بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

برادران و خواہران عزیز، اور آئندہ نسلوں کی ہدایت کا فخر حاصل کرنے والے ملک کے اساتذہ! آپ سب کا خیر مقدم ہے، اساتذہ کی تعریف میں جو کچھ بھی کہا جائے، زیادہ نہیں ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم ہم سب کو – آپ کو بھی اور ہمیں بھی – توفیق عطا کرے کہ ہم وہ کام انجام دے سکیں جو آپ سے اور ہم سے خداوند متعال کو خوش کرتا ہو۔

محترم وزیر صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان کی باتوں میں کچھ اچھے نکات تھے جن کا انھوں نے ذکر کیا۔ جو فیصلے انھوں نے کیے ہیں اور جو دستاویزات تیار کیے ہیں۔ بس میں ان سے اور آپ کے تمام رفقائے کار سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اچھے فیصلے، اچھے قانون اور اچھے دستاویز کے لحاظ سے ہمارے یہاں کوئي کمی نہیں ہے۔ آپ جتنا چاہیں ہمارے ملک میں اچھے فیصلے، اچھے دستاویزات وغیرہ مل جائیں گے۔ جو چیز اہم ہے، وہ یہ ہے کہ ان فیصلوں پر عمل کیا جائے۔ اس پر نظر رکھیے۔ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر بنانا آسان کام ہے۔ چاہے وہ فوجی کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر ہو یا دوسرے شعبوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز ہوں۔ جیسے معاشی، ثقافتی شعبے وغیرہ لیکن ان مراکز کا کام جاری رہنا اور ان کا نتیجہ خیز ہونا اہم ہے۔ آپ سنجیدگي سے عمل اور مجاہدانہ عمل کی کوشش کیجیے تاکہ ان شاء اللہ جو کام آپ چاہتے ہیں، جو چیز آپ چاہتے ہیں – اور میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ تعلیم و تربیت کے اہم نکات کی طرف متوجہ ہیں– ان پر عمل ہو، ان چیزوں پر نظر رکھیے تاکہ ان شاء اللہ ان پر عمل درآمد ہو سکے۔

خیر، عزیز ٹیچروں سے ہماری اس سالانہ ملاقات کا ہدف اور مقصد – جس میں پچھلے ایک دو سال میں کورونا کی وبائي بیماری کی وجہ سے کچھ رکاوٹیں آئيں اور اس سال بحمد اللہ یہ توفیق حاصل ہوئي کہ آپ سے روبرو ملاقات ہو – یہ ہے کہ ملک کے عمومی ماحول میں ٹیچروں کا رتبہ مزید نمایاں ہو۔ ہمارا ہدف یہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ٹیچر کو پہچانا جائے، لوگوں کی رائے عامہ میں ٹیچنگ کی قدر و منزلت، ایک واضح اور پائيدار قدر و قیمت ہو کہ جو اس وقت نہیں ہے۔ ہمیں ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیے کہ خود ٹیچر اپنی ٹیچنگ پر فخر کرے، اس کے اہل خانہ اس کی ٹیچنگ پر فخر کریں اور سماج اسے ایک قابل فخر انسان کی حیثیت سے دیکھے۔ ہمیں اس مقام تک پہنچنا چاہیے۔ اس کے لیے کچھ باتیں ضروری ہیں، کچھ کام ضروری ہیں۔ جو باتیں ضروری ہیں، ان میں سے کچھ کو آج ہم اختصار کے ساتھ بیان کریں گے۔

ٹیچر، استاد یا معلم لفظ کے ایک نہیں بلکہ دو استعمال ہیں: پہلا استعمال یہ ہے کہ ہم معلم کو تعلیم دینے والے اور سکھانے والے شخص کے معنی میں لیں۔ اس معنی میں بھی معلم کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے، یہ ایک اعلی قدر ہے۔ خداوند عالم، تعلیم دینے والوں میں شامل ہے: وَاتَّقُوا اللہَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللہ(2)، عَلَّمَ الاِنسانَ ما لَم یَعلَم(3) اسے خدا، اپنی ذات سے منسوب کر رہا ہے۔ یہ بہت اونچی قدر ہے۔ یا پیغمبروں کے بارے میں یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں فرماتا ہے: ، وَیُعَلِّمُکُمُ الکِتابَ وَ الحِکمَۃ(4) اس معنی میں معلم۔ یا تمام علماء، فقہاء، حکماء، اور بڑے بڑے دانشور اور علمی شخصیات اور یہی عزیز شہید مطہری اور ان جیسی نمایاں شخصیات بھی اس معنی میں معلم ہیں۔ یہ بھی بہت بڑی قدر و منزلت ہے۔  یعنی وہ شخص جو کسی کو تعلیم دیتا ہے۔ یہ ایک استعمال ہے۔

