بسم اللہ الرحمن الرحیم. و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاہرین و لعنۃ اللہ علی اعدائہم اجمعین.

عزیز بھائيو! عزیز بہنو! آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ دو سال کے بعد آپ میں سے ایک گروہ کی اس امام بارگاہ میں دوبارہ زیارت ہو رہی ہے۔ ہماری ایک بہترین نشست اور شیریں اور یاد رہ جانے والی نشستوں میں سے ایک، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کے موقع پر ہونے والی نشست ہے جو ہر سال آپ عزیزوں کے ساتھ منعقد ہوا کرتی تھی، میرے خیال سے پینتیس سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ میں آپ سب کی خدمت میں سیدۃ النساء، صدیقۂ طاہرہ، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت اور اسی طرح امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے یوم ولادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے اپنی عقیدت کے اظہار کے طور پر ان کے بارے میں چند جملے عرض کروں گا اور پھر کچھ باتیں مدح اہلبیت علیہم السلام اور مذہبی انجمنوں کے اہم مسئلے کے بارے میں بھی عرض کروں گا۔ البتہ یہ یوم ولادت، یوم نسواں بھی ہے، یوم مادر بھی ہے؛ محترم خواتین ہم سے شکوہ کرتی ہیں کہ ہمیں اس دن کو خواتین سے مختص کرنا چاہیے تھا؛ وہ حق بجانب ہیں، لیکن یہ نشست، کافی اہم ہے اور عرصہ دراز سے منعقد ہوتی آ رہی ہے، اسے معمولی نہیں سمجھا جا سکتا؛ ان شاء اللہ ہم کوئي دن خواتین سے ملاقات کے لیے بھی معین کریں گے۔

قرآن و روایات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے فضائل میں رطب اللسان

حضرت صدیقۂ طاہرہ، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عظمت کو بیان کرنے سے ہماری زبان قاصر اور عاجز ہے؛ قرآن مجید اور صحیح حدیثیں اس عظیم ہستی کی بات کرتی ہیں اور ایسے فضائل بیان کرتی ہیں جن کے بارے میں ہمارے ذہنوں اور ہماری ناقص فکروں کو بڑی گہرائی سے غور کرنے اور سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ روایت، جسے کبھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل کیا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد جبرئيل حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس آتے تھے، ایک صحیح روایت ہے؛ ہم نے اس روایت کی سند پر نظر ڈالی ہے، سند معتبر اور بڑی ٹھوس ہے اور اس بات میں شک کی کوئي گنجائش نہیں ہے کہ جبرئیل آتے تھے۔ عبارت یہ ہے: "وَ کانَ یَاتیھا جَبرَئیلُ علیہ السّلام فَیُحسِنُ عَزاءَھا عَلَی اَبیھا." ہماری آج کی زبان میں کہا جائے تو وہ حضرت زہرا کے پاس برابر آيا کرتے تھے اور پیغمبر کی وفات کی تعزیت پیش کیا کرتے تھے؛ انھیں تسلی دیتے تھے؛ "و یخبرھا عن ابیھا و مکانہ" اور انھیں بتایا کرتے تھے کہ پیغمبر کس حال میں ہیں، عالم برزخ میں، خداوند عالم کے محضر میں، پیغمبر اکرم کے عظیم مقامات دکھایا کرتے تھے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لیے تصویر کشی کیا کرتے تھے؛ "وَ یُخبِرُھَا بِما یَکونُ بَعدَھا فِی ذُرِّیَّتِھا" ان کے بعد مستقبل میں ان کی اولاد کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے - امام حسن علیہ السلام کا ماجرا، کربلا کا ماجرا، ا‏ئمہ علیہم السلام کے ماجرے اور حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کا ماجرا ان سے بیان کرتے تھے؛ "وَ کَانَ عَلیٌّ علیہ ‌السّلام یَکتُبُ ذَلِک"(2) امیر المومنین بھی بیٹھ کر یہ ساری باتیں لکھا کرتے تھے؛ یہ بہت اہم بات ہے۔

قرآن مجید کے مطابق جبرئيل پوری تاریخ میں بس ایک بار کسی غیر پیغمبر پر نازل ہوئے تھے: "اَرسَلنا اِلَیھا روحَنا ‌فَتَمَثَّلَ‌ لَھا بَشَراً سَوِیّا" (3) اگر حضرت مریم کے واقعے میں روح سے مراد -ویسے اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے- حضرت جبرئيل علیہ السلام ہوں تو خداوند عالم نے صرف ایک بار کسی غیر پیغمبر پر جبرئیل کو نازل کیا ہے۔ دوسرے ملائکہ نازل ہوئے ہیں اور ایسا بہت بار ہوا ہے کہ فرشتے آتے تھے لیکن جبرئیل صرف ایک بار آئے مگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لیے: "کانَ یَاتیھا جَبرَئیلُ" ایک دو دن کی بات نہیں ہے بلکہ جبرئیل آيا ہی کرتے تھے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خدمت میں شرفیاب ہوتے تھے۔

