بسم اللہ الرّحمن الرّحیم. و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.

اس نشست کے تمام محترم شرکاء، تینوں شعبوں (انتظامیہ، عدلیہ، پارلیمنٹ) کے محترم سربراہوں، محترم عہدیداروں، یہاں موجود اسلامی ملکوں کے سفیروں اور نمائندوں اور پوری ایرانی قوم کی خدمت میں عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ایرانی قوم، ماہ رمضان میں واقعی اپنے طرز عمل اور اپنے بہترین اعمال پر مبارکباد کی مستحق ہے اور پوری امت مسلمہ کی خدمت میں عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم اس عید کو سبھی کے لیے مبارک و مسعود قرار دے گا۔

رمضان کا مہینہ دلوں کے ایک دوسرے سے قریب ہونے کا مہینہ ہے، ماہ رمضان میں تمام عناصر مدد کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے دل ایک دوسرے کے قریب آ سکیں، چاہے ایک ملک کی بات ہو یا پوری امت مسلمہ کی بات کی جائے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ روزہ یا دعا یا توسل یا تلاوت قرآن جو یہ رقت پیدا کرتی ہے، یہ خود ہی دلوں کے قریب ہونے کا سبب ہے۔ یا تقوی – جیسا کہ صدر محترم نے اپنی گفتگو میں اشارہ کیا اور ان کے خوبصورت الفاظ میں، روزے کا راز تقوی ہے – دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے۔ میرے خیال میں اسلامی ملکوں کے حکام کو،  امت مسلمہ میں اتحاد اور قربت پیدا کرنے کے لیےاس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آج ہماری مشکل تفرقہ ہے، اگرچہ قرآن مجید نے تفرقے سے روکا ہے: وَ لا تَکونوا کَالَّذینَ تَفَرَّقوا وَ اختَلَفوا(2) اور اتحاد کا حکم دیا ہے: وَ اعتَصِموا بِحَبلِ اللّہِ جَمیعًا وَ لا تَفَرَّقوا(3) لیکن اس کے باوجود ملت اسلامیہ اور امت مسلمہ تفرقے کا شکار ہے۔ جی ہاں! الگ الگ عقیدے ہیں، مختلف مسالک ہیں، مختلف نظریات ہیں، تو رہیں! یہ مختلف نظریات اس بات کا سبب نہ بنیں کہ ہم امت مسلمہ کے اتحاد کی عظیم نعمت سے محروم ہو جائيں۔ اگر آج امت مسلمہ، جس کی آبادی تقریبا دو ارب ہے اور جو دنیا کے سب سے اہم اور سب سے حساس جغرافیائي علاقوں میں پھیلی ہوئي ہے، متحد ہوتی تو اسلامی ممالک کو اس سے کہیں زیادہ نعمتیں حاصل ہوتیں۔ اگر یہ اتحاد، جس حد تک بھی ہو، وجود میں آ جائے تو عالم اسلام کے مسائل کے حل کی تمہید نمایاں ہو جائے گی اور عالم اسلام کی مشکلات کو حل کرنا ہمارے لیے ممکن ہو جائے گا۔

اس وقت عالم اسلام بہت سارے مسائل میں مبتلا ہے، اختلاف میں مبتلا ہے، ٹکراؤ میں مبتلا ہے، اسے خونریزی کا سامنا ہے، وہ دوسروں پر انحصار میں مبتلا ہے، غربت کا شکار ہے، کم علمی کا شکار ہے، یہ سب عالم اسلام کے لیے پریشانیاں ہیں۔ اگر ہم ایک دوسرے کے قریب ہو جائيں تو ان مشکلات کا حل ممکن ہو جائے گا، بلکہ آسان ہو جائے گا۔

