بسم اللہ الرّحمن الرّحیم.

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاہرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

آپ سب کا خیر مقدم ہے، مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ بحمد اللہ دو سال بعد یا تین سال بعد ایک بار پھر یہ توفیق حاصل ہوئي کہ آپ لوگوں کی، محنت کش سماج کے نمائندوں کی قریب سے زیارت کر سکوں اور ان سے باتیں کر سکوں۔

مزدوروں اور محنت کشوں سے ہماری اس سالانہ ملاقات کا مقصد، مزدوروں کی قدردانی، ان کا شکریہ ادا کرنا اور خود کام کی قدر و منزلت پر تاکید کرنا ہے۔ یہ دوسری  چیز شاید پہلی سے زیادہ اہم ہے۔ ہمارے ملک میں کام کی قدر و منزلت جیسی ہونی چاہیے، ویسی عام لوگوں کے لیے واضح نہیں ہے۔ اسلام میں کام کرنا اقدار کا حصہ ہے، میں عرض کروں گا کہ اسلام میں مزدور کے سلسلے میں بھی یہی نظریہ ہے۔ اسلام، ہر چیز سے الگ ہے۔ مجھے جو رپورٹ دی گئی ہے اس کے مطابق ہمارے معاشرے میں جو لوگ کام کے متلاشی ہیں، ان کی تعداد بہت سے دوسرے ممالک سے کم ہے، کیوں؟ جو شخص کام چاہتا ہے اور کام نہیں اور روزگار کے مواقع نہیں ہیں، اس کے پاس ایک عذر ہے لیکن جو شخص کام کرنا ہی نہیں چاہتا، اسلام اس طرح کے رجحان کی مخالفت کرتا ہے۔ اسلام اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ انسان 'سعی' کرے، کام کرے، کوشش کرے۔ یہ سعی اور کام، معاشرے کی زندگي کو بہتر بناتا ہے کیونکہ اگر کام نہ ہو تو زندگي نہیں چلے گی۔ مزید بر آں یہ کام، خود مزدور کے لیے ایک سرمایہ ہے کیونکہ یہ اسے اپنی شناخت کا احساس عطا کرتا ہے۔ جو شخص کام نہیں کرتا اور کام کا خواہاں نہیں ہے وہ اپنی شناخت محسوس نہیں کرتا بلکہ وہ عدم تشخص کا احساس کرتا ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اپنے عزیز محنت کشوں کا شکریہ بھی ادا کریں اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کرتے ہوئے آپ کے ہاتھوں کا بوسہ لیں اور ساتھ ہی معاشرے میں کام کی قدر و قیمت کو بھی واضح کریں۔ کام اسلام میں قدروں میں شامل ہے۔ ملک میں اس بات کو دوہرایا جانا چاہیے، بار بار کہا جانا چاہیے، کلچر تیار کیا جانا چاہیے تاکہ ہم کہہ سکیں کہ جو لوگ بر سر روزگار ہیں اور جو لوگ کام کے متلاشی ہیں ان کی تعداد آبادی کے لحاظ سے کافی زیادہ ہے اور یہ چیز ہمیں مستقبل میں دیکھنا چاہیے۔ یہ چیز کام اور روزگار کے متعلقہ عہدیداروں منجملہ وزارت محنت کے پروگراموں اور ایجنڈے میں شامل ہونا چاہیے۔ محترم وزیر نے جو باتیں کہیں وہ بڑی اچھی باتیں تھیں، بڑی اچھی رپورٹ تھی۔ جو فیصلے آپ نے کیے ہیں، ان پر عمل کیجیے تاکہ یہ فیصلے عملی جامہ پہن سکیں۔ خاص طور پر جسے میں نے نوٹ بھی کیا ہے، مہارت میں اضافہ، میں اس کے بارے میں کچھ باتیں عرض بھی کروں گا، یہ چیز بہت زیادہ اہم ہے، محنت کش اور مزدور کے لیے مہارت افزائی کے مراکز کی تشکیل ملک میں کام، روزگار اور مزدور و محنت کش کے مسائل میں ایک انتہائي حیاتی مسئلہ ہے۔

خیر، مزدور کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ قدردانی پر مبنی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے نظریے سے بھی الگ ہے اور بکھر چکے کمیونسٹ نظام سے بھی مختلف ہے۔ مزدور کے سلسلے میں سرمایہ دارانہ نظاموں کا نظریہ، فائدہ اٹھانے اور استحصال کرنے والا نظریہ ہے۔ مزدور، ان کی نظر میں ثروت کے حصول کا ایک وسیلہ ہے، ذریعہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا نظریہ یہ ہے، اسے وہ چھپاتے بھی نہیں ہیں۔ اگر آپ ان کی معاشیات کی کتابوں پر نظر ڈالیں گے تو اسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی نظر میں، مزدور ایک ذریعہ ہے اور ایک وسیلہ ہے، اس وسیلے کو حاصل کرنا چاہیے اور اسے استعمال کرنا چاہیے تاکہ سرمائے کا مالک، مال و ثروت تک پہنچ سکے۔ نظریہ یہ ہے۔ اگر کبھی محنت کش کو کچھ سہولت دیتے بھی ہیں تو وہ اس لیے ہے کہ یہ مزدور، ان کے سرمائے میں اضافہ کرنے کا کام جاری رکھے، چھوڑ نہ دے، غصہ نہ ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا نظریہ ہے۔

