اس بیان کی تفصیلات پر بحث کرتے ہوئے معروف سیاسی و دینی رہنما، رکن پارلیمنٹ اور قومی سلامتی و خارجہ امور کے پارلیمانی کمیشن کے سابق سربراہ حجت الاسلام و المسلمین جناب مجتبی ذوالنوری نے ایران کے چینل 6 کے ایک پروگرام میں کلیدی نکات پیش کئے اور حالات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس گفتگو کے کچھ حصے یہاں پیش کئے جا رہے ہیں۔

سوال: ڈاکٹر ذوالنوری صاحب پچھلے تقریبا چالیس دنوں سے جاری حالات کے بارے میں ملک کے دو انٹیلیجنس اداروں کا پہلا مشترکہ بیان سامنے آيا ہے، اس بیان میں جو چیزیں سامنے آئي ہیں، ان کی اہمیت کیا ہے؟

جواب: پہلے میں ایک نکتے کی طرف اشارہ کروں۔ انقلاب اور مقدس دفاع کے اوائل میں بعض لوگ فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب کے ایک ساتھ موجود ہونے پر سوال اٹھاتے تھے لیکن آٹھ سالہ مقدس دفاع نے یہ بات ثابت کر دی کہ سپاہ پاسداران اور فوج نے دو بازوؤں کی طرح ایک ساتھ مل کر ملک کی سلامتی کی حفاظت کی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے برسوں میں ہمارے دشمن اس سلسلے میں طرح طرح کے پروپیگنڈے کرتے تھے اور اسلامی نظام پر حملہ آور ہوتے تھے۔ ہم اس بات کے شاہد ہیں کہ پچھلے کچھ برسوں سے دو مضبوط انٹیلی جینس ادارے یعنی وزارت انٹیلی جینس اور سپاہ پاسداران کی انٹیلی جینس ملک کی ضرورت سمجھے جاتے ہیں اور بحمد اللہ آج ہمارے انٹیلی جینس کے ادارے اس مرحلے  پر پہنچ چکے ہیں کہ ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں اور انٹیلی جینس سے متعلق معلومات پر پوری نگرانی رکھتے ہیں، چنانچہ دوسرے ملکوں کی انٹیلی جینس سروسز خاص طور پر امریکا اور اسرائيل کی سیکرٹ سروسز کی تمام خفیہ معلومات اور سراغ ان کے پاس ہیں، جنھوں نے ہمارے ملک کے اندر سے کچھ لوگوں کو خرید رکھا ہے، کچھ لوگوں کو دوسرے ملکوں میں لے گئے ہیں، انھیں ٹریننگ دی ہے اور آج انہی کے ذریعے لوگوں پر حملے کروا رہی ہیں۔ یہ بیان جو، وزارت انٹیلی جینس اور سپاہ پاسداران نے جاری کیا ہے، اس میں ایسی اہم باتیں اور نکات ہیں جو ملک کے اندر تسلط پسندانہ نظام کی دراندازی کی کوششوں، اس کے ذریعے پانی کی طرح بہائے جا رہے پیسوں اور کئي برسوں سے جاری سازشوں سے پردہ اٹھاتے ہیں جن کا مقصد ایک طرف ملک میں امن و سلامتی کو تباہ کرنا اور نظام کو گرانے کی کوشش  کرنا، دوسری طرف قومیتی اور فرقہ وارانہ جذبات بھڑکا کر ملک میں علیحدگي پسندی کو بڑھاوا دینا، تیسری طرف سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز سے سیکورٹی خطرے پیدا کرنا اور ملک کے بنیادی ڈھانچوں پر سائبر حملے کرنا اور چوتھی طرف ان وسائل کے ذریعے نفسیاتی جنگ چھیڑنا ہے اور یہ سارے کام انھوں نے اس مدت میں انجام دیے ہیں تاکہ پہلے تو ہمارے ملک کو اندر سے پوری طرح بدل دیں اور پھر بعد میں اسلامی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکيں۔ بحمد اللہ ہمارے عوام نے اپنی بصیرت، بیداری، آگہی اور ہوشیاری سے آج تک ان سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وزارت انٹیلی جینس اور سپاہ کے اس اہم مشترکہ بیان کے مندرجات کی تشریح کے لیے کئي پروگراموں کی ضرورت ہوگي جن میں دشمن کی سازشوں اور کوششوں کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جا سکے۔