معلم کے مفہوم کا دوسرا استعمال، تعلیم و تربیت کے ادارے کے ٹیچر کے لئے ہوتا ہے، یہ ایک دوسرا استعمال ہے۔ اس وقت ہم اسی دوسرے استعمال کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ عام معنی میں معلم کی بات نہیں ہے بلکہ ایک خاص طرح کے معلم کے بارے میں بحث ہے۔ اس دوسرے استعمال کی قدر و قیمت، پہلے استعمال کی قدر و قیمت سے دوگنا زیادہ ہے۔ کیوں؟ جن کو تعلیم دی جا رہی ہے ان کی وجہ سے۔ اس تعلیم کے مخاطب وہ افراد ہیں، جن پر تعلیم کی گہری تاثیر کے امکانات، دوسرے تمام افراد سے کہیں زیادہ ہیں۔ ٹیچر کے کام کی اہمیت یہ ہے۔ یعنی تعلیم و تربیت کے ادارے کے ٹیچر کے کام کی اہمیت یہ ہے۔ مطلب یہ کہ اس ٹیچر کی قدروقیمت، معلم کے پہلے مفہوم کی بنیاد پر بھی ہے، اسی طرح اس کا کام زمینی سطح پر بھی ہے، وہ میدان میں آ کر کام کرتا ہے کہ جس کا کوئي کوئي متبادل نہیں ہے، کوئي بھی متبادل نہیں ہے۔

آپ کے مخاطب افراد اثر اور تربیت قبول کرنے کی بہترین عمر میں ہیں۔ آپ کے مخاطب وہ لوگ ہیں، جنھیں آپ جو بھی چیز سکھاتے ہیں، اسے وہ اپنی عمر کے آخری حصے تک نہیں بھولتے۔ یہ بہت اہم ہے۔ ہم مسلسل کچھ چیزیں، کچھ باتیں سیکھتے رہتے ہیں، لوگوں کی عمر اور حافظے کے اختلاف کے لحاظ سے، ایک طرف سیکھتے ہیں اور دوسری طرف سے بھول جاتے ہیں، لیکن جو چیز ہم نے بچپن میں سیکھی ہے، اسے نہیں بھولتے۔ عام طور پر عمر کے آخری حصے تک نہیں بھولتے۔ عربی کی بڑی مشہور ضرب المثل ہے کہ "العلم فی الصغر کالنقش فی الحجر" یا "کالنقر فی الحجر" ضرب المثل یہ ہے کہ آپ پتھر پر کسی چیز کا نقش بنائيے اور 'نقر' کیجیے، یعنی اس جگہ پتھر کو تراشیے اور پتھر پر کام کیجیے، لکھیے۔ اب یہ مٹے گا نہیں، ہمیشہ باقی رہے گا۔ آپ کا مخاطب اس طرح کا ہے۔

ہم نے بار بار "نئے اسلامی تمدن" کی بات کی ہے۔(5) یا دوسرے الفاظ میں کہیں کہ "پروان چڑھنے والا اسلامی تمدن"۔ وہ اسلامی تمدن جس کی صلاحیتیں، وقت کے تقاضے کے اعتبار سے پروان چڑھتی ہیں، نکھرتی ہیں۔ اسے ہم نے بار بار کہا ہے۔ ہر تمدن کا انفراسٹرکچر، انسانی وسائل سے عبارت ہے۔ یعنی جو اس تمدن کو ممکن بنا سکتا ہے اور عملی جامہ پہنا سکتا ہے وہ افرادی قوت ہے۔ ہمارے ملک میں یہ افرادی قوت، کن لوگوں سے عبارت ہے؟ کون مستقبل میں یہ بڑا کام انجام دے سکتا ہے؟ وہ نسل جو کچھ خاص صفات کی حامل ہو، اس نسل کو آج آپ لوگ تیار کر رہے ہیں۔ وہ نسل جو خود ساختہ ہے، اس کا تشخص ہے۔ مضبوط اور گہرا ایرانی اور اسلامی تشخص ہے، وہ اس پر اور اس پر اور مشرق و مغرب کے منسوخ شدہ تمدن کی فریفتہ نہیں ہے۔ ایک دانا، ہوشیار، کارآمد، ماہر، اسلامی طرز زندگي اور ایرانی روایات سے آگاہ نسل ہے۔ اس طرح کی نسل کی ضرورت ہے تاکہ اس تمدن کو تیار کیا جا سکے۔ ہم انقلاب کی شروعات سے ہی اس نسل کو وجود میں لانے کے لیے کوشاں تھے۔ البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم پوری طرح ناکام رہے۔ نہیں بحمد اللہ ہمیں کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئيں۔ مختلف میدانوں میں، اس طرح کے پرورش یافتہ افراد، انھی ٹیچروں کی برکت سے سامنے آئے، انھوں نے اپنے آپ کو دکھایا، مختلف میدانوں میں، آپ جانتے ہی ہیں، معیشت میں، فوجی مسائل میں، سیاست میں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ تمدن، اس جامعیت کے ساتھ معرض وجود میں آئے تو ہمیں اس نسل کو فروغ دینا ہوگا، یہ تربیت پھیل جانی چاہیے، ہمہ گير ہو جانی چاہیے۔ تو اگر ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں تو اسلامی جمہوریہ کے لیے اس بارہ سال کے عرصے (اسکولنگ) سے بڑا اور بہتر موقع کوئي نہیں ہے۔ یہ بارہ سال، اسلامی جمہوریہ کے لیے سب سے بڑا موقع ہے کہ وہ اقدار کو، اسلامی انقلاب کے اہداف کو اس نسل تک صحیح طریقے سے منتقل کرے اور اس کی گھٹی میں اسلامی و ایرانی تشخص ڈال دے۔ یہ بارہ سال کا عرصہ بہترین موقع ہے۔