اشتراکی اور کمیونسٹ نظاموں کا نظریہ، نعرے بازی تک محدود تھا۔ اس کا نام تو یہ تھا کہ یہ نظام، مزدوروں اور محنت کشوں کا نظام ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ – مجھے علم نہیں ہے کہ آپ تاریخ کی کتابوں سے آشنائی رکھتے ہیں یا نہیں– اسٹالن یا خروشچف کے زمانے کا روس– یہ وہی لوگ ہیں جو ہمارے زمانے میں تھے اور ہم اپنی جوانی کے زمانے میں اور مطالعے اور دیگر مشغلوں کے دوران قریب سے ان کے حالات دیکھ رہے تھے– ان نظاموں کا نام، محنت کشوں کا نظام تھا لیکن ان کے سربراہ، قدیم زمانے کے سلاطین جیسی زندگي گزارتے تھے۔ مزدور کی حمایت کا کوئي نام و نشان نہیں تھا۔ دباؤ پورے سماج پر، مزدور طبقے پر تھا۔ اگر آپ ان کی کتابوں پر بھی نظر ڈالیں گے تو یہی دیکھیں گے۔ ان لوگوں نے جو کتابیں لکھی ہیں، چاہے وہ سوانح حیات ہوں، فن و ہنر سے متعلق ہوں یا ناول وغیرہ ہوں، سبھی میں یہ چیز واضح طور پر دکھائي دیتی ہے۔ مزدور کا دفاع اور مزدور کے بارے میں نظریہ، نعرے بازی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ بس نعرہ ہی لگاتے تھے کہ یہ نظام، مزدوروں کا نظام ہے۔

اسلام میں، نہ وہ ہے نہ یہ ہے۔ نظریہ قدرشناسی کا ہے، اہمیت دینے اور قدر کرنے کا ہے۔ وہ کام اور محنت کش کی قدر کرتا ہے۔ پیغمبر کا مزدوور کے ہاتھ چومنے کا واقعہ، جسے جناب عالی نے نقل کیا، اسی بات کی طرف تو اشارہ ہے۔ مطلب یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ہاتھ، مزدور کا ہاتھ ہے تو وہ جھکتے ہیں اور اسے چومتے ہیں۔(2)

روایت میں ہے کہ ایک نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے گزرا، ایک وجیہ اور رعنا نوجوان تھا، پیغمبر کو وہ نوجوان اچھا لگا، غالبا آپ نے اسے بلایا اور اس سے دو سوال پوچھے: ایک یہ کہ تم نے شادی کر لی ہے: اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: تمھارا کام کیا ہے؟ اس نے کہا: بے روزگار ہوں۔ پیغمبر نے فرمایا: سَقَطَ مِن عَینی۔ یہ نوجوان میری نظروں سے گر گيا۔(3) کام کا معاملہ یہ ہے۔ سَقَطَ مِن عَینی۔ اس نوجوان کے بارے میں جس کا رویہ یا مثال کے طور پر چال ڈھال پیغمبر کو پسند آئی تھی، رسول اللہ نے کہا کہ میری نظروں سے گر گيا، اس لیے کہ کام نہیں کرتا۔ اسلام، کام کو اس نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ کام کو انسانی اقدار کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور اسے اہمیت دیتا ہے۔ خیر تو یہ باتیں، کام اور مزدور کے بارے میں ہماری اصل رائے اور اس نشست اور آپ عزیزوں سے ملاقات کے بارے میں تھیں۔

جہاں تک مزدوروں کی بات ہے تو ہم نے اس بارے میں بہت باتیں کی ہیں۔ میں نے برسوں تک مزدوروں اور ان کی خصوصیات کے بارے میں بات کی ہے لیکن محنت کشوں کے بارے میں ایک دو باتوں کو ایک بار پھر دوہرانا، اچھا ہے اور یہ اہم ہے۔ ہمارے مزدور اور محنت کش یعنی انقلاب کے دور کے مزدوروں نے – انقلاب سے پہلے صورتحال الگ تھی – اب تک یہی دکھایا ہے کہ تمام میدانوں میں ان کے قومی جذبات و محرکات درخشاں اور نمایاں ہیں۔ تمام میدانوں کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ عسکری میدان میں بھی، معاشی میدان میں بھی اور سیاسی میدان میں بھی۔

