آپ کے علمی اور یونیورسٹی سے متعلق تجربات اور اسی طرح برسوں تک ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں خدمات کے پیش نظر، ہم آپ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ کی نظر میں، ایران کی یونیورسٹیوں میں، بنیادی انفراسٹرکچر، طلبہ، اسٹاف اور حکومتی توجہ کے لحاظ سے، انقلاب کے بعد کیا تبدیلیاں رونما ہوئي ہيں؟

 جواب : جو بھی انصاف پسند شخص یونیورسٹی اور علمی سرگرمیوں سے واقف ہوگا وہ بہت اچھی طرح اس واضح تبدیلی کو محسوس کرے گا۔ یونیورسٹی کی اہمیت کے اثرات کو ملک میں عام سطح پر دیکھا جا سکتا ہے۔ دفاعی شعبے میں، ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں اور اسی طرح سروسز، تعلیم اور صحت عامہ کے معاملے میں عالمی معیاروں کے مطابق ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں نے بے حد اہم کردار ادا کیا ہے اور بڑی بڑی تبدیلیاں اور علمی ثمرات سے اسلامی انقلاب کو نوازا ہے جس کے اثرات کا مشاہدہ عوام کر رہے ہيں۔

کبھی ایران میں تقریبا ستائیس یونیورسٹیاں اور علمی مراکز تھے۔ سن 1979  میں جب انقلاب کامیاب ہوا تو ایران کی یونیورسٹیوں ميں ایک لاکھ ستر ہزار طلبہ کی گنجائش تھی اور چالیس فیصد طلبہ باہر تھے۔ تقریبا چار ہزار لوگ تدریسی عملے کے رکن تھے۔ آج، حالیہ عشروں میں آبادی میں کمی کی لہر کے باوجود تقریبا ڈھائی سو بڑی یونیورسٹیاں موجود ہيں۔ جن میں سائنس و ٹکنالوجی کی وزارت اور وزارت صحت کے تحت آنے والی تمام یونیورسٹیاں شامل ہيں۔ لیکن اگر ہم تمام سرکاری و غیر سرکاری یونیورسٹیوں، اوپن یونیورسٹی اور پیام نور یونیورسٹی کو بھی شامل کر لیں تو کچھ لوگوں کے بقول دو ہزار آٹھ سو یونیورسٹیاں ایران میں موجود ہيں۔ البتہ ساری کی ساری یونیورسٹیاں نہيں ہیں بلکہ ان میں کچھ اعلی تعلیمی مراکز ہيں۔ اوپن یونیورسٹی کی تقریبا ساڑھے چار سو یونٹس ہيں جب کہ  اگر ہم اوپن یونیورسٹی کے اکتیس شعبوں کو شمار کرتے ہيں اور اسی طرح پیام نور یونیورسٹی کے بھی اکتیس شعبوں کو ہی شمار کرتے ہیں جو در اصل ایران کے صوبوں کی تعداد ہے تو اگر ہم اس طرح شمار کریں تو اصولی تعریف کے مطابق پورے ایران میں ساڑھے تین سو یونیورسٹیاں ہيں۔ جو بڑی تعداد ہے  اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں تعلیم کے شعبے میں اچھی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ میں اس بات سے انکار نہيں کروں گا کہ کچھ علمی مراکز کی کارکردگی میں کمی ہے اور یہ وہ مسئلہ ہے جس کا جائزہ لیا جانا چاہیے اور ہم نے ہائیر ایجوکیشن کے شعبے میں اس پر غور بھی کیا ہے۔ جب انقلاب کامیاب ہوا تو ایران میں ایک لاکھ ستر ہزار طلبہ تھے اور آج  ایران کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد بتیس لاکھ ہے۔ حالیہ سات آٹھ برسوں میں تقریبا چالیس لاکھ طلبہ تھے لیکن دھیرے دھیرے ان کی تعداد میں کمی ہوئي ہے۔ آج، منصوبہ بندی اور اس شعبے پر توجہ کے نتیجے میں ملک میں ٹیچنگ اسٹاف کے ایک لاکھ رکن ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ستاسی ہزار ہیں یعنی ستاسی ہزار لوگوں کو اپوائنٹمنٹ لیٹر مل گيا ہے اور بقیہ لوگ انتظار میں ہیں۔ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل اور سائنس و صحت کی وزارتوں کی رپورٹوں سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ملک میں ٹیچنگ اسٹاف کے ایک لاکھ رکن ہيں۔ ملک کے ہر دس لاکھ کی آبادی پر ٹیچنگ اسٹاف کے بارہ سو رکن اور محققین ہيں۔ انقلاب سے قبل یہ تعداد سو سے بھی کم تھی۔ در حقیقت موازنہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ علمی جریدوں نیز سائنس و ٹکنالوجی کے پارکوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے جیسی تبدیلیاں سب کی سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ انقلاب کے بعد علم و سائنس کے میدان میں تیز رفتار ترقی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ ایران میں انقلاب سے قبل ایک بھی سائنس و ٹکنالوجی پارک موجود نہيں تھا لیکن آج پچاس ایسے پارک ہيں جہاں بڑے پیمانے پر لین دین ہوتا ہے اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے ماہرین ان پارکوں میں مشغول ہيں۔  