یہ تعلیم و تربیت کے ادارے اور ٹیچروں کی ذمہ داری ہے، دیکھیے یہ بہت بڑا کام ہے، یہ بہت عظیم کام ہے، یہ صرف ایک عام اور معمولی تعلیم نہیں ہے، یہ بنیادی تعلیم ہے۔ بحمد اللہ تعلیم و تربیت کے ادارے کے لیے اس کام کی راہ ہموار ہے۔ مطلب یہ کہ اسلامی جمہوریہ کی حکومت کا ایک ہمہ گير وسیع ادارہ ہے جس کا نام ہے تعلیم و تربیت کی وزارت جو ملک کے دور افتادہ ترین علاقوں، شہری اور دیہی تمام علاقوں تک پھیلا ہوا ہے، تو یہ ایک بہت ہی اہم دستیاب میدان ہے۔ اس وسیع و عریض میدان میں سماعتیں اور دل و جان سننے کے لیے تیار ہیں۔ آپ کے انتظار میں ہیں کہ آپ ان سے بات کیجیے۔ میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کام کرنے والے بعض افاضل اور علمائے دین سے کہا کرتا تھا کہ ہم جب مجلس پڑھنے کے لیے منبر پر جاتے تھے تو اس بات کی توقع ہوتی تھی کہ کچھ سامعین وہاں اکٹھا ہو جائیں تاکہ ہم ان کے لیے کچھ باتیں بیان کر سکیں۔ اب دیکھیے کہ اسٹوڈنٹس کا یہ کثیر مجمع آپ کے سامنے بیٹھا ہے۔ یہ بات ٹیچروں پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ ایک ہفتے میں کئي کئي گھنٹے آپ کے سامنے ایسی سماعتیں اور ایسے دل و جان ہیں جو اس بات کے منتظر ہیں کہ آپ کے منہ سے کوئي بات نکلے اور چاہے انچاہے میں ان کے دل میں بیٹھ جائے۔ اہم چیز یہ ہے کہ اگر صحیح طرح سے ادا ہو تو آپ کی یہ بات ان کے دل میں بیٹھ جاتی ہے۔ اسے غنیمت سمجھیے۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے، اہم موقع ہے۔

تعلیم و تربیت کے ادارے کی اس تعریف سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ کتنا بڑا اور عظیم ادارہ ہے۔ انھوں نے صحیح کہا کہ تعلیم و تربیت کے ادارے پر نظر ڈال کر ملک کے مستبقل کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جی ہاں، بالکل صحیح ہے۔ اگر آج ہم اس ادارے پر نظر ڈالیں تو آج کے تعلیم و تربیت کے ادارے پر نظر ڈال کر ملک کے مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ 'کل' کیسا ہوگا۔ خیر تو یہ تعلیم و تربیت کے ادارے کی تعریف تھی، البتہ دکھاوے کی نہیں بلکہ حقیقی تعریف۔

لیکن ہمارے تعلیم و تربیت کے ادارے میں کچھ مشکلات ہیں اور میں اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ ان مشکلات کو دور کرنے اور مطلوبہ صورتحال تک پہنچنے کے لیے تدبیر و دانائي کی بھی ضرورت ہے، کوشش اور جدوجہد کی بھی ضرورت ہے اور صبر و حوصلے کی بھی ضرورت ہے۔ عہدیداران تھکیں نہیں، گھبرائيں نہیں بلکہ صبر و حوصلے سے کام کو آگے بڑھائيں۔

البتہ ہمیں کچھ وسائل کی بھی ضرورت ہے۔ ان کاموں کے لیے سب سے پہلے تعلیمی متن کی ضرورت ہے۔ یعنی تعلیمی نصاب کی اہمیت پر توجہ دیجیے۔ کہنے، بولنے اور سفارش کرنے سے بات ختم نہیں ہوتی۔ ان مقاصد کے لیے جو ہم نے عرض کیے اور ٹیچر بھی کوشش کر رہے ہیں، تعلیم و تربیت کے ادارے کو تعلیمی نصاب تیار کرنا چاہیے۔ تعلیمی متن بھی اور ٹیچروں کی تعداد بھی۔ ٹیچروں کی تعداد کے لحاظ سے بھی ہم مشکلات سے دوچار ہیں۔ مجھے جو رپورٹ دی گئي ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت تقریبا ستّر ہزار اساتذہ، ریٹائرمینٹ کے قریب ہیں جبکہ ہم اس سے آدھی تعداد کے ٹیچروں کو جاب دے سکتے ہیں یا کام پر رکھنا چاہ رہے ہیں۔ یہ بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر کام کیا جانا چاہیے، میں ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔

ٹیچر کا معیار بھی اہم ہے۔ ٹیچر کا معیار! اسی طرح علم اور درس وغیرہ کا معیار بھی اہم ہے۔ ایسا نہ ہو کہ مثال کے طور پر ملک گیر سطح پر ہونے والے انٹرینس امتحانات میں جن لوگوں کے نمبر کم آئے ہیں، وہ ٹیچر بننے کے لیے آگے بڑھیں، نہیں! کچھ ایسا کام کیجیے کہ علمی سطح پر جن کے سب سے زیادہ نمبر آئے ہیں وہ آگے آئيں۔ پھر اخلاقی لحاظ سے، اخلاقی تربیت، دینی تربیت، دینداری، دین پر ایمان والے لوگ تعلیم و تربیت کے ادارے میں آئيں۔ یہ سب ایک ٹیچر کے اندر پائے جانے والے ضروری معیارات ہیں۔ اگر ہم ان اہداف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری چیزوں میں سے ایک ٹیچر ہے۔ البتہ پروگرام اور پروگراموں سے بڑھ کر کام ضروری ہیں اور شاید انجام پا جائيں۔ البتہ تعلیم و تربیت کے ادارے کے اندر – ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے – پہلے بھی، یہاں تک کہ انقلاب سے پہلے بھی بہت اچھے اور ذمہ دار اساتذہ تھے۔ وہی اساتذہ جنھوں نے اپنے طلباء کے ساتھ ایسا رویہ رکھا کہ انقلاب کے مسائل کے سلسلے میں طلباء کی ایک عظیم تحریک وجود میں آ گئي۔ مطلب یہ کہ انقلاب کے دوران، ایک چیز جو واقعی بہت نمایاں طور پر دکھائي دیتی تھی وہ اسٹوڈنٹس کا طبقہ تھا جن کا قتل عام بھی کیا گيا جس کی مثال تیرہ آبان (چار نومبر) کا واقعہ ہے یا تہران یونیورسٹی کے قریب ہونے والا قتل عام تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اساتذہ سرگرم تھے۔ یا انقلاب کے اوائل میں، یہی ٹیچرز ہی تھے جن کے ہاتھوں کے پروردہ نوجوانوں نے محاذ جنگ کو اپنی بڑی تعداد سے آباد کیا تھا اور ان میں سے بہت بڑی تعداد میں شہید بھی ہوئے، خود اساتذہ بھی بڑی تعداد میں شہید ہوئے۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ آج بھی بحمد اللہ ہمارے یہاں ذمہ دار، مومن، دیندار، ہمدرد اور شفیق ٹیچروں کی کمی نہیں ہے۔ البتہ دوسری طرح کے ٹیچر بھی ہیں۔

تو بہتر ہوگا کہ ہم تعلیم و تربیت کے ادارے کے مسائل کو تقسیم کر دیں۔ بعض مسائل پوری طرح سے تعلیم و تربیت سے متعلق ہیں، بعض کا تعلق ٹیچروں سے ہے، ان کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ یعنی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہر مسئلے میں نقطۂ نظر کس طرف ہے اور ذمہ دار کون ہے؟

جہاں تک تعلیم و تربیت کی بات ہے تو اس سلسلے میں ایک بنیادی نکتہ پایا جاتا ہے جس پر میں تاکید کرتا ہوں، تقریروں اور تحریروں میں اس بات کو دوہرایا گيا ہے۔ ہمیں ایسا کام کرنا چاہیے کہ ہمارا طالب علم، قومی تشخص کا حامل ہو جائے۔ طالب علم کی تربیت اور اس کے اسکول، کالج یا یونیورسٹی آنے کا ہدف صرف یہ نہ ہو کہ وہ سبق سیکھے۔ یقینا اسے سبق سیکھنا چاہیے، علم بھی حاصل کرنا چاہیے لیکن علم سیکھنے سے بھی اہم یا کم از کم اس کے مساوی اہمیت رکھنے والی چیز یہ ہے کہ وہ اپنی پہچان اور تشخص کو محسوس کرے۔ یہاں ایک تشخص والا انسان تیار کیا جائے جو قومی تشخص اور خود اعتمادی حاصل کرے۔ ہمارا بچہ دل کی گہرائي سے ملک کے افتخارات سے آشنا ہو جائے۔ یہ وہ چیز ہے جو آج نہیں ہے۔ بہت سے افتخارات ہیں۔ جناب نے مرحوم کاظمی آشتیانی صاحب(6) کا نام لیا۔ آپ اپنے اسکولوں کے بچوں کے درمیان سروے کروائیے اور دیکھیے کہ کتنے فیصدی بچے کاظمی آشتیانی کو ان کی تمام تر خدمات کے ساتھ، نوجوانی کے دور میں ان کے وجود کی عظیم قدروقیمت کے ساتھ – وہ جوان ہی تھے – پہچانتے ہیں اور مثال کے طور پر یہ بھی دیکھیے کہ رونالڈو کو کتنے فیصد پہچانتے ہیں! کبھی ہمارے گھرانے کے چھوٹے بچے ایسے ایسے نام لیتے ہیں جنھیں میں یاد تک نہیں کر پاتا! وہ انھیں بخوبی پہچانتے ہیں، جانتے ہیں کہ وہ کیا کرتا ہے۔ ہم اپنے قومی ہیروز کو کیوں نہیں پہچانتے؟ یہ بہت اہم ہے۔