فوجی و عسکری میدان میں سب سے نمایاں اور سامنے کا منظر، مقدس دفاع کے زمانے کا ہے۔ ہمارے یہاں چودہ ہزار شہید مزدور ہیں۔ چودہ ہزار! اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ محاذ پر جانے والے کتنے مزدوروں میں سے ایک شہید ہوا ہے۔ یقینی طور پر دسیوں مزدوروں میں سے ایک شہید ہوا ہے، مطلب یہ کہ جتنے مزدور شہید ہوئے ہیں، ان سے دسیوں گنا زیادہ مقدس دفاع میں شریک ہوئے ہیں۔ البتہ مزدور کا محاذ پر جانا، کسی نوجوان رضاکار کے محاذ پر جانے سے الگ ہے۔ عام طور پر مزدور کی بیوی ہے، بچے ہیں، شاید ایک سے زیادہ بچے ہیں، ماں باپ ہیں۔ اب اگر یہ ان لوگوں کی محبت کے باوجود اپنے دل پتھر رکھ کر جاتا ہے، مقدس دفاع کی طرف روانہ ہو جاتا ہے اور اپنی جان اپنی ہتھیلی پر رکھ لیتا ہے تو یہ اس نوجوان سے بہت الگ جس کے بال بچے نہیں ہیں اور وہ میدان جنگ میں جاتا ہے۔ فوجی میدان میں ایسا ہی ہے۔ آج بھی اگر کوئي فوجی مسئلہ درپیش آت ہے تو یقینی طور پر محنت کش، پہلی صف میں شامل رہنے والوں میں ہوں گے۔

اب آتے ہیں معاشی میدان کی طرف۔ البتہ انقلاب کی ابتدا سے ہی یہ سامراج کی پالیسی تھی اور ان حالیہ دس پندرہ برسوں میں پوری طرح آشکار ہو گئي ہے۔ ان کی پالیسی ملک میں پیداوار کو ٹھپ کر دینے کی تھی۔ دشمن کی پالیسی یہ تھی۔ یہ پابندیاں وغیرہ اسی لیے تھیں کہ ملک میں پیداوار ٹھپ ہو جائے، جب پیداوار رک جاتی ہے تو ملک خالی ہاتھ اور محتاج ہو جاتا ہے۔ اس کی نگاہیں، دوسروں پر لگی ہوتی ہیں۔ معاشی دباؤ کا اہم اور حتمی ہدف، پیداوار کو ٹھپ کر دینا تھا۔ ہمارے مزدور اور محنت کش، فرنٹ لائن پر آ کر ڈٹ گئے اور انھوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات کچھ برسوں میں ملکی پیداوار، پہلے سے زیادہ بھی رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے مزدور، معاشی میدان میں فرنٹ لائن پر ڈٹے ہوئے تھے۔ آجر یا کام دینے والے کے حقوق میری نظر میں ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ میں ان کی حمایت نہیں کرتا –اس پر میں بعد میں روشنی ڈالوں گا– لیکن اس معاملے میں جو ریڑھ کی ہڈی تھا، وہ مزدور اور محنت کش طبقہ تھا۔ یہ معاشی میدان کا ایک نکتہ تھا۔

اور اب سیاسی میدان۔ انقلاب کے ابتدائي دنوں سے ہی مزدوروں کو ورغلانے کا کام شروع ہو گيا۔ میں خود قریب سے اس چیز کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ انقلاب کی کامیابی سے متصل دنوں میں ہی ایک کارخانہ ان کے اجتماعات کا مرکز بن گيا تھا –یعنی اٹھارہ، انیس، بیس اور اکیس بہمن(مطابق 7،8،9،10 فروری)– اتفاق سے مجھے لینے آ گئے، میں کام میں مصروف تھا، ان دنوں بہت زیادہ کام ہوتا تھا لیکن میں ان کے ساتھ چلا گیا، میں گيا اور کئي دن اس کارخانے میں رہا۔ یعنی رات کو آتا تھا اور پھر صبح چلا جاتا تھا۔ میں نے قریب سے دیکھا کہ وہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ تقریریں، اشتعال انگیزی، ورغلانے کی کوشش۔ انقلاب کی کامیابی کے تیسرے یا چوتھے دن– 14 یا 15 فروری کو – ان لوگوں نے امام خمینی کے گھر کی طرف جلوس نکالا! مزدوروں کو بھڑکانے کا سلسلہ اسی دن سے شروع ہو گيا، اب بھی یہ کام ہو رہا ہے۔ اس وقت بھی محنت کشوں کو ورغلایا جا رہا ہے۔

ان کا ارادہ یہ تھا کہ مزدور طبقے کو اور محنت کش سماج کو، عوامی اعتراضات کے پلے بورڈ اور علامت میں تبدیل کر دیں لیکن مزدور طبقے نے ان کی ناک زمین پر رگڑ دی اور ایسا نہیں ہونے دیا، وہ اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے ساتھ کھڑا رہا۔

