بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین

آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ جس جگہ بھی شہیدوں کو یاد کیا جائے، ان کا نام لیا جائے، ہم جیسے لوگوں کے لیے، جو ان پر نازل ہونے والے اعلی فیوض سے محروم ہیں، وہ جگہ اچھی اور پسندیدہ ہوگی۔ خداوند عالم آپ لوگوں کو توفیق عطا کرے۔ آپ لوگوں نے بڑا اچھا کام کیا کہ خراج عقیدت کے پروگرام کو اس شکل میں، اس سوچ کے ساتھ اور اس بنیاد پر جو ان حضرات نے بیان کیے، تیار کیا ہے۔ بنابریں میں خراج عقیدت کے اس پروگرام کے انعقاد میں شامل تمام افراد کا اور جن لوگوں نے اس کام میں کسی بھی طرح سے حصہ لیا ہے ان سب کا، دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

صوبے کے شہدا کی قدردانی کے لئے مادی و روحانی جدت طرازی کی تعریف

خاص طور پر اس لیے کہ یہ کام جو آپ نے شروع کیا اور انجام دیا، وہ بڑی دلچسپ اور حسین جدت طرازی کے ساتھ ہے؛ جیسے چار ہزار شہیدوں کی نیابت میں چالیس خدمات کی جو بات آپ نے کی اور اسے صوبائي سطح پر پھیلا دیا، یہ بہت ہی پرکشش، معنی خیز اور فائدہ مند کام ہے جو آپ نے کیا ہے۔ ان چالیس خدمات کی تفصیل ناصری صاحب نے بیان کی۔ یہ بات ملک میں عمومی سطح تک پھیل جائے اس کے لیے میں اشارتا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ ان چالیس خدمات میں مختلف طرح کی خدمات شامل ہیں؛ چار ہزار پودے لگانے سے لے کر جہیز فراہم کرنے، آسان شادی کی راہ ہموار کرنے سے لے بچوں کے نام رکھنے تک اور یہ بڑی اہم بات ہے جس کی جانب فی الحال بہت سے لوگ متوجہ نہیں ہیں لیکن یہ ملک کے اہم ثقافتی مسائل میں سے ایک ہے۔ بچوں کے نام رکھنے کے بارے میں ایک غلط سلسلہ چل پڑا ہے اور آپ اس کے مقابل میں ڈٹ گئے ہیں، اسی طرح مفت علاج سے لے کر ضروری اشیاء کے پیکٹوں تک، ثقافتی پیکیجوں سے لے کر قرآن مجید کی چار ہزار مکمل تلاوت تک، یعنی یہ کہ ان خدمات میں ہر چیز شامل ہے، زندگي کی ضروریات سے متعلق محسوس کی جانے والی اور مادی چیزوں سے لے کر زیارت عاشورا اور قرآن مجید کی تلاوت جیسے معنوی مسائل تک، یہ بہت ہی نمایاں جدت طرازی ہے۔ یزد والوں میں بڑی اختراعی صلاحیتیں ہوتی ہیں، یہ اس سلسلے میں آپ کی جانب سے کی گئي جدت طرازیوں میں سے ایک بڑی اہم اور خوبصورت جدت طرازی ہے۔

