بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

احباب کا اصرار ہے کہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کے سلسلے میں وقت کے تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے مختصر گفتگو کروں۔

امام محمد باقر علیہ السلام  کی امامت کا آغاز سن  94  یا 95 ہجری  میں ہوا جو سن  114  ہجری تک جاری رہا جو ان کی شہادت کا سال ہے۔ ان کی امامت کا دور  19 یا  20 برس رہا ہے۔ ان 20 برسوں میں امام محمد باقر علیہ السلام نے قرآن مجید، احادیث، احکام، فرائض اور اخلاقی خوبیوں کی تشریح پر مشتمل نظریاتی و دینی جد و جہد کے ساتھ ہی ساتھ، خلافت کے خلاف جد وجہد، عوام میں اتحاد، شیعہ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور مسلمانوں کو امامت سے جوڑنے پر مشتمل سیاسی سرگرمیوں کا سلسلہ  بھی جاری رکھا۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے یہ دو بنیادی تحریکیں ایک ساتھ جاری رکھیں۔

ہشام بن عبد الملک وہ خلیفہ ہے جس کے دور میں امام محمد باقر علیہ السلام کی عمر کا اکثر حصہ گزرا ہے۔ اسے اچانک یہ محسوس ہونے لگا کہ امام محمد باقر علیہ السلام اس کے لئے خطرہ ہیں۔ کہتے ہيں کہ مسجد الحرام یا پھر مکہ و مدینہ کے کسی راستے پر ہشام جا رہا تھا، اس کے ساتھ اس کا خاص غلام سالم بھی موجود تھا۔ اس نے اچانک دیکھا کہ ایک بہت عظیم شخصیت چل رہی ہے۔ اس نے پوچھا یہ کون ہے؟ سالم نے کہا: ھذا محمد بن علی بن الحسین۔ اس نے امام کا تعارف کرایا۔ جب ہشام کو پتہ چلا کہ یہ امام محمد باقر علیہ السلام ہيں تو وہ کہنے لگا: اچھا! المفتون به اهل العراق؟(1)  یہ وہی ہیں جن کے اہل عراق عاشق ہیں، جن پروہ جان چھڑکتے ہيں؟ اسے محسوس ہوا کہ امام اس کے لئے ایک خطرہ ہیں۔ اسی لئے اس نے امام محمد باقر علیہ السلام کو ستانے اور پریشان کرنے کا ارادہ کر لیا۔

یہ تو مسلمہ حقیقت ہے کہ اس نے امام محمد باقر علیہ السلام کو ایک بار مدینہ سے شام طلب کیا تھا۔ میرے خیال میں ایک بار سے زیادہ طلب کیا تھا۔ امام محمد باقر علیہ السلام کو طلب کرنے کے سلسلے میں جو روایتيں ہیں وہ ایسی ہیں جن میں ایسے واقعات کا ذکر ہے جن کے درمیان کافی فاصلہ ہے جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ہشام نے امام محمد باقر علیہ السلام کو دو بار بلکہ تین بار مدینہ سے شام طلب کیا اور انہيں وہاں لے جایا گیا۔

بہرحال ایک بار جب اس نے امام محمد باقر علیہ السلام کو طلب کیا۔ اگر میں طلب کرنے کا طریقہ بیان کر دوں تو امام محمد باقر علیہ السلام سے ہماری عقیدت اور بڑھ جائے گي اور اس کے ساتھ ہی امام کے سیاسی نظریات بھی واضح ہو جائيں گے۔

ہشام نے مدنیہ کے حاکم کو حکم دیا کہ محمد ابن علی اور ان کے بیٹے جعفر بن محمد کو پکڑ کر ہمارے پاس بھیج دو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں کہ جب امام جعفر صادق علیہ السلام ایک نوجوان تھے، تب بھی خلافت کی نظر میں ان کی طرف سے خطرہ تھا یعنی وہ صرف امام محمد باقر علیہ السلام پر ہی اکتفا نہيں کرتا ہے بلکہ کہتا ہے کہ دونوں کو میرے پاس بھیجا جائے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھم السلام کو سواری پر بٹھایا جاتا ہے اور سپاہیوں کے ساتھ شام روانہ کر دیا جاتا ہے۔