البتہ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ مزدوروں نے اعتراض کیا ہے، ان کا اعتراض صحیح بھی تھا۔ میں مسائل پر نظر رکھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ بعض موقعوں پر اکٹھا ہو کر  اعتراض کرنے والے محنت کشوں کا اعتراض صحیح تھا۔ فرض کیجیے کہ ایک کارخانے کو حکومت، کسی شخص کے حوالے کرتی ہے، وہ شخص کارخانہ چلانے کے بجائے اس کا سامان بیچ دیتا ہے، مزدوروں کو نوکری سے نکال دیتا ہے، کارخانے کی زمین پر مثال کے طور پر ہوٹل بنانا چاہتا ہے۔ تو ایسے موقعے پر مزدور باہر نکل آتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں۔ اس احتجاج میں بھی مزدوروں نے ہمیشہ دشمن سے اپنی راہ کو پوری طرح سے الگ رکھا ہے۔ یعنی انھوں نے اپنے صحیح اعتراض سے دشمن کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا ہے۔ یہ باتیں اہم ہیں۔ یہ چیز بہت اہم ہے۔ اس طرح کے ہوشیار، بابصیرت اور ذمہ دار لوگوں کا شکریہ کیسے ادا کیا جا سکتا ہے؟

تو یہ ہمارے مزدور سماج کی کچھ خصوصیات ہیں جنھیں ہم کئي بار بتا چکے ہیں تاہم ایک بار پھر دوہرانا ضروری تھا، آپ عزیز محنت کشوں کو بھی اور عام لوگوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے سماج میں کیا ہو رہا ہے۔ مزدور طبقے کی کچھ مشکلات ہیں –میں اشارہ کروں گا اور ان شاء اللہ، خداوند عالم کی مدد سے اس نئي حکومت کی پالیسیوں سے یہ مشکلات رفتہ رفتہ دور ہو جائيں گي لیکن بہرحال اس وقت مشکلات تو ہیں ہی– ان مشکلات کے باوجود، محنت کش اور مزدور اسلام کے ساتھ، انقلاب کے ساتھ اور نظام کے ساتھ کھڑے رہے۔ فوجی میدان میں بھی، معاشی میدان میں بھی اور سیاسی میدان میں بھی۔

مزدوروں کے سلسلے میں تین بنیادی باتیں ہیں اور ان ہی تین بنیادی نکات کو مدنظر رکھ کر پروگرام تیار کیے جانے چاہیے:  پہلی بات ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اس وقت ہمیں روزگار کے مواقع میں اضافے کی ضرورت ہے۔ ملک میں اس کا امکان پایا بھی جاتا ہے، یعنی وہ تمام صاحب رائے افراد جو ملک کے مسائل سے واقف ہیں، اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ملک میں روزگار کے مواقع اس طرح بڑھائے جانے کا امکان پایا جاتا ہے کہ آج جو بے روزگاری ہے وہ بہت کم ہو جائے۔ یہ ایک اہم حصہ ہے: روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی راہ ہموار کرنا یا روزگار پیدا کرنا۔

دوسری بات کام اور سرمائے کے رابطے کو درست کرنا کہ ان کے درمیان ایک صحیح اور معقول رابطہ ہو، میں ان میں سے ہر ایک کے بارے میں چند جملے عرض کروں گا۔

تیسری بات، جاب سیکورٹی سے متعلق ہے اور میں نے جاب سیکورٹی کے بارے میں کئي بار اسی امام بارگاہ میں محنت کشوں سے ملاقات کے دوران بات کی ہے۔ آج بھی میں اس سلسلے میں دو تین نکات کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں۔

روزگار کے مواقع کے بارے میں حکام کو کوشش کرنی چاہیے کہ کام کے مواقع بڑھائيں۔ تھوڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، کسی حد تک نجی شعبے کو شامل کرنا بھی ضروری ہے لیکن سب سے اہم چیز جو ضروری ہے وہ حکومت کی جانب سے مینجمینٹ ہے۔ مطلب یہ کہ حکومت، ایک کارآمد منتظم کی طرح میدان میں آئے اور تمام امور پر نظر رکھے۔

اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک مکمل اعداد و شمار حاصل کرے یعنی اسے معلوم ہو کہ گنجائش کہاں کہاں ہے اور کس چیز کی ہے؟ ان گنجائشوں میں روزگار کی کیا ضروریات ہیں اور کس چیز کی، کیسے افراد کی اور کتنی تعداد میں ضرورت ہے؟ دوسری طرف کام کے متلاشی افراد کی بھی شناخت کی جائے اور انھیں ایک دوسرے سے جوڑا جائے اور اس طرح روزگار کے مواقع کو زندہ کیا جائے۔

