بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین والصلاۃ والسلام علی سیّدنا ونبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد وعلی آلہ الطیّبین الطّاھرین المعصومین  الھدات المھدییں المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔

 
 سبھی حاضرین کرام ملک کے مختلف اداروں کے حکام اور ایرانی عوام کو اس مبارک عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح یہاں موجود سبھی مہمانوں، اسلامی ملکوں کے سفیروں اور سبھی مسلم اقوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

امید ہے کہ یہ عید حقیقی معنی میں پوری امت اسلامیہ کی عید ہوگی اور ان کے لئے خوشیاں اور برکتیں لائے گی۔

میں سب سے پہلے رمضان المبارک میں اپنے ملک کے ممتاز روحانی ماحول کی طرف اشارہ ضروری سمجھتا ہوں۔ میری تاکید یہ ہے کہ ہم اس کی قدر کریں اور اس روحانی ماحول کو باقی رکھیں۔ یہ دعا و مناجات کے اجتماعات، یہ مساجد کی رونقیں، یہ عوام کی جانب سے مومنانہ امداد، یہ مساجد کے اندر اور سڑکوں پر دی جانے والی افطار۔ اس پہلو سے بھی عوام  رمضان المبارک میں  ممتاز رہے۔ تلاوت قرآن مجید کے لحاظ سے بھی اور سماجی میدان میں عوام کے امور کی انجام دہی اور محروم طبقات کی مدد وغیرہ کے لحاظ سے بھی اور سیاسی لحاظ سے بھی، یوم القدس پر یہ جو ریلیاں نکالی  گئيں، یہ ایک حیرت انگیز بین الاقوامی سیاسی مہم تھی۔ یہ بات کہاں دیکھی جا سکتی ہے؟ اس سال یوم القدس پر جیسا کہ ماہرین اور واقفین کو اطلاع ہے، حقیقی معنی میں ملک میں ایک عمومی جوش وخروش تھا۔ ریلیوں میں لوگوں کا ازدحام گزشتہ برسوں سے زيادہ تھا، یہ سبھی باتیں شکریے کا استحقاق رکھتی ہیں۔ یہ بندہ حقیر، واقعی اپنے عزیز عوام کا سبھی مختلف میدانوں میں ان کے پیش قدم ہونے پر، شکریہ ادا کرتا ہے۔

لیکن زبانی شکریہ کافی نہیں ہے۔ آپ خواہران و برادران عزیز جو یہاں ہیں،  آپ میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو مختلف اداروں کے عہدیدارہیں،  چاہے سرکاری اداروں کے ہوں، عدلیہ سے متعلق اداروں سے تعلق رکھتے ہوں یا مقننہ کے ہوں یا دینی تبلیغات سے تعلق رکھتے ہوں یا فوجی امور سے تعلق رکھتے ہوں، حاضرین محترم کی اکثریت عہدیداروں کی ہے، اس قوم کے عملی شکریے کی ضرورت ہے۔

وہ باتیں جو جناب صدر مملکت نے فرمائی ہیں، میں سو فیصد ان کی تائید کرتا ہوں۔ یعنی یہ کام انجام دیے جائيں۔ پلاننگ کی جائے، پیشرفت کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ کہ حکام کو ذمہ داری کا احساس ہے۔ یہ بات سمجھ میں آرہی ہے، ہم دیکھ رہے ہیں، کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش جاری رکھیں اور ہر لحاظ سے منظم کریں۔

غزہ کے واقعات ایسے نہیں ہیں کہ ان کو بیان کئے بغیر اور ان پر توجہ دیے بغیر، ان ایام، اس عید اور اس ماہ رمضان سے گزر جایا جائے۔ غزہ کا مسئلہ آج ایک اہم مسئلہ ہے۔ اسلامی دنیا کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ سب کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرنا چاہئے ۔ اقوام کے دل (غزہ کے عوام کے) ساتھ ہیں حتی غیر مسلموں کے دل بھی۔ آپ ان مظاہروں اور ان جلوسوں کو دیکھیں جو دنیا میں فلسطینیوں، غزہ کے عوام، اس علاقے کے مظلومین کی حمایت میں نکالے جا رہے ہیں، ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ دنیا کے کسی بھی معاملے میں یہ چیز نظر نہیں آئی ہے۔ افریقا میں، ایشیا میں، یورپ میں اور خود امریکا میں، عوام خود سے سڑکوں پر نکلیں اور فلسطینی عوام کی حمایت میں نعرے لگائيں، فلسطین کو غصب کئے جانے کے بعد گزرنے والے ان دسیوں برس میں، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ظاہر ہے کہ یہ نئی بات ہو رہی ہے، اسلامی دنیا میں ایک نئی تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ ہمیں اس پر توجہ رکھنا چاہئے۔

