بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

میں عید سعید بعثت نبوی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں یہاں تشریف رکھنے والے آپ محترم حاضرین، پوری ملت ایران، ساری دنیا کے تمام مسلمانوں اور دنیا بھر میں حق کے متلاشیوں کی خدمت میں۔ اگر بعثت کا پیغام، دنیا میں حق کے متلاشیوں کے دل تک پہنچ جائے تو یقینا وہ اس کی طرف کھنچے چلے آئيں گے۔

انسان جو اندازہ لگاتا ہے، اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ بعثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند عالم کی جانب سے پوری انسانیت کے لیے سب سے بڑا تحفہ ہے۔ اللہ کے تحفے تو خیر "وَ اِن تَعُدّوا نِعمَۃَ اللَہِ لا تُحصوھا"(2) ہیں لیکن کوئي بھی نعمت اور کوئي بھی تحفہ، بعثت نبی اکرم جیسی عظمت اور وزن کا حامل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعثت میں انسان کے لیے ایسے خزانے موجود ہیں جو کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ انسان ان خزانوں سے فائدہ اٹھائے اور ممکن ہے کہ فائدہ نہ اٹھائے لیکن یہ عظیم خزانے جو بعثت، انسانیت کے لیے لائي ہے، اس کے اختیار میں ہیں، یہ خزانے انسان کی اپنی زندگي میں اس کی سعادت کو، اس پوری دنیوی زندگي میں - آخرت سے پہلے تک - فراہم کر سکتے ہیں۔ انسان اندازہ لگا کر اور صحیح حساب کتاب کر کے اس بات کو سمجھ سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ خزانے ہیں کیا؟

پہلے مرحلے میں توحید۔ توحید وہی خزانہ ہے جس کی قدر و اہمیت تک کوئي بھی چیز نہیں پہنچتی کیونکہ خدا کی بندگي انسان کو دوسروں کی غلامی اور بندگي سے رہائی دلاتی ہے۔ انسان کی مشکل یہی تو ہے، انسان کی مشکل، دوسروں کے چنگل میں پھنسا ہونا ہے، پوری تاریخ میں ایسا ہی رہا ہے، یہ چیز اللہ کی بندگي سے ختم ہو جاتی ہے۔ اگر انسان حقیقی معنی میں اللہ کا بندہ ہو اور حقیقی معنی میں توحید سے، جو غیراللہ کی بندگي کی نفی ہے، متمسک رہے، تو وہ دوسروں کی بندگي سے نجات پا جائے گا اور ساتھ ہی ان چیزوں سے بھی جو آپ نے تاریخ میں دیکھی ہیں، سنی ہیں۔ جیسے قتل، ظلم، قتل عام، جنگيں وغیرہ۔ یہ بعثت کے تحفوں میں سے ایک ہے۔

تزکیہ ایک دوسرا تحفہ ہے۔ "یُزَکّیھِم"(3) یعنی درحقیقت تزکیہ، برائيوں سے انسان کی نجات کی دوا ہے۔ مختلف طرح کی اخلاقی برائيوں کو انسانی سماج، انسان کے وجود اور اس کے دل سے تزکیہ ہی دور کرتا ہے اور پاکیزہ بناتا ہے۔

کتاب کی تعلیم، ایک اور  تحفہ ہے۔ "وَ یُعَلِّمُھُمُ الکِتاب"(4) کتاب کی تعلیم۔  کتاب کی تعلیم یعنی زندگي کو ہدایت الہی کے کنٹرول میں لے آنا۔ خدا نے، جو تمام چیزوں کا مالک، خالق اور پروردگار ہے، انسان کی زندگي کے لیے ایک راستہ معین کیا ہے تاکہ انسان اس پر چلے۔ کتاب کی تعلیم کا مطلب یہ ہے۔ اور حکمت: یُعَلِّمُھُمُ الکِتابَ وَ الحِکمَۃ(5) یعنی معاشرے کو عقل، حکمت، خرد اور دانشمندی کی بنیاد پر چلایا جائے۔ دیکھیے یہ سب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے تحفے اور ہدیے ہیں۔ البتہ ان میں سے بعض یا ان میں سے اکثر کے اصول دوسرے پیغمبروں کے اصولوں سے مشابہت رکھتے ہیں، مشترک ہیں لیکن یہ ان کی کامل اور مکمل شکل ہے۔

ایک دوسرا تحفہ جو واقعی خزانہ ہے اور ان خزانوں میں سے ہے جو بعثت میں موجود ہیں، استقامت کی تعلیم ہے۔ استقامت منزل مقصود تک رسائی کا راز ہے۔ آپ کا جو بھی مقصود ہو - دنیاوی یا اخروی – اس تک رسائی استقامت کے ذریعے ممکن ہے، اس کے بغیر ممکن نہیں۔ "فَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَ مَن تابَ مَعَک"‌(6) قرآن مجید نے ہمیں یہ حکم دیا ہے، بعثت نے یہ خزانہ ہمیں دیا ہے، ہم سیکھیں اور جانیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