صدیقۂ طاہرہ کی مدح قرآن مجید میں 'سورۂ ھل اتی' میں ہے، آيت تطہیر میں ہے، آيت مباہلہ میں ہے۔ اس کی تو تقریبا صراحت ہے کہ یہ آيتیں حضرت زہرا کے بارے میں ہیں ورنہ کئي دوسری آیتیں بھی ہیں جو ان کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ جو 'سورۂ ھل اتی' میں خداوند عالم، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے گھرانے کے کام کا ذکر کرتا ہے، یہ بہت ہی اہم چیز ہے۔ یہ ایک پرچم ہے جو قرآن مجید بلند کرتا ہے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دروازے پر یہ پرچم لہراتا ہے: "اِنَّما نُطعِمُکُم لِوَجہِ اللَّہِ لا نُرِیدُ مِنکُم جَزاءً وَ لا شُکورا."(4) خدا کے لیے کام، اخلاص، بے لوث خدمت؛ کس کی؟ یتیم، فقیر اور اسیر کی؛ تو کیا یہ اسیر مسلمان تھا؟ بہت بعید ہے کہ اس وقت کوئي مسلمان اسیر رہا ہو۔ بغیر احسان جتائے خدمت؛ یہ درس ہے؛ حضرت فاطمہ زہرا کا پرچم یہ ہے؛ قرآن مجید اس کی عظمت بیان کر رہا ہے۔ یا مباہلے کی آیت میں: "وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُم"(5) حالانہ پیغمبر کے اطراف میں بہت سی خواتین تھیں - ان کی زوجات تھیں اور ان کی قریبی عورتیں تھیں، شاید اس وقت ان کی بعض دوسری بیٹیاں بھی رہی ہوں- لیکن "نساءنا" صرف فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں؛ کیوں؟ باطل کے محاذ سے حق کے محاذ کے ٹکراؤ کا حصہ بننے کے لیے؛ بات یہ ہے۔ فاطمہ زہرا، ان اعلی اور غیر معمولی حقائق کی مظہر ہیں۔ حضرت زہرا کے فضائل یہ ہیں۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت زہرا کو "سیدۃ نساء العالمین"(6) کہا ہے اور اسی طرح "سیدۃ نساء اھل الجنۃ"(7) بھی کہا ہے جو زیادہ اہم ہے: "سیدۃ نساء اھل الجنۃ"۔ جنت کی تمام خواتین: جناب سارہ، جناب آسیہ، جناب حوا، جناب مریم، تاریخ کی یہ تمام عظیم خواتین "نساء اھل الجنۃ" ہیں، بہشتی خواتین ہیں؛ حضرت زہرا "سیدۃ نساء اھل الجنۃ" ہیں۔ بات یہ ہے۔ انسان کی زبان میں اتنی طاقت کہاں سے آئے گی کہ وہ ان چیزوں کو بیان کر سکے اور کما حقہ بیان کر سکے؟ ان حقائق کو صحیح طریقے سے سمجھنے کے لیے تو خود ہمارے ذہنوں کو بہت زیادہ غور و فکر اور دقت نظر کی ضرورت ہے۔

تو یہاں ضمنی طور پر حضرت زہرا کی سب سے نمایاں خصوصیات کا پتہ چل گيا؛ اس آيت کریمہ میں، آيت تطہیر میں طہارت اور پاکیزگي کی بات ہے جو ان  تمام چیزوں کو بہت بالاتر خصوصیت ہے؛ آيت ھل اتی میں بغیر احسان جتائے خدمت کی بات ہے؛ آیت مباہلہ میں کفر و باطل کے محاذ سے حق کے محاذ کے مقابلے کی بات ہے؛ یہ چیزیں ہیں؛ یہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اہم نشانیاں ہیں۔

انقلاب کے بعد کے مختلف میدانوں میں حضرت زہرا علیہا السلام کا ذکر عام ہوا

میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خداوند عالم کی توفیق سے، خدا کے فضل سے اسلامی انقلاب کے بعد حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مبارک نام انقلاب سے پہلے کی نسبت - جو کہ ہمیں یاد ہے - دس برابر نہیں کہا جا سکتا، شاید دسیوں برابر، سیکڑوں گنا زیادہ لیا جانے لگا اور دوہرایا جانے لگا؛ یعنی معاشرہ، فاطمی معاشرہ ہے؛ ہم سماج میں اس کا اثر بھی دیکھ رہے ہیں؛ اسی بغیر احسان جتائے خدمت کا، اسی رضاکارانہ عمل کا، اسی بغیر اجرت اور احسان  جتائے بغیر خدمت کا آپ ایک دوسری طرح سے مقدس دفاع کے دوران مشاہدہ کرتے ہیں، علمی و سائنسی تحریک کے دوران ایک دوسری طرح سے مشاہدہ کرتے ہیں: کسی نے شہید فخری زادہ(8) ایٹمی شہیدوں اور عظیم سائنسداں مرحوم کاظمی آشتیانی(9) جیسے افراد کا نام نہیں سنا تھا؛ بہت سے لوگ اب بھی نہیں جانتے کہ کاظمی کون ہیں؟ یہ عظیم افراد جو علم و سائنس کے میدان میں اترے، وہ لوگ ہیں جنھوں نے بغیر اجرت اور بغیر احسان جتائے بڑے سائنسی میدانوں کو اس ملک میں ان عوام کے لیے، اسلام کے لیے اور اسلامی جمہوریہ کے لیے سر کیا۔

اس کے بعد آپ دیکھیے کہ قدرتی حادثات جیسے سیلاب اور زلزلے میں لوگ کس طرح جوش اور اشتیاق سے آگے بڑھتے ہیں؛ ایسی چیزیں کہاں ہوتی ہیں؟ یہ وہی فاطمی روش ہے؛ یہ وہی سیدۃ نساء العالمین کی انگشت اشارہ کی سمت میں حرکت ہے۔ لا نُریدُ مِنکُم جَزآءً وَ لا شُکورا؛ یہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اشارہ ہے۔ اور پچھلے دو برسوں میں کورونا کے مسئلے میں کیا ہوا؟ کسی کا بھی نام لیے بغیر کیسی کیسی خدمتیں انجام دی گئيں؟ بڑے بڑے کام ہوئے۔ یہ  جہادی کام، خدمت کی یہ جہادی سرگرمیاں جو پورے سال جاری رہتی ہیں اور نوجوان، اپنا نام ظاہر کیے بغیر بلا اجرت اور احسان جتائے بغیر خدمت کرتے ہیں، یہ روش جاری رہنی چاہیے؛ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو بڑی سماجی، انقلابی اور جہادی سرگرمیوں سمیت ہمارے ہر میدان میں رول ماڈل ہونا چاہیے، آئيڈیل ہونا چاہیے۔

مذہبی انجمنوں کا تشخص؛ اہلبیت علیہم السلام سے مودت کے محور پر تشکیل پانے والی ایک سماجی اکائي