میں جن چیزوں کو قومی تشخص کہہ رہا ہوں ان کا ایک حصہ یہی ہے کہ قومی افتخارات کو، اپنے علمی ماضی کو، سیاسی ماضی کو، بین الاقوامی ماضی کو جانیں، جو کوششیں کی گئي ہیں، جو جدوجہد کی گئي ہے، اسے پہچانیں۔ انقلاب کے واقعات کا آج کے بچوں، تیسری اور چوتھی نسل کے بچوں میں کتنے لوگ صحیح طریقے سے علم رکھتے ہیں؟ امام خمینی کے بارے میں، ان کے نام اور ان تعریف آمیز جملوں کے علاوہ کتنی معلومات رکھتے ہیں؟ سائنسدانوں کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ یہ سب قومی افتخارات ہیں۔ انقلاب کے اہداف و مقاصد سے کتنے آگاہ ہیں؟ یہ انقلاب، جس نے اتنا عظیم طوفان برپا کر دیا، ایک سمندر کو متلاطم کر دیا، مذاق نہیں ہے۔ ایک انقلابی تحریک اگر ایک ملک میں اس کے تمام اجزاء کو متحرک کر دے – انقلاب کے دوران جو جلوس نکالے جاتے تھے یا جو مظاہرے ہوتے تھے وہ صرف تہران یا کسی دوسرے بڑے شہر سے متعلق نہیں تھے، گاؤوں میں بھی یہی مظاہرے ہوتے تھے – اس کا مطلب ہے ایک سمندر کا متلاطم ہو جانا۔

وہ کیا چیز تھی جس نے انھیں اس طرح متحرک کر دیا؟ امام خمینی نے کیا کیا؟ وہ کیا کہتے تھے؟ ان کا کہنا کیا تھا؟ امام خمینی کے بیانوں، تقریروں اور تحریروں کی بیس بائیس جلد کی کتاب اس وقت سب کی دسترس میں ہے، اسے کتنا پڑھا گيا ہے؟ ان باتوں پر کتنی توجہ دی گئي ہے؟ انقلاب کے اغراض و مقاصد کو جانیں۔ صرف جانیں نہیں بلکہ ان کے ساتھ جڑ جائيں۔ ان بچوں اور نوجوانوں کو اسکولوں اور کالجوں میں ان اغراض و مقاصد اور امنگوں میں مدغم ہو جانا چاہیے اور ان کے دل و جان کو ان چیزوں سے آشنا ہو جانا چاہیے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہمیں کیمسٹری اور میتھمیٹکس کے فارمولوں، غیر ملکی زبانوں اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کی بھی ضرورت ہے، ہماری اس بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم پڑھائي لکھائي کو الگ رکھ دیں۔ نہیں، تعلیم تو ضروری ہے ہی، ہمارا تو ماننا ہے کہ ملک میں علم کے پرچم کو روز بروز مزید بلند کرنا چاہیے لیکن قومی تشخص، افتخار آمیز تشخص، انقلابی تشخص اور اسلامی تشخص کے پرچم کو بھی بلند ہونا چاہیے۔

بچوں کو استقامت کی قدروقیمت معلوم ہونا چاہیے۔ یعنی یہ کہ ایک قوم کے اجزاء، استقامتی اجزاء ہیں، استقامتی کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ غنڈہ گردی کے سامنے پسپائي اختیار نہیں کرتے، حملے کے مقابلے میں کانپنے نہیں لگتے، منہ زوری کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتے، استقامت کا مطلب یہ ہے۔ ملک کی مشکلات کی بیماری کا اکسیر یہ ہے: استقامت کا احساس، ڈٹے رہنے کا جذبہ۔ آج کی دنیا، منہ زوری کی دنیا ہے، سبھی منہ زوری کرتے ہیں، جو بھی منہ زوری کر سکتا ہے، کرتا ہے۔ اس میں چھوٹے بڑے کی بات نہیں ہے، مشرق اور مغرب کی بھی بات نہیں ہے۔ ہر قوم میں منہ زوریوں کے سامنے ڈٹ جانے کی طاقت ہونی چاہیے۔ یہ بات ہمیں بچپن سے سیکھنی چاہیے، اس چیز کو نو عمری سے ہمارے اندر جڑ پکڑ لینا چاہیے۔ یا خود اعتمادی کا مالک ہونے کی قدروقیمت۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ضروری ہیں اور انجام پانا چاہیے۔ انہی چیزوں کے ذریعے تمدن تیار کرنے والی نسل، وجود میں آئے گي، وہ نسل جو قوم کو سرفراز کر سکتی ہے، ملک کو سربلند کر سکتی ہے۔ یہ سب کچھ اسکولوں میں انجام پاتا ہے۔ ٹیچر کی قدروقیمت کو آپ دیکھیے! تعلیم و تربیت کے ادارے پر ایسے کام کی ذمہ داری ہے۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے تعلیم و تربیت کی وزارت کا کسی بھی دوسری وزارت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

