پاتے، اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ انسان صحیح راستے کی شناخت میں غلطی نہ کرے؛ فتنوں کے غبار میں بھی راستہ تلاش کر سکے اور سمجھ سکے کہ صحیح راستہ کیا ہے؛ بصیرت کا مطلب یہ ہے۔

-2 صبر، یعنی راہ راست پر ثابت قدم رہنا

صبر کا مطلب کیا ہے؟ صبر کا مطلب ہے اس راہ میں استقامت، اس صراط مستقیم سے منحرف نہ ہونا اور اس سیدھے راستے پر ڈٹا رہنا۔ یہ ہے صبر کا مطلب۔ صبر کے خراب معنی نہیں بیان کیے جانے چاہیے، صبر کے معنی کسی اور طرح سے بیان نہیں کیے جانے چاہیے۔ البتہ اکثر دشمن یا وہ افراد جن کے پاس صحیح علم نہیں ہے، صبر کے غلط معنی بیان کرتے ہیں، جبکہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ انسان استقامت کرے، ڈٹا رہے، راستہ جاری رکھے، رکے نہیں، یہ اس صبر کے معنی ہیں جو دشمنوں کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے۔

ایک دوسرے کو نصیحت کرنا، دشمنوں کے مقابلے میں سماج کو محفوظ رکھنے کا ایک راستہ

تو اگر یہ دونوں خصوصیتیں موجود ہوں تو دشمن غالب نہیں آ سکتا۔ معاشرے میں ان دونوں خصوصیتوں کو محفوظ رکھنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو نصحیت کی جائے، وہی چیز جو سورۂ والعصر میں ہے: وَ تَواصَوا بِالحَقِّ ‌وَ تَواصَوا بِالصَّبر، لوگ ایک دوسرے کو نصیحت کریں، باہمی نصیحت کی زنجیر باقی رکھنی چاہیے، حق کی بھی نصیحت کریں، راہ حق کی تاکید کریں اور صبر کی بھی نصیحت کریں، یہ چیز سبھی کو باقی رکھے گي۔ اگر صبر اور حق کی نصیحت اور بصیرت معاشرے میں موجود ہوگي تو یہ معاشرہ آسانی سے دشمن کی ریشہ دوانیوں کا نشانہ نہیں بنے گا، لیکن اگر باہمی نصیحت کی یہ زنجیر، جو مومنین کی حفاظت کی زنجیر ہے، ٹوٹ گئي تو یقینی طور پر نقصان ہوگا۔ اِنَّ ‌الاِنسانَ‌ لَفی‌ خُسر، اِلَّا الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحٰتِ‌‌ وَ تَواصَوا بِالحَقِّ ‌وَ تَواصَوا بِالصَّبر(24) اگر یہ باہمی نصیحت نہ ہو تو خسارہ سامنے آ جائے گا۔ دشمن، اسی اہم عنصر کو نشانہ بناتا ہے۔

نرم جنگ میں دشمن کے اہداف:

-1 ملک میں باہمی نصیحت کے عمل کو ختم کرنا

ہمارے خیال میں نرم جنگ (سافٹ وار) میں دشمن کے دو اہداف ہیں۔ کبھی واضح فوجی اور پر تشدد جنگیں ہوتی ہیں جن کے اپنے طور طریقے ہیں، لیکن نرم جنگ کا علاج مشکل سے ہوتا ہے اور ایک پہلو سے وہ عسکری تصادم سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ تو دشمن نرم جنگ میں دو طرح کے کام کرتا ہے: ایک یہ ہے کہ حق اور صبر کی باہمی نصیحت کی اس زنجیر کو کاٹ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ حقائق کو بالکل برعکس دکھانے کی کوشش کرتا ہے، اس سلسلے میں ان کا وسیع پروپیگنڈا بھی ہے تاکہ جھوٹ کا سہارا لیکر دنیا کے حقائق کو آسانی سے برعکس اور الٹا دکھائيں۔ یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ وہ مومنین کے درمیان حق اور صبر کی تلقین کی زنجیر کو کاٹ دیں اور باہمی نصیحت کے عمل کو روک دیں۔ یہ بات بہت خطرناک ہے کہ وہ ایسا کچھ کریں کہ مومنین ایک دوسرے کو نصیحت نہ کریں، ایک دوسرے کی حفاظت نہ کریں، ایک دوسرے کو امید نہ دلائیں، اگر اس عمل کو روک دیا جائے اور معاشرے میں باہمی نصیحت کی زنجیر کو کاٹ دیا جائے تو بہت خطرناک ہوگا۔ یہ اس بات کا سبب بنے گا کہ انسان تنہائي کا احساس کرے، ناامیدی محسوس کرے، ارادے کمزور ہو جائیں، امیدیں ماند پڑ جائيں، اقدام کرنے کی ہمت ختم ہو جائے۔ جب باہمی نصیحت نہ ہو تو یہ ساری باتیں ہوتی ہیں۔ جب ایسا ہو جائے، امیدیں ماند پڑ جائيں، ہمت ختم ہو جائيں اور ارادے کمزور ہو جائیں تو پھر فطری طور پر اعلی اہداف تدریجی طور پر نظر سے دور ہونے لگتے ہیں، ان تک رسائي ناممکن نظر آنے لگتی ہے اور وہ طاق نسیاں کی زینت بن جاتے ہیں۔ نرم جنگ کے ہمارے ان سپاہیوں کو ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ میں نے کبھی کہا تھا (25) کہ ہمارے نوجوان، ہماری نرم جنگ کے سپاہی ہے۔ نوجوانوں کو ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے اور امید پیدا کرنی چاہیے۔ انھیں استقامت کی نصیحت کرنی چاہیے، کاہلی نہ کرنے کی نصیحت کرنی چاہیے، نہ تھکنے کی تلقین کرنی چاہیے، یہ وہ کام ہیں جو نوجوانوں کے ذمے ہیں جنھیں ہم نے نرم جنگ کا سپاہی کہا ہے۔

آج سائبر اسپیس، اس کام کے لیے ایک اچھا موقع ہے۔ دشمن، سائبر اسپیس سے کسی اور طرح کا فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن آپ عزیز نوجوان اس سے اس طرح استفادہ کیجیے: سائبر اسپیس سے امید پیدا کرنے کے لیے فائدہ اٹھائيے، صبر کی تلقین کرنے کے لیے، حق کی نصیحت کرنے کے لیے، بصیرت پیدا کرنے کے لیے، نہ تھکنے، کاہلی نہ کرنے اور بے کار نہ بیٹھنے وغیرہ کی نصیحت کرنے کے لیے۔ یہ بات تو دشمن کے پہلے کام کے سلسلے میں تھی جو باہمی نصیحت اور ایک دوسرے کی حفاظت کی زنجیر کو کاٹنے سے عبارت ہے۔

-2 حقائق کو الٹا کر کے دکھانا

ان کا دوسرا کام، ہم نے بتایا کہ حقیقت کو الٹا کرکے دکھانا ہے۔ حقیقت کے سلسلے میں جھوٹ بولنا ہے۔ یہ جھوٹ وہ اتنے ٹھوس طریقے سے اور قطعیت سے بولتے ہیں کہ جو بھی سنتا ہے وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سچ کہہ رہے ہیں۔ یہ لوگ پورے اطمینان سے اور ٹھوس طریقے سے حقیقت کو ایک سو اسّی ڈگری الٹا کرکے دکھاتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ امریکا کا عرب اتحادی چھے سال سے یمن کے مظلوم عوام پر ان کے گھروں میں، سڑکوں پر، اسپتالوں میں اور اسکولوں میں بمباری کر رہا ہے، اس نے ان کا معاشی محاصرہ کر رکھا ہے اور غذا‏ نہیں پہنچنے دے رہا ہے، دوائیں نہیں پہنچنے دے رہا ہے اور تیل نہیں پہنچنے دے رہا ہے، چھے سال سے یہ ہو رہا ہے اور یہ خود امریکی حکومت کے گرین سگنل سے ہوا ہے۔ اس وقت بھی ڈیموکریٹ حکومت بر سر اقتدار تھی۔ اس نے گرین سگنل دیا اور افسوس کہ یہ بے رحم، سنگدل اور ظالم عرب حکومت، یمن کے عوام کے ساتھ اس طرح پیش آ رہی ہے۔ حقیقت میں معاملہ یہ ہے۔ اب یمنیوں نے، جو غیر معمولی صلاحیت کے مالک ہیں، یمن کے لوگ بہت بااستعداد ہیں، اپنی بعض صلاحیتوں سے استفادہ کرکے اپنے لیے دفاعی وسائل پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، یا تو فراہم کر لیے ہیں یا خود ہی تیار کر لیے ہیں اور چھے سال سے جاری ان بمباریوں کا جواب دے رہے ہیں، جیسے ہی یمنیوں کی طرف سے کچھ کیا جاتا ہے، ان کے پروپیگنڈوں کی چیخیں سنائی دینے لگتی ہیں کہ جناب حملہ ہو گیا، جناب کسی کو مار دیا گيا! وہ سب بولنے لگتے ہیں، اقوام متحدہ بھی بولنے لگتی ہے۔ واقعی اس معاملے میں اقوام متحدہ کے کام کی قباحت، امریکا سے بھی زیادہ ہے۔ امریکا تو ایک ظالم سامراجی حکومت ہے، لیکن اقوام متحدہ یہ کیوں کرتی ہے؟ چھے سال سے جاری بمباری کی وجہ سے اس حکومت کی مذمت نہیں کی جاتی لیکن یمنیوں کی اس وجہ سے ملامت کی جاتی ہے کہ انھوں نے کبھی کبھی اپنا دفاع کیا ہے اور یہ دفاع مؤثر ثابت ہوا۔ سبھی ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور حملہ کرنے لگتے ہیں۔ یہ دروغگوئي کا ایک نمونہ ہے۔