آج عالم اسلام کے سب سے بنیادی مسائل میں سے ایک، مسئلۂ فلسطین ہے۔ اگر ہم یہ نہ  کہیں کہ سرفہرست تو کم از کم عالم اسلام کے سامنے جو سرفہرست مشکلات ہیں، ان میں سے ایک مسئلۂ فلسطین ہے۔ البتہ آج بحمد اللہ ہم غاصب حکومت کے تدریجی زوال کا مشاہدہ کر رہے ہیں، یہ بات پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ کئي سال پہلے یہ زوال شروع ہو چکا ہے لیکن حال میں اس نے رفتار پکڑ لی ہے، یہ بہت بڑا موقع ہے۔

مسئلۂ فلسطین صرف اسلامی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک انسانی مسئلہ ہے، یعنی دنیا میں جو بھی – چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان ہو – فلسطین کے واقعات کے حقائق کو جان  لے وہ غاصب حکومت کا مخالف ہو جائے گا، اس سے مقابلہ کرے گا۔ اس سال فلسطین کو غصب کرنے والی حکومت یعنی اسرائيلی حکومت کے جرائم اور اس کے مظالم کا ایک حصہ دنیا کے سامنے آيا تو آپ نے دیکھا کہ یوم قدس میں لوگوں کے اجتماعات اور مظاہرے، صرف عالم اسلام تک محدود نہیں رہ گئے تھے، یعنی عالم اسلام کے علاوہ بھی یورپ میں یہاں تک کہ خود امریکا میں بہت سے لوگوں نے مظاہرے کیے، فلسطینیوں کی حمایت کی، معاملہ اس طرح کا ہے، مسئلہ، انسانی مسئلہ ہے۔ کیونکر ایک یورپی شخص، جس کی حکومت، صیہونی حکومت سے دلبستہ اور اس سے وابستہ ہے، فلسطینی عوام کے حق میں اور صیہونی حکومت کے خلاف سڑک پر نعرے لگا رہا ہے؟ یہ بات بہت اہم ہے۔

ایسا کیوں ہوا؟ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ یہ فلسطینی عوام کی مزاحمت کی برکت کی وجہ سے ہے۔ فلسطینی عوام کی اندرونی مزاحمت، اس پیشرفت کا اصلی سبب ہے۔ یہ مزاحمت و استقامت جتنی زیادہ ہوگي، صیہونی حکومت اتنی ہی زیادہ کمزور ہوگي، اس کے مظالم اتنے ہی زیادہ نمایاں ہوتے جائيں گے۔ اس وقت صیہونی حکومت کی جو ابتر صورتحال ہے – اس وقت صیہونی حکومت کی حالت واقعی ابتر ہے – وہ فلسطینی جوانوں کی استقامت کی وجہ سے ہے، وہ جان پر کھیل کر سختیاں اٹھاتے ہیں، جان پر کھیل کر خطرہ مول لیتے ہیں، بیت المقدس میں اتنی بڑی تعداد اعتکاف کرتی ہے، غرب اردن کے مختلف شہروں میں جوان، ہتھیار اٹھاکر اور خبیث صیہونی فوجیوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں، قربانیاں دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی آگے بڑھتے ہیں، مشن کو آگے بڑھاتے ہیں، اب تک وہ آگے بڑھاتے رہے ہیں، اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔ میرے خیال میں آج صیہونی حکومت کی دفاعی طاقت ختم ہو چکی ہے، یہ وہی چیز ہے جس کی طرف سے دسیوں سال پہلے، شاید تقریبا ساٹھ سال پہلے، صیہونی حکومت کے اصلی بانیوں میں سے ایک اور اس حکومت کے وزیر اعظم بن گوریون نے انتباہ دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ جب بھی ہمارا ڈیٹرنس ختم ہو جائے گا، ہماری حکومت بکھر جائے گي۔ اس وقت اس کی دفاعی قوت ختم ہو چکی ہے یا خاتمے کے قریب ہے۔ وہ خود بھی جانتے ہیں، وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ بکھراؤ اور خاتمہ قریب ہے، اگر کوئي خاص اتفاق نہ ہوا تو یہ مزاحمت کی برکت کی وجہ سے ہے، یہ اس بات کی برکت کی وجہ سے ہے کہ فلسطینی جوان، اپنے دشمن کے ڈیٹرنس کو لگاتار کمزور کرنے میں، کم کرنے، نابود کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