ایک چیز جو روزگار کے ان مواقع کو زندہ کر سکتی ہے، انہی نالج بیسڈ کمپنیوں کا فروغ ہے جس کا ہم نے اس سال ذکر کیا۔(4) نالج بیسڈ کمپنیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تعلیم یافتہ افراد کی بے روزگاری کو ختم کرتی ہیں۔ آج جب ہم بے روزگاری کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہیں تو یونیورسٹیوں سے تعلیم مکمل کر چکے افراد کی بے روزگاری کی شرح، دوسرے تمام افراد سے زیادہ ہے۔ اس نوجوان نے محنت کی، تعلیم حاصل کی ہے، حکومت نے بھی سرمایہ کاری کی ہے، پیسے دیے ہیں، خرچ کیے ہیں تب وہ یہاں تک پہنچا ہے اور اب وہ یونیورسٹی سے باہر آ کر بے روزگار رہے؟!  کبھی کبھی میرے پاس جو عوامی رپورٹیں آتی ہیں ان میں، میں دیکھتا ہوں کہ کسی مناسبت سے اچانک جا کر کچھ لوگ کسی فیملی سے ملے ہیں – مثال کے طور پر بچے کی پیدائش پر یا دوسری مختلف مناسبتوں سے– باپ، فلاں سبجیکٹ میں ماسٹرز کر چکا ہے، کیا کرتا ہے؟ اپنی گاڑی سے مسافر ادھر ادھر کرتا ہے۔ یہ بے روزگاری ہی تو ہے۔ اس نے فلاں سبجیکٹ کی پڑھائي کی ہے، اسے اس کا استعمال کرنا چاہیے۔ نالج بیسڈ کمپنیاں اس خلاء کو دور کر سکتی  ہیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ کہتے ہیں کہ "نالج بیسڈ کمپنی" تو جب کمپنی نالج بیسڈ ہو جائے گي تو افرادی قوت پر اس کا انحصار کم ہو جائے گا۔ نہیں! ایک دوسری شکل میں کوئي ایسا رابطہ تیار کیا جا سکتا ہے جو روزگار کے مواقع کو بڑھائے۔ اس لیے میں ایک بار پھر دوہرا رہا ہوں، پہلے بھی کہہ چکا ہوں، ایک بار پھر عرض کر رہا ہوں کہ نالج بیسڈ کمپنیوں کو فروغ حاصل ہونا چاہیے۔ البتہ انھیں صحیح معنی میں نالج بیسڈ ہونا چاہیے۔

اجیر اور آجر یا کام اور سرمائے کے درمیان – جو بھی آپ کہہ لیں –درآمد کے رابطے کو منظم کرنے کے سلسلے میں عرض کروں کہ سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ مزدور اور آجر، پرواز کے دو پر ہیں۔ یعنی اگر مزدور ہو اور آجر نہ ہو تو کام آگے نہیں بڑھے گا۔ اگر آجر ہو اور اجیر نہ ہو تب بھی کام آگے نہیں بڑھے گا، یہ دونوں ہی ضروری ہیں، اس پر توجہ رہنی چاہیے۔ ایک طرف کام ہے اور لیبر کی مہارت ہے، دوسری طرف سرمایہ ہے، مینجمنٹ ہے، سائنس ہے اور ٹیکنالوجی وغیرہ ہے۔ ان میں سے ہر ایک قدر و قیمت اور اہمیت ہے۔ یعنی اس سیٹ_اپ کے ساتھ اور اس خام مال کے ساتھ ایک ایڈڈ ویلیو پیدا ہوتی ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ ان میں سے ہر ایک کا شیئر کتنا ہے۔ منصفانہ شیئر معین ہونا چاہیے۔ اس کے لیے کام کرنے، سوچنے اور تدبیر کی ضرورت ہے۔

ہم نے استقامتی معیشت کی پالیسیوں میں ایک حصے(5) کو اسی سے مختص کیا ہے۔ ایک بنیادی شق اسی سے متعلق ہے۔ مزدور اور محنت کش کو ایک با عزت زندگي گزارنے کی توانائي ملنی چاہیے۔ آج ہمارے مزدوروں کے متعدد مسائل ہیں۔ البتہ ان مسائل کا ایک اہم حصہ، ملک کے مجموعی معاشی مسائل سے پیدا ہوا ہے، یعنی معاشی میدانوں میں ہمارے کچھ ایسے مسائل ہیں جو پھیل گئے ہیں، مثال کے طور پر یہ مسائل کئي برس سے چلے آ رہے ہیں اور اب اکٹھا ہو گئے ہیں، انھیں حل نہیں کیا گيا ہے۔ مشکلات سبھی کے لیے ہیں، مزدوروں اور محنت کشوں کے مسائل کا ایک حصہ اس سے متعلق ہے اور ایک حصہ کام اور محنت کشوں کے قوانین کے مسائل، پالیسیوں اور پروگراموں کی وجہ سے ہے جسے ان شاء اللہ حل کیا جانا چاہیے۔