یا دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کا سب سے بڑا گودام امریکا ہے۔ وہ سب سے بڑا ایٹمی اسلحہ خانہ! مجھے پتہ نہیں لیکن شاید ہزاروں ایٹم بم ان کے گوداموں میں ہیں اور انھوں نے اسے استعمال بھی کیا ہے، یعنی وہ واحد حکومت جس نے اب تک ایٹم بم استعمال کیا ہے، امریکی حکومت ہے۔ امریکا نے ایک وقت میں، ایک دن میں دو لاکھ بیس ہزار افراد کا قتل عام کیا ہے۔ (26) انھوں نے یہ کام اس طرح کیا اور پھر نعرے لگاتے ہیں کہ ہم ایٹمی ہتھیاروں کی توسیع کے مخالف ہیں! وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم عام تباہی کے ہتھیاروں کے مخالف ہیں! جھوٹ بولتے ہیں! سب سے برے اور سب سے خطرناک ایٹمی ہتھیار ان کے پاس ہیں، انھوں نے ان ہتھیاروں کو استعمال بھی کیا ہے اور اسی کے ساتھ وہ کہتے ہیں کہ ہم عام تباہی کے ہتھیاروں کے مخالف ہیں۔

امریکا اس مجرم کی حمایت کرتا ہے جس نے اپنے تنقید نگار کو آری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، اب تو پوری دنیا ہی جان چکی ہے؛ سعودیوں نے کس طرح اپنے ایک مخالف کو پکڑ لیا اور اسے آری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا(27)۔ اس کے بعد امریکا کہتا ہے کہ میں انسانی حقوق کا حامی ہوں! اس حد تک حقیقت میں تحریف؟! داعش کو خود امریکا نے وجود عطا کیا، اس کا تو خود امریکیوں نے اعتراف کیا ہے، ہم نہیں کہہ رہے ہیں، جس نے ایجاد کیا، اس نے بھی یہ بات کہی ہے اور اس کے حریف نے اس پر حملہ کرتے ہوئے بھی یہ بات کہی ہے، ان سبھی نے یہ بات کہی ہے اور اعتراف کیا ہے کہ داعش کو امریکا نے بنایا ہے۔ پھر یہ لوگ عراق میں، شام میں داعش کی موجودگي کے بہانے فوجی اڈے بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم داعش کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں! یہ لوگ داعش کو پیشرفتہ میڈیا ٹیکنالوجی فراہم کرتے ہیں، پیسے دیتے ہیں، اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ شام کے تیل کو تباہ کرے، لے جا کر بیچے اور اس کے پیسے استعمال کرے، اور پھر یہ کہتے ہیں کہ ہم داعش سے لڑ رہے ہیں! یہ وہ کام ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں، حقیقت کے خلاف بیان بازی۔