عدل اور امتیازی سلوک سے پاک انصاف کا بے مثال خزانہ، چاہے وہ معاشی مسائل کے بارے میں ہو، چاہیے انسانی مسائل کے بارے میں ہو یا پھر مجموعی طور پر سماجی انصاف کے مسائل کے بارے میں ہو، یہ بھی ان خزانوں میں سے ایک ہے جو بعثت نے ہمیں عطا کیے ہیں۔ ہم اپنی زندگي کو عدل و انصاف کی بنیاد پر چلائيں۔ "لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط"(7) انسان خود اپنی زندگی کو عدل و انصاف کی بنیاد پر چلائے، انبیاء آئے ہی اسی لیے ہیں کہ انسان کو اس راستے پر لے آئيں، اسے اس راستے پر چلنا سکھائيں۔

بعثت کا ایک اور انتہائي اہم خزانہ، افسوس کہ جس پر توجہ نہیں دی جاتی، برا چاہنے والوں کے مقابلے میں سخت ہونا اور دراندازی کا موقع نہ دینا ہے۔ انسانی معاشروں کو جو چوٹیں پہنچتی ہیں، ان میں سے ایک ان کے دشمنوں کی دراندازی کے باعث پہنچتی ہیں۔ یہ بات اس آيت "اَشِدّاءُ عَلَى الکُفّار" میں موجود ہے، اشدّاء کا مطلب عمل میں شدت نہیں ہے۔ اشدّاء کا مطلب سخت ہونا ہے، مستحکم ہونا اور دراندازی کی گنجائش ختم کر دینا ہے۔ اَشِدّاءُ عَلَى الکُفّار یعنی اپنے معاشرے میں دشمنوں کو رسوخ قائم نہ کرنے دو۔ دشمن۔ اغیار اور بدخواہوں کی دراندازی اور رسوخ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا اپنا کوئي اختیار اور کنٹرول نہیں ہے، وہ آتا ہے اور آپ کے معاشرے میں، بے ہوش انسان کی طرح، جسے جو بھی چاہیں انجیکٹ کر دیں، تسلط حاصل کر لیتا ہے۔ آپ بے شک اپنی مرضی سے اچھے، اصولی، منظم، عاقلانہ اور دانشمندانہ روابط رکھ سکتے ہیں، یہ اچھی چیز ہے۔

یا معاشرے کے لوگوں کے درمیان مہربانی، محبت، اپنائیت اور میل جول۔ یہ "رُحَمآءُ بَینَھُم"(8) بھی ان خزانوں میں سے ایک ہے کہ معاشرے میں زندگی، رحم و مروت وغیرہ کے ساتھ ہونی چاہیے۔

یا انسان دنیا کے سرکشوں اور شر پسندوں سے دوری رکھے، ان کا ساتھ نہ دے: "اِجتَنِبُوا الطّاغوت"(9) ہمیں قرآن مجید میں طاغوت سے اجتناب کی تعلیم دی گئي ہے، یہ ان خزانوں میں سے ایک ہے جن سے ہمیشہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور زندگي کے راستے کو درست کیا جا سکتا ہے۔

یا جہل، تعصب اور جمود و توقف وغیرہ کی زنجیروں سے رہائي: "وَ یَضَعُ عَنھُم اِصرَھُم وَ الاَغلالَ الَّتی‌ کانَت عَلَیھِم (10) اس طرح کے ہزاروں بیش بہا خزانے قرآن مجید میں ہیں، اسلامی تعلیمات میں ہیں، بعثت میں ہیں، یہ خزانے بعثت نے ہمیں دیے ہیں اور وہ انھیں ہمارے لیے لے کر آئي ہے۔

