آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو، تمام ملت ایران، دنیا کے سارے مسلمانوں اور آزاد منش انسانوں کو نیمہ شعبان کی عید سعید کی مبارکباد! افسوس کی بات ہے کہ حقیر کو آپ سے قریب سے ملاقات کی توفیق حاصل نہیں ہو سکی تو مجبورا دور سے آپ سے گفتگو کر رہا ہوں۔ بہرحال یہ بھی ایک تجربہ ہے۔ آج چند جملے حضرت صاحب الزمان (ارواحنا فداہ) کے تعلق سے عرض کروں گا۔ چند جملے ملک کے اس معروضی مسئلے کے بارے میں اپنے عزیز عوام کی خدمت میں عرض کروں گا۔ لیکن سب سے پہلے سلام کرنا چاہوں گا حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کو: اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا بَقیَّةَ اللهِ فی اَرضِهِ السَّلامُ عَلَیکَ یا میثاقَ اللهِ الَّذی اَخَذَهُ وَ وَکَّدَهُ السَّلامُ عَلَیکَ یا وَعدَ اللهِ الَّذی ضَمِنَهُ السَّلامُ عَلَیکَ اَیُّهَا العَلَمُ المَنصوبُ وَ العِلمُ المَصبوبُ وَ الغَوثُ وَ الرَّحمَةُ الواسِعَةُ وَعدُ غَیرُ مَکذوب (۱)۔ سلام ہو آپ پر اے زمین میں ذخیرہ الہی، اے بقیۃ اللہ! سلام ہو آپ پر اے خداوند عالم کے پائیدار عہد و میثاق! سلام ہو آپ پر اے حتمی وعدہ الہی، اے لہراتے ہوئے پرچم، اے آسمان سے برسنے والے علم! زیارت شریفہ آل یاسین کا اس کے بعد کا حصہ عشق و محبت میں ڈوبا ہوا ہے؛ «اَلسَّلامُ عَلَیکَ حینَ تَقومُ السَّلامُ عَلَیکَ حینَ تَقعُدُ السَّلامُ عَلَیکَ حینَ تَقرَأُ وَ تُبَیِّن»(۲) الی آخر۔

انسانی تاریخ میں شاید شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہوگا کہ جب ساری دنیا میں انسانوں کو اور انسانی معاشروں کو اس شدت کے ساتھ ایک نجات دہندہ کی ضرورت کا احساس ہوا ہو۔ خواہ وہ صاحبان علم ہوں جو آگاہانہ اس ضرورت کا احساس کرتے ہیں یا عوام الناس کی کثیر تعداد جو اس ضرورت کا احساس کرتی ہے لیکن لا شعوری طور پر۔ ایک نجات دہندہ کی ضرورت کا احساس، امام مہدی کی ضرورت کا احساس، دست قدرت پروردگار کی ضرورت کا احساس، ایک معصوم کی امامت کی ضرورت کا احساس، عصمت اور ہدایت الہی کی ضرورت کا احساس۔ تاریخ میں بہت کم ہی ایسے دور ہوں گے جب انسان کو اس عظیم حقیقت کا اس شدت کے ساتھ احساس ہوا ہو۔ آج جب انسانیت گوناگوں مکاتب فکر، گوناگوں فکری رجحانوں اور گوناگوں مسلکوں کو آزما لینے کے بعد، اشتراکیت سے لیکر مغربی جمہوریت اور دنیا میں رائج لبرل ڈیموکریسی تک جن کے دعوے بہت زیادہ ہیں، سب کو آزما لینے کے بعد بھی آسودگی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ اس محیر العقول علمی و سائنسی پیشرفت کے باوجود جس نے دنیا میں انسانی زندگی کو یکسر تبدیل کر دیا ہے، انسان خود کو خوش بخت نہیں پاتا۔ انسانیت کو غربت کا سامنا ہے، بیماری کا سامنا ہے، وہ معصیت و گناہ سے دوچار ہے، نا انصافی سے پریشان ہے، عدم مساوات سے روبرو ہے، وسیع طبقاتی فاصلے سے پریشان ہے۔ انسان بڑی طاقتوں کے ہاتھوں علم کے غلط استعمال سے پریشان ہے، بڑی طاقتیں علم و سائنس کا غلط استعمال کرتی ہیں، فطرت کے رازہائے پنہاں کا پتہ لگا کر اس کا غلط فائدہ اٹھاتی ہیں، فطرت کے اندر منکشف ہونے والی توانائیوں کو غلط مقصد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ انسان ان مشکلات سے دوچار ہے۔ ان چیزوں کی وجہ سے ساری دنیا میں انسان خستہ حال ہے اور اسے ایک نجات دہندہ کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