زمانہ جنگ میں جدت طرازی کا اہل یزد کا ریکارڈ

محاذ جنگ پر بھی ایسا ہی تھا، محاذ جنگ پر بھی سب نے یزد والوں کی جدت طرازیاں دیکھی ہیں۔ میں نے ان میں سے بعض دیکھی ہیں اور بعض کے بارے میں سنا ہے۔ مثال کے طور پر سپاہیوں کی پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے زیر زمین نہر کھودنے کے ہنر کا استعمال یا یزد میں سرگرم خواتین خانہ کو سلائي کے کام پر لگانا۔ یزد میں بڑے بڑے خیاط خانے یا سلائی کے مراکز بنائے گئے، پہلے ایک مرکز بنا، پھر کئي مرکز بنے اور یہ سلسلہ چل نکلا، مرحوم شہید صدوقی رحمۃ اللہ علیہ نے (2) اس کام کی ترغیب دلائي، حوصلہ افزائي کی اور یہ کام رائج ہو گيا کہ یہ خواتین محاذ جنگ کے سپاہیوں کے لیے لباس تیار کرتی تھیں اور انھیں محاذ پر بھیج دیتی تھیں۔ یا خود فوجی چھاؤنی میں یا الغدیر بریگیڈ کے کیمپ میں، جہاں میں خود گيا تھا، چھاؤنی میں ایک حمام بنایا گيا تھا، میں اس حمام میں گيا، وہ شہروں کے بہت اچھے حماموں کی طرح تھا اس میں بہت سے شاور لگے ہوئے تھے، میرے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سب جدت طرازی والے کام ہیں اور یہ چیزیں دوسری جگہوں پر دکھائي نہیں دیتی تھیں۔ فوجیوں والے کام، دشمن کی صفوں کو توڑنا اور اس طرح کے دوسرے کام تو اپنی جگہ تھے ہی۔ تو یزد والے ایسے ہیں۔

اسلامی انقلاب سے پہلے بھی ایسا ہی تھا۔ انقلاب سے کچھ ہی عرصہ پہلے وہ مشہور نوحہ جو یزد میں پڑھا گيا، اسے ہم نے مشہد میں سنا جسے جہرم کے ایک نوحہ خوان نے پڑھا تھا، ایک یزدی نے پڑھا تھا۔ انقلابی باتوں اور مفاہیم کو ماتم والے نوحے میں شامل کیا گيا تھا اور اس طرح سے اسے ایک عظیم فروغ حاصل ہو گيا تھا۔ یہ ایک بڑا کام تھا۔

انقلاب پر اہل یزد کا احسان

خود انقلاب پر بھی یزد والوں کا ایک بڑا احسان ہے اور وہ یہی دس فروردین (تیس مارچ) کا واقعہ ہے (3) جس کی طرف بعض حضرات نے اشارہ کیا۔ دس فروردین کا واقعہ بڑے حساس حالات میں رونما ہوا۔ تبریز میں قتل عام ہوا تھا اور عوامی تحریک کی سرکوبی کی گئي تھی۔ تبریز کی تحریک بھی ایک غیر معمولی تحریک تھی، اس طرح کے حالات میں تبریز کے لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کے چہلم کا پروگرام رکھا، خود مرحوم شہید صدوقی نے اس میں شرکت کی، مرحوم فلسفی (4) بھی تھے لیکن انھوں نے مجلس نہیں پڑھی تھی دوسرے لوگوں نے، جناب راشد (5) نے مجلس پڑھی اور بعض دیگر لوگوں نے بھی۔ پھر وہ دردناک واقعہ رونما ہوا جو اس پہلو سے نشاط آفرین بھی تھا کہ اس نے یزد کے عوام کے عظیم قیام کو نمایاں کر دیا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو اہم ہیں۔

یزد کے عوام کی قیادت کے سلسلے میں آیت اللہ صدوقی کا اہم کردار

البتہ اس معاملے میں شہید صدوقی کے کردار کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے، شہید صدوقی صرف ایک سرگرم عالم دین نہیں تھے بلکہ ایک قائد تھے۔ حقیر نے یزد میں یہ چیز بہت قریب سے دیکھی ہے، شاید اکتوبر کے مہینے میں جب میں جلاوطنی سے لوٹ رہا تھا تو جیرفت سے یزد پہنچا اور وہاں کچھ دن تک شہید صدوقی کے گھر رکا۔ میں نے دیکھا کہ وہ کیا کام کرتے ہیں۔ حقیقی معنی میں عوامی تحریک کی قیادت کرتے تھے، کمان سنبھالتے تھے، ہر ہر لمحہ فیصلہ کرتے تھے۔ ان کے گھر میں، میں نے یہ سب قریب سے دیکھا۔ البتہ میں نے یہ چیز پہلے سے ہی سن رکھی تھی، جب ہم جلاوطنی کے زمانے میں ایرانشہر میں تھے یا جیرفت میں تھے، وہاں پر لوگ راشد صاحب کی وجہ سے، جو ہمارے ساتھ تھے، آيا جایا کرتے تھے، وہ لوگ شہید صدوقی کے بارے میں بتاتے تھے لیکن جو چیز میں نے قریب سے دیکھی، وہ یہ تھی کہ وہ حقیقی معنی میں قیادت کرتے تھے۔ یہ ان کا غیر معمولی کردار تھا۔ البتہ جنگ کے زمانے میں جب تک وہ حیات تھے، ان کی یہی حالت تھی۔ محاذ جنگ پر آتے تھے، جاتے تھے، حوصلہ افزائي کرتے تھے۔ ان کے بعد مرحوم خاتمی رحمۃ اللہ علیہ (6) نے بھی اسی راستے کو جاری رکھا۔ وہ بھی بڑے متقی انسان تھے، میں نے انھیں بھی بہت قریب سے دیکھا تھا، ان سے مانوس تھا اور انھیں بہت اچھی طرح سے جانتا تھا۔ خداوند عالم ان کے درجارت کو بلند کرے، ان شاء اللہ۔

