قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی تقوی لفظ ہے، اس کا مطلب ہے مکمل توجہ اور پوری طرح چوکنا رہنا۔ اس شخص کی طرح جو لمبا لباس پہن کر، علمائے دین کے لباسوں کی طرح، ایک خاردار راستے پر چل رہا ہے، تو وہ چوکنا رہتا ہے کہ کہیں کوئي کانٹا اس کے لباس میں نہ لگ جائے، قدم بہ قدم اور ہر لمحہ نگرانی۔ اپنے پیروں کے نیچے بھی دیکھے اور یہ بھی دیکھے کہ یہاں پر وہ جگہ کہاں ہے جہاں کانٹے کم ہیں کہ اسی طرف بڑھے۔ مطلب یہ کہ نیچے بھی دیکھے اور آگے بھی دیکھے، یہی تقوی ہے۔ "تقوی اللہ" کے معنی، جس کا ترجمہ عام طور یہ کیا جاتا ہے کہ انسان، اللہ سے ڈرے، خوف رکھے، یہی ہیں! تو خوف خدا کا مطلب یہ ہے، یعنی پوری شدت سے اس بات کا خیال رکھیے کہ خدا کے حکم کے خلاف، خدا کے اوامر و نواہی کے خلاف عمل نہ ہو، یہی تقوی ہے۔ ایسے ہی موقعوں پر جب قرآن مجید فرماتا ہے "ان تصبروا  و تتقوا"(اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو) تو اس کی ایک خصوصیت ہے: یہ تقوی، دشمن کے مقابلے میں تقوی ہے۔ یعنی چوکنا رہنا، دشمن پر نظر رکھنا، اس کے حرکنات و سکنات پر گہری نظر رکھنا، اس کے مقابلے کے لئے اپنی نقل و حرکت کی نگرانی کرنا، اس کی مشقوں اور سرگرمیوں کی نگرانی کرنا۔

امام خامنہ ای
28 اگست 2017