جہاں تک مذہبی انجمن اور مداح (مدح اہلبیت کرنے والے افراد) کی بات ہے تو اس سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں، میں نے بھی مختلف برسوں میں اس سلسلے میں اپنے عزیز مداحان اہل بیت سے بہت سی باتیں عرض کی ہیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت جب میں آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ان کتابوں کے درمیان جو آپ نے طبع کی ہیں، کچھ کتابچے انجمنوں کے بارے میں ہیں؛ یہ بہت اچھی بات ہے، میں نے نہیں دیکھا تھا کہ انجمنوں کے بارے میں بات کی گئي ہو، بات ہونی چاہیے؛ حسینی انجمنوں کے بارے میں بہت سی باتیں ہیں۔ آج میں اس سلسلے میں اختصار سے کچھ عرض کروں گا۔

انجمن، ایک سماجی یونٹ ہے، ایک معاشرتی اکائي ہے جو اہلبیت علیہم السلام کی مودت کے محور پر تشکیل پاتی ہے؛ اس چھوٹے یا بڑے گروہ کا محور، اہلبیت علیہم السلام سے محبت اور اہلبیت کے اہداف کی سمت لوگوں کی ہدایت ہے؛ انجمن کی اصل حقیقت یہ ہے، انجمن کا تشخص یہ ہے۔ ان انجمنوں کی تشکیل، خود ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں ہی ہوئي ہے، آج کل کی بات نہیں ہے؛ انجمنوں کی تشکیل ائمہ علیہم السلام کے اصحاب نے کی اور انھوں نے ہی اسے شروع کیا؛ کربلا کے واقعے کے بعد وہ لوگ اکٹھا ہوتے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام راوی سے سوال کرتے ہیں: تجلسون و تحدثون؟(10) تم لوگ اکٹھا ہو کر بیٹھتے ہو اور بات کرتے ہو؟ یعنی ہمارے مسائل پیش کرتے ہو؟ وہ جواب دیتا ہے کہ جی ہاں، ہم یہ کام کرتے ہیں؛ یعنی یہی انجمن کی اکائي۔ اس کے بعد امام فرماتے ہیں: انّ تلک المجالس احبھا؛ میں ان مجلسوں کو پسند کرتا ہوں۔ اس دل کے قربان! فرماتے ہیں: تمھاری مجلسوں کو پسند کرتا ہوں۔ ان تلک المجالس احبھا و احیوا امرنا(11) ہمارے امر کو زندہ رکھو۔ لفظ "امرنا" ائمہ کے کلمات میں بہت زیادہ دوہرایا جاتا ہے؛ یعنی ہمارا مسئلہ، ہمارا امر - وہ بنیادی اور مرکزی موضوع، جس کی بنیاد پر ہم آگے بڑھتے ہیں، اسے کہتے ہیں امر - اب اگر ہم آج کی اصطلاحات کے مطابق کہنا چاہیں، حالانکہ اس کے حقیقی معنی میں تھوڑی سی کمی ہو جائے گي، لیکن یہ کہہ سکتے ہیں: ہمارا راستہ، ہمارا مکتب؛ "احیوا امرنا" یعنی ہمارے راستے کو زندہ رکھو، ہمارے مکتب فکر کو زندہ رکھو۔ ایک دوسری روایت میں کہا گيا ہے اور یہ روایت بھی اصول کافی میں ہے، "تزاوروا و تلاقوا و تذاکروا امرنا و احیوہ"(12) یہ بھی اسی طرح سے ہے، امر کو زندہ کرنا ہے۔

مختلف زمانوں میں مذہبی انجمنوں کا اثر

بنابریں انجمن کی جڑیں اور اس کی تاریخ اس زمانے سے جڑی ہوئي ہے اور تشیع کی پوری تاریخ میں یہ انجمنیں موجود رہی ہیں، یقینا ان کی شکلیں بدلتی رہی ہیں - اگر محققین اس سلسلے میں تحقیق کریں تو مزید تفصیلات تلاش کر سکتے ہیں - ہوتے ہوتے یہ انجمنیں ہمارے زمانے تک پہنچی ہیں اور تاریخ کے بعض زمانوں میں انھوں نے اپنی زبردست افادیت کا مظاہرہ کیا ہے، مثال کے طور پر اسلامی انقلاب کے دوران۔ آپ نوجوانوں کو یاد نہیں ہوگا؛ انقلاب کے زمانے میں انجمنوں کا کافی اثر تھا؛ جیسے وہ زبردست نوحے جو کیسیٹوں کے ذریعے پورے ملک میں پھیل جاتے تھے؛ فرض کیجیے کہ جہرم میں یا یزد میں کسی نوحہ خواں نے نوحہ پڑھا تھا؛ یہ نوحہ قیامت برپا کر دیتا تھا۔ نوحہ امام حسین کا تھا لیکن سب کچھ انقلاب کے بارے میں، امام خمینی کے بارے میں؛ یہ نوحے لوگوں کو اور انقلاب کو متحرک کر دیتے تھے؛ انقلاب میں روح پھونک دیتے تھے؛ یہ انجمنیں تھیں جو یہ کام کرتی تھیں۔ یہ انقلاب کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد جنگ کے زمانے میں بھی، یہ زمانہ آپ میں سے بہت سے افراد کو یاد ہے؛ مقدس دفاع کے زمانے میں انجمنیں کیا کرتی تھیں! جب شہیدوں کے جنازے آتے تھے یا پھر نوجوان محاذ کی طرف روانہ ہونا چاہتے تھے تو اصل پروگرام حسینی انجمنوں کے ہاتھ میں ہوتا تھا؛ آج بھی بحمد اللہ ہمارے ملک میں اسی طرح کی انجمنیں موجود ہیں۔ یہ تھی انجمن کی بنیاد۔

 

انجمن کی ذمہ داریاں اور افادیت:

(1) تشریح و بیان کے جہاد کا مرکز

انجمن کے سلسلے میں ایک بڑا اہم نکتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ امام – جیسا کہ میں نے عرض کیا - ان دو روایتوں میں فرماتے ہیں: احیوا امرنا؛ ہمارے مسئلے کو، ہمارے مکتب کو زندہ رکھو یا زندہ کرو۔ آج آپ کے لیے کہ شیعہ ماحول میں، اسلامی جمہوریہ کے ماحول میں، ایک مسلمان اور شیعہ ملک میں ہیں، شاید یہ بات بہت زیادہ قابل فہم نہ ہو کہ یہ جو امام صادق علیہ السلام فرما رہے ہیں: "احیوا امرنا" اس کا کیا مطلب ہے؟ جس زمانے میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: احیوا امرنا، اہلبیت علیہم السلام کے امر کو زندہ کرنا سخت ترین اور سب سے خطرناک کاموں میں سے ایک تھا؛ ایک بڑا جہاد تھا۔ اس زمانے میں جب ہم اس سلسلے میں زیادہ تقریریں کرتے تھے، زیادہ کام کرتے تھے، وہ باتیں بظاہر چالیس پچاس سال قبل چھپ چکی ہیں اور لوگوں کے پاس ہیں، ان میں ہم نے اس سلسلے میں تشریح کی ہے۔ ائمہ کی جہادی زندگی اور ان کے اصحاب کی جدوجہد، سب سے خطرناک کاموں میں سے ایک تھی۔ کیونکر سارے ائمہ شہید ہوئے؟ کیوں امام محمد تقی علیہ السلام پچیس سال میں، امام حسن عسکری اٹھائيس سال میں شہید ہوئے؟ کیوں انھیں شہید کیا گيا؟ کیوں امام موسی ابن جعفر علیہ السلام کو کئي سال تک مقید رکھا گيا اور زندان میں انھیں شہید کر دیا گيا؟ کیونکہ زندگي، جدوجہد کی زندگي تھی، جہاد کی زندگي تھی۔ اس طرح کے حالات میں امام فرماتے ہیں: "احیوا امرنا" تم لوگ جو انجمنوں کی نشستوں میں اور مجلسوں میں بیٹھتے ہو، ہمارے امر کو زندہ رکھو؛ یعنی امام علیہ السلام سب سے بڑی جدوجہد کا، سب سے خطرناک جدوجہد کا ان سے مطالبہ کرتے ہیں۔ تو اب بتائیے جناب کہ انجمن کس چیز کی جگہ ہے؟ جہاد کی جگہ ہے؛ جہاد کا مرکز ہے؛ انجمن، جہاد کا مرکز ہے؛ اللہ کی راہ میں جہاد، اہلبیت کے مکتب کو زندہ کرنے کی راہ میں جہاد، امام حسین علیہ السلام کا مکتب، شہادت کا مکتب۔ تو ائمہ علیہم السلام کس طرح جہاد کرتے تھے؟ ائمہ، عسکری جہاد تو نہیں کرتے تھے؛ کچھ کو  چھوڑ کر - صرف امیرالمومنین، امام حسن مجتبی اور حضرت امام حسین علیہ السلام نے تلوار سے جنگ کی - بقیہ ائمہ نے تو تلوار سے جنگ نہیں کی؛ ان کا جہاد کیا تھا؟ "تشریح کا جہاد"۔ یہ جو میں اس بات کو بار بار دوہراتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تشریح کا جہاد، - تشریح کیجیے، حق و حقیقت کو برملا کیجیے - انجمن، تشریح کے جہاد کا مقام ہے۔ میرے خیال میں "احیوا امرنا" سے یہ بہت ہی اہم نکتہ حاصل ہوتا ہے۔

مکتب کی تشریح، انجمن کے اصل معنی

انجمن کے سلسلے میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ انجمن ایک ایسا ڈھانچہ ہے جو خاص معنی و مفہوم کا بھی حامل ہے اور اس میں تحرک بھی ہے؛ انجمن صرف فکر، معنویت، درس اور تعلیم کی حامل نہیں ہے بلکہ اس میں تحرک بھی پایا جاتا ہے۔ مغز اور معنی تو وہی مکتب ہے، مکتب کی تشریح۔ انجمن میں مکتب میں تشریح کی جاتی ہے۔ یہ جو ہم عرض کر رہے ہیں کہ "کی جاتی ہے" یعنی یہی ہونا چاہیے۔ انجمن کا فطرت یہ ہے: انجمن، تشریح کا مقام ہے، بیان کی جگہ ہے، اہم ترین اسلامی تعلیمات اور علوی تعلیمات بیان کرنے کا مقام ہے، سوالوں کا جواب دینے کی جگہ ہے۔ آج ہمارے جوانوں کے بہت سے سوال ہیں؛ طرز زندگي کے بارے میں سوال ہے، اصولی مسائل کے بارے میں سوال ہے اور بجا سوال ہے۔ سوال کا سامنا کرنے کا راستہ، سوچنا اور جواب دینا ہے؛ یہ کام انجمن میں ہونا چاہیے۔ اس کام کا اہم مرکز، یہی انجمن ہے؛ ان متعدد سوالوں کا جواب جو روز بروز وجود میں آتے ہیں۔ سوال کرنے میں کوئي قباحت نہیں ہے لیکن جو سوال کر رہا ہے اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اس کی لاعلمی ہے جو سوال پیدا کر رہی ہے اور ممکن ہے کہ اسے علم و دانائی میں تبدیل کر دیا جائے۔ جس کے ذہن میں سوال ہوتا ہے، اس کا سوال اس بات کا سبب نہیں بننا چاہیے کہ وہ سوچے کہ ہر چیز الٹی ہے؛ نہیں، سوال پیش ہونا چاہیے، اس میں کوئي برائی نہیں ہے، جواب دیا جانا چاہیے اور اس کا جواب انجمنوں میں ہونا چاہیے، علم و معرفت کے مراکز میں ہونا چاہیے؛ یہ انجمن کا اصل معنی و مفہوم ہے۔

مخاطب کی تنقید کا سامنا اور ہنر کا استعمال؛ انجمن کے تحرک کا مظہر

تحرک کا مطلب ہے، ہنر کا استعمال اور تنقید کی شکل میں، مخاطب کا سامنا کرنا۔ آپ کے ہنر اور بہت سے دوسرے ہنروں میں فرق یہ ہے کہ آپ اپنے مخاطب کا سامنا، تنقید کی شکل میں کرتے ہیں؛ آپ اس سے بات کرتے ہیں، وہ اپنے جذبات آپ تک پہنچاتا ہے؛ یہ عمل دو طرفہ طور پر ہوتا ہے۔ آپ مسلسل ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں؛ یہ، انجمن کا تحرک ہے۔ ایک دوسرا تحرک، سڑکوں اور کوچہ و بازار میں نکلنا ہے جو ماتمی دستوں کی صورت میں نکلتے ہیں۔ ایک اہل ذوق بھائي کے بقول حسینی دستوں کا نکلنا، در حقیقت امام حسین علیہ السلام کی مکے سے کربلا کی جانب روانگی کا مظہر ہے؛ جہاد کے لیے روانگی، راہ خدا میں باہر نکلنا۔

