آج ہم اس بات کے شاہد ہیں کہ مغربی ایشیا کے علاقے کے حالات میں امریکا کا کردار کم ہو گيا ہے۔ خطے میں امریکا کی خارجہ پالیسی کا جائزہ بھی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اب یہ ملک مغربی ایشیا کے علاقے کے رشتوں کو طے کرنے والا، اصلی اور فیصلہ کن ملک نہیں ہے، چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا، اس علاقے میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں سب سے  بڑی شکست سے دوچار ہو چکا ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے مغربی ایشیا کی حالیہ تاریخ کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر سلطنت عثمانی کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد فرانس کے ایک جرنیل پیکو اور ایک انگریز جنرل سائکس کے درمیان سائکس-پیکو نامی معاہدہ ہوا۔ دونوں نے اس معاہدے میں عملی طور پر مغربی ایشیا کے خطے کو، جو زیادہ تر سلطنت عثمانیہ کی زیر حکمرانی تھا، اپنے درمیان تقسیم کر لیا، اس طرح سے کہ گویا وہ نقشے پر رولر رکھ کر، علاقوں کو اپنے نام کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر لبنان، فرانس کے حصے میں آیا جبکہ عراق، برطانیہ کو ملا۔ اسی معاہدے نے فلسطین کے بحران اور اس پر غاصبانہ قبضے کا بیج بھی بو دیا۔ کافی عرصے تک فرانس اور برطانیہ ہی مغربی ایشیا کے علاقے کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے اور اس خطے کا انتظام کس طرح سے چلایا جائے، اس کا تعین وہی کرتے رہے۔ پھر فرانس کی طاقت کا زوال شروع ہوا اور وہ علاقے سے تقریبا باہر ہی نکل گيا۔ البتہ برطانیہ نے اس کے بعد بھی اپنا یہ کردار جاری رکھا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کی طاقت بھی زوال کا شکار ہونے لگی اور بیسویں صدی کے نصف دوم میں اس میں، معاشی طور پر مغربی ایشیا کے علاقے کا نظم و نسق سنبھالنے کی سکت نہیں رہ گئي۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ریاستہائے متحدہ امریکا کے نام سے ایک نئی طاقت منصۂ ظہور پر آئي اور اس نے خطے میں برطانیہ کی جگہ لے لی۔ سنہ انیس سو اسّی کے عشرے کے بعد سے مغربی ایشیا کے علاقے کا انتظام، امریکا اور وائٹ ہاؤس کے ذریعے چلایا جانے لگا۔ اس عمل کی مثال ہم خلیج فارس کی پہلی جنگ میں دیکھ سکتے ہیں؛ یعنی وہ وقت جب عراق کی بعثی حکومت نے کویت پر حملہ کیا اور ایران، سعودی عرب اور ترکی سمیت خطے کا کوئي بھی ملک جنگ میں شامل نہیں ہوا بلکہ امریکا، سات سمندر پار سے پولیس مین بن کر یہاں پہنچا اور اس نے اس علاقے میں نظم و نسق کے لیے اپنا مطلوبہ نسخہ پیش کر دیا۔

یہ عمل سنہ دو ہزار بیس تک جاری رہا جس میں شام میں علاقائي نظم کو تبدیل کرنے کی امریکا کی کوشش کو بری طرح سے شکست کا سامنا ہوا؛ یعنی امریکا نے خلیج فارس کی پہلی جنگ کی طرح شام میں، جو مغربی ایشیا کے علاقے میں سلطنت عثمانیہ کے باقی ماندہ ممالک میں سے ایک ہے، اپنا مطلوبہ قاعدہ نافذ کرنے کی کوشش کی لیکن ایران نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور مداخلت کر دی۔ اس طرح ایران کا مطلوبہ نظام قائم رہا۔

شام کے قضیئے کے بعد ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر سائکس - پیکو کے عہد میں فرانس اور برطانیہ، مغربی ایشیا کا انتظام چلا رہے تھے اور اس کے بعد یہ رول، صرف برطانیہ تک محدود ہو گيا تھا اور اس کے بعد امریکا کو مل گيا تھا تو اب یہ استقامتی محاذ ہے جو مغربی ایشیا کے نظام کو طے کر رہا ہے۔