دنیا میں اربوں انسان مشکلات میں گرفتار ہیں۔ کچھ لوگ ممکن ہے کہ تعیش میں ہوں، لیکن انھیں بھی فکری آسودگی نہیں ہے، انسان تشویش میں مبتلا ہے، اضطراب کا شکار ہے۔ یہ پیشرفت اور یہ گوناگوں تبدیلیاں انسان کو خوش نصیبی سے ہمکنار نہیں کر سکیں۔ البتہ انسانی عقل بہت بڑی نعمت ہے، تجربہ بھی ایک بڑی نعمت ہے۔ یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں اور زندگی کی بہت سی مشکلات کو حل سکتی ہیں۔ لیکن کچھ گرہیں ایسی بھی ہیں جو ان چیزوں سے کھلنے والی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر یہی عدل و انصاف کا مسئلہ ہے۔ عدل و مساوات کا مسئلہ آج کی پیشرفتہ سائنس اور آج کی پیشرفتہ ٹیکنالوجی کے ذریعے حل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ گرہ کھلنے والی نہیں ہے۔ آج دنیا میں علم و سائنس عدم مساوات کے پھیلنے میں مددگار بن گئی ہے۔ یعنی پیشرفتہ سائنس کو ناانصافی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جنگ افروزی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، دوسروں کی زمینیں ہڑپنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ قوموں پر تسلط قائم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ بنابریں علم و سائنس سے یہ مشکل حل نہیں ہوگی۔ اس کے لئے ایک روحانی طاقت، قدرت خداوندی، امام معصوم کے مقتدر ہاتھ کی ضرورت ہے جو ان کاموں کو انجام دے سکے۔ لہذا حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کا سب سے اہم مشن ہے؛ «یَملَأُ اللَهُ بِهِ الاَرضَ قِسطاً وَ عَدلا» (3) اس عظیم ہستی کی ذمہ داری ہے عدل و انصاف قائم کرنا۔ بہت سی روایتوں میں، دعاؤں میں اور زیارتوں میں اس مفہوم کی طرف اشارہ ہے؛ عدل و انصاف۔ یہ ایسا عظیم ہدف ہے جس کا حصول حضرت صاحب الزمان کی آستین سے باہر آنے والے دست قدرت خداوندی سے ہی ممکن ہے۔ حضرت کے ہاتھوں جس عدل و انصاف کے قیام کا انتظار ہے وہ کسی خاص شعبے تک محدود عدل نہیں ہے، وہ زندگی کے تمام شعبوں میں قائم ہونے والا عدل ہے۔ قدرت میں عدل، ثروت میں عدل، سلامتی میں عدل، انسانی وقار میں عدل، سماجی مقام و مرتبے میں عدل، روحانیت اور ارتقاء کے امکانات میں عدل، زندگی کے تمام شعبوں میں عدل۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں انتظار ہے کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے ہاتھوں عالم وجود میں، اس دنیا میں رونما ہوں۔ ان شاء اللہ لطف خداوندی سے یہ ضرور ہوگا۔

افراد معاشرہ، خواہ وہ دانشور طبقہ ہو جو حوادث کا تجزیہ کر سکتا ہے یا دنیا بھر کے اور مختلف ممالک کے عوام الناس ہوں جن میں بعض زندگی کے مسائل میں الجھے رہتے ہیں، غفلت میں رہتے ہیں، سب اس ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں۔ بعض اگاہانہ اور بعض لاشعوری طور پر۔ تمام ادیان میں یہ وعدہ کیا گيا ہے۔ تمام ادیان کہتے ہیں کہ آخر میں، تاریخ کے اختتام پر ایک فرج اور ایک عظیم الہی تحریک شروع ہوگی۔ ویسے یہ تاریخ کا اختتام نہیں ہے، بلکہ انسان کی حقیقی زندگی کا آغاز حضرت امام زمانہ کے دور سے  ہوگا، تاہم آج ہماری زندگی کی جو حالت ہے اس کے اختتام پر ایسے انجام کا وعدہ کیا گيا ہے۔

تو یہ ضرورت ہے۔ لیکن اس ضرورت کو با مقصد بنانے اور مفید بنانے کے لئے اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم انتظار کریں۔ انتظار ایک ضرورت سے بالاتر ہے، احتیاج محسوس کرنے سے ایک قدم آگے کی چیز ہے۔ کہا گیا ہے کہ آپ منتظر رہئے۔ انتظار یعنی امید، انتظار یعنی یہ عقیدہ کہ ایک حتمی مستقبل در پیش ہے۔ صرف ضرورت نہیں ہے۔ انتظار تعمیری چیز ہے۔ چنانچہ ہماری روایتوں میں، ہمارے معارف میں فرج کے انتظار کا بڑا اہم مقام ہے۔ میں بعد میں اس کی کچھ تشریح کروں گا۔ ابن بابویہ، علی ابن بابویہ کے لئے حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کی 'توقیع' (تحریر معصوم) میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک قول نقل کیا گيا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: اَفضَلُ اَعمالِ اُمّتی انِتِظارُ الفَرَج (4) یعنی میری امت کا سب سے عظیم عمل یہ ہے کہ وہ فرج کا انتظار کرے، یعنی امید۔ ایک روایت میں امام موسی ابن جعفر علیہ السلام سے منقول ہے: اَفضَلُ العِبادَةِ بَعدَ المَعرِفَةِ اِنتِظارُ الفَرَج (5) معرفت یعنی توحید اور حقائق الہی کی معرفت ہے اور اس کے بعد سب سے عظیم عمل ہے فرج کا انتظار۔ امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے؛ اِنتَظِرُوا الفَرَجَ وَ لا تَیأَسوا مِن رَوحِ الله (6)۔ فرج کا انتظار کیجئے۔  رَوح و رحمت و گشائش پروردگار سے مایوس نہ ہوئيے۔ تو فرج کے انتظار میں ایک امید ہے، ایک فعالیت ہے، ایک اقدام ہے۔ ویسے یہ چیزیں فرج کے انتظار کے بارے میں کہی گئی ہیں تاہم واضح ہے کہ انتظار فرج سے مراد حضرت ولی عصر علیہ السلام کی فرج کا انتظار ہے۔ یہ انتظار فرج کے مصادیق میں سے ایک مصداق ہے۔ یہ جو پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے؛ اَفضَلُ اَعمالِ اُمَّتی اِنتِظارُ الفَرَج، اس میں ان تمام مشکلات کو مد نظر رکھا گیا ہے جو انسانی زندگی کو در پیش ہوتی ہیں۔ ان مشکلات کا سامنے ہونے کی صورت میں انسان کو چاہئے کہ مایوس نہ ہو، فرج کا انتظار کرے۔ یہ یقین رکھے کہ فرج و گشائش آنے والی ہے۔ خود فرج کا انتظار بھی ایک طرح کا فرج ہے۔ ایک روایت ہے امام موسی ابن جعفر علیہ السلام سے؛ لَستَ تَعلَمُ اَنَّ اِنتِظارَ الفَرَجِ مِنَ الفَرَج (7) بذات خود انتظار فرج اور گشائش کا انتظار بھی ایک فرج ہے انسان کے لئے کہ اس کو مایوسی کی حالت سے اور  بے بسی کے احساس سے نکالتا ہے جو انسان کو بسا اوقات عجیب و غریب اقدامات پر مجبور کر دیتی ہے۔ پیغمبر اکرم اور ائمہ علیہم السلام کے اس طرح کے فرمودات ہیں کہ امت محمدی حوادث زندگی میں کبھی بھی مایوسی اور نا امیدی سے دوچار نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ فرج اور گشائش کے انتظار میں رہتی ہے۔