ادھر ہشام بن عبد الملک بیتاب ہے کیونکہ وہ کسی عام آدمی کا سامنا نہیں کرنے والا تھا بلکہ ایسی شخصیتوں کا سامنا کرنا تھا جو غیر معمولی ہیں۔ پہلی چیز تو یہ کہ وہ پیغمبر اسلام کے فرزند ہیں اور یہ وہ فضیلت تھی جسے بنی امیہ کے خلفاء بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ دوسری بات یہ تھی کہ یہ شخصیتیں بے حد فصاحت و بلاغت کے ساتھ گفتگو کرتی تھیں اور حاضر جواب بھی تھیں جو بہت آسانی سے ہشام اور اس کے خوشہ چینوں کی تذلیل کر سکتی تھیں۔

تیسری وجہ یہ تھی کہ وہ علمی شخصیات ہيں اور اس طرح کی عظیم علمی شخصیات اور اعلی انسانوں سے ہمکلام ہونا آسان کام نہيں تھا۔ مختصر یہ کہ ہشام ڈرا ہوا تھا اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان شخصیات کا سامنا کیسے کرے؟ اسے یہ ڈر بھی ستا رہا تھا کہ کہيں یہ لوگ محل اور دربار میں آنے کے بعد ایسی باتيں نہ کہہ دیں جس سے وہ اور اس کے درباری رسوا ہو جائيں اور جواب بھی نہ دے پائيں جس کی وجہ سے وہ تند خوئی کرنے پر مجبور ہو جائے جو وہ نہيں چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے ایک سازش رچی جو اس طرح سے تھی:  کچھ درباریوں اور حوالی موالیوں کو لایا گیا اور ان سب کو اس ہال میں چاروں طرف بٹھا دیا گیا جہاں امام محمد باقر علیہ السلام کو بلایا جانے والا تھا، خود ہشام بیچ میں بیٹھا اور کہا کہ جب محمد بن علی اندر آئيں تو تم لوگوں میں سے کوئي بھی ان کے احترام میں نہ کھڑا ہو اور نہ ہی انہيں بیٹھنے کی جگہ دے تاکہ وہ مجبورا کھڑے رہیں، تم سب خاموش رہنا اور میں انہيں برا بھلا کہنا شروع کر دوں گا۔ پھر جب میری بات ختم ہو جائے گی تو تم لوگ بھی ایک ایک کرے انہيں برا بھلا کہنا اور کچھ اس طرح سے ہر طرف سے ان پر حملہ کرنا کہ ان کے بولنے اور بات کرنے کی گنجائش ہی نہ رہے۔

اب اگر ہشام اپنے منصوبے میں کامیاب ہو جاتا تو حقیقت میں وہ فاتح رہتا کیونکہ قتل تو کیا نہيں ہوتا، جیل میں بھی نہيں ڈالتا، بس دربار میں بلا کر ان کی تحقیر اور بے عزتی کر دیتا اور پھر واپس بھیج دیتا۔ سب کو خبر بھی ہو جاتی کیونکہ دربار میں شعراء بھی تھے، وہ سب اس واقعے کے بارے میں اشعار بھی کہتے۔ ایک بار میں نے کہا تھا کہ پرانے زمانے کے شعراء، آج کل کے صحافیوں کی طرح ہوتے تھے، کسی بھی واقعے پر شعر کہہ کر اسے پھیلا دیتے تھے، "اچھا تو آپ وہی ہیں جنہيں ہشام کے دربار میں خلیفہ نے یہ کہا تھا، وہ کہا تھا اور آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہيں تھا۔" یہ سب باتيں کہی جاتیں اور ہر طرف پھیلائی جاتیں، پوری دنیا کو پتہ چل جاتا، عراق میں بھی یہ خبر جاتی اور سب کو پتہ چل جاتا اور اس طرح ہشام کا مقصد پورا ہو جاتا۔  