یہی عمل، یمن میں بھی جاری ہے لیکن اس سے پہلے بارہا، اس کے بالکل برخلاف ہوتا رہا ہے؛ مثال کے طور پر جب عمان میں بعض حریت پسند اور باغی تحریکیں، اس ملک پر قبضہ کر رہی تھیں اور سرد جنگ کے زمانے میں ان تحریکوں کے بائيں بازو کی طرف جھکاؤ کے سبب یہ کام امریکا اور مغربی بلاک کے لیے نقصان دہ سمجھا جا رہا تھا، تب پہلوی دور کے ایران نے، جو خطے میں امریکا کا چوکیدار تھا، امریکا کی نمائندگي میں عمان میں اپنے فوجیوں کو بھیج کر، باغیوں کی سرکوبی کی اور حکومت کو واپس اقتدار میں لوٹا دیا اور یوں خطے میں امریکی نظام کو دوبارہ بحال کر دیا۔ حالیہ برسوں میں یہی کردار سعودی عرب نے یمن میں ادا کیا ہے۔ سعودی عرب چاہ رہا تھا کہ اسلامی انقلاب کے بعد کے حالات میں، پہلوی دور کے ایران کا متبادل بن جائے۔ اس علاقے میں، انصار اللہ کی عوامی اور حریت پسند تحریک، جو اسلامی بیداری سے متاثر ہے، اس اسٹریٹیجک ملک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے اور امریکی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس کے مقابلے میں سعودی عرب نے بھاری فوجی مداخلت، بے شمار جرائم اور طرح طرح کے ہتھیار استعمال کر کے امریکا کی نیابت میں اور اس کی پشت پناہی سے، امریکی اہداف کو آگے بڑھانے اور انصار اللہ کو کنارے لگانے اور اس کی سرکوبی کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔

شام میں امریکا کی اسٹریٹیجک شکست، یمن میں امریکا کے پراکسی سعودی عرب کی سنگین شکست، ایران سے رابطے کے لیے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے عرب ملکوں کی کوششیں، روس اور چین جیسے مشرقی ملکوں سے رشتے استوار کرنے کی ان کی کوششیں اور اسی طرح کے دوسرے اہم تغیرات، اس بات کو عیاں کرتے ہیں کہ مغربی ایشیا کے خطے میں امریکا کو اس وقت پوری طرح سے شکست ہو چکی ہے۔ درحقیقت ان تغیرات کا جائزہ لے کر، بغیر کسی مبالغے کے اور امریکا مخالف کسی لیبل کے بغیر صرف اکیڈمک زاویہ فکر کی بنیاد پر بھی اس نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے کہ امریکا کو اس علاقے میں پوری طرح سے ایک شرمناک شکست ہو چکی ہے۔

اسی طرح جو کچھ افغانستان میں ہوا اور جسے بعض ذرائع ابلاغ نے اس ملک سے امریکا کے اسمارٹ انخلاء کا نام دینے کی کوشش کی، اس سے یہ واضح ہو گيا کہ درحقیقت امریکا نے افغانستان سے راہ فرار اختیار کی ہے۔

استقامتی محاذ کی بنیاد، اصل میں اسلامی انقلاب ہے۔ یہ بات واشگاف الفاظ میں کہی جا سکتی ہے کہ اگر ایران میں اسلامی انقلاب نہ ہوتا تو استقامتی محاذ کا وجود ہی نہ ہوتا اور اگر مغربی ایشیا کے علاقے میں استقامتی محاذ نہ ہوتا تو بلاشبہ اس وقت، خطے میں امریکی نظام پوری طرح سے استوار ہوتا۔ یہ چیز اس شجرۂ طیبہ کی عکاسی کرتی ہے جس کا بیج امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ایران میں بویا تھا اور اب وہ پودا ایک تناور درخت بن چکا ہے جو کہنے میں تو شاید نعرہ دکھائي دے لیکن اس کے مصادیق کا جائزہ لے کر اس کی حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے۔