البتہ انتظار کا مطلب خاموش بیٹھ جانا، ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا اور صرف دروازے کو تکتے رہنا نہیں ہے۔ انتظار کا مطلب ہے آمادہ ہونا، اقدام کرنا۔ یہ مطلب ہے کہ انسان یہ احساس رکھے کہ ایک انجام اور مستقبل ہے جسے انسان حاصل کر سکتا ہے اور اس کے حصول کے لئے محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جب گشائش کا انتظار کر رہے ہیں، حضرت صاحب الزمان علیہ  السلام کے ظہور کے منتظر ہیں تو ہمیں اس کے لئے محنت بھی کرنا چاہئے۔ مہدوی معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش بھی کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہمیں خود سازی بھی کرنا چاہئے اور جہاں تک ہماری توانائی میں ہے اور جتنا ممکن ہے ہم دوسروں کی بھی تعمیر کریں۔ ہماری یہ کوشش ہونا چاہئے کہ جہاں تک ہماری وسعت میں ہے اپنے ارد گرد کے ماحول کو مہدوی معاشرے سے قریب کرنے کی کوشش کریں۔ مہدوی معاشرہ عدل و انصاف کا معاشرہ ہے، روحانیت کا معاشرہ ہے، معرفت کا معاشرہ ہے، برادری و اخوت کا معاشرہ ہے، علم کا معاشرہ ہے، عزت کا معاشرہ ہے۔

انتظار فرج کے باب میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ گشائش کا انتظار بے صبری دکھانے اور مدت معین کرنے سے مختلف ہے کہ انسان کوئی مدت ذہن میں رکھ لے کہ فلاں تاریخ کو یہ واقعہ ہو جانا چاہئے یا یہ شدت ختم ہو جانی چاہئے یا حضرت کے ظہور کے لئے انسان بیتابی دکھائے، زمین پر پیر پٹخے! یہ انتظار نہیں ہے۔ فرج کے انتظار کا مطلب ہے خود کو آمادہ کرنا۔ بے صبری دکھانا، جلدبازی کرنا یہ ساری چیزیں ممنوع ہیں۔ ایک روایت ہے کہ «اِنَّ اللهَ لایَعجَلُ لِعَجَلَةِ العِباد» (8) اگر آپ عجلت دکھائیں گے، جلدبازی کریں گے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی بھی آپ کی جلدبازی کے حساب سے فیصلہ کرتے ہوئے کچھ جلدی کر دے گا۔ جی نہیں، ہر چیز کا ایک موقع ہے، ایک معین وقت ہے، ایک حکمت ہے اور اسی حکمت کی بنیاد پر عمل انجام پاتا ہے۔

ہم نے یہ دوسرا نکتہ بھی عرض کر دیا کہ انتظار فرج سے مراد مکمل گشائش یعنی حضرت کا ظہور بھی ہے اور فرج بعد از شدت بھی ہے یعنی دشوار حوادث، ہمہ گیر حوادث کے بعد گشائش۔ جیسے آجکل دنیا میں ہونے والے یہ حوادث ہیں جنہیں دیکھ کر بہت سے لوگ مایوسی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، کچھ لوگ خود کشی کر لیتے ہیں، لیکن اگر انسان فرج کا انتظار کر رہا ہے تو اسے معلوم ہے کہ یہ حادثہ یقینا گزر جائے گا۔