امام محمد باقر علیہ السلام اس ہال میں داخل ہوئے، وہاں سب لوگ پہلے سے ہی تیار تھے۔ امام نے سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ ہشام کو سلام نہيں کیا، انہوں نے سلام تو کیا کیونکہ سلام مستحب ہے، لیکن ہشام کو نہيں بلکہ سب کو سلام کیا اور کہا السلام علیکم! جبکہ طریقہ کیا تھا ؟ طریقہ یہ تھا کہ جب خلیفہ بیٹھا ہو، وہ بھی ایسا جابر خلیفہ ہو تو جب آپ  اس کے دربار میں پہنچیں تو سب سے پہلے اسے سلام کریں! جیسے خاص عزت و احترام کے ساتھ  یہ کہیں:  "سلام علیکم یا امیر المومنین! یہ خلفاء خود کو امیر المومنین کہلواتے تھے۔ لیکن امام نے ایسا نہيں کیا۔ جب وہ ہال میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ بیٹھے ہيں۔ خلیفہ کون ہے، اس پر توجہ ہی نہیں دی۔ اب میں وہ برے الفاظ استعمال نہيں کرنا چاہتا جو اس قسم کے موقع پر کہے جاتے ہیں۔ بہرحال دوسرے بھی اسی کی طرح ہیں، اس لئے امام نے خلیفہ کو سلام نہیں کیا بلکہ کہا: السلام علیکم۔

اس کے بعد جہاں جگہ ملی جاکر بیٹھ گئے۔ خود امام محمد باقر علیہ السلام اور اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام، انہوں نے اس بات کا انتظار ہی نہيں کیا کہ ان سے کہا جائے کہ تشریف لائيے، یہاں بیٹھئے، اوپر بیٹھیے، نیچے بیٹھئے۔ غالبا خود ہشام کے قریب ہی ایک جگہ خالی تھی جہاں امام جاکر بیٹھ گئے اور امام جعفر صادق بھی ان کے پاس ہی بیٹھ گئے۔

ہشام نے امام محمد باقر علیہ السلام کو برا بھلا  کہنا شروع  کر دیا۔ "آپ یہ کرتے ہیں، وہ  کرتے ہيں، لوگوں میں جھگڑے پیدا کرتے ہيں۔" اس کی جو باتیں مجھے یاد آ رہی ہيں وہ تھیں کہ آپ کا پورا گھرانہ ہی ہمیشہ مسلمانوں کے اتحاد کو نقصان پہنچاتا رہا ہے، آپ لوگ خود کو بڑا ظاہر کرتے ہيں اور خلیفہ بننا چاہتے  ہيں، خود سب سے اوپر رہنا چاہتے ہيں، آپ لوگ ہمیں اس طرح سے نہيں دیکھ سکتے۔ ہشام نے اسی طرح کی باتیں امام محمد باقر علیہ السلام کو سنانا شروع کر دیا۔ جب اس کی باتیں ختم ہو گئيں تو دوسروں نے بولنا شروع کر دیا۔ "جی ہاں!  بادشاہ سلامت نے صحیح کہا۔"  اس دور کا امیر المومنین وہی بادشاہ سلامت ہوتا تھا، کوئي فرق نہيں ہے، کوئي یہ کہہ رہا تھا کہ آپ لوگ ایسے ہی ہیں، آپ لوگ ویسے ہیں، کوئی کچھ کہتا، کوئي کچھ۔

ہشام کی باتيں ختم ہو گئيں تو ان لوگوں کے پاس بھی کہنے کو کچھ خاص نہيں تھا وہ سب بھی اپنی اپنی بات کہہ کر چپ ہو گئے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے بہت متانت و وقار کے ساتھ ان سب کی باتیں سنیں، ان کے چہرے پر ناگواری کا کوئي اثر تک نہیں تھا نہ ہی ماتھے  پر کوئي شکن تھی، انہوں نے بڑے اطمینان سے  سب کی باتيں سنیں۔

جب سب نے بولنا ختم کر دیا تو امام محمد باقر علیہ السلام اپنی جگہ سے اٹھے کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ بیٹھے رہنے سے کچھ نہيں ہونے والا ہے۔ ان سب کا جواب کھڑے ہوکر دینا چاہئے۔ کھڑے ہوکر انہيں منہ توڑ جواب دینا ضروری ہے۔ اس لئے  امام محمد باقر علیہ السلام نے کھڑے ہوکر خطبہ دینا شروع کر دیا، کچھ اس طرح سے جیسے وہ ہشام یا وہاں بیٹھے چار بے اہمیت لوگوں سے  خطاب نہيں کر رہے ہيں بلکہ گویا وہ تاریخ سے باتیں کر رہے ہوں، جیسے وہ اسلامی امت سے خطاب کر رہے ہوں۔ آپ سب دیکھ ہی رہے ہيں کہ وہ خطاب تاریخ میں ثبت ہو گيا، باقی رہا اور آج ہم تک پہنچا۔ پوری اسلامی تاریخ میں اس خطاب کے الفاظ بار بار دوہرائے گئے۔

