بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
والحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا ونبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین
یہ جلسہ ہمارے عزیز شہید صدر مرحوم آقائے رئیسی اور دیگر شہدائے خدمت کی یاد میں منعقد ہوا ہے جو ان کے ساتھ اس تلخ حادثے میں شہید ہوئے؛ شہید آل ہاشم،(1) شہید امیر عبداللہیان(2) ایئر اسٹاف کے شہدا (3) صوبہ آذربائیجان کے گورنر(4) سیکورٹی ٹیم کے کمانڈر(5) آج ہی کے دن ان حضرات کی شہادت نے ملت ایران کو سوگوار کر دیا تھا۔
انسان کی زندگی میں تلخ وشیریں واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ ہم ان حوادث پر غور کریں اور ان حوادث کے تناظر میں تاریخ سے اپنے ماضی سے اور خود ان حوادث سے درس حاصل کریں۔
میں شہید رئیسی کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا، لیکن مقصد صرف تعریف نہیں ہے، اگرچـہ جو عرض کروں گا وہ اس شہید کی ستائش ہے لیکن مقصد، صرف ستائش نہیں ہے بلکہ درس حاصل کرنا ہے۔
ہم سب، ہماری مستقبل کی نسلیں، ہمارے نوجوان اور وہ لوگ جو اس ملک میں حکمرانی کریں گے، اس قوم کے لئے کام کریں گے، وہ سنیں، جان لیں اور دیکھیں کہ اس طرح کی زندگی، عوام کے جذبات پر، ملک کے مستقبل پر اور ملک کی حالت پر کیا اثر مرتب کرتی ہے؛ یہ سب درس ہے۔
پہلی بات جو شہید رئیسی کے بارے میں عرض کروں گا وہ یہ ہے کہ وہ اس آیہ شریفہ کے مصداق تھے کہ " تِلکَ الدّارُ الآخِرَة نَجعَلھا لِلَّذینَ لا یُریدونَ عُلُوًّا فِی الاَرضِ وَ لا فَسادًا " (6) یہ ملک چلانے کے لئے اہم معیار ہے۔ لا یُریدونَ عُلُوًّا فِی الاَرض۔ سورہ قصص میں، جس میں یہ آیت ہے، یہ آیت سورہ کے اواخر میں ہے، سورہ کے شروع میں ارشاد ہوتا ہے کہ اِنَّ فِرعَونَ عَلا فِی الاَرض (7) اس کا نقطہ مقابل یہ ہے؛ وہ بلندی چاہتا ہے: اَ لَیسَ لی مُلکُ مِصرَ وَ ھذہ الانھار تَجری مِن تَحتی (8) خود کو برتر سمجھنا، اپنا بوجھ لوگوں پر ڈالنا، اورعوام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، فرعونی حکومت کی خصوصیت ہے۔
اس کا بالکل برعکس، حکومت الہی کی خصوصیت ہے: لا یُریدونَ عُلُوًّا فِی الاَرض جس کے مصداق کامل شہید رئیسی تھے؛ ان کی سیاسی اور سماجی حیثیت بہت بلند تھی۔ وہ جو دورے کرتے تھے، ان میں آپ دیکھتے تھے، لوگوں سے جو ملاقاتیں کرتے تھے، لوگ ان سے کیسی عقیدت کا اظہار کرتے تھے، کتنے لگاؤ کا اظہار کرتے تھے، لیکن وہ خود کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھتے تھے۔ خود کو عوام کے برابر، ان کے جیسا اور بعض معاملات میں عوام سے بھی کمتر سمجھتے تھے۔ وہ اس نقطہ نگاہ کے ساتھ ملک پر حکمرانی کرتے تھے، حکومت چلاتے تھے اور امور کو آگے بڑھاتے تھے۔ ان سیاسی اور سماجی سہولتوں سے اپنے لئے کچھ نہیں چاہتے تھے۔ اپنے لئے کچھ نہیں لیتے تھے، ان کی ساری توانائی، ساری قوتیں، سب کچھ عوام کی خدمت کے لئے تھا، عوام کے لئے تھا، بندگان خدا کی خدمت کے لئے تھا۔ قومی عزت وآبرو کی بلندی کے لئے تھا؛ راہ خدا میں خدمت کے لئے تھا اور راہ خدمت میں ہی اپنے خدا سے جا ملے۔ یہ اس عزیز شہید کی بہت اہم خصوصیت تھی جو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ کہ اسلامی نظام میں ایسی خصوصیت رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن بہر حال ان سے درس حاصل کرنا چاہئے۔ اس کو عوام میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔
شہید رئیسی کا قلب خشوع اور ذکر خدا سے مملو تھا۔ ان کی زبان صریح اور صادق تھی۔ مستقل انتھک کام کرتے تھے۔ یہ تین خصوصیتیں ہیں: دل، زبان، اور عمل۔ کسی بھی انسان کی شخصیت اور ماہیت کو سمجھنے کے لئے، یہ تین بنیادی عناصر ہیں، اس کا دل، اس کی زبان اور اس کا عمل۔
شہید رئيسی کا دل، اہل ذکر و خشوع اور اہل توسل تھا؛ اس کا ہم نے اچھی طرح مشاہدہ کیا تھا۔ پہلے سے، صدر بننے سے پہلے حتی عدلیہ کا سربراہ بننے سے پہلے ہم مشاہدہ کرتے تھے، جانتے تھے کہ اہل خشوع اور اہل توسّل ہیں اور ان کا دل خدا سے مانوس تھا۔ ان کا دل ایک طرف ایسا تھا اور دوسری طرف عوام کے لئے مہربانی سے لبریز تھا۔ عوام سے گلہ مند نہیں تھے۔ عوام سے بدگمان نہیں تھے۔ عوام کی شکایت نہیں کرتے تھے۔ ایک بات جو بہت ہوتی تھی، وہ یہ تھی وہ عوام سے ملتے تھے، لوگ آتے تھے اور شکایت کرتے تھے، بولتے تھے، ممکن ہے کہ بعض اوقات تند باتیں کرتے ہوں، لیکن وہ عوام کے لئے مہربان تھے اور اس طرح کے سلوک سے، ایسی نگاہوں سے اور حرکتوں سے ناراض نہیں ہوتے تھے۔
دوسری طرف انہیں اسلامی فریضے کی انجام دہی کی فکر تھی۔ وہ خدا کے ساتھ بھی تھے اور عوام کے ساتھ بھی تھے۔ انہیں اسلامی فریضے کی انجام دہی کی فکر بھی تھی کہ فریضہ ادا ہوا کہ نہیں ۔ اس طرح جو انجام دیا، وہ کافی ہے یا نہیں؟ انہیں ہمیشہ یہ فکر لاحق رہتی تھی۔ مجھ سے مستقل طور پر ملتے تھے، نظر آتا تھا کہ انہیں کام کی فکر ہے۔ فریضے کی انجام دہی کا فکر ہے۔ ذمہ داری کی سنگینی محسوس کرتے تھے۔ انھوں نے عدلیہ کی سربراہی صرف شرعی فریضے کی حیثیت سے قبول کی تھی۔ یہ میں قریب سے جانتا تھا۔ صدارتی الیکشن میں صرف شرعی فریضے کی انجام دہی کے لئے حصہ لیا۔ اس احساس ذمہ داری کی بات بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ انھوں نے شرعی فریضے کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا۔ انھوں نے ذمہ داری کا احساس کیا اورآئے وہاں بھی اور یہاں بھی۔ ان کے دل میں یہ رجحان تھا۔ یہ ان کے دل کی حالت تھی۔
ان کی زبان: عوام سے صراحت اور صداقت سے بات کرتے تھے۔ وہ عوام سے ابہام اور ابہام آمیز علامتوں کے ساتھ بات نہیں کرتے تھے۔ صریح، واضح اور صادقانہ بات کرتے تھے۔ ان سے کہا گیا تھا کہ عوام سے کہیں کہ اگر کر سکے تو انجام دیں گے اور جہاں نہ کر سکے، وہاں عوام سے کہیں کہ نہیں کر سکتے ۔ وہ بھی اسی طرح عمل کرتے تھے۔ صراحت اور صداقت کے ساتھ۔ یہ صراحت اور صداقت حتی ان کی ڈپلومیسی کے مذاکرات میں بھی نظر آتی تھی اور سامنے والوں کو متاثر کرتی تھی۔ ڈپلومیسی کے مذاکرات میں جہاں باتیں گھمائی جاتی ہیں اور نیتیں چھپائی جاتی ہیں، وہ صراحت اور صداقت کے ساتھ بات کرتے تھے اور سامنے والے کو متاثر کرتے تھے اور وہ ان پر اعتماد کرتے تھے۔ جانتے تھے کہ جو کہتے ہیں صحیح کہتے ہیں۔ اپنے دور صدارت میں، پہلے انٹرویو میں، رپورٹر نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ امریکا سے مذاکرا ت کریں گے؟ انھوں نے کسی ابہام کے بغیر صراحت کے ساتھ کہا کہ نہیں اور نہيں کیا۔ انھوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ دشمن یہ کہہ سکے کہ میں دھمکی سے، لالج دے کر اور حیلے سے ایران کو مذاکرات کی میز پر لایا۔ انھوں نے یہ موقع نہیں دیا۔ یہ جو فریق مقابل براہ راست مذاکرات کے لئے اصرار کر رہا ہے، اس لئے ہے؛ اہم ہدف یہ ہے ، انھوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ البتہ بالواسطہ مذاکرات ان کے زمانے میں بھی تھے۔ جس طرح کہ اب ہو رہے ہیں۔ لیکن بے نتیجہ رہے۔ اب بھی ميں نہیں سمجھتا ہوں کا نتیجہ خیز ہوں گے، پتہ نہیں کیا ہوگا۔
مذاکرات کی بات ہوئی ہے تو میں بریکٹ میں، فریق مقابل کو ایک نصیحت کر دوں۔ امریکی فریق جو ان بالواسطہ مذاکرات میں بات کرتے ہیں اور بولتے ہیں، کوشش کریں کہ فضول کی باتیں نہ کریں۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ہم ایران کو یورینیم افزودگی کی اجازت نہیں دیں گے، یہ کچھ زیادہ ہی بڑا بول ہے۔ کوئی ان کی اجازت کا منتظر نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی اپنی سیاست ہے، اپنی روش ہے اور اپنی سیاست پر عمل کرتا ہے ۔ میں کسی اور موقع پر اس سلسلے میں ایرانی عوام کو بتاؤں گا کہ وہ جو افزودگی پر زیادہ بول رہے ہیں ، اس کی وجہ کیا ہے۔ امریکا اوریورپ والے اتنا اصرار کیوں کر رہے ہیں کہ ایران میں افزودگی کا کام نہ ہو؛ اس بات کی میں ان شاء اللہ کسی اور موقع پر وضاحت کروں گا تاکہ عوام معلوم ہو جائے کہ ان کی نیت کیا ہے۔
ان کی (شہید رئیسی کی) زبان ایسی تھی: زبان سچی، پاک، گرمجوشی سے بھری اور شفاف تھی۔ یہ بہت اہم ہے۔ اگر ہم اس طرح بولنے کی اہمیت اور قدر کو سمجھنا چاہیں، جو شہید رئیسی کا طریقہ تھا کہ صراحت اور صداقت کے ساتھ بات کریں، تو اس کا موازنہ ، بعض مغربی ملکوں کے سربراہوں کی بات سے کریں جنھوں نے برسوں سے چیخ چیخ کر امن اور انسانی حقوق کے دفاع کے دعوے کرکے دنیا کے کان کا پردہ پھاڑ دیا، مستقل انسانی حقوق کا دم بھرتے ہیں لیکن ہزاروں مظلوم بچوں کے قتل عام پر، بڑوں کے قتل عام کی بات نہیں ہے، مختصر مدت میں غزہ ميں ہزاروں بچے شہید کر دیے گئے، شاید بیس ہزار سے زائد بچـے قتل کر دیئے گئے اور یہ جو انسانی حقوق کا اتنا دم بھرتے ہیں، نہ صرف یہ کہ یہ قتل عام نہیں روکا بلکہ ظالم کی مدد بھی کی! ان کے صلح اور امن کے دعوؤں، ان کے انسانی حقوق کے دعوؤں اور ان کی جھوٹی زبان کا شہید رئیسی جیسے ایک صدر کی صداقت اور صراحت سے موازنہ کریں تو اس کی اہمیت معلوم ہوگی۔ یہ ان کی زبان اور وہ ان کا دل۔