شہدا کی یاد میں پروگراموں کے انعقاد کا مقصد شہیدوں کے پیغام کی ترویج

بہرحال میرے عزیزو! شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا پروگرام، شہید کے پیغام کو سننے کے لیے ہوتا ہے۔ ہمارے نام شہیدوں کا پیغام ہے، یہ پیغام قرآن مجید میں بھی نقل ہوا ہے۔ جب ہم اپنی روز مرہ کی زندگي میں مختلف ضروری اور غیر ضروری سرگرمیوں اور کاموں میں الجھے ہوئے ہیں اور یہ چیزیں ہمیں ادھر ادھر لے جاتی رہتی ہیں، تو ہمیں شہیدوں کے پیغام کو سننے کی ضرورت ہے۔ خراج عقیدت کے یہ پروگرام اور سیمینار، ہمارے لیے شہیدوں کے پیغام کا آئینہ قرار پا سکتے ہیں۔

شہدا کے پیغامات: 1- شہیدوں کی عظیم منزلت کی تعریف

شہید کے متعدد پیغام ہیں۔ قرآن مجید ہمارے لیے خداوند عالم جلّ جلالہ کا جو یہ پیغام بیان کر رہا ہے کہ "ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون" اس میں ایک نکتہ یہ ہے کہ شہداء زندہ ہیں۔ عالم برزخ میں بہت سے لوگ زندہ ہیں، تو اگر شہیدوں کا زندہ ہونا بھی دوسرے افراد کی طرح زندہ ہونے کی طرح ہوتا تو اس کے ذکر کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ کہا جاتا کہ وہ 'احیاء' ہیں یعنی زندہ ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک خاص حیات ہے۔ ایک خاص طرح کی حیات سے جو شہیدوں سے مخصوص ہے۔ ' احیاء عند ربھم یرزقون ' (7)  خداوند عالم کی بارگاہ میں ہیں اور انھیں مسلسل رزق الہی حاصل ہوتا رہتا ہے۔

یہ تو پہلی بات ہوئي۔ شہیدوں کا باعظمت مقام جو منافقوں کے جواب میں ہے۔ سورۂ آل عمران میں اس آیت سے پہلے والی آیتوں میں ہے کہ منافقین کہتے تھے: "لو کانوا عندنا ما ماتوا و ما قتلوا"(8) اگر یہ جوان میدان جنگ میں نہیں گئے ہوتے تو اس وقت زندہ ہوتے؛ اس وقت بھی ہم کبھی کبھی سنتے ہیں کہ اگر فلاں کام نہیں ہوتا تو فلاں شخص زندہ ہوتا۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہے جیسا تم لوگ سوچتے ہو، "قل فادرؤا عن انفسکم الموت" (9) اگر تم لوگ رہنے کو زندہ رہنے کا وسیلہ سمجھتے ہو تو پھر خود نہ مرو، بنابریں تم لوگ جو یہاں بیٹھے ہو کچھ ایسا کرو کہ تمھیں موت نہ آئے۔ اس کے بعد قرآن مجید کہتا ہے کہ یہ لوگ زندہ ہیں، یہ مرے ہوئے نہیں ہیں۔ اس آيت میں زندہ اور مردہ کا مفہوم بدل گیا ہے؛ یہ لوگ ہرگز مرے ہوئے نہیں ہیں، تم لوگ سوچتے ہو، ان کے جسم جب مٹی کے نیچے دفن ہو جاتے ہیں تو تم سوچتے ہو کہ یہ مرے ہوئے ہیں، یہ مرے ہوئے نہیں ہیں، یہ زندہ ہیں۔