تعلیم و تربیت کے امور سے متعلق ایک اہم نکتہ جس کا تعلق اس وزارت کی منصوبہ بندی سے ہے، نفع بخش علم اور غیر مفید علم کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے۔ نفع بخش علم۔ آپ خود اس کی مہارت رکھتے ہیں۔ یعنی اس مسئلے میں آپ مجھ سے زیادہ ماہر ہیں۔ اس وقت سیکنڈری اسکولوں میں اور شاید ہمارے پرائمری اسکولوں میں کچھ ایسے سبجیکٹ بھی پڑھائے جا رہے ہیں جن سے ان اسٹوڈنٹس کو زمانہ حال یا مستقبل میں کوئی فائدہ نہیں ملنے والا ہے۔ کچھ چیزیں ہیں، کچھ ذہنی موضوعات ہیں جو بعد میں ذہن سے نکل بھی جاتے ہیں اور زندگی کے کسی شعبے میں ان سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ ان کی علمی پیشرفت میں ان سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ ان کی نشاندہی کی جانی چاہئے اور انہیں ختم کرنا چاہئے۔ علم نافع وہ علم ہے جو بچے اور نوجوان کی صلاحیتوں کو نکھارے، اس کی استعداد کو سامنے لائے اور پھر اسے اپنی صلاحیت کے اعتبار سے ارتقاء دے۔ اس کے مستقبل کے لئے فکری و علمی پونجی بنے۔ اس کو کہتے ہیں علم نافع۔  ظاہر ہے یہ چیز ملک کی ترقی میں بھی موثر ہوگی۔ اب اگر ہم کچھ ذہنی و تصوراتی چیزوں کو طالب علم کے ذہن میں یونہی بھرتے چلے جائیں تو یہ نہیں ہونا چاہئے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ وقت کا ایک حصہ فن یا مہارت حاصل کرنے پر صرف ہونا چاہئے۔ وزیر محترم کی گفتگو میں بھی یہ بات تھی۔ بہت اچھا ہے کہ اس کے لئے کام کیا جائے۔ اسلامی طرز زندگی، تعاون، سماجی تعاون، یہ چیزیں اسکول میں بچوں کو سکھانی چاہئے۔ نظم و ضبط اور قانون کے احترام کا جذبہ۔ ہماری ایک بڑی مشکل ڈسپلن کی کمی ہے جو ہماری سماجی زندگی اور خاندانی زندگی میں عام طور پر موجود ہوتی ہے۔ ہمیں بچپن سے، نوجوانی سے نظم و ضبط اور قانون پر عمل آوری کی عادت ڈالنی چاہئے۔ مطالعے کی عادت، نوجوان میں مطالعے اور تحقیق کا شوق گہرائي تک اتارا جا سکتا ہے۔ آپ اس چیز کو ایک مہارت کے طور پر اسے دے سکتے ہیں۔ جہادی خدمات، سماجی برائیوں سے مقابلہ، اگر یہ جذبہ ان کی سرشت کا حصہ بن جائے گا تو سارے لوگ سماجی برائیوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔ ایک نکتہ یہ ہے۔

دوسرا نکتہ اصلاحات کی دستاویز سے متعلق ہے۔ جناب نے ذکر کیا۔ اصلاحات کی سند کی حالت واقعی مسرت بخش تو نہیں ہے۔ یہ سند دس سال سے زیادہ پہلے تیار ہوئی۔ اس دس سال کی مدت میں جو وزرائے تعلیم یا قائم مقام وزیر تعلیم آئے ، البتہ خود یہ بھی ایک مصیبت ہے کہ بار بار عہدیدار بدلتے ہیں، ان میں سے ہر کسی نے کچھ کام کئے، رپورٹیں بھی دیں، عام طور پر ہمیں بھی رپورٹیں دی ہیں کہ ہم نے فلاں فلاں کام انجام دئے لیکن زمینی سچائی یہی ہے کہ اصلاحات کی سند پر عمل نہیں ہوا ہے۔ اب ممکن ہے کہ اس کے کسی ایک حصے پر کسی شکل میں عمل ہو گیا ہو لیکن یہ سند ایک مجموعہ ہے، کئی حصوں کا مجموعہ ہے۔ اگر وزارت تعلیم و تربیت کے عہدیداران اور منتظمین یہ مانتے ہیں کہ اس سند میں کچھ خامیاں ہیں۔ تو ٹھیک ہے اسے اپ ڈیٹ کر لیں، سند کو اپ ڈیٹ کرکے مکمل کر لیں، اس کی خامیوں کو رفع کر لیں۔ ہمت و حوصلہ بروئے کار لائیں کہ یہ کام انجام پا جائے اور اصلاحات کی سند عملی طور پر نظر آنے لگے۔ عمل آوری کا جائزہ لینے کے لئے معیارات بھی معین کر لیں۔ اس طرح کی باتیں ٹھیک نہیں ہیں کہ اس سند پر اتنے فیصد کام ہو چکا ہے۔ انڈیکیٹر تیار کیا جانا چاہئے اور اس سند کے نفاذ کے سلسلے میں کتنی پیشرفت ہوئی ہے۔ یہ وزارت تعلیم و تربیت کے کچھ کلی امور ہیں۔