تیسرا عمل۔ شہید مستقل کام کرتے تھے؛ مستقل! رات اور دن نہیں دیکھتے تھے۔ انتھک محنت کرتے تھے۔ میں بار بار ان سے کہتا تھا کہ تھوڑا سا خیال رکھیں، ممکن ہے کہ طبیعت برداشت نہ کر سکے، بعض اوقات انسان گر جاتا ہے پھر کام نہیں کر سکتا۔ کہتے تھے، ميں کام سے نہيں تھکتا۔ مستقل کام ، مستقل کام اور معیاری کام، عوام کی خدمت، براہ راست عوام کی خدمت۔ فرض کریں ایک شہری کو پانی کی پائپ لائن جوڑنا ہے، پانی پہنچانا ہے، راستہ نکالنا ہے، روزگار فراہم کرنا ہے، کئی ہزار بند پڑے کارخانوں کو چلانا ہے، جو کام تین سال چار سال میں ختم ہو جانا چاہئے، وہ دس پندرہ سال سے ادھورا پڑا تھا، شہید رئیسی نے ان کاموں کا بیڑا اٹھایا، بہت سے شہروں ميں یہ کام کئے، ان شہروں کے عوام نے نزدیک سے یہ خدمت دیکھی اور اس کو محسوس کیا۔ یہ ایک طرح سے عوام کی خدمت تھی۔
ایک خدمت، ملی عزت و آبرو اور ملت ایران کے اعتبار کی ہے؛ ملت ایران کا اعتبار! یہ بات کہ بین الاقوامی مالیاتی مراکز کے کہنے کے مطابق ایران کا اقتصادی نمو، تین سال میں صفر سے پانچ فیصد تک پہنچ گیا، یہ قومی افتخار ہے۔ یہ ملی عزت ہے، یہ ملک کی پیشرفت کی علامت ہے؛ یہ ہوا اور اس طرح کے بہت سے کام ہوئے۔ مختلف عالمی اقتصادی تنظیموں میں رکنیت حاصل کرنا اور اسے محکم کرنا، ملت ایران کے لئے بین الاقوامی افتخار کی بات ہے۔ صدر مملکت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہاتھ میں قرآن اٹھائے، یا شہید سلیمانی کی تصویر ہاتھ میں اٹھائے،یہ قوم کے لئے باعث افتخار ہے جو قوم کی عزت بڑھاتا ہے۔ یہ دوسری طرح کی خدمت ہے۔ دونوں طرح کی خدمت ان برسوں میں اس شہید عزیز نے انجام دی۔
ان باتوں سے میں جو نتیجہ اخذ کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے: اہم یہ ہے کہ شہید رئیسی اور ان کے بہت سے نوجوان ساتھیوں میں وہی جذبہ اور نورانیت کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، جو شہید رجائی کے ساتھیوں، جیسے کلانتری(9) جیسے عباس پور(10)جیسے قندی(11)جیسے نیلی (12) اور ان جیسے دوسرے لوگوں میں دیکھتے تھے، وہی نورانیت، وہی جذبہ، وہی ولولہ، وہی احساس ذمہ داری؛ اور وہ بھی چالیس برس بعد! یہ بہت اہم ہے؛ یہ وہی انقلابی قوت ہے۔ اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ انقلاب، ایک طاقتور انقلاب ہے، یہ وہی امام بزرگوار کی فتح الفتوح ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے انقلاب کے وسیلے سے، کارآمد اور ایثاروفداکاری کا جذبہ رکھنے والے لوگوں کی تربیت کو فتح الفتوح کہا ہے، یہ حاصل ہوئی۔