۲) شہدا پر فضل و رحمت خداوندی کا نزول

یہ ان کی برزخی زندگي ہے۔ "فرحین بما آتاھم اللہ من فضلہ" یعنی اللہ نے انھیں اپنے فضل سے جو کچھ عطا کیا ہے، اس پر مسرور ہیں، یہ ایک اور بات ہے۔ جو کچھ خداوند عالم نے اپنے فضل و رحمت سے عطا کیا ہے، وہ ان کے حق سے زیادہ ہے۔ فضل کا مطلب وہ اضافہ ہے جو خداوند متعال عطا کرتا ہے۔ آپ کوئي عمل انجام دیتے ہیں، خدا نے اس کے لیے ایک ثواب مقرر کیا ہے، یہ ثواب اس عمل کے بدلے میں ہے۔ فضل یہ ہے کہ آپ کو اس ثواب کے علاوہ بھی کوئي چیز دی جاتی ہے۔

۳) اپنے نقش قدم پر چلنے والوں کے نیک انجام پر شہدا کی مسرت

 "فرحین بما آتاھم اللہ من فضلہ" اس کے بعد اگلا پیغام یہ ہے کہ وہ مستبشر ہیں؛ "و یستبشرون بالذین لم یلحقوا بہم من خلفہم الا خوف علیہم و لا ھم یحزنون" (10) مستبشر اس شخص کو کہا جاتا ہے جسے کوئي خوشخبری ملتی ہے اور وہ خوش ہو جاتا ہے، مسرور ہو جاتا ہے، اسے کہتے ہیں مستبشر۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم لوگ، جو ہم سے ابھی ملحق نہیں ہوئے ہو، ہمارے راستے میں ہو اور تمھاری حرکت، ہمارے ہدف کی سمت جاری ہے، ہم تمھارے انجام کے سبب جو تمھارے انتظار میں ہے، خوش ہیں، مسرور ہیں۔ وہ انجام کیا ہے؟ "الا خوف علیہم و لا ھم یحزنون" جان لو کہ مستقبل میں تمھارے لیے نہ خوف ہے اور نہ غم ہے۔ تم جو ہماری راہ میں آگے بڑھ رہے ہو، تمھارا انجام یہ ہے۔ دیکھیے یہ پیغام بہت اہم ہے، یہ ہمارے لیے شہید کا پیغام ہے۔ "یستبشرون بنعمۃ من اللہ و فضل" خدا تمھیں نعمت عطا کرے گا، خدا تمھیں فضل عطا کرے گا، "و ان اللہ لا یضیع اجر المؤمنین"(11) یہ قدم جو تم بڑھا رہے ہو، اس کا خداوند عالم کے نزدیک اجر اور انعام ہے اور خداوند عالم اس اجر کو ضائع نہیں کرے گا۔ شہداء ہم سے یہ کہہ رہے ہیں، وہ ہمیں مضبوط بنا رہے ہیں، ہمیں حوصلہ عطا کر رہے ہیں، وہ اس راہ پر چلنے کے لیے ہمیں ترغیب دلا رہے ہیں تاکہ ہم زیادہ مضبوطی کے ساتھ، زیادہ عزم کے ساتھ اور زیادہ تواتر کے ساتھ قدم بڑھاتے رہیں۔