ہم میں سے بعض مسلمان، ان خزانوں کو بالکل نہیں پہچانتے، ہم میں سے بعض ان کا انکار کرتے ہیں، ان عظیم الہی تحفوں کے سلسلے میں ناشکری کرتے ہیں، ہم میں سے بعض ان پر فخر کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے، ایسا ہی تو ہے۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ عالم اسلام تفرقے، پسماندگی، علمی و عملی کمزوری میں مبتلا ہے، اس کا نتیجہ یہی ہے۔ کسی زمانے میں مسلمانوں نے ان عظیم خزانوں پر پوری طرح نہیں بلکہ آدھا ادھورا عمل کر کے اس زمانے کا سب سے عظیم تمدن قائم کر دیا تھا، ایجاد کر دیا تھا، تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں، پوری دنیا میں، کرۂ ارض پر کوئي بھی حکومت، کوئي بھی طاقت، کوئي بھی قوم، امت مسلمہ جتنی پیشرفتہ نہیں تھی، موجود ہی نہیں تھی، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت بھی آدھا ادھورا ہی عمل کیا جاتا تھا، کچھ افراد اقتدار میں تھے وہ صحیح افراد، ہر لحاظ سے درست اور موزوں افراد نہیں تھے لیکن پھر بھی یہ اثر تھا۔ بعثت کی جانب سے تحفے کے طور پر عطا کیے گئے ان خزانوں سے استفادہ کر کے ہم عالم اسلام کی کمزوریوں کو دور کر سکتے ہیں، چاہے وہ خزانے اسلامی تعلیمات و معارف سے متعلق ہوں، چاہے اسلامی احکام سے تعلق رکھتے ہوں یا چاہے اسلامی اخلاق سے ان کا تعلق ہو۔ یہ حقیقت امر ہے۔

ایک تو فلسطین کا مسئلہ ہے جو آج بھی ہمارے اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ ایک قوم، ایک ملک پوری طرح سے عام انسانوں نہیں بلکہ وحشی، خبیث اور شر پسند افراد کے قبضے میں آ گيا ہے، عالم اسلام بس دیکھ رہا ہے، تماشائي بنا ہوا ہے! واقعی فلسطینی قوم پر، اس کی اپنی سرزمین میں، اس کے اپنے گھر میں – جو لوگ وہاں رہ گئے ہیں اور جنھیں باہر نہیں نکالا گيا ہے – روز بروز ظلم ہو رہا ہے۔ عالم اسلام کی نظروں کے سامنے ہر دن کسی گوشے کو ڈھا دیتے ہیں اور ایک صیہونی کالونی بنا دیتے ہیں، اتنی ساری اسلامی حکومتیں اور عالم اسلام میں پائی جانے والی اتنی دولت و ثروت، عالم اسلام میں موجود اتنی مجموعی توانائي کے باوجود، عالم اسلام دیکھ رہا ہے اور یہ کام ہو رہا ہے، برسوں سے پوری دنیا کی نگاہوں کے سامنے اس طرح سے ایک قوم پر ظلم ہو رہا ہے۔ اس نے خود عالم اسلام کو بھی چوٹ پہنچائي ہے، یعنی اسلامی حکومتیں اور اسلامی ممالک، اس طرح کی جارحیت پر – جبکہ یہ جارحیت خود ان کے خلاف بھی ہے، امت مسلمہ کے خلاف جارحیت ہے – خاموش ہیں اور بعض موقعوں پر خاص طور پر حالیہ کچھ عرصے میں ان کا ساتھ بھی دے رہے ہیں، اس نے ان ملکوں کو بھی کمزور کیا ہے، ان کے لیے یہ صورتحال پیدا کر دی ہے اور دشمن کو ان پر مسلط کر دیا ہے۔

آج دنیا کے پیشرفتہ ممالک، دنیا کی طاقتیں، اسلامی ممالک میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتی ہیں، آ کر مداخلت کرتی ہیں، امریکا کسی طرح سے، فرانس دوسری طرح سے، کوئي دوسرا ایک اور طریقے سے۔ یہ، اسلامی ملکوں میں مداخلت کر رہے ہیں اور اسے اپنا حق سمجھتے ہیں! وہ خود اپنے امور مملکت چلانے میں بے بس و ناتواں ہیں، اپنے ملکوں کے مسائل حل نہیں کر پا رہے ہیں اور آ کر اسلامی ملکوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا دعوی یہ ہے کہ وہ ان ملکوں کے مسائل حل کریں گے! اس کے معنی، مسئلۂ فلسطین کے سبب عالم اسلام کی کمزوری اور اسلامی حکومتوں کی کمزوری کے ہیں۔

اگر مسئلۂ فلسطین میں اسلامی حکومتیں پہلے ہی دن سے مضبوطی سے ڈٹ جاتیں اور استقامت کرتیں تو آج قطعی طور پر مغربی ایشیا کے علاقے کی، ہمارے علاقے کی صورتحال دوسری ہوتی، آج ہم زیادہ طاقتور ہوتے، زیادہ متحد ہوتے اور مختلف پہلوؤں سے آج ہماری صورتحال زیادہ بہتر ہوتی۔

اسی وقت نجف کے بزرگ علماء سمیت خیر خواہ افراد کہہ رہے تھے، نجف کے بزرگ علماء نے مسئلۂ فلسطین، فلسطین پر غاصبانہ قبضے وغیرہ کے بارے میں خطوط لکھے، بیانات دیے، تقریریں کیں اور بعض ہمدرد افراد نے جو واقعی عالم اسلام کا درد رکھتے تھے ایسا ہی کیا۔ ایک عرب شاعر نے کہا ہے:

لئن اضعتم فلسطیناً فعیشکمُ

طول الحیاة مضاضاتٌ و ءالامُ

اس نے بالکل صحیح کہا ہے، اگر فلسطین کو چھوڑ دوگے تو وقت گزرنے کے ساتھ تم خود رنج و الام وغیرہ میں گرفتار ہو جاؤ گے۔ اگر پہلے ہی دن سے ہم میدان میں آ گئے ہوتے تو ہماری صورتحال بہتر ہوتی۔

آج اسلامی جمہوریہ، فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے دل کی بات علی الاعلان بیان کرتی ہے۔ ہمیں کسی سے تکلف نہیں ہے، ہم حقیقت کو بلند آواز میں بیان کرتے ہیں: فلسطینی قوم کی حمایت کرتے ہیں، اس کا دفاع کرتے ہیں اور کھل کر کہتے بھی ہیں کہ ہم اس کا دفاع کرتے ہیں، جس طرح سے بھی ممکن ہوگا، ہم فلسطینی قوم کا دفاع کریں گے۔ یہ بات اس کا سبب بنی ہے کہ دشمن، ایک نقطے پر ٹوٹ پریں اور ایرانوفوبیا پھیلائیں اور وہ لوگ بھی، جن کی خود بھی ذمہ داری ہے کہ کم از کم ہمارے جتنی فلسطین کی مدد کریں، ایرانوفوبیا کے سلسلے میں انھیں کا راگ الاپیں۔

ان ساری مشکلات کا حل، اسلام کی سمت واپسی ہے، مسلم اقوام کا اتحاد، مسلم اقوام کی ہمدلی اور اسلامی حکومتوں کا باہمی تعاون، حقیقی معنی میں تعاون صرف ظاہری طور پر نہیں۔ وہ حقیقی معنی میں ایک دوسرے سے تعاون کریں، ہمدلی سے کام لیں، امت مسلمہ کے تمام اجزاء کو باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس وقت آپ دیکھیے کہ یہ جو تباہ کن زلزلہ شام اور ترکیے میں آیا ہے، یہ ایک بڑا سخت حادثہ ہے، یہ تمام مسلمانوں سے متعلق ہے، مطلب یہ کہ سبھی کو حقیقت میں اس طرح کی چیزوں کا احساس ہونا چاہیے، تکلیف محسوس کرنی چاہیے، لیکن یہ چیز سیاسی مسائل کے مقابلے میں جیسے مسئلۂ فلسطین، جیسے خطے کے مختلف ممالک میں، شام میں، دوسری جگہوں پر امریکا کی مداخلت کے مقابلے میں چھوٹی چیز ہے، لیکن بہرحال یہ اہم حادثہ ہے۔

ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم مدد کرے گا تاکہ ہم سب بعثت سے حقیقی معنی میں استفادہ کر سکیں اور بعثت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حقیقی معنی میں عالم اسلام اور امت مسلمہ کی عید قرار دے سکیں۔ خداوند عالم اس راہ میں ہماری مدد کرے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے درجات کو، جنھوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور انھوں نے ہمیں اس راستے پر آگے بڑھایا، بلند کرے اور ہمارے گرانقدر شہیدوں کو،  ان شاء اللہ صدر اسلام کے شہیدوں کے ساتھ محشور کرے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و‌ برکاتہ

 

(1) اس پروگرام کی ابتدا میں صدر مملکت سید ابراہیم رئيسی نے تقریر کی۔

(2) سورۂ نحل، آيت 18، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے۔

(3) منجملہ سورۂ آل عمران، آيت 164، ان کو پاکیزہ کرتا ہے۔

(4) منجملہ سورۂ آل عمران، آيت 164، انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

(5) منجملہ سورۂ جمعہ، آيت 2، وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اُمّی قوم میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

(6) سورۂ ہود، آيت 112، تو (اے رسول) جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ خود اور وہ لوگ بھی جنھوں نے (کفر و عصیان سے) توبہ کر لی ہے اور آپ کے ساتھ ہیں (راہِ راست پر) ثابت قدم رہیں۔

(7) سورۂ حدید، آيت 25، یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی ہوئی دلیلوں (معجزوں) کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوں۔

(8) سورۂ فتح، آيت 29، وہ کافروں پر سخت اور آپس میں مہربان ہیں۔

(9) سورۂ نحل، آيت 36، اور طاغوت (کی بندگی) سے بچو۔

(10) سورۂ اعراف، آيت 157، اور وہ (پیغمبر) ان پر سے ان کے بوجھ اتارتا ہے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