یہاں ایک نکتہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ انتظار فرج سے حاصل ہونے والا یہ ذہنی سکون اور طمانیت، یہ اطمینان جو انسان کے اندر ہے اور جس کی وجہ سے اس کی روح اور اس دل تلاطم سے محفوظ ہے، اس میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے دعا کے ذریعے، طلب نصرت کے ذریعے، اللہ تعالی کی بارگاہ میں مناجات کے ذریعے کیونکہ «اَلا بِذِکرِ اللهِ تَطمَئِنُّ القُلوب» (9) یہ دعائیں جو منقول ہیں، اس وقت ہم ماہ شعبان میں ہیں، اس کے بعد ماہ رمضان المبارک ہے، کثرت کے ساتھ دعائیں، گوناگوں مناجاتیں، بلا واسطہ اللہ تعالی سے راز و نیاز یہ سب بہت اہم ہے۔ یا ائمہ علیہم السلام سے راز و نیاز کرنا جو عالم وجود میں اللہ تعالی کی قریبی ترین ہستیاں ہیں، انسان کو سکون اور طمانیت عطا کرتا ہے۔ اللہ کا ذکر انسان کو گشائش عطا کرتا ہے، فرحت عطا کرتا ہے اور سبب نزول رحمت پروردگار بھی بن جاتا ہے، یقینا کروڑوں ہاتھ دعا کے لئے بلند ہیں تو ان کی تاثیر اور برکت بھی ضرور ہوگی۔ گزشتہ شب کروڑوں لوگوں کو توفیق ہوئی کہ اپنے دلوں کو بارگاہ احدی سے متصل کریں، دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں اور اللہ سے راز و نیاز کریں (10)۔ یقینا اس عمل کا اثر خود ان افراد کے اندر ہوگا اور پورے معاشرے پر بھی اس کے اثرات ہوں گے، اس سے برکتیں بڑھیں گی۔ یہ چند جملے تھے جو ہم ظہور، فرج اور حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کے قیام کے تعلق سے عرض کرنا چاہتے تھے۔ البتہ اس باب میں بیان کرنے کو بہت سی باتیں ہیں تاہم میں اتنے پر ہی اکتفا کروں گا۔

اب کچھ باتیں ملک کو در  پیش کورونا کے حادثے کے بارے میں۔ یہ ایک عمومی آزمائش ہے، ایک امتحان ہے۔ یہ دنیا کا امتحان ہے۔ حکومتوں کے لئے بھی اور قوموں کے لئے بھی۔ اس حادثے میں حکومتیں بھی ایک امتحان سے گزر رہی ہیں اور قومیں بھی امتحان سے گزر رہی ہیں۔ بڑا عجیب امتحان ہے۔ اعداد و شمار کے بارے میں اور انجام پانے والے اقدامات اسی طرح عہدیداران کی سفارشات کے بارے میں بہت سی باتیں ذکر کی گئی ہیں اور کافی کچھ بیان کیا جا چکا ہے۔ قومی نشریاتی ادارے نے بھی واقعی بہترین انداز میں کام کیا، اچھی کارکردگی پیش کی ہے۔ ان چیزوں کے بارے میں میں کچھ نہیں کہنا چاہتا تاہم دوسرے کچھ نکات ہیں جو عرض کروں گا۔

ایک نکتہ یہ ہے کہ اس امتحان میں ملت ایران کی کاکردگی درخشاں رہی۔ کورونا کے امتحان میں، اس عمومی بیماری میں جسے ماڈرن وبا کہنا چاہئے، ملت ایران  کی کارکردگی شاندار رہی۔ اس قومی افتخار کا سب سے نمایاں پہلو ملک کے معالجاتی شعبے سے متعلق ہے۔ میں نے بارہا کہا اور ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ ان کی کارکردگی کی عظمت اور ان کی قربانیوں کی قدر و قیمت بہت ہے۔ خواہ ڈاکٹر ہوں، نرسیں ہوں، لیبورٹری میں سرگرم ماہرین ہوں، ریڈیو لوجی کے ماہرین ہوں، ہیلتھ سینٹر کے کارکن ہوں، سروسیز کے شعبے کے کارکن ہوں، تحقیقاتی شعبے کے ماہرین ہوں، وزارت صحت کے اندر اور اس کے تحت کام کرنے والی انتظامی یونٹیں ہوں، اس افتخار کی بلندی انھیں کے نام ہے۔ انھوں نے اپنی جان اور اپنی سلامتی کو عوام کی خدمت کے لئے داؤں پر لگا دیا۔ یہ چیز بہت اہم اور باعظمت ہے۔ انھوں نے اہل خانہ سے دوری برداشت کی۔ ان میں بعض تو نوروز پر اور نوروز کی چھٹیوں میں بھی اپنے اہل خانہ سے ملنے نہیں جا سکے۔ سونے کا وقت نہیں ملا، نازک حالت والے بیماروں کو دیکھ کر اعصاب اور ذہن پر پڑنے والا شدید دباؤ برداشت کیا۔ یہ ساری صعوبتیں اٹھائیں۔ یہ چیزیں ملک کے طبی شعبے اور طبی اداروں کے تعلق سے خوشگوار یادوں کےطور پر ملت ایران کے ذہن میں باقی رہیں گی۔ یہ اچھی یادیں ہیں۔ اس مرحلے میں ڈاکٹروں کی صنف نے، نرسوں کی صنف نے، ملک کے طبی شعبے نے بڑی اچھی یادیں اور یادگار خدمات رقم کی ہیں۔

ان کے ساتھ ہی رضاکاروں نے، ان افراد نے جن کا طبی شعبے سے تعلق نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ رضاکارانہ طور پر آئے اور اس میدان میں مصروف ہو گئے، یونیورسٹیوں اور مدارس کے جہادی طلبہ، ملک کے مختلف حصوں میں ہزاروں محنتی رضاکار، عوام الناس سب نے بڑی قیمتی خدمات پیش کیں جن کی توصیف ممکن نہیں ہے۔ انھیں دیکھ کر انسان ایک طرف تو خوش ہوتا ہے اور دوسری طرف بے ساختہ شکرئے کے الفاظ نکلتے ہیں۔