خیر، آپ لوگوں نے خدا کو پسند آنے والا کام کیا ہے۔ چار ہزار، چار سو، چالیس اہم کام انجام دیے، یہ وہی چیز ہے جو شہیدوں کو خوش کرتی ہے۔ وہ آپ کے اس کام سے مستبشر ہیں۔ آپ کے کاموں کی بشارت انھیں خوش اور مسرور کرتی ہے۔ تو یہ میرے اور آپ کے نام شہیدوں کا پیغام ہے کہ ہم جان لیں اور اپنے کام کا خیال رکھیں، راہ سے بھٹکیں نہیں بلکہ اسی راہ پر سفر جاری رکھیں۔ یہ کام اور شہیدوں کا یہ پیغام، اس پیغام کے ٹھیک مقابلے میں ہے جو دنیا پرست ہمیں دیتے ہیں، بہکانے والے ہم سے کہتے ہیں اور ہمارے اندر وسوسہ پیدا کرتے ہیں: ارے جناب اس کا کیا فائدہ؟ آخر کیوں؟ آپ کر کیا رہے ہیں؟ کیوں جا رہے ہیں؟! یہ، عزیز شہیدوں کے پیغام کے بالکل برخلاف ہے۔

شہدا پر کتب کی تدوین میں بہترین ذوق کے مظاہرے کی تعریف

میں نے ان کتابوں کو دیکھا جو آپ نے یہاں رکھی تھیں، اتنے مختصر سے وقت میں ان پر نظر ڈالنے کا موقع تو نہیں تھا لیکن میں نے کتابوں کے جو عناوین دیکھے اور ظاہری طور پر کتاب کی تیاری میں جس ذوق کا استعمال کیا گيا ہے، میں اس کی تعریف کرتا ہوں، بہت عمدہ تھا۔ شہید کی تصویر کتاب پر چھپی ہوئي ہے، کتابوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے اور یہاں بہت اچھی تصاویر بھی نصب کی گئي ہیں، یہ سارے جدت طرازی والے کام ہیں، بہت اچھے کام ہیں اور جیسا کہ بتایا گيا، مزید دوسرے کام کیے جا رہے ہیں۔

میدان جنگ میں جانے کے پیچھے شہیدوں کے اصلی ہدف کی تشریح: انقلاب، امام خمینی اور دین کی حمایت

کاموں کے اس مجموعے میں ایک بات کو ضرور نظر میں رکھیے اور وہ شہیدوں کا محرک اور ان کا ہدف ہے۔ شہید کس لیے میدان جنگ میں گئے اور کس مقصد کے لئے شہید ہوئے؟ یہ اہم ہے۔ شاید میری اور آپ کی نظر میں ممکنہ طور پر یہ بات واضح ہو، ان کا محرک انقلاب تھا، امام خمینی کی حمایت تھی، اسلامی جمہوریہ کی عظیم تحریک کو زندہ رکھنا تھا جسے دشمن نیست و نابود کر دینا چاہتا تھا۔ لیکن اس معاملے میں وسوسہ اور بہکاوا ہوتا ہے، بہانے بنائے جاتے ہیں، اس کی نفی کے لیے باتیں کی جاتی ہیں۔ آپ اس اصلی مقصد کی تشریح کیجیے۔ شہیدوں کا ہدف اسلامی انقلاب کی حمایت، امام خمینی کی حمایت، دین کی حمایت سے عبارت تھا۔ آپ ان کی وصیتوں کو دیکھیے، بہت ساری وصیتوں میں امام خمینی کا مبارک نام ہے، پردے کی بات کہی گئي ہے، انقلاب کی بات کہی گئي ہے، یہ شہیدوں کے محرکات ہیں، ان کا مقصد یہی ہے کہ ملک اور معاشرہ اسلامی انقلاب کے اہداف کو حاصل کر لے۔ یہ جو دشمنیاں ہو رہی ہیں وہ اس لیے ہیں کہ انقلاب کی جڑ کو کاٹ دیں اور اسلامی جمہوری نظام کو جو اس انقلاب کی بنیاد پر وجود میں آيا ہے، ختم کر دیں۔ شہید اس لیے جاتے ہیں تاکہ اس دشمن کے مقابلے میں سینہ سپر ہو جائيں، ڈٹ جائيں اور اسے بھگا دیں۔ وہ اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انھوں نے یہ کام کر دکھایا اور خود شہید ہو گئے۔ یہ ایک بات ہوئي۔