جہاد؛ دشمن کے ساتھ مقابلے کی کوشش

انجمن کے سلسلے میں اگلا نکتہ یہ ہے کہ ہم نے کہا  تشریح کا جہاد؛ بنابریں، انجمن، تبھی انجمن کہلائے گي جب وہ جہاد کرے گي؛ جہاد کا مطلب کیا ہے؟ جہاد کا مطلب ہے دشمن کے مقابلے میں کوشش اور جدوجہد؛ ہر کوشش جہاد نہیں ہے۔ بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں، بہت زیادہ علمی کوششیں کرتے ہیں، معاشی کوششیں کرتے ہیں جو اچھی اور بجا ہیں لیکن جہاد نہیں ہیں۔ جہاد یعنی وہ کوشش جو دشمن کے مقابلے میں ہدف کے ساتھ ہو؛ یہ جہاد ہے۔ اسلامی اصطلاح اور اسلامی منطق میں جہاد وہ کام ہے جو دشمن کے مقابلے میں انجام پاتا ہے۔ اگر آپ دشمن سے مقابلے کے لیے معاشی کام کرتے ہیں تو وہ جہاد ہو جائے گا؛ دشمن سے مقابلے کے لیے علمی و تحقیقی کام کیجیے، وہ جہاد ہو جائے گا؛ دشمن کے وسوسوں کو ناکام بنانے کے لیے بات کیجیے، تشریح کیجیے تو یہ جہاد ہے؛ یہ سب جہاد ہے۔ تو اہم یہ ہے کہ ہم جہاد کے میدان کو پہچانیں کہ ہر زمانے میں کس میدان میں جہاد کرنا چاہیے؛ یہ بہت اہم ہے۔

جہاد کے مختلف میدان

ہم غلطی نہ کریں! کبھی کچھ لوگ - میں نے کئي بار مثال دی ہے - اس شخص کی طرح جو ایک مورچے پر ہے اور اسے نیند آ جاتی ہے، کچھ دیر بعد وہ نیند سے جاگتا ہے، اسے نہیں پتہ ہوتا کہ دشمن کس طرف ہے اور دوست کس طرف ہے، وہ بندوق دوست پر تان دیتا ہے؛ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے؛ کچھ لوگ جہاد کے میدانوں کو نہیں پہچانتے؛ وہ نہیں جانتے کہ کس طرف بڑھنا ہے اور دشمن کس طرف ہے، کس طرح دیکھنا ہے اور کس طرف حملہ کرنا ہے؛ اہم بات یہ ہے۔ کسی دن، میدان فوجی ہوتا ہے جیسے مقدس دفاع کا زمانہ، دفاع حرم کا زمانہ؛ یہ میدان،  فوجی میدان ہے؛ اس دن بہت سے لوگوں نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی سمجھ لیا اور آگے بڑھ کر اپنا فرض نبھایا -  اگرچہ یہ واجب عینی نہیں بلکہ واجب کفائي تھا - البتہ اس معاملے میں بھی انجمنوں نے بھرپور کردار ادا کیا جس کا ذکر میں نے پہلے کیا، ہمارے بہت سے مجاہدین اور شہداء، انجمنوں کے اراکین تھے جو لڑنے گئے اور شہید ہوئے؛ کسی دن میدان، علمی ہوتا ہے اور جہاد، علمی جہاد ہوتا ہے، علم کو اعلی سطح پر لے جانا ہوتا ہے، کسی دن میدان، معاشی سرگرمیوں کا ہے؛ کسی دن سماجی خدمات اور عوام کی خدمت کا ہے۔ جس دن دشمن، معاشرے کو معاشی دباؤ میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ انھیں اسلام اور اسلامی نظام کے مقابلے میں لے آئے، اس دن اگر آپ عوام کی معاشی اور سماجی خدمت کریں تو آپ نے دشمن کے مقابلے میں جہاد کیا ہے؛ لیکن ان سب سے زیادہ اہم، تشریح اور حق و حقیقت کو برملا کرنےکا میدان ہے۔ اگر یہ چیز ہوئي تو پھر ان تمام مختلف میدانوں کی صورتحال، اپنے وقت پر اور اپنی جگہ پر واضح ہو جائے گي اور وہ اپنے کارآمد کو تلاش کر لیں گے۔

اسلام و انقلاب کی طرف سے لوگوں کے عقائد و افکار کو برگشتہ کرنے کے لیے دشمن کے بھاری اخراجات

یہ بات میں اپنی معلومات کی بنا پر عرض کر رہا ہوں کہ آج میڈیا کا ایک بہت بڑا گروہ - جس میں شامل میڈیا کو گننا مشکل ہے، خاص کر سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کی اس صورتحال میں - ہزاروں ماہرین کے ساتھ، ہنر کے ماہرین، میڈیا کے ماہرین، ابلاغ عامہ کے ماہرین، بے تحاشا مالی سپورٹ اور سیکورٹی سپورٹ کے ساتھ کام کر رہا ہے؛ کس لیے؟ اس لیے کہ اسلامی جمہوری نظام میں، فکروں کو بدل دیں، سوچ کو پلٹ دیں، ایمان اور عقیدوں کو کمزور کر دیں، بگاڑ دیں؛ یہ سب ہو رہا ہے۔ یہ بحث تو الگ ہی ہے کہ دوسرے، دوسرے ملکوں کے لیے کیا کر رہے ہیں؛ یہ چیز جو میں عرض کر رہا ہوں، وہ ہدف ہے جو ہمارے ملک، ہمارے عوام، ہمارے اسلامی جمہوریہ، ہمارے عقائد، اور ہمارے نظریات کے لیے تیار کیا گيا ہے۔ ہزاروں ادارے بے تحاشا پیسے اور مختلف طرح کی سپورٹ کے ساتھ اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔ تو یہ ایک شیطانی چال ہے اور شیطانی محاذ ہے۔