سوال: ڈاکٹر ذوالنوری صاحب یہ جو مشترکہ بیان جاری ہوا ہے، چونکہ ہم امریکا کے بارے میں بات کر رہے ہیں، ایران کے خلاف اس کے اتحاد کی بات کر رہے ہیں، جو بحران پیدا کیا گيا، بدامنی پیدا ہوئي، جو ہنگامے ہم نے دیکھے، ان میں سے ہر عنصر کا کردار، بدامنی اور ہنگاموں میں آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب: اس سلسلے میں دشمن کی متعدد اسٹریٹیجیز ہیں۔ وہ اس کوشش میں ہے کہ اسے کوئي ایسا بہانہ مل جائے کہ وہ اپنی ان اسٹریٹیجیز کو ایک دوسرے سے جوڑ دے اور ایک ہمہ گير بحران پیدا کر دے۔ یہاں پر میں ایک اشارہ کرتا چلوں کہ مثال کے طور پر محترمہ مہسا امینی کا معاملہ ہے۔ چونکہ وہ ایک خاتون تھیں، اس لیے دسیوں برس سے عالمی سطح پر فیمینزم کے سلسلے میں جتنی بھی کوششیں ہوئي ہیں، انھیں اس معاملے سے جوڑ دیا گيا، اگر کوئي مرد ہوتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ وہ لڑکی تھی اور جوان تھی۔ دو، اس معاملے میں گنجائش تھی کہ نوجوانوں کی بحث، نئي نسل کی بحث اور انقلاب کی پچھلی نسل کی بحث کہ اسے کچھ پتہ نہیں ہے، ان سب کو اس معاملے سے لا کر جوڑ دیا جائے، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا مگر چھوٹے پیمانے پر اس نے یہ کام کیا۔ تین، وہ سنی تھیں، وہ لوگ مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ایک جگہ لانے میں کامیاب ہو گئے اور اسے ایک طرح سے شیعہ اور سنی کا معاملہ بنا دیا۔ پیٹرو ڈالرز انڈیلے جانے لگے۔ اس دوران ایران انٹرنیشنل (سعودی عرب کے فنڈ سے لندن سے چلنے والا فارسی ٹی وی چینل) نے سعودی عرب کے پیٹرو ڈالرز کے سہارے جو کچھ کیا وہ پوری طرح واضح ہے۔

سوال: مطلب یہ کہ جن کاموں کی وہ برسوں سے منصوبہ بندی کر رہے تھے،  جن کی وہ حمایت کر رہے ہیں، کیمپین چلا رہے ہیں، ٹریننگ دے رہے ہیں، ان سب کو ایک ساتھ میدان میں لے آئے۔

جواب: ان سب کو وہ ایک ساتھ ایک معاملے میں لے آئے، سب کو ایک ساتھ جوڑ دیا تاکہ سب ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ وہ لڑکی کرد تھی، قومیتی جذبات کو، جو علیحدگي پسندی کی راہ ہموار کرتے ہیں، بھڑکایا گيا۔ وہ مسافر تھی، ان لوگوں نے انسانی ہمدردی کے جذبات کا سہارا لیا تاکہ فیملیز کو تشویش میں ڈال دیں کہ کیا پتہ کل کو ان کے بچے کے ساتھ بھی ایسا جائے۔ یہ ساری چیزیں وہ ایک ساتھ میدان میں لے کر آ گئے۔ اسرائيل کافی عرصے سے کام کر رہا تھا، آپ جانتے ہیں کہ اصفہان میں ہونے والے اس دہشت گردانہ واقعے کے لیے اسرائيل نے کرد ملیشیا کے افراد کو استعمال کیا تھا کہ جو ہماری سیکورٹی فورسز کی چابکدستی کی وجہ سے  ناکام ہو گیا، یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے لیے ایک بڑی گہری اور ہمہ گير سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ انھوں نے جو کام کیے ہیں، جس طرح پیسے خرچ کیے ہیں، جیسی مالی پشت پناہی کی ہے، وہ دن آئے جب ہم بلوا اور ہنگامہ کرنے والے گرفتار شدہ بعض لوگوں کے بینک ٹرانزیکشنس کے پرنٹ آؤٹ دکھا سکیں جن میں براہ راست 'مسیح علی نژاد' نام کی اس بدقماش اور فراری عورت اور دیگران کی طرف سے پیسے ڈالے جاتے تھے۔ یہ سب اس بات کو عیاں کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا گیا اور اس کے لیے کاموں کی تقسیم بندی ہو چکی تھی۔ ہنگاموں اور بلووں کو جاری رکھنے کے لیے آپ نے سنا ہی ہوگا کہ کینیڈا کے وزیر خارجہ نے چودہ دیگر وزرائے خارجہ کے ساتھ بالمشافہ یا ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے میٹنگ کی تھی کہ کس طرح ایران میں ہنگاموں کو جاری رکھا جائے۔ یورپی ٹروئیکا بھی میدان میں آ گيا اور پوری ہماہنگي کے ساتھ آيا۔ مطلب یہ کہ مختلف گروہوں کے درمیان پورا اتحاد ہو گيا۔ امریکا اور فرانس، جو یلو جیکیٹس کے مسئلے میں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے  تھے، اس مسئلے میں وہ پوری طرح سے متحد ہو گئے۔  یعنی ہمارے اسلامی نظام کی دشمنی تمام مخالفوں کے درمیان اتحاد کا محور اور وسیلہ بن گئی ہے۔ یا مثال کے طور پر ہم انقلاب کی ابتداء سے دشمنی برتنے والے مختلف ناموں کو یاد کریں تو انقلاب مخالف گروہوں اور دھڑوں میں سے کوئي بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہا۔ یہ سب پوری طاقت سے اس میدان میں کام کر رہے ہیں اور سامنے آ گئے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے دشمنوں نے اپنی پوری طاقت اور اپنے پورے وجود سے ہمارے خلاف ایک 'جنگ بدر' چھیڑ دی ہے۔