تمام شہدا کا تعارف اور نوجوانوں کو ان کے بہترین مقام و مرتبے سے روشناس کرانا

دوسری بات ان شہیدوں کی قابل فخر شخصیت سے نوجوانوں کو متعارف کرانا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ان بڑے اور نمایاں شہیدوں کے نام موجود ہیں، ان پر اکتفا نہ کیجیے، جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئي ہے، یزد کے شہیدوں میں ایک ہزار طلبا بھی ہیں، یعنی ان چار ہزار شہیدوں میں ایک ہزار طلبہ ہیں، یہ بہت اہم بات ہے۔ مجھے جو رپورٹ دی گئی ہے اس میں کہا گيا ہے کہ یزد کے شہداء کی اوسط عمر تیئیس سال ہے، مطلب یہ کہ ان میں سے تقریبا پچاس فیصد شہیدوں کی عمر بیس سال سے کم تھی۔ مقدس دفاع کے سب سے کمسن شہید کا تعلق یزد سے ہے، ایک بارہ سال کا بچہ، بارہ تیرہ سال کا۔ یہ باتیں اہم ہیں، انھیں اجاگر کیجیے۔ یہ چیزیں دکھائيے۔ ایک ہزار شہید طلبہ! آج کے طالب علم کو معلوم ہونا چاہیے کہ پچھلی نسل نے اس عمر میں کیا عظیم کارنامہ کیا ہے؟! کتنا بڑا ہنر دکھایا ہے؟! یہ وہ اہم چیزیں ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے۔

دشمن کے گمراہ کن وسوسوں سے نوجوانوں کو بچانے کی ضرورت

خیال رکھیے کہ دشمن - میں مسلسل لفظ 'دشمن' کا استعمال کرتا ہوں اور کچھ لوگ ناراض ہوتے ہیں کہ کیوں یہ دشمن، دشمن کہتے رہتے ہیں؟ جی ہاں! اسے دوہراتے رہنا چاہیے تاکہ لوگ بھول نہ جائيں کہ دشمن تاک میں ہے- تو دشمن مسلسل کام کر رہا ہے تاکہ نوجوانوں کو مایوس کر دے، منحرف کر دے، انقلاب کے راستے سے ہٹا دے۔ دشمن مسلسل سازشیں کر رہا ہے۔ دشمن کی پلاننگ کی ہمیں رپورٹ ملتی رہتی ہے۔ شاید اس کے سارے منصوبوں کی رپورٹ نہ ملتی ہو لیکن بہت سے منصوبوں کے بارے میں ہمیں پتہ چلتا ہے، اطلاع مل جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اپنے نوجوانوں کی حفاظت کریں اور آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔ دشمن کے وسوسوں اور بہکاوے کو اپنے جوانوں پر اثر نہ ڈالنے دیجیے کہ وہ مایوس ہو جائيں، ڈھیلے پڑ جائیں اور پھر وہ انھیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کرے۔

شہدا کے گھروں کی داخلی فضا سے آشنائی کے لئے ان کے والدین اور بیویوں کی یادداشتوں کو محفوظ کرنے پر تاکید

ایک دوسری بات، شہیدوں کے والدین کی یادوں سے متعلق ہے۔ البتہ افسوس کی بات ہے کہ مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کے دوران شہید ہونے والوں میں سے اکثر کے والدین اس دنیا سے جا چکے ہیں اور ان سے شہیدوں کی یادوں کے بارے میں کوئي بات نہیں کی جا سکی۔ لیکن بحمد اللہ بہت سے اب بھی حیات ہیں، یا ماں یا باپ، خاص طور پر والدین، البتہ شہیدوں کی بیویوں کے ذہن میں موجود یادیں بھی بہت اہم ہیں، انھیں نوٹ کیا جانا چاہیے اور خوش قسمتی سے ان کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ لیکن شہداء کے والدین کی یادیں اس لحاظ سے اہم ہیں کہ وہ شہید کی پرورش کرنے والے گھرانے کے داخلی ماحول کی ہمارے لیے تصویر کشی کرتی ہیں۔ یہ گھرانہ جس کے تین شہید، یہاں تین شہیدوں اور دو شہیدوں کے بارے میں کئي کتابیں ہیں، تو یہ گھرانہ جس کے تین جوان شہید ہوتے ہیں، ایک جوان پہلے شہید ہوتا ہے، پھر دو جڑواں بھائي ایک دن میں شہید ہوتے ہیں، یہ جڑواں بھائی ایک ہی دن دنیا میں آتے ہیں اور ایک ہی دن شہید بھی ہوتے ہیں، یہ گھرانہ کیا کرتا تھا؟ اسے کس طرح چلایا جاتا تھا؟ ماں باپ کیا کام کرتے تھے کہ اس طرح کا جوش، جذبہ اور ہیجان ان جوانوں میں پیدا ہوتا ہے کہ وہ محاذ جنگ پر چلے جاتے ہیں؟ یہ اہم ہے اور اس پر توجہ دی جانی چاہیے۔ ماں باپ کی یادیں، البتہ بیویوں کی یادیں بھی بہت اہم ہیں۔ خاندانی خصوصیات اور گھر کا ماحول ان چیزوں میں سے ہیں جنھیں درج کیا جانا چاہیے، انھیں ضرور لکھا جانا چاہیے۔