جب 1979 میں انقلاب کامیاب ہوا تو شہید رئیسی اٹھارہ برس کے نوجوان تھے؛ شہید آل ہاشم سولہ برس کے تھے، شہید امیر عبداللہیان چودہ برس کے بچے تھے، شہید مالک رحمتی پیدا نہيں ہوئے تھے؛ یہ انقلاب کے پروردہ تھے۔ شہید رئيسی مشہد سے، آل ہاشم تبریز سے، رحمتی مراغہ سے، امیر عبداللہیان دامغان سے، موسوی اصفہان کے فریدون شہر سے، مصطفوی گنبد قابوس سے، دریا نوش نجف آباد سے، قدیمی ابہر سے؛ یہ نوجوان ملک کے گوشہ وکنار سے اٹھے اور نمو حاصل کیا۔ انقلاب نے ان نوجوانوں جیسے لاکھوں لوگوں کی تربیت کی اور ان میں سے ممتاز بین الاقوامی شخصیات، ممتاز ہستیاں، ملت ایران کو دیں؛ یہ انقلاب کا کام ہے، یہ انقلاب کی طاقت ہے، یہ انقلاب کا امتیاز ہے کہ اس نے چالیس برس میں اسّی نوے برس کی ایک ضعیف العمر ہستی شہید آیت اللہ اشرفی(13) اور ایک اٹھارہ سال کے نوجوان شہید آرمان علی وردی کو ایک صف میں کھڑا کر دیا، انہیں تیار کیا اور آگے بڑھایا۔ اس نوجوان جیسے بہت سے نوجوان، اسی راہ میں شہید ہوئے جس میں شہید اشرفی اور شہید صدوقی جیسی ہستیاں شہید ہوئيں، سن رسیدہ افراد ابتدائے انقلاب میں شہید ہوئے۔ انقلاب ميں یہ توانائی پائی جاتی ہے کہ اس نے ان برسوں میں ایسے نوجوان تیار کر دیے۔ یہ ناقابل شکست ہے۔
انقلاب کی قدر کو جانیں، اس کی تربیت اور شخصیت کی تعمیر کی قدر کو سمجھیں، ملت ایران کی اس عظیم تحریک کی قدر سمجھیں، خدا سے نصرت طلب کریں اور اس راہ پر آگے بڑھیں؛ ان شاء اللہ ملت ایران بشریت کے لئے ایک جاویدانی درس رقم کرے گی اور فضل الہی سے یہ خدمت پوری دنیا، پوری بشریت کو پیش کرے گی۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ حجت الاسلام سید محمد علی آل ہاشم(تبریز کے امام جمعہ اور صوبہ مشرقی آذربائیجان میں نمائندہ ولی فقیہ)
2۔ جناب امیر عبداللہیان ( وزیر خارجہ)
3۔ بریگيڈیئر پائلٹ سید طاہر مصطفوی، بریگیڈیئر پائلٹ، محسن دریا نوش اور کرنل بہروز قدیمی
4۔ جناب مالک رحمتی
5۔ بریگیڈیئر سید مہدی موسوی
6۔ سورہ قصص، آیت نمبر 83؛"آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے ہے جو زمین پر برتری نہیں چاہتے اور بدعنوانی نہیں پھیلاتے۔۔۔۔"
7۔ سورہ قصص، آیت نمبر 4؛"فرعون نے زمین پر ( سرزمین مصر میں) سرکشی کی۔
8۔ سورہ زخرف، آیت نمبر 51؛ "۔۔۔۔۔ کیا مصر کی بادشاہت اور یہ نہریں جو میرے محل کے نیچے جاری ہیں، میری نہیں ہیں"۔۔۔۔"
9۔ شہید موسی کلانتری (شہید رجائی کی کابینہ میں روڈ اور ٹرانسپورٹ کے وزیر تھے) 28 جون 1982 کو جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں بم کے دھماکے میں شہید ہوئے۔
10۔ شہید عباس پور(شہید رجائی کی کابینہ کے وزير توانائی) 28 جون 1982 کو جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں بم کے دھماکے میں شہید ہوئے
11۔شہید محمود قندی ( شہید رجائی کی کابینہ کے پوسٹ اور ٹیلی کمیونکیشن کے وزیر) 28 جون 1982 کو جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں بم کے دھماکے میں شہید ہوئے
12۔ شہید حسن نیلی احمد آبادی ( 1983 سے 1985 تک، محکمہ دھات و معدنیات کے وزیر) 29 جون 1989 کو جو ذمہ داری انہیں سونپی گئی تھی اس کی ادائگی اورخدمت کے دوران شہید ہوئے۔
13۔ شہید آیت اللہ عطاء اللہ اشرفی اصفہانی (کرمانشاہ کے امام جمعہ)