فلسطین کا قضیہ حل کرنے اور اس پرانے زخم کا مداوا کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ کی تجویز بالکل واضح، معقول اور عالمی رائے عامہ کی سطح پر مسلمہ سیاسی امور کے مطابق ہے جسے پہلے ہی بالتفصیل پیش کیا جا چکا ہے۔

ہم نے نہ تو اسلامی ممالک کی روایتی جنگ کی تجویز دی ہے، نہ ہی ہجرت کرکے آنے والے یہودیوں کو سمندر میں غرق کر دینے کی بات کہی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کی قضاوت کی پیشکش کی ہے۔ ہم نے فلسطینی قوم کے درمیان استصواب رائے کرانے کی تجویز دی ہے۔

دوسری اقوام کی طرح فلسطینی قوم کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے اور نظام کی تشکیل عمل میں لانے کا حق ہے۔ باہر سے آئے ہوئے مہاجرین نہیں، فلسطین کے اصلی عوام وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی، فلسطین کے اندر رہتے ہوں یا پناہ گزیں کیمپوں میں یا پھر دیگر مقامات پر، سب ایک شفاف ریفرنڈم میں شرکت کریں اور فلسطین کے لئے نظام حکومت کا انتخاب کریں۔ اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والا نظام اور حکومت جب امور کو سنبھال لے تب غیر فلسطینی مہاجرین کے مستقبل کا فیصلہ کرے جو گزشتہ برسوں کے دوران اس ملک میں لاکر بسائے گئے ہیں۔

 یہ ایک منصفانہ اور منطقی تجویز ہے جسے عالمی رائے عامہ بھی بخوبی سمجھتی ہے اور اس کے لئے خود مختار حکومتوں اور قوموں کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ البتہ ہمیں غاصب صیہونیوں سے یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ آسانی سے اسے مانیں گے۔ اسی مرحلے کے لئے مزاحمتی تنظیموں، قوموں اور حکومتوں کے کردار کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ ملت فلسطین کی مدد کا سب سے بنیادی طریقہ غاصب دشمن کی پشت پناہی بند کر دینا ہے جو اسلامی حکومتوں کا بہت بڑا فریضہ ہے۔

امام خامنہ ای

1/10/2011