انقلاب سے قبل، دنیا  کے بڑے دانشوروں میں ایرانی سائنس دانوں کا نام و نشان تک نہيں تھا۔ آج دنیا کے ایک فیصد بڑے سائنسدانوں میں تقریبا تین سو سائنسداں ایرانی ہیں جو ایران کی یونیورسٹیوں میں موجود ہيں۔ انقلاب سے قبل انٹرنیشنل سائنٹفک ریسرچ میں ہمارا حصہ بہت معمولی تھا۔ مثال کے طور پر سن 1978  میں ایران کی جانب سے سائنسی مراکز میں ثبت ہونے والے ریسرچ پیپرز اور حوالہ جات کی تعداد  390  سے لے کر 400 تک تھی لیکن اس وقت صرف سن  2020 میں ایران کی جانب سے   65 ہزار سے زائد ریسرچ پیپرز ثبت ہوئے ہيں اور یہ ایک برس کی تعداد ہے جس میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا ہے، جو اب اتنی تعداد تک پہنچ گیا ہے۔ سن دو ہزار اکیس اور بائیس میں اور بھی اضافہ ہوا ہے جس کا باضابطہ طور پر ابھی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ آئي ایس آئي میں ثبت مقالوں میں ہمارا حصہ عالمی سطح پر ایک اعشاریہ آٹھ نو ہے اور کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ہمارا حصہ دو فیصد ہو جاتا ہے۔ اس وقت ایران کی آبادی، دنیا  کی کل آبادی کا ایک فیصد ہے لیکن ہم دنیا میں علم کی کل پیداوار و ایجادات کے دو فیصد حصے کے مالک ہيں جو ایرانی قوم، اس کے سائنسدانوں اور محققوں کی جفا کشی کا نتیجہ ہے۔

میڈیکل شعبے میں پورے ایران میں 60 سے زائد میڈیکل کالج ہیں اور دو لاکھ سے زائد طلبہ، میڈیکل کے شعبے میں تعلیم حاصل کر رہے ہيں۔ میڈيکل کے شعبے میں کوئي بھی ایسا سبجیکٹ نہيں جو ایران میں نہ پڑھایا جاتا ہو۔ تاہم میڈیکل کے علاوہ دوسرے شعبوں میں یہ حقیقت زيادہ نمایاں ہے۔ میڈیکل کے علاوہ دوسرے شعبے میں، کچھ خاص موضوعات کے علاوہ، انقلاب سے قبل ایران میں پی ایچ ڈی کی ڈگری نہيں مل سکتی تھی۔ انقلاب کے بعد، تمام موضوعات میں، پوسٹ گریجوایشن اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا ممکن ہوا۔ میڈیکل کے  شعبے میں مختلف موضوعات میں اسپشلائیزیشن اور سب اسپیشلائیزیشن کی سہولت فراہم کی گئي۔ آج میڈیکل کے شعبے میں ایران، پورے علاقے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور  میڈيکل سروسز کے معاملے میں عالمی شہرت کا مالک ہے۔

 

کیا بین الاقوامی ماہرین اور بین الاقوامی علمی مراکز نے بھی ان اعداد و شمار کے سلسلے میں کوئي رپورٹ جاری کی ہے؟

 

جواب : جی ہاں  علم کی پیداوار کے میدان میں ہمارے ملک نے 'ڈبلیو او ایس' اور 'ایس سی او پی یو اس' میں سولہواں مقام حاصل کیا ہے۔ یہ دونوں ادارے، دنیا کے اہم بین الاقوامی سائنسی اعداد و شمار کے ادارے ہيں، میں کچھ اور مثالیں پیش کرتا ہوں۔