ان سب کے ساتھ مسلح فورسز بھی ہیں، واقعی مسلح فورسز نے اپنی تمام تعمیراتی توانائیوں اور اختراعی صلاحیتوں کو استعمال کیا۔ یہاں تک کہ سائنسی میدان میں بھی، نئی دریافت کے میدان میں بھی، ہیلتھ اور میڈیکل وسائل کی پیداوار کے میدان میں بھی، اسپتالوں سے لیکر رلیف کیمپوں تک اسی طرح دیگر وسائل جو مسلح فورسز کے اختیار میں ہوتے ہیں، انھوں نے اس کام کے لئے اپنی بہترین توانائیوں اور وسائل کو استعمال کیا۔ تعمیراتی توانائیوں کو، علم و عمل کے میدان میں اپنی اختراعی صلاحیتوں کو استعمال کیا۔ نئی صلاحیتیں منکشف ہوئیں، دریافت کی گئیں۔ پتہ چلا کہ ملک کی مسلح فورسز کے اندر اور مسلح فورسز کے باہر بھی بہترین صلاحیتیں موجود ہیں جن سے ہم اب تک بے خبر تھے۔ یہ جو نوجوان ٹی وی پر آکر تفصیلات بتاتے ہیں کہ انھوں نے کیا کام کئے، جو چیزیں انھوں نے بنائی ہیں ان کے بارے میں بتاتے ہیں، ان میں بیشتر سے ہم ناواقف تھے۔ یہ نئی منکشف ہونے والی صلاحیتیں ہیں۔

عوام کی جہاں تک بات ہے تو عوام کا تعاون بھی واقعی بہترین تعاون تھا اور اس نے بڑے پرکشش اور حیرت انگیز مناظر خلق کئے جو ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ میں خاص طور پر ان میں چند کا ذکر کروں گا۔ مثلا سبزوار میں 'ہر محلہ ایک قربانی' نام کی مہم شروع ہوئی۔ اہل محلہ جمع ہوتے ہیں۔ ایک گوسفند کی قربانی کرتے ہیں اور اسی محلے کے ضرورت مندوں میں گوشت تقسیم کرتے ہیں۔ یہ بڑا ضروری، اہم اور پرکشش عمل ہے جو یہ افراد ضرورت مندوں کو کھانا کھلانے کے لئے انجام دیتے ہیں۔ یا یزد میں ایک شہید کی ماں ان خواتین کے تعاون سے جنہیں انھوں نے اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا، اپنے گھر کو سلائی کے کارخانے میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ سلائی کے اس کارخانے میں ماسک تیار کئے جا رہے ہیں اور لوگوں میں مفت تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ یا نھاوند میں خواتین کی ایک جماعت جو مقدس دفاع کے زمانے میں روٹیاں پکاتی تھی اور محاذ جنگ پر بھیجتی تھی، ایک بار پھر سرگرم عمل ہے اور کورونا کو کنٹرول کرنے کی مساعی میں ہاتھ بٹا رہی ہے، مدد کر رہی ہے۔ خوزستان میں دینی طلبہ نے ایک مرکز بنا لیا ہے اور لوگوں کے گھروں میں بھی اینٹی بیکٹیریل مواد کا چھڑکاؤ شروع کر دیا۔ شیراز میں ایک محلے کے سرکردہ افراد نے گھروں اور دوکانوں کے مالکان سے بات کی کہ اپنے کرایہ داروں سے کرایہ نہ لیں یا کم کر دیں یا مہلت دے دیں، اس طرح دوکاندار کی مدد ہو سکتی ہے۔ تبریز میں ایک دینی مدرسے کے مدیر خود میدان میں اتر پڑے اور باقاعدہ کام میں مصروف ہو گئے۔ ایک شہر میں ایک دیندار امیدوار نے جو الیکشن لڑے تھے مگر جیت نہیں سکے تھے اپنے انتخابی کیمپین کے عملے کو ختم نہیں کیا بلکہ باقی رکھا اور کورونا کے خلاف جدوجہد میں انھیں لگا دیا۔ البتہ یہ چند رپورٹیں ہیں جو سر دست میرے پاس تھیں، ورنہ ملک میں اسی طرح الگ الگ شکلوں میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں کام ہو رہے ہیں جن میں کچھ کی طرف میں نے اپنی گزشتہ گفتگو (11) میں اشارہ کیا تھا۔ یہ بہت اہم چیز ہے، ہمیں توجہ دینا چاہئے کہ یہ ہمارے عوام کے اندر اسلامی ثقافت اور اسلامی کلچر کے گہرے اثرات کا نتیجہ ہے، یہ ثقافت ہمارے عوام کے دلوں میں ہے۔ ان افراد کی مرضی اور دعوؤں کے بالکل برخلاف جو بد قسمتی سے گزشتہ ایک دو دہائیوں میں بڑی کوشش کر رہے تھے کہ ایرانی ثقافت کی تحقیر کریں، اسلامی ایرانی کلچر کی تحقیر کریں اور عوام کو مغربی ثقافت اور مغربی طرز زندگی کی طرف مائل کریں۔ خوش قسمتی سے اسلامی تفکر اور اسلامی ثقافت کا یہ احساس اور اسلامی اقدار کا یہ سلسلہ عوام کے اندر بہت پختہ اور مستحکم ہے۔