راہ حق میں دگنی محنت کی ضرورت

افسوس کہ آج ایسے لوگ بھی ہیں جو اسلامی جمہوریہ کے سائے میں اور انھیں شہیدوں، مجاہدین اور ایثار پیشہ افراد کی مجاہدت کی برکت سے پوری آزادی اور سلامتی کے ساتھ زندگي گزار رہے ہیں اور ان کی خواہشات اور اسلامی انقلاب کے اہداف کی بالکل مخالف سمت میں چل رہے ہیں۔ انھیں بخوبی سوچ لینا چاہیے کہ وہ اس پاکیزہ خون کا کس طرح جواب دیں گے! اس کے برخلاف آپ حق کی راہ میں، صحیح راستے میں، انقلاب کے راستے میں اپنی کوششوں کو دوگنا کر دیجیے۔ ان شاء اللہ خداوند متعال آپ سے راضی رہے۔ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا قلب مقدس آپ سے راضی رہے اور ان کی دعا آپ کے شامل حال رہے۔ ان شہداء کی پاکیزہ روحیں آپ سے راضی رہیں اور آپ کے لیے دعا کریں اور جو بڑے اور اہم کام ہمارے سامنے ہیں، جنھیں انجام پانا ہے، ان شاء اللہ انھیں انجام دینے کی توفیق آپ سب کو حاصل ہو۔ یزد کے عزیز عوام کو حقیر کا سلام پہنچائیے گا۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

۱) اس ملاقات کے آغاز میں یزد کے امام جمعہ اور نمایندہ ولی امر مسلمین حجّت ‌الاسلام و المسلمین محمّد رضا ناصری‌ یزدی، یزد کے گورنر جناب محمّد علی طالبی اور  سپاہ پاسداران انقلاب کے صوبہ یزد کے شعبے کے کمانڈر جنرل رضا پور شمسی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔

۲) آیت ‌ﷲ محمّد صدوقی یزد کے امام جمعہ، ولی امر مسلمین کے نمائندے اور تیسرے شہید محراب جو مورخہ 2 جولائی 1982 کو دہشت گرد تنظیم ایم کے او کے ہاتھوں نماز جمعہ کے بعد شہید کر دئے گئے۔

3) 30 مارچ 1978 کو یزد کے عوام آیت اللہ صدوقی کی دعوت پر شہدائے تبریز کے چہلم میں شریک ہوئے۔ پروگرام کے بعد مظاہرے ہوئے اور مظاہرین پر شاہی حکومت کے سیکورٹی اہلکاروں نے حملہ کر دیا جس میں بہت سے افراد شہید اور زخمی ہوئے۔

4) حجّت‌ الاسلام محمّد تقی فلسفی

5) حجّت‌ الاسلام محمّد کاظم راشد یزدی

6) آیت ‌الله سیّد روح‌ الله خاتمی یزد کے امام جمعہ اور صوبے میں ولی امر مسلمین کے نمائندے

7) سوره آل‌ عمران، آیت ۱۶۹

8)  سوره‌ آل‌عمران، آیت ۱۵۶

9) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۶۸ کا ایک حصہ

10) سوره‌ آل‌عمران، آیت ۱۷۰

11) سوره‌ آل‌عمران، آیت ۱۷۱