تین یا چار برس قبل، اسٹنفورڈ یونیورسٹی نے "ایران کے تعلیمی شعبے کی کوالٹی، کوانٹیٹی اور کرپشن" عنوان کے تحت ایک رپورٹ شائع کی تھی جو در اصل ایک سیاسی قدم تھا، لیکن اس کے باوجود اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایران میں سن 1997 میں علم کی پیداوار کے سلسلے میں ایک ہزار ریسرچ پیپرز لکھے گئے جو سن 2018 تک پچاس ہزار مقالوں تک پہنچ گئے۔ یعنی پچاس گنا اضافہ ہوا ہے۔ کیا یہ ایک حقیقی ترقی نہيں ہے؟  اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب ہم نے ان مقالوں کا جائزہ لیا تو ہمیں پتہ چلا کہ تقریبا بہتر فیصد مقالے معتبر بین الاقوامی جرنلوں اور جریدوں میں شا‏ئع ہو چکے ہیں۔ انیس فیصد مقالے، ملک کے معتبر جرائد میں شائع ہوئے ہيں اور صرف نو فصید مقالے، غیر معتبر جرائد میں چھپے ہيں۔ اس رپورٹ میں دعوی کیا گيا تھا کہ یہ علمی ترقی حقیقی نہيں بلکہ جعلی ہے۔ لیکن تجزیہ و جائزے کے بعد اسی رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گيا کہ تقریبا بہتر فیصد مقالے، معتبر بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوئے ہيں۔ یہ رپورٹ در اصل ایران میں حیرت انگیز علمی ترقی کا ایک طرح سے اعتراف ہے۔

ایک دوسری رپورٹ بھی ہے جو ایک عشرے قبل، کینیڈا میں سائنس میٹریکس کی جانب سے شائع کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران میں علمی ترقی کی رفتار، دنیا کی اوسط رفتار سے گیارہ گنا زیادہ ہے اور ایران میں ایٹمی انجينیئرنگ کے شعبے میں شائع ہونے والے مقالوں کی تعداد دنیا میں اوسط تعداد سے ڈھائی سو گنا زیادہ ہے۔

 

ملک میں علم و سائنس کے شعبے میں پالیسیوں میں ایسا کیا ہوا کہ جس کی وجہ سے 20 برس میں بین الاقوامی سطح پر رجسٹرڈ علمی کاوشوں کی تعداد پچاس گنا زیادہ ہو گئي؟

جواب: دو باتیں قابل غور ہيں؛ ایک تو یہ کہ ایران کے عہدیدار، خاص طور پر رہبر انقلاب جن اہم باتوں پر بہت زیادہ زور دیتے ہيں ان میں یونیورسٹی اور علمی ترقی شامل ہے۔ ثقافتی انقلاب اس لئے کامیاب ہوا کیونکہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس کا حکم دیا تھا۔ مغرب کی گمراہ کن ثقافت سے نکلنا اور اپنی ثقافت کی سمت واپسی، امام خمینی کے نظریات میں سرفہرست ہے اور اسی لئے انہوں نے فرمایا ہے کہ جنگ تو ختم ہو جائے گی لیکن اہم چیز یونیورسٹیاں ہيں۔

انقلاب کے پہلے عشرے میں اعداد و شمار میں اضافے پر توجہ دی گئی جس کے تحت یونیورسٹیوں کی تعمیر نو ہوئي اور مختلف صوبوں میں یونیورسٹیاں بنائي گئیں۔ تدریسی عملے کے اراکین، یونیورسٹیوں اور طلبہ کی تعداد میں اضافہ اور میڈیل کے شعبے کو الگ کرنے کا کام اسی دوران شروع ہوا۔ اسی طرح اسپتالوں کو بھی تعلیم کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ یہ ساری تبدیلیاں سن 1992 تک ہوتی رہیں۔ یہ رہبر انقلاب کی حکمت عملی تھی۔

سن 2001 میں  رہبر انقلاب نے امیر کبیر یونیورسٹی کے طلبہ کے درمیان اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا کہ ملک میں سافٹ ویئر اور علم کی پیداوار کی تحریک کا آغاز ہونا چاہیے۔ اس کے بعد انہوں نے خود اس پر توجہ دی۔ اس کے بعد ملک میں علمی شعبے میں ایک لہر اٹھی اور اس بات پر تحقیق ہونے لگي کہ سافٹ ویئر کی تحریک کیا ہے، اس کی خصوصیات کیا ہیں اور اس کا آغاز کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اور یونیورسٹیاں  اس تحریک میں کیا اہم کردار ادا کر سکتی ہیں؟ کچھ مدت کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اب ملک میں ایک جامع علمی روڈ میپ ہونا چاہیے۔