 امام محمد باقر علیہ السلام نے بسم اللہ اور خدا کی حمد و ثنا سے اپنا خطبہ شروع  کیا اور پھر بے حد دلچسپ انداز میں اپنی بات اس طرح سے شروع کی:  "اے لوگو!" انہوں نے یہ نہیں کہا: "حاضرین، بھائيو! مومنو! بلکہ کہا اے لوگو!" جس کا مطلب صاف ہے کہ ان کا خطاب وہاں دربار میں بیٹھے صرف چـند لوگوں سے نہیں تھا۔  امام نے کہا اَینَ تَذهَبون؛ "کہاں جا رہے ہو؟" و اَینَ یُرادُ بِکُم، "تمہیں کہاں لے جایا جا رہا ہے؟" تمہاری منزل کیا ہے؟ کہاں ہے؟ یہ جو تمہارا سفر ہے کہاں ختم ہونے والا ہے؟ تم لوگ کر کیا رہے ہو؟  امام محمد باقر علیہ السلام ان لوگوں کی بدحواسی بے نقاب کر دیتے ہيں، یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس اپنا اختیار بھی نہيں، امام بہت اچھی طرح سے یہ واضح کرتے ہیں کہ وہاں بیٹھے لوگ آلہ کار اور خلافت و خلیفہ کے پٹھو ہیں۔ بِنا هَدَی اللهُ اَوَّلَکُم؛  خدا نے ہمارے ذریعے تمہارے آباء واجداد کو ہدایت سے نوازا ہے۔ یعنی آخرمیں ہم ہی رہيں گے اور تم سب چلے جاؤ گے۔ فَاِن یَکُن لَکُم مُلکٌ مُعَجَّلٌ فَاِنَّ لَنا مُلکاً مُؤَجَّلا۔  اگر آج تمہارے  ہاتھ میں یہ چار روزہ  غصب کی ہوئي حکومت ہے تو جان لو اللہ نے ہمارے لئے ایک مستقل اور ہمیشہ رہنے والی حکومت رکھی ہے۔

غور کریں! بظاہر وہ ایک سیاسی قیدی ہیں۔ ایک ایسے سیاسی قیدی جو حاکم وقت کے سامنے کھڑے ہوکر اس طرح سے اس سے بحث کر رہے ہيں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ تم چار دنوں سے زیادہ اس تخت و تاج کے مالک نہيں ہو اور یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے؟! تم سب چلے جاؤگے اور جو چیز رہ جائے گی، جس کی تاریخ بنے گی اور جس کا مستقبل ہوگا وہ ہم ہیں۔  لِاَنّا اَهلُ العاقِبَة؛ کیونکہ ہم عاقبت اور انجام کے مالک ہيں۔ یَقولُ ‌اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ العاقِبَةُ لِلمُتَّقین، (2) نیک عاقبت اور اچھا انجام ان لوگوں کا ہوتا ہے جو با تقوا ہوتے ہيں۔ یعنی ہم با تقوا ہیں، تم لوگ تقوے سے بے بہرہ، فاسق و فاجر و بے دین ہو، بے دین اور فاجروں کا تاریخ میں نام و نشان نہيں ہوتا، وہ ختم ہو جاتے ہیں، لیکن تقوی والے، ہمیشہ رہتے ہيں۔

امام محمد باقر علیہ السلام کے اس بیان کی تفسیر کسی اور وقت کے لئے رہنے دیتے ہيں کیونکہ کافی تفصیلی ہے۔ یہاں میں بس کچھ جملوں پر اکتفا کروں گا۔ بہرحال امام اس طرح کا خطبہ دیتے ہیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام جب خطبہ دیتے ہيں تو جیسا کہ پہلے سے ہی توقع تھی، امام کے ٹھوس بیان کے آگے یہ لوگ بوکھلا جاتے ہيں اور ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہيں۔ ان کی ساری ہمت اور خود اعتمادی کافور ہو جاتی ہے اور ہشام، امام محمد باقر علیہ السلام کی طرف رخ کرکے کہتا ہے: اے چچا زاد! ناراض نہ ہوں، ہم آپ کا برا نہيں چاہ رہے تھے، اس طرح سے وہ قدم پیچھے ہٹا لیتا ہے۔