دو تین باتیں اساتذہ کے سلسلے میں عرض کرنا ہیں۔ یہ سنگین ذمہ داری جس کی ہم نے بات کی، یہ استاد کے کندھے پر ہے۔ یعنی اجرائی مرحلے میں اساتذہ ہی ہیں جو کام کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض اساتذہ فیصلہ سازی کے عمل میں بھی رول ادا کریں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بعض کا کوئی رول نہ ہو، لیکن جہاں تک اجرائی مرحلے کی بات ہے تو یہ پوری طرح اساتذہ کے ذمے ہے۔ دسیوں لاکھ بچوں اور نوجوانوں کے سلسلے میں ان بڑے کاموں کو انجام دینے کی ذمہ داری اساتذہ کی ہے۔ یہ عدیم المثال رول ہے۔ ہم نے جیسا کہ عرض کیا اساتذہ کے کردار کی اہمیت کا اندازہ سب کو ہونا چاہئے، سب سے پہلے تو خود استاد کو احساس ہونا چاہئے کہ اس کے دوش پر کتنی بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ زندگی کے مسائل کی وجہ سے، معیشتی مشکلات وغیرہ کی وجہ سے کوئی تھک جائے، رنجیدہ ہو جائے، اس پیشے کو معمولی سمجھنے لگے یا اسے حقارت کی نظر سے دیکھے۔ استاد کا پیشہ، بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ بہت بڑا کام ہے۔  سب سے پہلے خود استاد کو یہ علم ہونا چاہئے کہ وہ کس قسم کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ انقلاب کی تحریک کے دور میں، مسلط کردہ جنگ کے دور میں، اسی طرح ملک میں ہونے والے گوناگوں سیاسی واقعات کے موقع پر مختلف شعبوں میں اساتذہ نے بڑا اہم رول ادا کیا اور ملک کے بچوں اور نوجوانوں کو صحیح راستے اور صحیح سمت کی رہنمائی کی۔

خود اساتذہ اس اہم کردار کو محسوس کرنے کے ساتھ ہی امانت داری کو بھی محسوس کریں۔ یہ بھی واقعی ایک فریضہ ہے۔ استاد کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ امانت اسے سونپی گئی ہے۔ اس کے پاس جو امانت رکھی گئی ہے اور جسے صحیح و سالم بلکہ زیادہ قیمتی بن کے نکلنا ہے وہ سب سے عزیز امانتیں ہیں، سب سے پیاری امانتیں۔ یعنی یہ بچے جو آپ کے ہاتھوں میں ہیں، ظاہر ہے ملک کے نوجوان اور بچے انمول موتی ہیں، ملک کے لئے بھی اور خانوادے کے لئے بھی۔ لوگوں نے اپنے بچوں کو، اپنے بیٹے کو، اپنی بیٹی کو استاد کے حوالے کیا ہے۔ یہ بہت قیمتی امانت ہے اور یہ امانت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

«من که لوح ساده‌ام هر نقش را آماده‌ام»[۷]

یہ سادہ ورق ہے جس پر کوئی تحریر نہیں ہے، کسی بھی قسم کا نقش اس پر کھینچا جا سکتا ہے۔ یہ نقش و نگار بنانے والے آپ ہیں۔ یہ آپ کے زیر سایہ زیادہ قیمتی بن کر باہر نکلے۔ یہ امانت داری آپ بہترین انداز میں انجام دیجئے۔ اخلاقی اعتبار سے بھی، علمی اعتبار سے بھی، برتاؤ اور طرز سلوک کے اعتبار سے بھی، آگاہی بڑھانے اور دانائی میں اضافے کے اعتبار سے بھی۔ اس امانت کے اندر آپ علم و دانائی کی روح ڈالئے۔ اگر ہمارا استاد دیندار اور دین پر عمل کرنے والا ہوگا تو یہ کام خوش اسلوبی سے انجام دے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ یہی صورت حال ہوگی۔ ایک اہم نکتہ یہ تھا۔

ایک اور اہم نکتہ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی سے متعلق ہے۔ ابھی ذکر بھی ہوا شہید رجائی یونیورسٹی اور ٹیچرز ٹریننگ کے دوسرے مراکز کا۔ یہ بڑے اہم ادارے ہیں، ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یعنی ان یونیورسٹیوں کا قیام بہت ضروری تھا، اسی طرح ان پر خاص توجہ رکھنا بھی بہت اہم ہے۔ چند سال پہلے میں اس یونیورسٹی میں گیا تھا اور وہاں موجود نوجوانوں کے بڑے مجمعے میں میں نے ضروری باتیں اور معروضات پیش کئے تھے (8)۔ اس یونیورسٹی کے سلسلے میں بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ ان یونیورسٹیوں اور ٹیچرز ٹریننگ کے مراکز کی ہر پہلو سے تقویت ہونی چاہئے۔ وسائل کے اعتبار سے بھی، مینیجمنٹ کے اعتبار سے بھی، اساتذہ کے اعتبار سے بھی، تعلیمی نصاب کے اعتبار سے بھی اور ٹریننگ کی سرگرمیوں کے اعتبار سے بھی۔ استاد سے ہماری جو توقعات ہیں وہ کس یونیورسٹی میں پوری ہوں گی؟ یہ بہت اہم بات ہے۔ ٹیچرز ٹریننگ کی ان یونیورسٹیوں میں ایسے حالات اور انتظامات ہوں کہ صحیح معنی میں توقعات پر پورے اترنے والے استاد یہاں سے نکلیں۔ ایک نکتہ یہ بھی ہے۔