غور و فکر اور تدبیر ضروری ہے، حوصلہ اور جدوجہد ضروری ہے، صبر و تحمل اور نپے تلے کام انجام دینا ضروری ہے، بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے کاموں سے اجتناب ضروری ہے، ان سبھی پر عمل کرنا چاہیے تاکہ یہ منصفانہ تقسیم اور منصفانہ شیئر –جسے میں نے عرض کیا– وجود میں آ سکے اور اس کام کو انجام دیا جا سکے۔

محترم وزیر نے کہا کہ ان کے پروگراموں کی بنیاد، انصاف ہے۔ اچھا ہے، بہت اچھا ہے۔ اسی کو بنیاد بنائيے۔ مسائل پر منصفانہ طریقے سے نظر ڈالی جائے اور ہر شعبہ واقعی اپنا منصفانہ حصہ حاصل کرے۔ اس سلسلے میں ذمہ داروں کو بھی سرگرم عمل ہونا چاہیے اور تشہیراتی میدانوں میں کام کرنے والے افراد کو بھی فعال ہو جانا چاہیے تاکہ اس کا صحیح کلچر تیار ہو جائے اور اسی کے ساتھ محنت کشوں کو بھی محنت سے لگ جانا چاہیے۔

اب بات کرتے ہیں جاب سیکورٹی کی۔ جب روزگار کی سلامتی کی بات کی جاتی ہے تو جو چیز روزگار کے لیے خطرے کی حیثیت سے سب سے زیادہ پیش کی جاتی ہے وہ یہی عارضی ايگریمنٹس وغیرہ کی ہوتی ہے۔ وہ ايگریمنٹس جو مزدور اور آجر کے درمیان ہوتے ہیں اور اس بات کا سبب ہوتے ہیں کہ روزگار کی پائيدار سلامتی نہ ہو۔ یہ بات کہی جاتی ہے اور صحیح بھی ہے۔ ایک چیز جس کی اصلاح ہونی چاہیے اور منصفانہ قانون تیار ہونا چاہیے وہ یہی ہے۔ منصفانہ قانون کا مطلب یہ ہے کہ مزدور بھی مطمئن رہے اور آجر بھی کام کی جگہ پر ڈسپلن قائم کر سکے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ اس طرح کام کیا جائے کہ پوری طرح سے بدنظمی پھیل جائے۔ نہیں دونوں فریقوں کو فائدہ حاصل ہونا چاہیے لیکن میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مسئلہ صرف عارضی ايگریمنٹس کی وجہ سے نہیں ہے، اس کے کچھ دوسرے اسباب بھی ہیں جن کا میں اس وقت ذکر نہیں کرنا چاہتا۔ میں صرف ایک خاص عنصر پر تاکید کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جب قومی پیداوار کو زک پہنچے گی تو کام، روزگار اور محنت کش کو بھی نقصان ہوگا۔ یہ یقینی ہے۔ یہ جو ہم سب قومی پیداوار، ملکی پیداوار، ملکی مصنوعات پر زور دیتے ہیں، وہ اسی وجہ سے ہے۔

مثال کے طور پر درآمدات اور بے لگام درآمدات کو ہی لیجیے! دیکھیے اس وقت ہماری دسیوں ارب کی درآمدات ہیں۔ ان میں سے بہت سی درآمدات ضروری بھی ہیں۔ یعنی یا خام مال ہیں، ضروری مشینیں ہیں، کل پرزے ہیں یا اسپیئر پارٹس وغیرہ ہیں۔ ان میں کوئي قباحت نہیں ہے، درآمدات کا کوئي مخالف نہیں ہے۔ ہم بے تحاشا اور بے لگام درآمدات کے مخالف ہیں، اسمگلنگ کے مخالف ہیں۔ اسمگلنگ تو خیر ایک الگ بحث ہے۔ بے تحاشا اور بے حساب در آمدات کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ جو چیز ملک کے اندر بن رہی ہے، اس کی کوالٹی بھی اچھی ہے، اسی جیسی چیز کو ہم باہر سے لا رہے ہیں۔ یہ ملکی پیداوار کے دل پر خنجر گھونپنا ہے۔ ہماری بات یہ ہے۔ یہ جو میں بے تحاشا در آمدات کو روکے جانے پر تاکید کرتا ہوں، اس کی وجہ یہی ہے۔

دیکھیے، مجھے جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ایک ارب ڈالر کی بے حساب و بے لگام درآمدات کا مطلب ہے ملک میں روزگار کے ایک لاکھ مواقع کا بند ہو جانا۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو صاحب رائے افراد اور ماہرین نے ہمیں دیے ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر ہم ملک میں بننے والی کسی چیز، ملک میں جوتے ہیں، لباس ہیں، گھریلو سامان ہیں اور دوسری چیزیں ہیں – یہاں میری بات سے آٹوموبائل انڈسٹری کے لوگ غلط فائدہ نہ اٹھائيں، ان کی حالت کچھ زیادہ ٹھیک نہیں ہے– جہاں واقعی پیداوار کی جا رہی ہے اور اچھی پیداوار کی جا رہی ہے تو جب ہم ملکی پیداوار کے باوجود، اس کی تقویت اور ترویج کرنے کے بجائے باہر سے اس جیسی  چیز درآمد کرتے ہیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ اس طرح کی ایک ارب ڈالر کی درآمد کا مطلب، اس طرح کے روزگار کے ایک لاکھ مواقع کو ختم کر دینا ہے۔

