قابل ذکر ہے کہ صوبہ ایلام نے صدام حکومت کی طرف سے مسلط کی گئی آٹھ سالہ جنگ میں 3000 شہیدوں کی قربانی پیش کی تھی۔

اس ملاقات میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے استقامت، ملک کا ہر زاویہ سے دفا‏ع اور کئی کئی شہیدوں کا نذرانہ پیش کرنے والے گھرانوں کی بہت زیادہ تعداد کو صوبہ ایلام کی ایسی خصوصیات شمار کیا جن کی نظیر کم ملتی ہے۔ انہوں نے کہا: مقدس دفاع کے دوران ایلام ایک مضبوط قلعے کی طرح تھا اور دشمن کے ہاتھوں میں کچھ علاقوں کے چلے جانے کے باوجود، عوام نے پہاڑ کی طرح استقامت کا مظاہرہ کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے 12 فروری 1987 کو فوٹبال میچ پر صدام کی بمباری میں کئی کھلاڑیوں اور شائقین کی شہادت کو ان کی مظلومیت کی مثال قرار دیا۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ صدام نے یہ جرم انسانی حقوق کے علمبرداروں کی حمایت سے انجام دیا کہا کہ مصنفین اور فنکاروں کو چاہئے کہ اس سچائی کو عالمی سطح پر منظر عام پر لاکر انسانی حقوق کی حفاظت کے جھوٹے دعویداروں کو رسوا کریں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے شدید بمباری میں بھی ایلام کے عوام کے اپنا شہر ترک نہ کرنے اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا: جنگ، ان لوگوں کی صلاحیتوں کے پروان چڑھنے سے نہ روک سکی اور اسی بمباری کے سایے میں شہید رضائی نژاد جیسے نابغہ اور جینیئس نوجوان سامنے آئے۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح دشمن نے غیر معمولی صلاحیت کے حامل اس نوجوان کو اس کی بیوی اور چھوٹی سی بیٹی کے سامنے بے رحمی سے اس لئے شہید کر دیا کہ دشمن کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ایران کی ترقی میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شہید اور شہادت کے موضوع کو دنیا میں رائج جنگوں میں فوجیوں کی اموات سے مختلف بتاتے ہوئے کہا: شہید اور مجاہد اللہ کی راہ میں جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ عقیدے، احلاق، دین، ثقافت اور تشخص جیسی روحانی سرحدوں کی بھی حفاظت کرتا ہے اور اللہ سے کئے ہوئے اپنے وعدے کی ایمانداری سے پاسداری کرتے ہوئے اپنی جان کا اللہ سے سودا کرتا ہے۔

انہوں نے اس بارے میں مزید کہا: اخلاص، توکل، انکساری، الھی حدود کی رعایت، اسیروں کے ساتھ نرم رویہ اور کلی طور پر اسلامی روش زندگی ہمارے شہداء اور مجاہدین کی نمایاں خوبیاں ہیں، ان درخشاں اور شوق آفریں خوبیوں کو آرٹ کے پیرایے میں دنیا کے لوگوں کے سامنے پیش کیا جانا چاہیئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے شہیدوں کی یاد میں سیمینار کے انعقاد کا ہدف انکے پیغام کو منظر عام پر لانا بتاتے ہوئے کہا: شہیدوں کا پیغام یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں کسی چیز سے نہ تو ڈرنا چاہئے اور نہ ہی کسی چیز کا غم کھانا چاہئے، بلکہ دشمن کے شیطانی وسوسوں سے متزلزل ہوئے بنا، پوری قوت و ثبات قدم کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیئے۔

انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ جدوجہد اور مشکلات کو برداشت کئے بنا کوئی قوم پیشرفت کے  نقطہ کمال پر نہیں پہونچتی کہا: ایرانی قوم شہیدوں کے پیغام کو سنے اور باہمی اتحاد، حوصلے اور جدوجہد کو بڑھائے، نیز عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ معاشرے اور شہداء کی قربانی کے طفیل میں ملک کو حاصل سیکورٹی کے تعلق سے اپنے احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