جیسا کہ میں نے عرض کیا، اس ملاقات کے سلسلے میں کئی روایتيں ہیں جن میں ایک راویت میں اب شاید وہ یہی روایت ہو یا پھر کوئي اور روایت، بہرحال ایک روایت میں کہا جاتا ہے کہ ہشام نے اس امید میں کہ اب کسی اور طریقے سے امام کی توہین کی جا سکتی ہے، ان سے کہا کہ سنا ہے آپ بہت اچھے تیر انداز ہیں۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ ہم لوگ تھوڑا تیر اندازی کر لیں اور آپ کی تیر اندازي  بھی دیکھ لیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام کہتے ہیں کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں، تیر اندازی جوانی کے دور کی بات ہے۔ امام یہ نہیں کہتے کہ مجھے ان سب کاموں میں دلچسپی نہيں ہے بلکہ کہتے ہيں کہ ہاں جوانی کے دور میں میں نے تیز اندازی سیکھی ہے، مجھے آتی ہے لیکن اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ ہشام ضد کرتا ہے تو امام کہتے ہیں اچھی بات ہے، کمان لے آؤ۔

 تیر و کمان لائی جاتی ہے اور ایک نشان بنایا جاتا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام تیر و کمان اٹھا کر تیر چلاتے ہیں جو سیدھے نشانے پر لگتا ہے۔  دوسرا تیر چلاتے ہيں تو وہ  پہلے تیر کو چیرتا ہوا نشانے پر لگتا ہے، تیسرا  تیر مارتے ہیں تو وہ دوسرے تیر کو چیر دیتا ہے! امام سات تیر چلاتے ہيں، ہر تیر پہلے والے تیر کو چیرتا ہوا، نشانے پر لگتا ہے، امام کہتے ہيں یہ لو یہ ہوئي تیر اندازی۔

ایک اور روایت میں کہا گیا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کو ایک جیل میں لے جایا جاتا ہے لیکن دوسری روایت میں ہے کہ ایسا نہیں ہوا لیکن انہيں پھر مدینہ بھیج دیا جاتا ہے اور جب امام مدینہ واپس جاتے ہیں تو ہشام ایک اور خباثت کرتا ہے۔ ہشام یہ سوچتا  ہے کہ اب یہ لوگ یہاں سے فاتح بن کر جا رہے ہیں تو واپسی میں یقینا ہر شہر میں تقریر کریں گے اور کہیں گے کہ ہاں ہم گئے تھے اور ہشام کو شکست دے دی، ان سب کو دھول چٹا کر اب واپس جا رہے ہیں۔ تو یہ تو بہت برا ہوگا اس لئے وہ امام سے پہلے ہی کچھ لوگوں کو بھیجتا ہے جو راستے میں پڑنے والے شہروں میں یہ افواہ پھیلاتے ہیں کہ ان لوگوں کو راستہ نہ دیا جائے اور یہ لوگ یہودی ہیں، وہ ہر شہر میں جاکر یہ کہتے ہیں کہ دو یہودی یہاں سے گزرنے والے ہيں۔ شہر کے لوگو! خیال رہے ان لوگوں کو کھانا پینا نہ دینا۔

آپ غور کریں اس دور کے کم عقل لوگ کس طرح سے اس قسم کے پروپگنڈے سے متاثر ہو جاتے ہيں اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ محمد بن علی اور جعفر بن محمد یہودی ہیں! اسی دوران امام  شہر مدین پہنچتے ہیں جو مدینے کے راستے میں پڑتا تھا، شہریوں سے کہا گیا تھا کہ انہيں کھانا نہ دیا جائے، جب امام وہاں پہنچتے ہيں تو لوگ انہيں دیکھ  کر کہتے ہیں جی ہاں! یہ وہی دو لوگ ہیں جن کا حلیہ بتایا گیا تھا۔ اب یہ لوگ آ گئے ہيں، یہ یہودی ہيں، وہ لوگ، شہر کا دروازہ فورا بند کر لیتے ہيں اور امام کو کھانا پانی تک نہیں دیتے۔ ظاہر ہے اس دور میں قہوہ خانے، کار اور ہوائي جہاز تو تھے نہیں، کئی دنوں سے وہ سفر میں تھے، کھانے پینے کی چیزوں کی ضرورت تھی، خوراک چاہیے تھی، کھانا بہت اہم تھا ان لوگوں کے لئے، تو اگر کوئی کھانا بیچنے پر تیار نہ ہوگا تو پھر انسان کو صحراء میں بھوک پیاس سے مر جانا ہوگا۔