بنابریں آج فلسطین کے سلسلے میں عالم اسلام کی اسٹریٹیجی کیا ہونی چاہیے؟ فلسطین کے بارے میں عالم اسلام کی آج کی حکمت عملی، فلسطین کی داخلی فورسز کی مدد ہونی چاہیے۔ استقامتی محاذ کی فورسز جہاں کہیں بھی ہیں، ان کی کوششیں قابل قدر ہیں، خود ہماری طرح جو فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مزاحمتی محاذ کی کوششیں گرانقدر ہیں، یہ کوشش ان افراد کی تقویت پر مرکوز ہونی چاہیے جو فلسطین کے اندر جدوجہد کر رہے ہیں، خطرہ مول لے رہے ہیں اور اپنی جان جوکھم میں ڈال رہے ہیں۔

آخری بات یہ ہے: واقعی اس نکتے پر توجہ دینی چاہیے کہ فلسطین کے اندر جدوجہد کے عروج کی وجہ کیا ہے؟ اسلام کی طرف رجحان۔ ہم نے اس سے پہلے کا زمانہ بھی تو دیکھا ہی ہے، اس وقت جب، فلسطینی گروہوں کے درمیان اسلامی رجحان کی بات ہی نہیں تھی – کچھ لوگ کمیونسٹ تھے، کچھ کمیونسٹ تو نہیں تھے لیکن اسلامی بھی نہیں تھے – تب یہ پیشرفت اور کامیابیاں بھی نہیں تھیں۔ جب سے فلسطینی مجاہدین میں اسلامی رجحان پیدا ہوا اور جب سے یہ رجحان آج تک روز بروز بڑھتا گيا، فلسطینیوں کی جدوجہد میں اس طرح سے پیشرفت ہوئی۔ تو کامیابی اور فتحیابی کی اصلی وجہ اسلام ہے، دشمن بھی اس چیز کو سمجھ چکا ہے اور اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ پوری دنیا میں اسلام کی مخالفت کرتا ہے، سبھی اسلام کے خلاف کام کر رہے ہیں، طرح طرح کے کام۔ البتہ اس اسلاموفوبیا اور اسلام کی مخالفت کا کوئي نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اَم یُریدونَ کَیداً فَالَّذینَ کَفَروا ھُمُ المَکیدون(4) وہ چالیں چلیں گے لیکن خداوند عالم ان کی چالوں اور سازشوں کو ناکام بنا دے گا۔ آج ذمہ داری یہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے شروع سے ہی اس ذمہ داری کو سمجھ لیا تھا، امام خمینی رحمت اللہ علیہ اس راہ پر سب سے آگے چلنے والے تھے۔ وہ مسئلۂ فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے پہلا یا اولین مسائل میں سے ایک سمجھتے تھے۔ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے ساتھ ہی، ایران میں اس پر کام شروع ہو گيا اور بحمد اللہ مسلسل جاری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری عزیز قوم، ہمارے عزیز عوام، ہمارے جوان وہ دن دیکھیں گے جب پوری دنیا کے مسلمان، آزادی کے ساتھ بیت المقدس میں نماز ادا کریں گے۔

والسّلام علیکم و‌ رحمۃ اللہ و‌ برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتداء میں صدر مملکت حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئيسی نے کچھ باتیں بیان کیں۔

(2) سورۂ آل عمران، آيت 105، اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ بننا جو کھلی ہوئی نشانیوں کے آجانے کے بعد انتشار کا شکار ہوگئے اور اختلاف میں مبتلا ہوگئے۔

(3) سورۂ آل عمران، آيت 103، اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔

(4) سورۂ طور، آيت 42، یا وہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں؟ تو جو لوگ کافر ہیں وہ خود اپنی چال کا شکار ہیں۔