جب آپ خریداری کے لیے جاتے ہیں اور غیر ملکی پروڈکٹ کو داخلی پروڈکٹ پر ترجیح دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ غیر ملکی مزدور کے حق میں ملک کے مزدور کو چوٹ پہنچا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس بات پر اتنی تاکید کرتا ہوں اور زور دیتا ہوں کہ ہمیں بے لگام اور بے تحاشا درآمدات کو قطعی طور پر روکنا چاہیے۔ یہ بات عہدیداروں سے متعلق ہے اور جو چیز عوام سے تعلق رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ملکی پروڈکٹس اور ملکی پیداوار خریدیں یعنی اس کی پابندی کریں۔

اور یہیں پر میں کہتا ہوں کہ داخلی منڈی کا بڑا اہم حصہ، حکومت سے متعلق ہے۔ یعنی حکومت سب سے بڑی ملکی خریدار ہے۔ ملکی مصنوعات کی سب سے بڑی خریدار حکومت ہے۔ حکومت کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ کوئي بھی غیر ملکی پروڈکٹ استعمال نہ کرے۔ خود یہی چیز ملکی پیداوار کی تقویت کے لیے بہت اہم ہے۔ میں نے بار بار ملکی مصنوعات کی خریداری پر تاکید کی ہے۔ جب بھی میں نے اس بات پر تاکید کی، کچھ لوگ ایک ساتھ مختلف دلیلوں کے ساتھ اسے مسترد کرنا شروع کر دیتے ہیں! چاہے غیر ملکی سامراجی چینلوں کے ذریعے بیرون ملک سے اور چاہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک کے اندر سے۔ جیسے ہی ہم کہتے ہیں "دیسی پروڈکٹس کی خریداری" ویسے ہی وہ لوگ اس پر اعتراض کرنا اور اسے مشکوک بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ تو یہ تو بات رہی اس مسئلے کی۔

ایک اہم مسئلہ، مزدوروں کی ذمہ داریوں کے بارے میں ہے۔ دیکھیے اس سلسلے میں ہمارے مزدوروں کی سنگین ذمہ داریاں ہیں۔ ان کی ایک اہم ذمہ داری "کام کو مہارت کے ساتھ اور احسن طریقے سے انجام دینا ہے۔" میں نے یہ حدیث بار بار بیان کی ہے – بظاہر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے یا ائمہ علیہم السلام میں سے کسی ایک سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا: رَحِمَ اللہُ امرءاً عَمِلَ عَمَلاً فَاَتقَنَہ (6)  خدا کی رحمت ہو اس شخص پر جو کوئي کام کرے اور اسے متقن (ٹھوس اور احسن طریقے سے) انجام دے۔ محنت کشوں کی ایک ذم داری یہ ہے: کام کو درستگی کے ساتھ انجام دینا۔ دوسری چیز کام کی خوبصورتی کو یقینی بنانا ہے۔ اچھا اور خوبصورت کام کریں۔ یہ بہت اہم ہے۔ ہمارے ملک میں ایک مسئلہ پیکیجنگ کا ہے جس پر میں لگاتار تاکید کرتا آ رہا ہوں۔ میرے عہدۂ صدارت کے زمانے میں، ایک ملک سے –میں نام نہیں لوں گا– ہمارے لیے تحفہ بھیجا گيا۔ تحفہ کیا تھا؟ کھجور، ہمارے لیے تحفے کے طور پر کھجور بھیجی گئي۔ میں وہ کھجور کا پیکٹ لے کر کابینہ میں چلا گيا، وہاں اسے رکھا اور کہا دیکھیے، دنیا کا سب سے اچھا اور سب سے زیادہ خرما ہمارے پاس ہے اور اس نے ہمیں ہی خرما بھیجا ہے۔ لیکن اس کی پیکنگ کو دیکھیے۔ ہم اپنی کھجوروں کو نامناسب ڈبوں میں دبا کر بھر دیتے ہیں اور پیک کر دیتے ہیں لیکن اس نے کھجور کو اسی شاخ کے ساتھ، جس پر کھجور لگتی ہے، پلاسٹک میں رکھ کر بڑی خوبصورت پیکنگ کے ساتھ ہمارے لیے بھیجا ہے۔ میں نے کہا کہ سیکھیے! یہ مزدوروں اور محنت کشوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ البتہ یہ لیبر اور مینیجرز کی مشترکہ ذمہ داریاں ہیں، انھیں مل جل کر یہ کام انجام دینا چاہیے۔