دشمن کے ساتھ جنگ کے محاذ میں ہمارے کھڑے ہونے کی جگہ کے تعین کی ضرورت

اس شیطانی محاذ کے مقابلے میں کیا ہے؟ اللہ کی راہ میں جہاد کا محاذ؛ فی سبیل اللہ جہاد کا محاذ۔ آپ لوگ تو انجمن میں رہتے ہیں نا؛ اپنی انجمن سے پوچھیے کہ یہ محاذ کہاں واقع ہے؟ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ دوسرا نکتہ جو ہم نے عرض کیا، یہ ہے: ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ یہ جو جہاد ہو رہا ہے، یہ جو اسلام اور کفر، حق اور باطل کے درمیان جو مسلسل جنگ ہو رہی ہے، کسی بھی واقعے کے بارے میں حق بیانی اور دروغگوئي کے درمیان جو لڑائی چھڑی ہوئي ہے - یہ ان کے درمیان ایک جنگ ہے - اس محاذ میں ہم کہاں پر ہیں اور کہاں کھڑے ہیں؟ ہمیں یہ چیز اپنے لیے معین کر لینی چاہیے اور اپنے آپ کو مطمئن کر لینا چاہیے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ البتہ تشریح اور فروغ میں اہداف مد نظر ہیں، اہداف، اصول، بنیادی اصول، انقلاب کے اساسی اہداف، یہ سب چیزیں زیادہ مدنظر ہیں لیکن چھوٹے سیاسی و سماجی مسائل بھی اس محاذ کے اندر ہیں، ان پر بھی نظر رکھنا چاہیے۔

اہلبیت کی مداحی کرنے والوں کی ذمہ داریاں اور ثمرات:

(1) معرفت میں اضافہ

انجمنوں کے بارے میں ایک اور نکتہ، منبر پر بیٹھنے والے خطیب، مداحی کرنے والے اور سامع و مخاطب سے متعلق ہے۔ یہ کلیدی عناصر ہیں۔ انجمن کے دو اہم اور ٹھوس عناصر ہیں، ایک واعظ و خطیب اور دوسرا ہے مداح۔ خطیب اور صاحب منبر کے بارے میں کچھ باتیں میرے ذہن میں ہیں، جنھیں بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے، مناسب وقت پر اس کے مخاطبین سے اپنی بات عرض کروں گا۔

مدح اہل بیت (قصیدہ، مرثیہ، نوحہ) کے سلسلے میں دو تین نکات بیان کروں گا جو آپ عزیزوں سے متعلق ہیں۔ ایک تو یہی جو ہم نے عرض کیا کہ مداحی ایک بے نظیر فن ہے؛ یعنی دوسری جگہوں پر اس کی نظیر نہیں ہے۔ دوسری جگہوں  پر محفل وغیرہ ہے لیکن وہ مداحی سے الگ چیز ہے، مداحی کی ایک الگ شناخت اور الگ حقیقت ہے اور ہم نے کہا کہ اس آرٹ کے مخاطب افراد اور آرٹسٹ کے درمیان ایک خاص طرح کا رابطہ ہوتا ہے، یہ دلوں کو پاکیزہ بناتا ہے، سامع کے دل کو منور کرتا ہے، ان بہتے ہوئے اشکوں کو جو آپ دیکھتے ہیں، یہ دل سے نکلتے ہیں، دل کے آنسو:

خاکِ دل آن روز کہ می‌ بیختند

(جس دن دل کی مٹی کو چھانا جا رہا تھا)

شبنمی از عشق در او ریختند

(اسی دن اس میں عشق کے شبنم کا ایک قطرہ ڈال دیا گيا)

دل چو بہ آن قطرہ غم‌اندود شد

(جب دل اس قطرے کی وجہ سے غم سے بھر گيا)

بود کبابی کہ نمک‌سود شد

(تو وہ ایک کباب تھا لیکن اب وہ محفوظ ہو گيا)

دیدہ‌ی عاشق کہ دھد خونِ ناب

(عاشق کی آنکھوں سے جو خالص خون بہتا ہے)

ہست ھمان خون کہ چکد از کباب(14)

(وہ وہی خون ہے جو کباب سے ٹپکتا ہے)

یہ آنسو، دل سے نکلتے ہیں، یہ دل کے ہیں، دلوں کو پاکیزہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد مداح، سامع کو تاریخ کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے، وہ اسے موجودہ زمانے میں روکے نہیں رکھتا۔ مداح اس دل کو تاریخ کی گہرائيوں میں لے جاتا ہے، تاریخی حقائق کو اس کے سامنے بیان کرتا ہے۔ اس کے بعد اسے دینی، اخلاقی اور سیاسی معرفت عطا کرتا ہے؛ یعنی مداح یہ سارے کام انجام دیتا ہے۔ بنابریں مداحی، دینی معرفت بھی ہے، اخلاقی معرفت بھی ہے اور سیاسی معرفت بھی ہے۔ ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ جو اشعار آپ آغاز میں پڑھتے ہیں، اگر وہ اخلاقی اشعار ہوں تو بہت گرانقدر ہیں، معرفتی اشعار بھی ہوں اور اخلاقی اشعار بھی ہوں، صائب کی سب تو نہیں لیکن بعض غزلوں کی طرح، یہ بہت گرانقدر ہیں۔ آج بحمد اللہ ہمارے مذہبی شعراء کام کر رہے ہیں۔

میں یہ بھی عرض کر دوں کہ آپ اور مذہبی شعراء ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں؛ یعنی آپ جو مداح ہیں، مذہبی شعر کی اہمیت بڑھنے کا موجب بنتے ہیں؛ جب آپ وہ شعر دوہراتے ہیں اور اچھی طرز میں پڑھتے ہیں تو شاعر کو بھی وجد میں لے آتے ہیں، حقیقت میں مزید بہتر شعر کہنے کے لیے شاعر کی حوصلہ افزائي کرتے ہیں۔ اس طرح آپ شاعر کی مدد کرتے ہیں، شاعر بھی آپ کی مدد کرتا ہے؛ جب آپ منبر پر اچھے اشعار پڑھتے ہیں تو درحقیقت اپنی پوزیشن کو گرانقدر بناتے ہیں۔