خطے میں ایران کی موجودگي کا ذکر بغض اور کینے سے کرتے ہیں کہ کیوں ایران علاقے میں موجود ہے؟ یعنی کیوں ایران، شام میں، عراق میں اور بعض دوسری جگہوں پر موجود ہے؟ جبکہ وہاں ہماری موجودگي، فوجی موجودگی نہیں ہے اور جہاں ہمارے فوجی تھے بھی وہاں بھی ان کی موجودگي مشاورتی تھی، بعض جگہوں پر تو ہمارے فوجی ہیں ہی نہیں، صرف سیاسی موجودگي ہے، اسے وہ کینے کے ساتھ اور عدم استحکام وغیرہ کا سبب بننے والے ایک بڑے مسئلے کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں جبکہ علاقہ، ہمارا علاقہ ہے اور ہم جہاں بھی گئے ہیں، وہاں کی قانونی حکومت کے دفاع کے لیے گئے ہیں۔ چاہے وہ عراق ہو یا شام، ہمارا مقصد قانونی حکومت کا دفاع تھا اور ہم ان حکومتوں کی مرضی سے اور ان کے مطالبے پر وہاں گئے، یہ لوگ اس طرح اس معاملے کو بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ یہ خود، ظالمانہ طریقے سے اور بغیر اجازت کے شام میں داخل ہوتے ہیں، ایک علاقے پر قبضہ کرتے ہیں، وہاں فوجی اڈا بناتے ہیں۔ یا عراق میں کئي فوجی اڈے بناتے ہیں۔ حقیقت کو الٹا کر کے دکھانا، ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ ہر معاملے میں ایسا ہی ہے۔ البتہ امریکیوں کو عراق سے نکلنا ہی پڑے گا۔ یہ خود عراقیوں اور ان کے قانون کا مطالبہ ہے، انھیں شام سے بھی جلد ہی نکلنا ہوگا، جلد از جلد۔ تو ان کے کام یہ ہیں۔

اسلامی انقلاب کے سلسلے میں ہماری ذمہ داریاں

ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اسلامی انقلاب نے ہمارے کندھوں پر اور ایرانی قوم کے کندھوں پر امانت کا جو یہ بھاری بوجھ رکھا ہے اور سعادت کا جو راستہ دکھایا ہے، اس کے سلسلے میں ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ان ذمہ داریوں میں سے ایک حق اور صبر کی نصیحت و تلقین کرنا ہے، دشمن کی شناخت اور اس کے مقابلے میں استقامت ہے، دشمن کے مقابلے میں گھٹنے نہ ٹیکنا ہے اور اس فریبی دشمن پر اعتماد نہ کرنا ہے۔ یہ ہمارے آج کے کچھ معروضات تھے۔

سبھی کی جانب سے میڈیکل شعبے کی مجاہدت کی قدردانی کی  ضرورت

آخر میں بس ایک جملہ اس بیماری کی وبا کے مسائل کے بارے میں دوبارہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ (ہجری شمسی) سال ختم ہو گيا اور کورونا کی وبا کے مقابلے میں ملک کے طبی شعبے کی کوششوں اور مجاہدت کو ایک سال بلکہ اس سے بھی زیادہ ہو گيا، ضروری ہے کہ حقیر بھی اور ملک کے تمام عوام بھی اس شعبے کے افراد کے سلسلے میں اپنے دلی تشکر کا اظہار کریں، ہم ان کے لیے دعا کرتے ہیں، ان کے شکر گزار ہیں اور اپیل کرتے ہیں کہ سبھی دفاع کریں۔

امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند متعال قوم کو اپنی رحمت و فضل اور توجہ سے نوازے گا، عید بعثت کے لیے خداوند عالم ایرانی قوم، دنیا کے تمام مومنین اور امت اسلامیہ کو ان شاء اللہ کوئي مبارک عیدی عطا کرے گا اور ہمیں اس بات کی توفیق عطا کرے گا کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں، خداوند عالم، حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی رضا اور ان کی دعا کو ہمارے شامل حال کرے گا اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روح اور عالی مقام شہداء کی ارواح طیبہ کو ان شاء اللہ ہم سے راضی و خوشنود رکھے گا۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۱) یہ تقریر ٹی وی پر لائیو نشر ہوئی

۲) سوره‌ نحل، آیت نمبر ۳۶ کا ایک حصہ؛ «اور در حقیقت ہم نے ہر قوم میں ایک نمائندہ مبعوث کیا جو (پیغام دے کہ) اللہ کی عبادت کرو اور (دھوکے باز) طاغوت سے پرہیز کرو۔ "...»