آج جب یہ تبدیلی رونما ہو گئی ہے اور علمی تحریک مضبوط اور منظم ہو گئی ہے اور اس میں تازگی اور تنوع پیدا ہو رہا ہے نیز دنیا میں علمی پیداوار کا دو فیصد حصہ ایرانی سائنس دانوں کی طرف سے ہے تو کچھ لوگوں کا سوال ہے کہ اس طرح کے مقالات سے ملک کے کون سے مسائل حل ہوں گے؟  اصل میں جب تک آپ، عالمی سطح پر علمی مقابلہ آرائي میں داخل نہیں ہوں تب تک آپ کو اپنی صلاحیتوں کا اندازہ نہيں ہو سکتا۔ اگر آپ اس علمی مقابلہ آرائي کے میدان میں اترے اور مقابلے کی طاقت ہوئی تو پھر آپ علمی صلاحیت کو ٹکنالوجی میں بدل کر اس سے مصنوعات بنا سکتے ہیں۔ یہ سائکل مکمل ہونا چاہیے، اس بناء پر، رہبر انقلاب نے آغاز میں ہی کہہ دیا تھا کہ اس سائکل کو مکمل کیا جانا چاہیے اور آخر تک اس پر توجہ دی جانی چاہیے۔

حالیہ چند عشروں میں ایران کی غیر معمولی سائنسی ترقی پر دشمنوں کا رد عمل کیا رہا؟

جواب : دشمنوں نے آغاز میں یہ کوشش کی کہ ہمیں علمی ترقی کی راہ پر نہ لگنے دیں اس لئے ان کی یہی کوشش تھی کہ ہماری یونیورسٹیاں اور علمی مراکز صف اول کے سائنس دانوں اور دانشوروں سے خالی رہیں۔ اس کے بعد انہوں نے یہ کوشش کی کہ علم و سائنس کی راہ سے ہمیں بھٹکا دیں اور دنیا کے اہم علمی امور سے ہمیں دور رکھیں۔ لیکن جب اس مرحلے میں بھی انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے یہ کوشش کی کہ ہماری راہ میں رکاوٹ کھڑی کریں۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے انہوں نے ہمارے سائنس دانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا اور انہوں نے سوچا کہ اس طرح سے وہ ایران کی علمی ترقی کی رفتار کو روک دیں گے لیکن پھر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران کے علمی میدان میں بد عنوانی پر رپورٹ کا مقصد بھی یہی تھا۔

ان کا حالیہ اقدام بھی جو در اصل ایک منصوبہ بند قدم ہے،  راہ سے بھٹکانے، رکاوٹ کھڑی کرنے جیسی سازشوں کی طرح ہے اور اس منصوبے کا بھی ایک سرا ملک کے اندر اور دوسرا ملک سے باہر ہے۔ دشمن، ایرانی معاشرے اور ایرانی دانشوروں و محققوں کی اہمیت ختم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ ہم نے اس سازش کا نام، تحقیر کی سازش رکھا ہے۔ ہمیں اس سازش کا ہوشیاری کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔

 

آپ نے ملک کی یونیورسٹیوں کی اچھی صورت حال کی وضاحت کی۔ آپ کی نظر میں ایران کی یونیورسٹیوں اور علمی مراکز کی کمزوریاں بھی ہیں تو انہیں بھی بیان فرمائيں۔

جواب : دیکھئے کسی بھی تمدن کی تشکیل کے لئے ایک اہم عنصر، ملک کے دانشور ہوتے ہيں۔ دانشوروں سے مراد، معاشرے کا تعلیم یافتہ طبقہ ہے چاہے اس نے دینی تعلیم حاصل کی ہو یا پھر یونیورسٹی میں پڑھائی کی ہو۔ یونیورسٹیوں پر عدم توجہ اور ان کی مالی امداد کی جانب سے غفلت کا ماضی بہت پرانا ہے۔ ملک کی جی ڈی پی کا ایک فیصد سے کم حصہ تحقیق اور ریسرچ کے لئے رکھا گیا۔ منصوبہ بندی اور ترقی کمیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق تحقیقات و علمی ترقی کے لئے بجٹ، جی ڈی پی کا اعشاریہ چار فیصد رہا ہے۔ تحقیق و ترقیاتی امور کا بجٹ ہمیشہ ایک فیصد سے کم رہا ہے ابھی تو بتایا گیا ہے کہ تقریبا آدھا فیصد ہے۔ یہ جو ترقی ہوئي ہے وہ اس آدھے فیصد کے حساب سے تو قربانیوں اور ایثار کے علاوہ کسی اور طرح سے ممکن نہيں تھی۔ جنوبی کوریا میں علمی تحقیقات و ترقیاتی منصوبوں پر جی ڈی پی کا چار فیصد، امریکہ میں تین فیصد اور تقریبا تمام یورپی ملکوں  میں دو فیصد  سے زیادہ بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔   رہبر انقلاب نے کئي برس قبل جی ڈی پی کا  تین اعشاریہ پانچ سے لے کر چار فیصد تک کا بجٹ مختص کرنے کی تجویز پیش کی۔ توجہ دیں، رہبر انقلاب  کی نظر کہاں تک ہے۔ اگر اس پر پوری توجہ دی جائے تو بہت سی کمیاں دور ہو جائيں گی اور ماضی کی تلافی بھی ہو جائے گی۔