(2) مضمون پر مداحی غالب نہ آئے

تو اس اہم کام کے لیے یعنی دلوں کو تاریخ کی گہرائيوں میں لے جانے اور انھیں پاکیزہ کرنے کے لیے، آرٹ اور ہنر نمائی کی ضرورت ہے۔ یہ ہنر نمائي، ہماری مداحی میں آواز ہے، طرز ہے، پڑھنے کا طریقہ ہے۔ یہ تین چیزیں ہونی ہی چاہیے؛ یعنی مداح کی آواز بھی اچھی ہونی چاہیے، اشعار پڑھنے کی طرز بھی اچھی ہونی چاہیے جسے عربی میں لحن کہا جاتا ہے اور پڑھنے کا طریقہ بھی ہونا چاہیے، بعض لوگوں میں یہ تیسری چیز ہوتی ہے، بعض میں نہیں ہوتی؛ اہم یہ ہے کہ آپ شروع سے اپنے ذہن میں یہ طے کر لیجیے کہ آپ اس نشست میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ مداحی کا عمل ان چیزوں سے تشکیل پاتا ہے، یعنی اچھی آواز، اچھا آہنگ اور اچھا اسلوب بیان۔ لیکن یہ شکل، مضمون پر غالب نہ آنے پائے۔ یہ پوری شکل، مضمون کے لیے وسیلہ ہے؛  ایسا نہ ہو کہ شکل کے چکر میں مضمون غائب ہو جائے! وہ ہدایت، وہ محبت، وہ چیز جو درحقیقت سماج کو انجمن کے اندر سے، انجمن کے مرکز سے سمت و جہت عطا کرتی ہے وہ کمزور نہ پڑنے پائے، گم نہ ہو جائے۔ تو یہ بھی مداحی کے سلسلے میں ایک نکتہ تھا۔

 (3) جدت طرازی میں قباحت نہیں لیکن مداحی کا روایتی انداز قائم رہنا چاہئے

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مداحی میں بھی دوسرے کاموں کی طرح جدت طرازی ضروری ہے؛ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جوان، جدت طرازی بھی کرتے ہیں۔ مداحی کے کام میں جدت طرازی اچھی ہے، اس میں کوئي قباحت نہیں ہے لیکن توجہ رکھیے کہ یہ جدت طرازی، اس کے بنیادی اصولوں کو نہ توڑے۔ مداحی کا ایک خاص روایتی انداز ہے، یہ تشخص بدلنے نہ پائے۔ آپ کی یہ جدت طرازی آپ کا انداز اور کلام پیش کرنے کا آپ کا طریقہ اسے وہ شکل نہ دے دے جو مداحی نہیں ہے؛ کبھی کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ جہاں تک میری محدود معلومات کا دائرہ ہے، کبھی کبھی کہیں پر مداحی کی صورت یا وہی جدت طرازی ایسی ہو جاتی ہے جو مداحی کے روایتی تشخص کو باقی نہیں رکھتی، توجہ رہے کہ اس تشخص کی حفاظت ہونی چاہیے، مداحی، پاپ میوزک نہیں ہے۔

(4) مداحی کی حیثیت انقلابی میڈیا کی ہے، اس کی حفاظت کی جانی چاہئے

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اہم واقعات میں مداحوں نے بہت اچھا کردار ادا کیا؛ مقدس دفاع میں بہترین کردار ادا کیا، دفاع حرم میں زبردست کارکردگی دکھائی، سن 2009 کے فتنے کے وقت بہت اچھا کردار ادا کیا، دیگر مختلف واقعات میں بھی اسی طرح،  مداحوں نے ان سبھی واقعات میں اچھا امتحان دیا اور حقیقی معنی میں ان مجلسوں اور نشستوں نے مجاہد پروری کی، شہید پروری کی۔ ہمارے اور دشمن کے درمیان میڈیا وار میں اور اسلامی جمہوریہ اور دشمنوں کے درمیان ثقافتی اور ابلاغیاتی جنگ میں، انقلابی مداحوں کی آواز بڑی کارساز تھی؛ اس نے بہت بڑے بڑے کام انجام دیے۔ انقلاب میں پچھلے 40 سے زائد برسوں میں ہمارے مداحوں کی کارکردگي اس طرح کی رہی ہے۔ میری عرض یہ ہے - تیسرا یا چوتھا نکتہ یہ ہے - کہ ہر جگہ پہنچنے والی اس آواز کو خاموش نہ ہونے دیجیے۔ آپ نے ماضی میں بہت ہی اچھے امتحان دیے ہیں، آج بھی ہمیں دشمن کے وسیع و عریض محاذ کا سامنا ہے؛ اس دن آپ کی آواز نے بہت زیادہ کام کیا، آج بھی اسے کام کرنا چاہیے۔

(5) کسی بھی قیمت پر جوانوں کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش نہ کیجئے

اگلا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے عزیز مداحوں کا دل چاہتا ہے کہ جوانوں کو انجمن کی نشستوں میں لائيں، یہ اچھی سوچ ہے؛ یعنی ان نشستوں میں نوجوانوں کی آمد، بہت سے جوانوں کے لیے نجات دہندہ ہو سکتی ہے اور انھیں نجات دلا سکتی ہے، بعض کو اونچے درجوں تک پہنچا سکتی ہے۔ بنابریں ہمارے مداحوں کی نشستوں کا اور ان کے ذہن میں ایک ہدف، جوانوں کو انجمنوں کی طرف مائل کرنا ہے؛ یہ بہت اچھا کام ہے لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس بات کا خیال رکھیے کہ جوانوں کو ہر قیمت پر اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش نہ کیجیے؛ ایسا نہ ہو کہ اس جوان کو اچھا لگے، اس لیے ہم کسی نامناسب دھن کو بھی مدح کے اشعار یا نوحے کے لیے استعمال کریں۔ نوجوانوں کو انجمن کی طرف مائل کرنا  ضروری ہے، واجب ہے، مفید ہے لیکن صحیح ڈھانچے کی حفاظت کے ساتھ۔ دھیان رکھیے کہ جوانوں کو مائل کرنے کے لیے مداحی کا ڈھانچہ اور اس کی حقیقت و تشخص ہی ختم نہ ہو جائے۔