امام محمد باقر علیہ السلام ان سے کھانا خریدنے کی بہت کوشش کرتے ہيں لیکن وہ دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں کی سمجھ میں بات نہيں آ رہی ہے اور وہ کچھ بھی سننے پر تیار نہیں ہیں۔ پھر امام محمد باقر علیہ السلام اپنے بیٹے امام جعفر صادق علیہ السلام کے ساتھ شہر سے باہر ایک ٹیلے پر جاتے ہيں اور مدین کے شہریوں کے مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہيں:

«یا اَهلَ مَدیَن! بَقیَّةُ اللهِ خَیرٌ لَکُم اِن کُنتُم مُؤمِنین»؛ پھر کہتے ہيں  «اَنَا بَقیَّةُ الله».(3)  ایک بوڑھا شخص بھی وہاں موجود تھا جب وہ یہ صورت حال دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے بزرگوں سے حضرت شعیب کے بارے میں کچھ باتيں سنی ہيں، میں نے سنا ہے کہ نبی شعیب علیہ السلام اسی ٹیلے پر اور اسی پہاڑی پر گئے تھے اور لوگوں سے اسی طرح مخاطب ہوئے تھے جس کا ذکر قرآن میں ہے اور میں اس شخص کے چہرے میں حضرت شعیب کا چہرہ دیکھ رہا ہوں۔ جاؤ دروازہ کھول دو ورنہ خدا کا عذاب نازل ہو جائے گا۔

لوگ جاکر دروازہ  کھول دیتے ہيں تو امام فرماتے ہيں کہ میں فرزند رسول ہوں، لوگ آپ کو پہچان جاتے ہیں اور خلیفہ اور اس کے دربار کی اس حرکت سے ناراض ہوتے ہيں اور ہشام کو خوب برا بھلا کہتے ہيں۔ شاید وہ مثال کے طور پر ہشام کے خلاف مظاہرہ کرنے لگتے ہيں۔ جب ہشام کو یہ پتہ چلتا ہے تو وہ حکم دیتا ہے کہ جاکر اس بوڑھے کو پکڑ لاؤ جس کی وجہ سے اتنا ہنگامہ ہوا ہے، اس بوڑھے کو سپاہی پکڑ کر لے جاتے ہيں۔ راوی کا کہنا ہےکہ پھر اس بوڑھے کے بارے میں کچھ پتہ نہيں چلا کہ وہ کہاں گیا، اسے ختم کر دیا جاتا ہے۔

یہ امام محمد باقر علیہ السلام کی سیاسی زندگي ہے، مختصر طور پر۔ امام نے اپنی پر ثمر بیس سالہ امامت میں، دینی تعلیمات کو عام کیا، قرآن مجید کی حکمت، اس کی تعلیمات ہر گوشے تک پہنچائیں، اسلامی حکومت کی تشکیل اور ولایت علوی پر مشتمل شیعیت کے نظریے کی تبلیغ کرنے والوں کو ہر جگہ بھیجا اور بہت بڑی تعداد کو اپنی طرف مائل کیا، اپنے دشمنوں کو دھول چٹائي اور دوستوں و عقیدت مندوں کا حلقہ بنایا اور اسلام میں ایسی بنیاد رکھی جو بعد میں بہت سے عظیم کاموں اور اقدامات کا باعث بنی اور امام صادق علیہ السلام کی امامت کے لئے ماحول سازگار ہوا۔

آخرکار ہشام  سے رہا نہ گیا اور اس نے اس عظیم امام کو زہر دے دیا۔ خداوند عالم ہمیں اس عظیم امام  اور اہل بیت کے چاہنے والوں اور پیروکاروں میں قرار دے۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ  و برکاتہ

 

1) الارشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ج ‌2، صفحہ 163

2) کافی، ج 1، صفحہ 471

3) دلائل‌الامامة، صفحہ 241  تھوڑے سے فرق کے ساتھ