اس کے مقابلے میں مغربی ثقافت اور تمدن نے اپنی حقیقت بھی دکھا دی۔ مغربی ممالک میں، یورپ میں اور امریکہ میں جو کچھ ہوا ہے، اس کے بارے میں کسی حد تک ہمارے ٹیلی ویزن نے بیان بھی کیا جبکہ کچھ حقائق ایسے ہیں جو ٹی وی پر بیان نہیں کئے جاتے تاہم ہمیں اطلاعات ملتی ہیں اور ہمیں خبر ہے۔ اس کلچر نے اپنی تربیت کا نتیجہ دکھا دیا۔ ایک حکومت دوسری حکومت کے ماسک، دوسری حکومت کے دستانے بیچ راستے سے جھپٹ لے جاتی ہے! یہ چیز کئی یورپی ملکوں کے سلسلے میں اور امریکہ میں دیکھنے میں آئی۔ یا عوام ہر روز ایک یا دو گھنٹے کے اندر پورا شاپنگ مال خالی کر دیتے ہیں۔ پریشان رہتے ہیں کہ کسی طرح سامان جمع کرکے لے جائیں اور اپنے گھروں کے فریج اور فریزر میں بھر دیں۔ پوری پوری دکانیں خالی کر دیتے ہیں۔ دنیا کے ٹی وی چینلوں نے شاپنگ سینٹر کے خالی شیلف کی ویڈیو دکھائی، ہمارے ٹی وی چینل نے بھی یہ ویڈیو دکھائی۔ یا کچھ لوگ ٹوائلٹ میں استعمال ہونے والے ٹشو پیپر کے لئے دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہتھیار خریدنے کے لئے لائن لگا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ دکھایا گیا کہ لوگ اسلحہ خریدنے کے لئے لائنوں میں کھڑے ہیں۔ کیونکہ انھیں خطرہ محسوس ہو رہا ہے اس لئے ان ایام میں اپنے ساتھ اسلحہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یا بیماروں کے سلسلے میں ترجیحات معین کرتے ہیں کہ سن رسیدہ بیمار کا علاج نہ کیا جائے! کہتے ہیں کہ کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کہ وسائل کی اتنی قلت کے حالات میں ہم محنت کریں، سن رسیدہ، ناکارہ ہو چکے اور مشکلات میں مبتلا بیمار کا علاج کریں! یہ سارے واقعات وہاں رونما ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو کورونا کے خوف سے خود کشی کر لی۔ موت کے ڈر سے خود کشی کر لی۔ یہ طرز عمل اور رویہ ہے جو بعض اقوام میں نظر آیا۔ البتہ یہ مغربی تمدن پر حکمفرما نظرئے یعنی انفرادیت پسندی کے نظرئے، مادہ پرست نظرئے، الحادی نظرئے کا منطقی اور فطری نتیجہ ہے۔ اگر خدا پر عقیدہ ہے تو وہ بھی معرفت آموز صحیح اور عمیق توحیدی عقیدہ نہیں ہے۔ ایک اہم موضوع یہ بھی ہے۔

میں یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ ابھی چند دن پہلے ایک مغربی سینیٹر نے کہا تھا کہ 'وحشی مغرب' پھر زندہ ہو گیا ہے۔ یہ ان کی بات ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ مغرب میں ایک وحشیانہ جذبہ موجود ہے جو ان کے آراستہ، پرفیوم سے معطر اور ٹائی سے مزین ظاہری روپ کے ساتھ ساتھ موجود ہے تو بعض افراد تعجب کرتے ہیں، انکار کرتے ہیں۔ اب یہی بات وہ خود کہہ رہے ہیں کہ یہ 'وحشی مغرب' کے پھر زندہ ہو جانے کی نشانی ہے۔

اس حادثے کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ سفارشات پر کاربند رہنے کے سلسلے میں ہمارے عزیز عوام کا طرز عمل ہے۔ واقعی انسان دیکھتا ہے کہ انسداد کورونا قومی کمیشن اگر کچھ ہدایات سنجیدگی کے ساتھ دے دیتا ہے تو عوام اس پر عمل کرتے ہیں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کبھی کسی چیز کو غیر حتمی طور پر کہا جائے تو عوام اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کریں کہ اس چیز پر لازمی طور پر عمل کرنا ہے، لیکن جب بھی پوری قطعیت کے ساتھ کوئی بات کہی جاتی ہے اور عوام محسوس کر لیتے ہیں کہ اس چیز پر عمل ہونا ہے تو عوام عہدیداران کی ہدایات پر بھرپور عمل کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال اس سال 13 فروردین مطابق پہلی اپریل کا دن ہے۔ کوئی یقین نہیں کرے گا کہ عوام 'سیزدہ بدر' نہیں منائیں گے لیکن انھوں نے نہیں منایا۔ پہلی اپریل کو 'سیزدہ بدر' کے لئے وہ باہر نہیں نکلے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ عوام حقیقت میں اس حادثے کے مقابلے میں ایک عمومی نظم و ضبط کے قائل ہیں۔ البتہ یہ سلسلہ ابھی جاری رہنا چاہئے۔ یہ عمومی ڈسپلن جاری رہنا چاہئے۔ انسداد کورونا قومی کمیشن کے فیصلوں کو جو اس سلسلے میں سب سے اہم ذمہ دار ٹیم ہے، سنجیدگی سے لیا جائے اور ان کے مطابق عمل کیا جائے۔

