امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مکتب فکر میں سب سے پہلی چیز جو موجود نظر آتی ہے وہ 'خالص محمدی اسلام' پر تاکید اور امریکی اسلام کی نفی ہے۔ امام خمینی نے خالص اسلام کو امریکی اسلام کی ضد قرار دیا ہے۔ امریکی اسلام کیا ہے؟ ہمارے زمانے میں، امام خمینی کے زمانے میں اور تمام ادوار میں جہاں تک ہماری معلومات ہے، ممکن ہے آئندہ بھی یہی رہے کہ امریکی اسلام کی دو شاخیں ہیں۔ ایک ہے ملحدانہ اسلام اور دوسری رجعت پسندانہ اسلام۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ان لوگوں کو جو الحادی فکر رکھتے تھے یعنی دین کو، سماج کو، انسانوں کے سماجی روابط کو اسلام سے الگ رکھنے کے قائل تھے، ہمیشہ ان لوگوں کے زمرے میں رکھا جو دین کے سلسلے میں بنیاد پرستانہ نظریہ رکھتے تھے۔ یعنی دین کے بارے میں ایسا قدامت پسندانہ نظریہ جو نئی فکر کے انسانوں کے لئے ناقابل فہم ہو، جو متعصبانہ طور پر غلط بنیادوں پر اور بنیاد پرستی پر زور دیتا ہو۔ امام خمینی ان دونوں نظریات کے حامل لوگوں کا ہمیشہ ایک ساتھ ذکر کرتے تھے۔

آج اگر آپ غور کیجئے تو دیکھیں گے کہ دنیائے اسلام میں ان دونوں شاخوں کے نمونے موجود ہیں اور دونوں کو دنیا کی توسیع پسند طاقتوں اور امریکا کی حمایت و پشت پناہی حاصل ہے۔ آج منحرف گروہوں جیسے داعش اور القاعدہ وغیرہ کو بھی امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے اور اسی طرح ایسے حلقوں کو بھی امریکا کی سرپرستی حاصل ہے جن کا نام تو اسلامی ہے لیکن اسلامی عمل اور اسلامی فقہ و شریعت سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے عظیم قائد کی نگاہ میں خالص اسلام وہ ہے جو کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر استوار ہو۔ جو روشن فکری کے ساتھ، زمان و مکان کے تقاضوں سے واقفیت کے ساتھ، مسلمہ علمی طریقوں اور روشوں سے اور دینی درسگاہوں میں تکمیل کے مراحل طے پانے والے عمل کے ذریعے اخذ کیا جاتا ہے اور حاصل ہوتا ہے۔

دوم: امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے اصولوں میں سے ایک ہے نصرت خداوندی پر اعتماد۔ اللہ کے وعدوں کی صداقت پر اعتماد، دوسری جانب دنیا کی مستکبر اور استبدادی طاقتوں پر عدم اعتماد۔ اللہ تعالی نے مومنین سے وعدہ کیا ہے اور جو لوگ اس وعدے پر یقین نہیں رکھتے کلام خداوند میں ان پر لعنت بھی کی گئی ہے:۔ جو لوگ «اَلظّآنّینَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوءِ عَلَیهِم دائِرَةُ السَّوءِ وَ غَضِبَ اللهُ عَلَیهِم وَ لَعَنَهُم وَ اَعَدَّ لَهُم جَهَنَّمَ وَ سآءَت مَصیرًا» اللہ کے وعدے پر یقین، اللہ کے وعدے کی صداقت پر ایقان۔ امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک ستون یہ ہے کہ اللہ کے وعدوں پر یقین و توکل کیا جائے۔

سوم؛ عوام کی قوت ارادی اور عوامی توانائی پر تکیہ کرنا اور حکومتوں سے آس لگانے کی مخالفت۔ یہ امام خمینی کی تحریک کا اہم اصول ہے۔ انھیں عوام پر بڑا اعتماد تھا۔ اقتصادی مسائل میں بھی عوام پر بہت بھروسہ تھا اور دفاعی میدان میں بھی عوام پر انھیں بہت اعتماد تھا۔ آپ نے پاسداران انقلاب فورس کی تشکیل انجام دی، رضاکار فورس تشکیل دی۔ دفاعی شعبے کو عوامی شعبہ بنا دیا۔ تشہیراتی شعبے میں عوام پر بھروسہ اور سب سے بڑھ کر ملک میں انتخابات کا مسئلہ اور ملک اور سیاسی نظام کو چلانے میں عوام کی رائے اور ووٹوں پر اعتماد۔

چوتھا اصول ملک کے داخلی مسائل سے متعلق ہے۔ امام خمینی محروم و مستضعف طبقات کی حمایت پر بہت زیادہ تاکید کرتے تھے۔ اقتصادی عدم مساوات کے شدید مخالف تھے۔ اشرافیہ کلچر کو ترش روئی سے مسترد کر دیتے تھے۔

پانچواں نکتہ خارجہ امور سے متعلق ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ آشکارا طور پر عالمی استکبار اور بین الاقوامی غنڈوں کے مخالف محاذ کا حصہ تھے اور اس سلسلے میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ دنیا کی استبدادی طاقتوں، مستکبرین اور بین الاقوامی غنڈوں کے مقابلے میں مظلومین کا ساتھ دیتے تھے، مظلومین کی حمایت میں کھڑے دکھائی دیتے تھے۔

امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک اور بنیادی اصول ملک کی خود مختاری پر تاکید اور بیرونی تسلط کی نفی ہے۔ یہ بھی بہت اہم باب ہے۔

امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک اور اہم اصول قومی اتحاد کا مسئلہ ہے۔ تفرقہ اندازی کی سازشوں پر خواہ وہ تفرقہ مذہب و مسلک کے نام پر ہو، شیعہ سنی اختلاف کے نام پر یا قومیتوں کی بنیاد پر، فارس، عرب، ترک، کرد، لر اور بلوچ کے نام پر ہو، پوری توجہ رہنی چاہئے۔ تفرقہ انگیزی دشمن کی بہت اہم چال ہے اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے شروع ہی سے قومی اتحاد اور عوام الناس کی یکجہتی پر حد درجہ توجہ دی اور یہ آپ کے اہم اصولوں میں ہے۔ امریکی اب اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ باقاعدہ شیعہ اور سنی کا نام لیتے ہیں۔ شیعہ اسلام اور سنی اسلام، پھر ان میں سے ایک کی حمایت کرتے ہیں اور دوسرے پر تنقید کرتے ہیں۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے روز اول سے مسلکی اختلاف کے سلسلے میں بالکل مساویانہ موقف اختیار کیا۔ ہم نے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ جو سنی ہیں بالکل ویسا ہی برتاؤ کیا جیسا برتاؤ ہم نے حزب اللہ لبنان کے ساتھ کیا جو شیعہ تنظیم ہے۔ ہم نے ہر جگہ ایک ہی نہج پر کام کیا ہے۔

امام خامنہ ای

4 جون 2015