آج سڑکوں پر ہونے والے ہنگاموں میں دشمنوں کے ملوث ہونے کا سبھی اعتراف کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئي دعوی کرے اور دوسرا کہے کہ آپ کے پاس کیا دلیل ہے، جی نہیں! سبھی اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں، مطلب یہ کہ بات پوری طرح عیاں ہو چکی ہے، یہاں تک کہ غیر ملکی غیر جانبدار مفکرین بھی اس بات کو مانتے ہیں۔ یعنی یہ ہنگامے داخلی سطح پر اپنے آپ وجود میں نہیں آئے ہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ پہلے سے موجود کچھ چیزوں کا فائدہ اٹھایا گيا ہو لیکن پروپیگنڈا، فکروں کو متاثر کرنے کی کوشش، ہیجان پیدا کرنا، ورغلانا، راستہ دکھانا: "اس طرح سے پیٹرول بم بنائيے یا فلاں کام اس طرح سے کیجیے" یہ ایسے کام ہیں جو پوری طرح واضح ہیں جو ہو رہے ہیں، یہ عیاں ہیں، یہ فراموش نہیں ہونا چاہیے۔ ان لوگوں میں سے ہر کوئي اس سلسلے میں اپنی رائے پیش کرتا ہے، بات کرتا ہے، اس پر توجہ ہونی چاہیے اور ضرور دھیان دینا چاہیے۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ جب انسان غور کرتا ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ دشمن اس سلسلے میں یہ جو کام کر رہا ہے، یہ مایوسی بھرا قدم ہے، ایک ردعمل ہے، یعنی ایرانی قوم نے بہت تھوڑے عرصے میں، کئي بڑے کارنامے انجام دیے ہیں اور یہ کارنامے، عالمی سامراج کی پالیسیوں کے بالکل برخلاف ہیں کہ جن کی طرف میں اشارہ کروں گا، تو یہ لوگ ردعمل دکھانے پر مجبور ہو گئے، مطلب یہ کہ ان کا یہ عمل شکست کے وقت انجام دیا جانے والا عمل ہے، جدت طرازی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے لیے پیدا ہونے والے ان گڑھوں کو بھرنے کے لیے اس طرح کے کام شروع کیے، سازشیں تیار کیں، پیسے خرچ کیے، بہت سے افراد کو میدان میں لے کر آئے جن میں امریکا، یورپ اور دوسری جگہوں کی سیاسی شخصیات شامل ہیں۔
وہ چند کارنامے جن کے بارے میں، میں نے کہا کہ ایرانی قوم نے انجام دیے ہیں، ان میں سے پہلا، عوام خاص طور پر جوانوں کی جانب سے کورونا کی وبا کے دوران انجام دیا گيا کارنامہ تھا۔ ہمارے عوام اور نوجوان جس طرح سے میدان میں آئے، اس کی پوری دنیا میں کوئي مثال نہیں ہے، مطلب یہ کہ جہاں تک ہمیں خبر ہے، دوسری جگہوں پر اس طرح کی مشارکت اور عوامی تعاون کی کوئي خبر نہیں ہے، وبا کے ابتدائي دنوں میں جنازوں کی تدفین کے لیے لوگوں کا آگے آنا، جب خود مرنے والوں کے قریبی افراد اور رشتہ دار تک ان کے قریب جانے کی ہمت نہیں کرتے تھے، کچھ جوان، کچھ خدا ترس لوگ رضاکارانہ طور پر سامنے آئے، انھوں نے جنازوں کو تیار کیا، انھیں دفن کیا، اسی طرح اور دوسرے کام بھی جو انجام پائے جیسے ویکسین کا پروڈکشن، ماسک کا پروڈکشن، مختلف طرح کی ضرورتوں کی تکمیل اور پھر ٹھپ پڑ چکے کاروباروں اور محتاج ہو جانے والے لوگوں کے لیے مومنانہ امداد، ہمارے جوان میدان میں آ گئے، یہ بات کس چیز کی نشاندہی کر رہی تھی؟ دو چیزوں کی: ایک تو یہ کہ ایرانی قوم بلند ہمت، زندہ دل اور جوش و جذبے سے بھری ہے اور دوسرے یہ کہ ایرانی قوم دیندار ہے، مذہبی مسائل اور دینی اقدار کی پابند ہے۔
یہ ایرانی قوم کا پہلا اقدام تھا اور اس کا حالیہ اقدام، اربعین کے موقع پر نظر آیا، چاہے وہ نجف و کربلا اور کاظمین و کربلا کے درمیان پیدل مارچ ہو اور چاہے کربلا میں اربعین کے پیدل مارچ سے رہ جانے والوں کے نام سے ملک کے اندر بڑے بڑے پیدل مارچ ہوں۔ یہ چیزیں بہت اہم تھیں، دسیوں لاکھ انسانوں نے، جن میں زیادہ تر نوجوان تھے، ان پیدل مارچوں میں حصہ لیا، شرکت کی۔ انھوں نے بھی دکھا دیا کہ ایرانی قوم زندہ، پرنشاط اور پرجوش بھی ہے اور دیندار بھی ہے، مذہبی اصولوں کی پابند ہے، دین سے پیار کرنے والی ہے، دین پر ایمان رکھنے والی ہے۔ البتہ ان دونوں کے درمیان "سلام فرماندہ" ترانے کا عدیم المثال موضوع بھی تھا جو سرحدوں کو عبور کر گيا اور اس نے پوری دنیا کے کروڑوں بچوں اور نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچا۔ یہ سب مذاق نہیں ہے، یہ ایسے مسائل ہیں جو دنیا میں پہلی بار رونما ہو رہے ہیں۔ کسی ملک میں کوئي ترانہ تیار کیا جاتا ہے، پھر وہ کئي دوسرے ملکوں تک پہنچ جاتا ہے اور بچے اور نوجوان اس ترانے کو مل کر پڑھتے ہیں، میں ملکوں کا نام نہیں لینا چاہ رہا ہوں، اگر نام بتا دوں تو یقینی طور پر آپ میں سے بعض لوگوں کو، جنھیں اطلاع نہیں ہے، حیرت ہوگی۔ یہ ہماری معلومات ہیں، صحیح اور پوری معلومات ہمارے پاس ہیں۔
تو خطے اور خطے سے باہر کے ماحول میں ایرانی قوم کا سامنے آنا اور وہ بھی اس طرح سے، ایسی چیزیں ہیں جنھیں دشمن دیکھتا ہے اور ان کے مقابلے میں چپ نہیں رہنا چاہتا، اسی لیے وہ ان کے مقابلے میں یہ کام کر رہا ہے۔ وہ لوگ بیٹھتے ہیں، سازشیں تیار کرتے ہیں کہ مہر مہینے کے آغاز (ستمبر کے اواخر) میں مثال کے طور پر ایران کو ہنگاموں اور توڑ پھوڑ وغیرہ میں مشغول کر دیں۔ یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے: دشمن کا قدم مایوسانہ ہے اور حالات اور امور کا کنٹرول ایرانی قوم کے ہاتھ میں ہے، الحمد للہ، خدا کا شکر ہے۔ اس طرح کے کام ہیں جنھیں دیکھ کر دوسری اقوام، ایرانی قوم کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں، ایران کی طرف مائل ہو جاتی ہیں، ایران کے اقدام سے مسحور ہو جاتی ہیں۔ تو تھوڑے تھوڑے فاصلے سے سامنے آنے والے ان کارناموں نے لوگوں کے مذہبی رجحان کو نمایاں کیا، جوانوں کی فرحت کو نمایاں کیا اور فطری طور پر یہ اس چیز کے بالکل برخلاف ہے جو وہ چاہتے ہیں کہ ایران میں ہو اور اگر نہ بھی ہو تو وہ اس کا دکھاوا کر سکیں، اصل بات یہ ہے۔ اسی لیے وہ ردعمل دکھانے پر مجبور ہوتے ہیں، بچکانہ اور احمقانہ ردعمل، جو دشمن دکھاتا ہے۔
ایک دوسری بات، ملک کا انتظام چلانے والوں سے ایک سفارش ہے اور بحمد اللہ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے محترم سربراہان یہاں تشریف رکھتے ہیں اور وہ سفارش یہ ہے کہ چوکنا رہیے کہ ان چیزوں کی وجہ سے آپ کی توجہ اصل کاموں سے ہٹنے نہ پائے، اصلی کاموں سے پیچھے نہ رہ جائيے۔ دشمن کے اہداف میں سے ایک یہی ہے کہ بنیادی کاموں کی طرف سے حکام، ذمہ داران اور منتظمین کی توجہ ہٹا دے اور روزمرہ کی ان چیزوں پر لگا دے۔ ان کی توجہ ہٹنے نہ پائے، آپ لوگ بنیادی کام کرتے رہیے، آپ نے جو ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی ہے، چاہے وہ ملک کے اندرونی امور سے متعلق ہو، بڑی بڑی تعمیرات، بڑے کام، مفید قانونوں کی تدوین، عدلیہ کے اہم کام، چاہے ملک کے باہر کے امور سے متعلق ہوں، خارجہ پالیسی اور اسی طرح کی دوسری چیزیں، خیال رکھیے کہ ان میں خلل نہ پڑنے پائے۔ آپ کی توجہ اس طرح ان ذیلی مسائل پر مرکوز نہ ہو جائے کہ آپ اصل کاموں کو بھلا بیٹھیں۔ دشمن کا ایک ہدف یہی ہے کہ اس طرح کی چیزوں کے ذریعے عہدیداران کی توجہ اصل کاموں کی طرف سے ہٹا دے، انھیں مشغول کر دے تاکہ وہ اصل کام انجام نہ دے سکیں۔ ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا۔ عہدیداران اپنے کام کرتے رہیں گے۔ اپنا پورا وقت، ملک کے بنیادی کاموں اور ملک کی پیشرفت سے متعلق امور پر لگائيے۔
یہ لوگ جو سڑکوں پر آ رہے ہیں، ان سب کا ایک ہی حکم نہیں ہے، ان میں سے بعض یا تو دشمن کے عناصر ہیں اور اگر دشمن کے عناصر نہیں ہیں تب بھی اسی کی راہ پر چل رہے ہیں اور ان ہی مقاصد کے تحت سڑکوں پر آ رہے ہیں، لیکن بعض لوگ ایسے نہیں ہیں، وہ ہیجان زدہ ہو گئے ہیں، ان دونوں کا ایک ہی حکم نہیں ہے۔ دوسری قسم کے لوگوں کو ثقافتی کام کے ذریعے ٹھیک کرنا چاہیے۔ لیکن پہلی طرح کے لوگوں کو نہیں، عدلیہ اور سیکورٹی کے ذمہ داروں کو ان کے بارے میں اپنی ذمہ داری کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