بحمد اللہ ہمارے عوام بابصیرت ہیں، آگاہ ہیں اور بحران کو کنٹرول کرنے میں ہماری فورسز کی صلاحیت کے علاوہ میرے خیال سے تین وجوہات ایسی ہیں جن کی وجہ سے یہ لوگ بحران کو ملک گیر نہیں کر پائے۔ جیسے آبان سنہ نومبر 2019 کا واقعہ (پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کے خلاف اعتراضات کو پر تشدد بنانے کی سازش) یا سنہ 2009 کا فتنہ (صدارتی انتخابات کے نتائج کو ہائی جیک کرنے کے لئے ملک میں جگہ جگہ تشدد کی آگ بھڑکانے کی کوشش)، میں اختصار سے ان تین عناصر کا ذکر کرتا ہوں۔

نمبر ایک: فریق مقابل یہاں غلط سمجھ بیٹھا تھا کہ ہمارے عوام کی ریڈ لائن کیا ہے۔ انھوں نے بہت جلدی انتہائي تشدد آمیز اقدامات کا رخ کر لیا۔ پولیس اہلکار کا سر قلم کرنا، امام حسین علیہ السلام کے موکب کو اس میں موجود افراد کے ساتھ نذر آتش کرنا، رضاکار فورس کے اہلکار، پولیس اہلکار یا راہگيروں کے پیٹ میں چاقو گھونپ دینا، عورتوں کی چادریں کھینچ لینا اور انھیں آگ لگا دینا، بینک کو نذر آتش کر دینا، مزید برآں ایمبولینسوں اور فائر بريگيڈ کی گاڑیوں کو آگ لگا دینا، تو شروع میں جو تھوڑے بہت لوگ معاشی اور اقتصادی مشکلات اور اس پر ناراضگي کی وجہ سے میدان میں آ گئے تھے، وہ ان سے الگ ہو گئے۔

نمبر دو: دوسری اہم وجہ جس نے عوام الناس کو تخریب کاروں سے الگ کر دیا، وہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے عوام کے مقدسات کی توہین شروع کر دی۔ پچیس مذہبی و ثقافتی مراکز کو ان لوگوں نے آگ لگا دی جن میں کئي مسجدیں بھی تھیں، جیسے رشت کے سبزہ میدان کی مسجد موسی ابن جعفر جو پوری طرح سے جل کر راکھ ہو گئي ہے۔ یہ لوگ قرآن لے کر آتے تھے اور لوگوں کی بھیڑ کے بیچ میں اسے نذر آتش کرتے تھے۔ یقینا ہمارے عوام کو شکایات ہیں، معاشی سختیاں ہیں لیکن وہ اس بات کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں کہ کچھ اعتراضات کے لیے اپنے تمام عقائد کو جلا کر راکھ کر دیں۔ یہ دوسری اہم وجہ تھی۔

 نمبر تین: تیسری وجہ بھی بتاتا چلوں، وہ یہ تھی کہ انھوں نے کچھ لوگوں کی موت کو جس طرح سے پیش کیا، وہ ایک ایسا حربہ ہے جو بھیڑ بھاڑ والے ہنگاموں اور تختہ پلٹنے کی سازشوں کے دوران استعمال کیا جاتا ہے، یہ جارج سورس اور دوسروں کی تھیوری ہے، ہمارے ذرائع ابلاغ نے اس مسئلے میں دیر سے کام شروع کیا لیکن جب وہ میدان میں آ گئے اور انھوں نے اس معاملے میں بولے جانے والے سفید جھوٹ کو بے نقاب کرنا شروع کر دیا، جیسے مہرشہر کی اس لڑکی کی موت یا دوسرے واقعات تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئي بھی ان کی باتوں پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہوا، لوگوں نے ان کی خبروں کو بنیاد بنا کر مظاہروں میں شرکت کرنا گوارا نہیں کیا۔ اس طرح بحمد اللہ اس مسئلے کو کنٹرول کر لیا گيا اور یہ لوگ ناکام ہو گئے۔