ایک چیز اور بھی ہے، مجھے جو رپورٹ ملی ہے بہت سے اساتذہ ہیں جنہوں نے جس سبجیکٹ کی تعلیم حاصل کی وہ اس سے مختلف ہے جو وہ پڑھا رہے ہیں۔ میرے خیال سے یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ استاد نے کوئی اور سبجیکٹ پڑھا ہے اور جو سبجیکٹ وہ پڑھا رہا ہے مثال کے طور پر وہ بالکل الگ ہے۔ البتہ مجھے اندازہ ہے کہ اس کی وجہ اساتذہ کی تعداد کی کمی ہے۔ کیونکہ اسکولوں کے پرنسپل حضرات کے ہاتھ کھلے ہوئے نہیں ہیں کہ آزادی سے سارے ضروری  تقاضے پورے کریں۔ لیکن بہرحال اس سلسلے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ استاد نے محنت کی ہے کوئی سبجیکٹ پڑھا ہے، اب جب وہ تدریس کر رہا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ وہی سبجیکٹ دیا جائے جس کی اس نے تعلیم حاصل کی ہے۔

کورونا کی وبا کے دور میں بھی اساتذہ نے واقعی بڑی زحمتیں اٹھائیں۔ کورونا کا دور اساتذہ کے لئے بڑا سخت دور رہا۔ ایک غیر مانوس اور غیر آشنا روش اور ساتھ ہی دگنا کام۔ ایک دور میں استاد کو دگنا کام کرنا پڑتا تھا۔ یعنی کلاس میں کچھ طالب علم موجود ہوتے تھے اور ساتھ ہی اسے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم وغیرہ پر بھی کام کرنا پڑتا تھا۔ یعنی دگنا کام کرتا تھا۔ انھیں بڑی محنت کرنی پڑی۔ ہم اس سلسلے میں اساتذہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔

معیشتی امور کے بارے میں میری وہی سفارش ہے جو ہمیشہ کرتا آیا ہوں۔ البتہ حکومت کے پاس وسائل کی کچھ مشکلات ہیں، واقعی مشکلات در پیش ہیں۔ اسے میں مانتا ہوں۔ ان مشکلات پر توجہ رکھنا ضروری ہے لیکن بیمہ کا مسئلہ، پینشن کا مسئلہ، علاج معالجے کے اخراجات کی بروقت ادائیگی، یہ سب بڑے اہم مسائل ہیں۔ ان پر ضرور توجہ دینا چاہئے۔

میری آخری بات یہ ہے کہ ہم تعلیم و تربیت کے شعبے سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں اور تعلیم و تربیت کے ادارے سے ہم چاہتے ہیں کہ ان کے لئے منصوبہ بندی کرے۔ لیکن آپ اساتذہ کو چاہئے کہ اس انتظار میں نہ بیٹھیں۔ آپ اپنی ذاتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سے کام انجام دے سکتے ہیں۔ بہت سے اساتذہ ہیں جنہیں تربیت کے سلسلے میں کوئی واضح پروگرام بھی نہیں دیا گیا ہے لیکن پھر بھی اپنی صلاحیتوں سے، اپنی جدت طرازی سے، اپنے خیر خواہانہ جذبے سے، اپنے ہمدردانہ جذبے سے طالم علموں کی تربیت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان شاء اللہ آپ بھی ان میدانوں میں کامیاب ہوں۔

اللہ سے دعا ہے کہ ملک کے عزیز شہیدوں کی ارواح خاص طور پر شہید طالب علموں اور شہید اساتذہ کی ارواح  کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرمائے۔ ہمارے عزیز امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ)  کی روح مطہرہ کو کہ آج ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے انھیں کی رہبری اور قیادت کے طفیل میں ہے، انہوں نے ہی ہمارے لئے یہ راستہ کھولا اور ہمیں اس کی ہدایت کی، ان شاء اللہ خداوند عالم اپنے اولیا کی روحوں کے ساتھ محشور فرمائے۔ آپ سب کو اور ہمیں توفیق دے کہ اپنے فرائض پر عمل کر سکیں۔

والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں وزیر تعلیم و تربیت جناب ڈاکٹر یوسف نوری نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) سورۂ بقرہ، آيت 282، اور خداوند عالم تمھیں اس طرح تعلیم دیتا ہے۔

(3) سورۂ علق، آيت 5، جو چیزیں وہ نہیں جانتا تھا، اللہ نے وہ چیزیں اسے رفتہ رفتہ سکھائيں۔

(4) سورۂ بقرہ، آيت 151، اور وہ تمھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

(5) کنزالفوائد، جلد 1، صفحہ 319

(6) یوم معلم کی مناسبت سے پورے ملک کے بعض ٹیچروں اور علمی و ثقافتی شخصیات سے ملافات میں تقریر، 1/5/2019

(7) جناب سعید کاظمی آشتیانی اسلامی انقلاب کے نمایاں سائنسدانوں اور عہدیداران میں سے ایک تھے۔ اسی طرح وہ حیاتیات میں جدت عمل کے علمبرداروں میں سے ایک اور رویان انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ تھے۔ اس عہدے پر ان کی تقرری کے دوران ایران نے بانجھ پن کے علاج، اسٹیم سیلز کے ذریعے علاج اور جانوروں کی کلوننگ جیسی پیشرفتہ روشوں میں کافی ترقی کی۔

(8) میرزا حبیب اللہ خراسانی، دیوان اشعار، میں تو ایک سادہ تختی ہوں اور ہر نقش کے لیے تیار ہوں، اب دیکھتے ہیں کہ قدرت کے مصور مجھ پر کیا تصویر بناتے ہیں۔

(9) ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی میں تقریر، 9/2/2018