سورۂ حمد میں آپ پڑھتے ہیں کہ "صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْھِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْھِمْ وَلَا الضَّالِّينَ" (سورۂ حمد، آیت 7، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام و احسان کیا نہ ان کا (راستہ) جن پر تیرا قہر و غضب نازل ہوا اور نہ ان کا جو گمراہ ہیں۔) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نعمت حاصل کرتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ بھی 'مغضوب علیھم' ہو جائيں، بنی اسرائیل کی طرح۔ خداوند عالم نے بنی اسرائيل سے فرمایا: "يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ" (سورۂ بقرہ، آيت 40، اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی۔) انھیں خداوند عالم کی نعمتیں حاصل ہوئي تھیں۔ سورۂ حمد میں، 'مغضوب علیہم' سے مراد بنی اسرائيل ہیں۔ بنابریں جب ہمیں نعمت حاصل ہو جائے تو ہم اس بات کی طرف سے چوکنا رہیں کہ نعمت کے حصول کے بعد اس کے شکر گزار رہیں تاکہ 'مغضوب علیہم' یا 'ضالین' کے زمرے میں نہ آ جائيں۔ اس کا راستہ یہ ہے کہ ہم شکر کریں ... قرآن مجید اس طرح فرماتا ہے کہ "مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللَّہِ" (سورۂ نساء، آيت 79، آپ کو جو بھلائی پہنچتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے۔) جو بھی اچھا کام آپ تک پہنچتا ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے۔"وَمَا بِكُم مِّن نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللَّہِ" (سورۂ نحل، آيت 53، اور تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہے۔)
امام خامنہ ای
28/5/1997