آخری بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ ہمارے تعلیمی سسٹم کے بارے میں ہے۔ ہمارا تعلیمی سسٹم، اتنی زیادہ تاکیدوں کے باوجود بدستور ایک پریکٹیکل اور فنکشنل سسٹم سے زیادہ ایک ذہنی سسٹم ہے۔ زیادہ تر ایسا ہی ہے۔ البتہ بعض شعبوں میں ایجوکیشنل ورک شاپس بھی ہیں لیکن ہر جگہ نہیں ہیں اور ہمیشہ ہوتی بھی نہیں ہیں۔ طلباء کی ذہنی تربیت ضروری کام ہے، انھیں علم سیکھنا چاہیے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ وہ ذہنی کام کے ساتھ ہی عملی کام کی تعلیم بھی حاصل کریں۔ یونیورسٹی اور صنعت کا یہ تعاون –یہ چیز بھی ہم نے کئي سال پہلے ایک صدر سے کہی تھی اور آخرکار یہ وائس پریسیڈنسی تشکیل پا گئي(7) جس کا اصلی کام یہی ہے کہ یونیورسٹی کو صنعت سے جوڑ دے۔ یعنی یونیورسٹی کا طالب علم، اپنی پڑھائي کے زمانے سے ہی صنعت سے جڑ جائے– یہ صنعت کے لیے بھی اچھا ہے۔ اس سے نئے علم و دانش ابھر کر آتے ہیں اور جدت عمل اور ایجادات سامنے آتی ہیں لہذا یہ یونیورسٹی کے لیے بھی اچھا ہے، اس لیے کہ اس سے اسے پیسے حاصل ہوتے ہیں، اس سے ایک یونیورسٹی کو پیسے اور آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ یہ کام ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، مہارتوں کی تعلیم اور مہارت میں اضافے کا جو ذکر کیا گيا، یہ بھی بہت اچھا کام ہے، ضروری کام ہے، اسے انجام پانا چاہیے۔ محنت کشوں کی مہارت میں اضافہ ہونا چاہیے، اسے اپنے کام کو جدت عمل اور اپنے ذوق کے ساتھ ماہرانہ طریقے سے انجام دینا اور معیار کو بہتر بنانا آنا چاہیے۔ جب کوالٹی بہتر ہو جائے گي تو اس کے نتیجے میں خریدار اور اس کام کو پسند کرنے والوں اور اس کام کی ڈیمانڈ رکھنے والوں کی نظر میں کام کی قدر و قیمت بھی بڑھ جائے گي۔

ہم، تمام محنت کشوں اور مزدوروں کا دل کی گہرائيوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں، ان کے کام اور ان کی زحمتوں کی قدردانی کرتے ہیں اور ان کے لیے خداوند عالم سے توفیق کی دعا کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ انھیں ورغلانے کی دشمنوں کی طرح طرح کی سازشوں کے مقابلے میں ان کی استقامت – جیسے پہلے تھی – ان شاء اللہ ویسے ہی جاری رہے گي۔ معاشی میدان میں، سیاسی میدان میں اور تعلیمی میدان میں ان شاء اللہ محنت کش روزبروز آگے بڑھتے رہیں گے۔ ملک کے منتظمین اور ذمہ داران بھی ان شاء اللہ – جیسا کہ وعدہ کیا گيا ہے – طے پانے والے کاموں اور پروگراموں پر عمل کریں گے اور سبھی حکومت کی مدد بھی کریں گے۔ آج معاشی میدان میں حکومت کے سامنے جو کام ہیں، وہ اہم کام ہیں اور ان کے لیے سبھی کی مدد کی ضرورت ہے۔ یعنی تمام ادارے، مقننہ، عدلیہ، عوام، تمام طبقے، سبھی ان شاء اللہ حکومت کی مدد کریں تاکہ وہ ان نتائج کو حاصل کر سکے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

  1. اس ملاقات کی ابتدا میں کوآپریٹوز، لیبر اور سوشل ویلفیئر کے امور کے وزیر جناب ڈاکٹر حجت اللہ عبدالملکی نے ایک رپورٹ پیش کی۔
  2. اسد الغابہ، جلد 2، صفحہ 185
  3. جامع الاخبار، صفحہ 139
  4. نئے سال کے آغاز کی مناسبت سے تقریر (20/3/2022)
  5. استقامتی معیشت کی جنرل پالیسیوں کی پانچویں شق (18/2/2014)
  6. مسائل علی بن جعفر و مستدرکاتہا، صفحہ 93 (معمولی سے فرق کے ساتھ)
  7. سائنس اور ٹیکنالوجی کے امور میں وائس پریسیڈینسی نے سنہ 2006 میں کام کرنا شروع کیا۔