ایک چیز جس پر میں نے بارہا توجہ دي ہے، کبھی کبھی اسے بیان بھی کیا ہے اور جو قرآن کی دل دہلا دینے والی باتوں میں سے ایک ہے، وہ عظیم پیغمبر الہی حضرت یونس علیہ الصلاۃ و السلام کا واقعہ ہے: وَ ذَا النّونِ اِذ ذَھَبَ مُغاضِبا. وہ غصے میں کیوں تھے؟ اس لیے کہ ان کی قوم کے لوگ کافر تھے، وہ جو بھی کہتے تھے وہ لوگ نہیں مانتے تھے، حضرت یونس نے برسوں تک، اس قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی لیکن کوئي اثر نہیں ہوا، وہ بھی طیش میں آ گئے، ناراض ہو گئے اور ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔ ہم لوگ جو واجبات ترک کرتے ہیں اگر ان سے موازنہ کیا جائے تو یہ کسی بھی اعتبار سے کوئي بڑا کام نظر نہیں آتا لیکن خداوند عالم نے اسی کام پر ان کا مؤاخذہ کیا: فَظَنَّ اَن لَن نَقدِرَ عَلَيہ، انھوں نے سوچا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔ کیوں نہیں؟! سختی کریں گے! ان کے سلسلے میں سختی یہ تھی کہ وہ محبوس ہو گئے۔ اس کے بعد قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ پر کہا گیا ہے: فَلَو لا اَنَّہُ كانَ مِنَ المُسَبِّحين. لَلَبِثَ فی بَطنِہِ اِلىٰ يَومِ يُبعَثون۔ کیا بات ہے؟! ترک فعل کے باعث۔ اگر یہ تسبیح اور یہ گڑگڑانا اور یہ ذکر سُبحانَكَ اِنّی كُنتُ مِنَ الظّالِمين، کہ جس کے بارے میں ہے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو وہ قیامت تک مقید رہتے، محبوس رہتے۔ البتہ اس آيت کے بعد ایک خوش خبری بھی ہے: فَنادى فِی الظُّلُماتِ اَن لا اِلہَ اِلّا اَنتَ سُبحانَكَ اِنّی كُنتُ مِنَ الظّالِمينَ* فَاستَجَبنا لَہُ وَ نَجَّيناہُ مِنَ الغَمِّ وَ كَذٰلِكَ نُنجِی المُؤمِنين یہ "و کذلک ننجی المومنین" میرے اور آپ کے لیے خوش خبری ہے، مطلب یہ کہ ہم بھی اللہ کی تسبیح کر کے، اس کی حمد کر کے، استغفار کر کے، اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اور پروردگار عالم سے معذرت طلب کر کے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ بنابریں استغفار، ممنوعہ اور حرام کام کے ارتکاب پر بھی ہے اور صحیح کام نہ کرنے، بے عملی اور غلط کام کرنے پر بھی ہے۔ ان دونوں کے لیے استغفار ضروری ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022