اس قضیئے میں ایک پہلو یہ بھی ہے، البتہ آج کورونا انسانیت کے لئے ایک بڑی مشکل اور ایک بڑا اور خطرناک امتحان ہے جو اس کو در پیش ہے، لیکن دوسری بہت سی مشکلات کے مقابلے میں یہ مشکل بہت چھوٹی مشکل شمار ہوتی ہے۔ ہم نے دنیا میں اور خود اپنے ملک میں بہت سی مشکلات دیکھی ہیں، جو در پیش رہی ہیں اور اس حادثے سے کمتر نہیں تھیں بلکہ زیادہ بڑی مشکلات تھیں۔ منجملہ یہ کہ 32 سال قبل انہیں ایام میں جب ہمارے علاقے میں کورونا کا حملہ ہوا ہے، صدام کے طیاروں نے بعض علاقوں میں کیمیائی مواد لوگوں کے اوپر گرائے تھے۔ نتیجے میں ہمارے ہزاروں شہری اور اور ہزاروں عراقی مسٹرڈ گیس سے مارے گئے۔ یہ بھی ہوا تھا۔ البتہ اس وقت دنیا کی ساری طاقتیں صدام کی حمایت کر رہی تھیں۔ انھوں نے اس کی مدد کی۔ بعض یہی مہذب اور ترقی یافتہ ممالک، البتہ ساری ترقی اور تہذیب صرف دعوؤں تک محدود ہے، کیمیکل مواد صدام کو دے رہے تھے۔ کیمیکل ہتھیار اسے دے رہے تھے اور آج تک ان میں سے کسی نے حساب نہیں دیا ہے، جواب نہیں دیا ہے کہ انھوں نے یہ مجرمانہ فعل کیوں انجام دیا۔ اس مجرم یعنی صدام نے ہمارے عوام کے خلاف یہ اقدام کیا اور خود اپنے عوام کے ساتھ بھی حلبچہ میں اس نے یہی کیا۔ صرف اس لئے کہ اسے محسوس ہوا تھا کہ شاید حلبچہ کے عوام اسلامی جمہوریہ کے مجاہدین سے تعاون کر رہے ہیں۔ اس نے وہاں بھی کیمیکل مواد گرائے اور گلیوں میں سڑکوں پر عوام کو موت کی نیند سلا دیا۔

دنیا کی بڑی جنگوں میں، دونوں عالمی جنگوں میں دسیوں لاکھ انسان قتل کر دئے گئے۔ کورونا کے معاملے میں اس وقت بتایا جا رہا ہے کہ عالمی سطح پر دس لاکھ سے زیادہ افراد متاثر (12) ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں جو بیس سال کے فاصلے سے یورپ میں لڑی گئیں دسیوں لاکھ لوگ، اس وقت مجھے صحیح تعداد یاد نہیں ہے، لیکن یہ جانتا ہوں کہ ایک کروڑ سے زیادہ افراد قتل کر دئے گئے۔ ویتنام کی جنگ میں جب امریکہ نے وہاں حملہ کیا تب بھی یہی ہوا۔ اسی طرح دوسری جنگوں میں بھی ہوا۔ حالیہ برسوں کی بات کی جائے تو عراق پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملوں میں بڑی تعداد میں لوگ قتل کئے گئے، شہید کر دئے گئے۔ اس طرح کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں۔ تو جب ہم اس حادثے کے بارے میں غور کرتے ہیں تو ہمیں دنیا میں دیگر بہت سے اہم واقعات کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہئے جو ہمیشہ رونما ہوتے رہے ہیں۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس وقت بھی دسیوں لاکھ افراد دشمن کے ظلم و ستم، دشمنوں کے عناد اور بڑی طاقتوں کے مظالم کے نتیجے میں کچلے جا رہے ہیں۔ یمن کے عوام، فلسطین کے عوام، دنیا کے دیگر خطوں کے لوگ سخت مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ تو کورونا کے اس قضیئے کی وجہ سے ہم دشمن کی سازشوں کی طرف سے غافل نہ ہو جائیں، استکبار کی سازشوں کی طرف سے غافل نہ ہو جائیں۔ اس لئے کہ استکبار کی دشمنی خود اسلامی جمہوری نظام کی ذات سے ہے۔ اگر کوئی سوچتا ہے کہ ہم دشمنی نہ کریں تو وہ بھی دشمنی چھوڑ دیں گے تو ایسا نہیں ہے۔ خود اسلامی جمہوری نظام، اسلامی جمہوریت ان کے لئے ناقابل برداشت ہے، ناقابل فہم ہے، ناقابل تحمل ہے۔ تو ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے۔

ہم یہ عرض کر دیں کہ انسداد کورونا کمیشن میں عہدیداران پوری تندہی سے کام کر رہے ہیں اور اس کی رپورٹ ہمیں دی جاتی ہے، ہمیں اطلاعات ملتی ہیں۔ بعض کمزور طبقات کے بارے میں بھی انہوں نے غور کیا ہے۔ میں سفارش کروں گا اور تاکید کروں گا کہ حکومتی عہدیداروں نے بعض کمزور طبقات کے لئے جو پروگرام بنائے ہیں، جلد از جلد، زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر انداز میں نافذ کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی عوام کے بھی فرائض ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ واقعی ان حالات میں جن کی زندگی بہت سختی میں گزر رہی ہے۔ وہ معمول کے مطابق اپنا خرچ چلا پانے سے قاصر ہیں۔ جن افراد کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، جو توانائي رکھتے ہیں، انھیں چاہئے کہ اس سلسلے میں وسیع پیمانے پر کام کریں۔ صلوات شریفہ «شَجَرَةُ النُّبُوَّة» میں ہم پڑھتے ہیں؛ وَ ارزُقنی مُواساةَ مَن قَتَّرتَ‌ عَلَیهِ مِن رِزقِکَ بِمَا وَسَّعتَ عَلَیَّ مِن فَضلِکَ ... وَ اَحیَیتَنی‌ تَحتَ‌ ظِلِّک (13)۔ یعنی یہ ایک لازمی کام ہے جسے انسان کو انجام دینا چاہئے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ ماہ رمضان کی آمد آمد ہے۔ ماہ رمضان انفاق کا مہینہ ہے، ایثار کا مہینہ ہے، حاجتمندوں کی حاجت روائی کا مہینہ ہے۔ کتنا اچھا ہے کہ ملک میں حاجتمندوں اور غربا کی مدد کے لئے مومنانہ امداد، ہمدلی اور کمک کی ایک وسیع مشق شروع ہو جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو ذہنوں میں اس سال کی بڑی اچھی یادیں ثبت ہو جائیں گی۔ ہم اگر امام زمانہ علیہ السلام سے اپنی عقیدت و محبت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں تو لازمی ہے کہ ہم خود بھی مہدوی معاشرے کی جھلکیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ہم نے عرض کیا کہ مہدوی معاشرہ عدل و انصاف کا معاشرہ ہے، وقار کا معاشرہ ہے، علم کا معاشرہ ہے، امداد باہمی اور اخوت کا معاشرہ ہے۔ ان چیزوں کو ہمیں اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانا چاہئے، جہاں تک ہماری توانائی میں ہے۔ یہ چیز ہمیں قریب کرے گی۔