یہ بات کہ مسئلہ فلسطین اولین مسئلہ بن جائے، کہاں؟ لندن میں، پیرس میں، یورپی ملکوں میں، واشنگٹن میں، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان برسوں کے دوران دنیا کے میڈیا پر صیہونیوں کا جو تسلط رہا ہے، وہ اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ فلسطینیوں کی حمایت اور ان (صیہونیوں) کی مخالفت میں کوئی آواز نشر ہو۔ آج یہ آواز پوری دنیا میں گونج رہی ہے۔ پیسے بھی خرچ کر رہے ہیں، چیخ بھی رہے ہیں، دفاع  بھی کر رہے ہیں لیکن دنیا کے عوام ان کے خلاف ہیں، صیہونیوں کے مخالف ہیں۔  یہ بہت اہم مسائل ہیں۔ انہیں  چشم عبرت سے دیکھنے کی ضرورت ہے، کچھ  ہو رہا ہے۔

سب اپنے فرائض پر عمل کریں۔ لیکن حکومتیں واقعی اپنے فرائض  پر عمل نہیں کر رہی ہیں۔ یورپی حکومتوں کی طرف تو میں نے نماز (عیدالفطر کے خطبوں) میں اشارہ کیا (2) ان میں بعض اوقات کچھ بول دیتی ہیں، لیکن وہ بھی محکم اور مضبوط الفاظ میں نہیں، کچھ اس طرح سے کہ یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟ لیکن عملا اس سلسلے میں ان کا کوئی اثر نظر نہيں آتا بلکہ اس کے بر عکس (صیونی حکومت کی) مدد کرتی ہییں۔ امریکا مدد کر رہا ہے، اسلحہ جاتی، مالی اور سیاسی مدد کر رہا ہے، برطانیہ مدد کر رہا ہے، بعض دیگر یورپی ممالک بھی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض اسلامی ممالک بھی صیہونی حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ کیسے وقت میں؟ جب وہ خواتین اور بچوں کو قتل کرنے میں مصروف ہے۔ یہ میری نظر میں کسی  بھی طرح سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے، لیکن افسوس کہ یہ ہو رہا ہے۔

اسلامی ملکوں کی جانب سے صیہونی حکومت کی مدد خیانت ہے۔ امت اسلامیہ سے بھی خیانت ہے اور خود اپنے ساتھ بھی خیانت ہے۔ اس لئے کہ اپنے اس فعل سے وہ صیہونیوں کی کمزور ہوتی ہوئی مشینری کی تقویت کر رہی ہیں اور یہ تقویت خود ان کے نقصان میں ہوگی۔ صیہونی جب کسی ملک میں داخل ہوں گے تو اس ملک کے فائدے میں کام نہیں کریں گے، جب دراندازی  کریں گے تو مچھر کی طرح اس ملک کا خون چوس لیں گے۔ صیہونی حکومت کی مدد اپنی نابودی میں مدد ہے۔ امت اسلامیہ کو اپنی جگہ پر، اس کو روکنا  چاہئے۔ یہ ہماری پہلے کی تجویز تھی اور اب بھی ہماری حتمی تجویز یہی ہے: اسلامی حکومتیں صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے روابط، اپنے اقتصادی اور سیاسی روابط منقطع کر لیں۔ کم سے کم عارضی طور پر! اس وقت تک جب تک وہ یہ کام کر رہی ہے، رابطہ منقطع رکھیں۔ کوئی مدد نہ کریں، اس سے رابطہ نہ رکھیں۔ اسلامی حکومتوں سے یہ توقع ہے۔ یہ صرف ہماری توقع نہیں ہے، سبھی مسلم اقوام کی توقع ہے۔ اگر ابھی اسلامی ملکوں میں ریفرنڈم کرا لیا جائے، تو بے شک سب یہ  کہیں گے کہ صیہونی حکومت سے رابطہ منقطع کر لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ، خداوند عالم  ہمیں بیدار کرے۔ ہمیں ہمارے فرائض سے واقف کرے اور ہمیں ان فرائض کی انجام دہی کی توانائی عطا فرمائے۔

ایک بار پھر اس عید کی آپ سبھی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ رمضان المبارک کی برکتیں اورعید الفطر کی برکتیں، ہمارے عزیز عوام، محترم حکام، اور مختلف شعبوں میں سرگرم افراد کے لئے باقی رہیں، سبھی ان سے مستفید ہوں اور ان شاء اللہ اندرونی اور بیرونی سبھی میدانوں میں ہم کامیابی اور پیشرفت کا مشاہدہ کریں۔

 والسلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ

1۔ اس ملاقات میں پہلے صدر سید ابراہیم رئیسی نے  کچھ باتیں بیان کیں۔

2۔   10-4-2024 کے نماز عیدالفطر کے خطبوں سے رجوع کریں