۳) منجملہ سورہ اعراف، آیت ۶۵؛ «... اے میری قوم والو! اللہ کی عبادت کرو کہ تمہارا اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ ...»

۴) سوره‌ حدید، آیت نمبر ۲۵ کا ایک حصہ؛ «...تاکہ عوام الناس عدل کے ساتھ قیام کریں...»

۵) سوره‌ نحل، آیت نمبر  ۹۷ کا ایک حصہ؛ «...یقینا ہم اسے پاکیزہ زندگی کے ساتھ (حقیقی) زندگی عطا کریں...»

۶) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۱۳ کا ایک حصہ «...پس اللہ نے پیغمبروں کو نوید دینے والا اور ڈرانے والا مبعوث کیا اور ان کے ساتھ (اپنی) کتاب کو بر حق نازل فرمایا، تاکہ عوام الناس کے درمیان ان کے اختلافی مسائل میں قضاوت کرے۔...»

۷) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۴۷ کا ایک حصہ؛ «اور اہل انجیل کو چاہئے کہ اللہ نے جو کچھ نازل کیا ہے اس کی بنیاد پر فیصلہ کریں۔...»

۸) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۴۴ کا ایک حصہ  «...وہ خود کافر ہیں۔»

۹) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۴۵ کا ایک حصہ؛ «... وہ خود ظالم ہیں۔»

۱۰) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۴۷ کا ایک حصہ؛ «... وہ خود نا فرمان ہیں۔»

۱۱) سوره‌ بقره، آیت نمبر۲۴۶ کا ایک حصہ  « جب انہوں نے اپنے درمیان سے پیغمبر کو مخاطب کرکے کہا: " ہمارے لئے ایک بادشاہ منصوب کرو تاکہ ہم راہ خدا میں پیکار کریں۔"»

۱۲) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۴۷ کا ایک حصہ «ان کے پیغمبر نے ان سے کہا: "در حقیقت خداوند عالم نے طالوت کو تمہارا بادشاہ منصوب کیا ہے۔"»

۱۳) سوره‌ فرقان، آیت نمبر ۳۱ کا ایک حصہ

۱۴) سوره‌ انعام، آیت نمبر ۱۱۲ کا ایک حصہ؛ «اس طرح ہر پیغمبر کے لئےانس و جن کی شکل میں موجود شیطانوں میں سے کسی نہ کسی کو ہم نے قرار دیا۔ ان میں سے بعض دوسرے بعض کو دھوکا دینے کے لئے خوش آئند باتیں القا کرتے رہے۔...»

۱۵) نهج‌ البلاغه، خطبه‌‌‌‌ ۱ (قدرے تفاوت کے ساتھ)

۱۶) نهج‌ البلاغه، خطبه ۱۰۸ (قدر تفاوت کے ساتھ)

(17) سورۂ فرقان، آيت 31، اور ہم نے ہر پیغمبر کے لیے گنہگاروں میں سے ایک دشمن قرار دیا۔

(18) سورۂ احزاب، آيت 22، یہ وہی چیز ہے جس کا ہم سے خدا اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھا اور خدا اور اس کے رسول نے بالکل سچ کہا تھا۔

(19) سورۂ ممتحنہ، آیت 8، اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے ...

(20) سورۂ ممتحنہ، آیت 9، اللہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے ...

(21) اسلامی جمہوری نظام کے اہم عہدیداروں سے ملاقات کے موقع پر تقریر  2/11/2003

(22) سورۂ ممتحنہ کی پہلی آیت کا ایک حصہ، اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو

(23) سورۂ انفال، آيت 60 کا ایک حصہ، اور تم سب جہاں تک ممکن ہو افرادی قوت اور گھوڑوں کا انتظام کرو تاکہ ان تیاریوں کے ذریعے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو خوفزدہ کر دو ...

(24) (سورۂ عصر، آیت 2 اور 3) بے شک انسان بڑے خسارے میں ہے (2) سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

(25) طلب اور ملک کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل نوجوانوں سے ملاقات میں تقریر(26/8/2009)

(26) سنہ انیس سو پینتالیس میں امریکا کے ذریعے جاپان کے ہیروشیما اور ناگاساکی شہروں پر ایٹمی بمباری کی جانب اشارہ۔

(27) ترکی میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں حکومت مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی طرف اشارہ