آخری نکتہ جو عرض کرنا ہے یہ ہے کہ ماہ رمضان کے جلسات و اجتماعات، عمومی اجتماعات، دعا کے اجتماعات، تقاریر کے اجتماعات، توسل کے اجتماعات بڑے با برکت ہوتے تھے، ظاہر ہے اس سال ہم ان جلسات و اجتماعات سے محروم ہیں۔ تو ایسی صورت میں ہم خلوت میں عبادت، تضرع اور خضوع و خشوع سے غافل نہ ہوں۔ ہم اپنے کمرے میں، تنہائی میں، اپنے اہل خانہ کے درمیان، اپنے بچوں کے درمیان، اسی فضا کو، اسی ارتکاز کو، اسی خضوع و خشوع کو وجود میں لا سکتے ہیں۔ البتہ ٹی وی پر بھی کچھ پروگرام پیش کئے جاتے ہیں، ان سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ کام انجام دینا چاہئے۔

ایک گزارش عہدیداران سے بھی کرنا ہے۔ عہدیداران سے بھی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کام کرنے والے نوجوانوں سے بھی کہنا ہے کہ دو چیزیں فراموش نہ ہونے پائیں۔ ایک پیداوار کی تیز رفتار پیشرفت ہے۔ ملک کے لئے یہ بہت حیاتی چیز ہے، ہمیں ہر قیمت پر پیداوار کے میدان میں محنت جاری رکھنا ہے اور حقیقی معنی میں پیدوار میں تیز پیشرفت لانا ہے۔ دوسری چیز ہے تجربہ گاہوں کی تعمیر اور وہاں انجام پانے والے کام، اسی طرح ضرورت کی مختلف چیزوں کی پیداوار۔ نوجوان ان شاء اللہ تجربہ گاہ کی سطح پر اس کام کو انجام دیں۔

اللہ تعالی کی بارگاہ میں ملت ایران کی سعادت کی دعا کرتا ہوں۔ خداوند عالم ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح کو شاد کرے، عزیز شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کو پیغمبر اکرم کے ساتھ محشور فرمائے اور ملت ایران کی جو بھی آرزوئیں  ہیں انھیں پورا کرے اور امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کو ان شاء اللہ قریب کر دے۔

و السّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

 

 

۱) بحار الانوار، جلد ۵۳، صفحہ ۱۷۶

۲) بحار الانوار، جلد ۵۳، صفحہ ۱۷۱

3) بحار الانوار، جلد ۳۶، صفحہ ۳۱۶

4) بحار الانوار، جلد۵۰، صفحہ ۳۱۸

5) تحف ‌العقول، صفحہ ۴۰۳

6) تحف ‌العقول، صفحہ ۱۰۶

7) غیبت طوسی، صفحہ ۴۵۹

8) کافی، جلد ۲، صفحہ ۲۴۵

9) سوره‌ رعد، آیت نمبر ۲۸ کا ایک حصہ

10) رہبر انقلاب کا اشارہ نیمہ شعبان کی شب خاص وقت پر اجتماعی دعا کے لئے کئے گئے عمومی اعلان کی طرف ہے۔

11) بعثت پیغمبر اکرم کے موقع پر خطاب مورخہ 23 مارچ 2020

12) تقریر میں رہبر انقلاب اسلامی نے ہلاک شدگان کا لفظ استعمال کیا تھا تاہم تقریر کی براہ راست نشریات ختم ہو جانے کے بعد آپ نے اس کی اس طرح اصلاح کی؛ "میں نے یہ جو جملہ کہا کہ ایک ملین سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، درست نہیں تھا۔ ایک ملین سے زیادہ تعداد متاثرین کی ہے، عالمی سطح پر اموات کی تعداد اس سے بہت کم ہے۔ اب تک ایک ملین افراد اس وائرس سے متاثر ہیں اور کچھ لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں، لیکن ان کی تعداد اس سے کافی کم ہے۔ میں نے غلطی سے کہہ دیا کہ ایک ملین افراد دنیا سے جا چکے ہیں یا ہلاک ہو چکے ہیں۔" لہذا تقریر کے متن میں اس جملے کی اصلاح کر دی گئی ہے۔

13) مصباح المتہجّد، جلد ۲، صفحہ ۸۲۹