آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مقبوضہ علاقوں میں بیداری اور فلسطینی نوجوانوں کی کارروائيوں کو سراہتے ہوئے کہا: ان کارروائيوں نے دکھا دیا کہ امریکا اور اس کے پٹھوؤں کی کوششوں کے برخلاف فلسطین زندہ ہے اور بفضل خدا، حتمی فتح بھی فلسطینی عوام کی ہی ہوگي۔

انھوں نے اپنی تقریر کی ابتدا میں کچھ معنوی و اخلاقی نصیحتیں کرتے ہوئے قرآن مجید کی آیتوں اور معصومین کی دعاؤں کے حوالے سے سچی نیت کے ساتھ استغفار کو روحانی طہارت و پاکیزگی اور انفرادی زندگي اور اسی طرح قومی اور بڑے سماجی میدانوں میں رحمت الہی کے حصول کا سبب بتایا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کورونا کی چھے ویکسین بنا لئے جانے، غیر ملکی قرضوں کے تقریبا صفر تک پہنچ جانے اور مختلف میدانوں میں سائنسی و صنعتی پیشرفت جیسے خود کفالت تک پہنچ جانے کو ملک کی کامیابی کی کچھ اہم نشانیاں بتایا اور کہا: کامیابیوں کا ایک اور نمونہ، ملک کا انتظام چلانے میں صحیح طریقے سے آگے بڑھنا ہے اور بعض ملکوں کے برخلاف اور تمام تر دشمنیوں کے باوجود اقتدار قانونی طریقے سے اور ہنگامی اقدامات کی ضرورت کے بغیر منتقل ہوا ہے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ دشمن اپنے حرص کی بنیاد پر مایوس کن باتیں بیان کرتا ہے اور پہلے بھی اس طرح کی باتیں کی جاتی رہی ہیں لیکن ان سب کا غلط ہونا بعد میں ثابت ہو گيا، جیسے مسلط کردہ جنگ کے آغاز میں صدام کی ہرزہ سرائی اور ایک ہفتے میں تہران کو فتح کرنے کا اعلان یا پھر کچھ سال پہلے ایک امریکی جوکر کا بیان، جس نے کہا تھا کہ ہم کرسمس کا جشن تہران میں منائیں گے۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ مغرور امریکیوں کا یہ کھلا اعتراف کہ تہران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی میں ہمیں رسوا کن شکست ہوئي ہے، بہت اہم موضوع ہے جسے فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح حکومت کی جانب سے نالج بیسڈ کمپنیوں کی حمایت کیے جانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت، ملک میں سب سے بڑی صارف ہے اور حکومت کی جانب سے نالج بیسڈ کمپنیوں کی حقیقی حمایت کا صحیح مصداق، بے تحاشا درآمد کی روک تھام ہے۔

انھوں نے ملک کی سفارتکاری کے صحیح سمت میں بڑھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عہدیداروں کو ایٹمی مسئلے کی وجہ سے اپنی رفتار بالکل بھی کم نہیں کرنی چاہیے اور ملک کے داخلی حقائق کی بنیاد پر پروگرام تیار کرنا اور مشکلات کے حل کے لیے اقدام کرنا چاہیے۔

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مذاکرات کے ذمہ داروں کو انقلابی، دیندار اور انتھک کوششیں کرنے والا بتایا اور کہا: وزارت خارجہ اور مذاکرات کار، داخلی مراکز کو ایک دم صحیح رپورٹیں دے رہے ہیں۔ ان کی کارکردگی پر تنقید اور اظہار رائے میں کوئي حرج بھی نہیں ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ یہ کام بدگمانی پر مبنی نہ ہو اور جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے اسے میدان میں کام کر رہے لوگوں کی حوصلہ شکنی اور عوام کی مایوسی کا سبب نہیں بننا چاہیے۔

انھوں نے منہ زوری اور توسیع پسندی کے مقابلے میں ایران کی مذاکرات کار ٹیم کی استقامت پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: فریق مقابل، جس نے وعدہ خلافی کی اور ایٹمی معاہدے سے نکل گيا، اب پھنس جانے اور بند گلی میں پہنچ جانے کا احساس کر رہا ہے لیکن اسلامی نظام، جس نے عوام کے سہارے بہت سی مشکلات کو عبور کیا ہے، اس مرحلے سے بھی گزر جائے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں سنہ انیس سو اڑتالیس کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں، مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے مرکز میں فلسطینی نوجوانوں کی بیداری، جدوجہد اور کوشش کو سراہتے ہوئے کہا: ان کارروائیوں نے دکھا دیا کہ امریکا اور اس کے پٹھوؤں کی کوششوں کے باوجود فلسطین زندہ ہے اور کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا اور موجودہ کارروائيوں کے جاری رہنے سے اور خداوند عالم کے فضل و کرم سے حتمی فتح، فلسطینی عوام کی ہی ہوگي۔

آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسی طرح یمن کے مظلوم عوام کی شجاعت کی تعریف کرتے ہوئے سعودی حکام کو ہمدردانہ اور خیر خواہانہ نصحیت کی۔ آپ نے کہا: کیوں ایسی جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے بارے میں آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی فتح کا کوئي امکان نہیں؟ کوئي راستہ تلاش کیجیے اور اپنے آپ کو اس جنگ سے باہر نکالیے۔

انھوں نے یمن میں حالیہ فائر بندی کی تعریف کی اور کہا: اگر اس سمجھوتے پر صحیح معنی میں عمل درآمد ہو تو یہ جاری رہ سکتا ہے اور بلاشبہہ یمن کےعوام، اپنی اور اپنے قائدین کی ہمت، شجاعت اور جدت عمل سے فاتح ہیں اور خداوند عالم بھی ان مظلوم لوگوں کی مدد کرے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے آخر میں ملکی حکام کو نصحیت کرتے ہوئے کہا کہ منصب کی ذمہ داری کا موقع بہت تیزی سے گزر جاتا ہے اور اس کے ہر گھنٹے کی قدر سمجھنی چاہیے۔

اس ملاقات کی ابتدا میں صدر مملکت حجۃ الاسلام والمسلمین رئیسی نے حکومت کا مطمح نظر، اسلامی انقلاب کے نظریات کو بتایا اور حکومت کے عوامی ہونے،  انصاف پسند ہونے اور تغیر پسند ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا: حکومت کی جانب سے تغیر کا دستاویز، بہت سے ماہرین اور صاحب رائے افراد کی ہمفکری سے تیار کر کے شائع کیا گيا۔

انھوں نے اقدام اور عمل کو پروگرام سے زیادہ اہم بتایا اور کہا: وسیع پیمانے پر ویکسین کی فراہمی اور عوام کے تعاون سے نمایاں تبدیلی آئي اور روزگار کی صورتحال ایک بار پھر بہتر ہو گئي۔

صدر مملکت رئيسی نے حکومت کا سب سے اہم پروجیکٹ، عوام میں امید اور اعتماد پیدا کرنا بتایا اور کہا: قومی یکجہتی اور داخلی سرمایوں پر بھروسہ کرنے سے دشمن، ناامید ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے، مذاکرات اپنی جگہ ہیں لیکن ایٹمی معاہدہ، ملک کے مسائل میں سے ایک ہے اور ہم کسی بھی صورت میں عوام کی روٹی اور ملک کی معیشت کو، خارجہ مسائل سے نہیں جوڑیں گے۔