 (6) ٹھوس اور مستند باتیں پیش کرنے کی ضرورت

آخری نکتہ، مستند اور مدلل باتیں پیش کرنے کے سلسلے میں ہے۔ مصائب میں بھی، مدحیہ اشعار میں بھی اور جو دوسری باتیں بیان کی جاتی ہیں ان میں بھی آپ ٹھوس، مستند اور معتبر بات پیش کیجیے۔ مطالعہ کیجیے، کام کیجیے، کتاب پڑھیے، البتہ میں جانتا ہوں کہ ہمارے بہت سے عزیز مداح یہ کام کرتے ہیں؛ مطالعہ کرتے ہیں، کتاب پڑھتے ہیں، اہم شعری دیوان پڑھتے ہیں، وہ زبان و ادب میں بھی ماہر ہو جاتے ہیں اور ان کی دینی معرفت بھی بڑھ جاتی ہے اور یہ چیز ان کی نشستوں سے عیاں ہو جاتی ہے۔ کوشش کیجیے کہ یہ صورتحال عمومی اور ہمہ گیر ہو جائے کیونکہ غیر مستند بات، خطرناک ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک غیر مستند اور غیر معتبر بات، ایک غلط بیان، دشمن کے لیے ایک بہانہ بن جاتا ہے اور وہ پورے تشیع پر ہی سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم کوئي غلط بات کرتے ہیں تو وہ ہم پر حملہ کرتے ہیں؛ خیر اس کی کوئي اہمیت نہیں ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایسی کوئي بات کہتے ہیں جو اس بات کا سبب بنتی ہے کہ وہ اسلام پر حملہ کریں، ہماری اسلامی تعلیمات پر حملہ کریں یا ہمارے بزرگ علماء پر حملہ کریں؛ یہ قطعی جائز نہیں ہے۔ اس کا بہت زیادہ خیال رکھیے۔ بنابریں ٹھوس اور مستند بات، ان چیزوں میں ہے جن کا ہمارے عزیز مداحوں کو اپنے پروگراموں میں خیال رکھنا چاہیے۔

خیر، آج کی نشست اچھی تھی، ہم بہرہ مند ہوئے، ہم نے استفادہ کیا۔ جن دوستوں نے یہاں پر پروگرام پیش کیا، ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں؛ جو دوست دوسرے صوبوں سے آئے ہیں، زاہدان سے، اردبیل سے، عرب ملکوں سے - اپنے اس بحرینی بھائي کا - خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور جناب واعظی(15) صاحب کا جو مشہد سے آئے ہیں؛ اور ان سبھی کا جو ان شہروں سے جن کا میں نے نام لیا یا ان جگہوں سے جن کا میں نے نام نہیں لیا، سب سے میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان شہروں کے عوام تک میرا سلام پہنچا دیں اور مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے الطاف کے زیر سایہ زندہ رہیں، محفوظ رہیں اور کامیاب رہیں۔

اے پروردگار! تجھے واسطہ ہے محمد و آل محمد کا، امام حسین کے ذکر کی نعمت کو ہمارے ملک میں روز بروز زیادہ وسعت دے اور اسے جاری رکھ۔ اے پروردگار! ان زبانوں پر اپنا لطف و برکت نازل کر جو حسین ابن علی اور اہلبیت پیغمبر کی مدح سرائي کرتی ہیں۔ اے پروردگار! ہماری انجمنوں کو، امام صادق کی مطلوبہ انجمنوں جیسا بنا دے؛ ہمیں آج کے زمانے کے عظیم جہاد کا سپاہی قرار دے جو تشریح کے جہاد سے عبارت ہے۔ اے پروردگار! امام خمینی اور ہمارے عزیز شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کو، اہلبیت علیہم السلام کی ارواح طیبہ کے ساتھ محشور فرما؛ حضرت صدیقۂ کبری، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرما؛ ولی عصر امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے مبارک دل کو ہم سے راضی و خوشنود فرما؛ ہمارے سلام اور ہماری تحیت کو ان تک پہنچا دے اور ان کی خوشنودی کو ہمارے شامل حال کر دے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس پروگرام کے آغاز میں کچھ مداحوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب پر مبنی اشعار پڑھے۔

(2) اصول کافی، جلد 1، صفحہ 458

(3) سورۂ مریم، آيت 17، تو ہم نے مریم کے پاس اپنی روح (جبرئیل) کو بھیجا اور وہ اس کے سامنے ایک خوبرو انسان کی شکل میں نمودار ہوا۔

(4) سورۂ انسان، آيت 9، ہم تو صرف خدا کی خوشنودی کے لیے تمھیں کھلاتے ہیں اور اس کے عوض نہ تم سے کوئی اجر چاہتے ہیں اور نہ ہی شکریہ۔

(5) سورۂ آل عمران، آیت 61

(6) امالی شیخ صدوق، مجلس 72، صفحہ 473

(7) امالی شیخ صدوق، مجلس 26، صفحہ 125

(8) شہید محسن فخری زادہ؛ ملک کے نیوکلئیر اور ڈیفینس سائنٹسٹ جنھیں ستائيس نومبر 2020 کو دماوند کے آبسرد علاقے میں شہید کر دیا گيا۔

(9) مرحوم سعید کاظمی آشتیانی، اسلامی انقلاب کے انتہائی نمایاں سائنسدانوں میں سے ایک اور رویان ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ تھے۔ ان کی سربراہی میں ایران نے بانجھ پن کے علاج، اسٹیم سیلز اور جانوروں کی کلوننگ وغیرہ کے میدان میں بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کیں۔

(10) وسائل الشیعہ، جلد 12، صفحہ 20

(11) بحار الانوار، جلد 44، صفحہ 282

(12) اصول کافی، جلد 2، صفحہ 175

(13) منجملہ 12/12/2021 کو نرسوں اور میڈیکل اسٹاف کے شہیدوں کے اہل خانہ سے ملاقات میں تقریر

(14) شیخ بہائي، کشکول، دفتر پنجم، دوسرا حصہ

(15) جناب احمد واعظی