سوال: رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا ہے امریکہ مسلسل کمزور ہوتا جا رہا ہے، اس کمزوری اور زوال کے تجزیے میں کن معیاروں کو مدنظر رکھنا چاہیئے؟

جواب: مختلف پہلو ہیں لیکن صرف دو پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہیں۔ پہلا یہ کہ سابق سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد، امریکہ کی حکومت بین الاقوامی تنازعات کی فاتح، بے لگام طاقت اور دنیا کی واحد مضبوط آئیڈیالوجی یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی حامی کے طور پر نمودار ہوئی، یہ ایسی چیز تھی جسے فوکویاما نے تاریخ کے خاتمے کے نام سے یاد کیا ہے کہ جس کا تعلق اسی دور سے تھا۔  مغرب نے چونکہ اب اسے کمیونزم اور بائیں بازوں کے دھڑوں کی طرف سے تشویش نہیں رہ گئی تھی، اس لئے ایسے قانونوں کو ختم کر دیا جو امریکہ اور مغرب کے نظاموں میں بینکوں، مالیاتی و تجارتی اداروں کی طرف سے ناجائز فایدے اٹھائے جانے پر لگام لگانے کے لئے بنائے گئے تھے۔ اس عمل کے دوران امریکہ سرمایہ دارانہ نظام اور لبرلزم کی طرف گیا جس کے نتیجے میں امریکہ میں مختلف طبقوں کے درمیان اقتصادی لحاظ سے عدم مساوات تیزی سے بڑھتا گیا۔

اسی طرح سرمایہ داروں کے، سرمایہ بڑھنے کے نتیجے میں، زیادہ طاقتور ہونے کی وجہ سے ایسے قانون، جو مزدور اور مڈل کلاس کے مفاد کی حفاظت کے لئے بنائے گئے تھے، دھیرے دھیرے بے کار ہوگئے، دھیرے دھیرے انکا اثر کم ہو گیا اور بہت سے مقام پر بے اثر ہو گئے، نتیجے میں اکیسویں صدی کے آغاز میں جو مختلف طبقوں کے درمیاں اقتصادی خلیج پیدا ہوئی تھی، دھیرے دھیرے سامنے آئی اور پھر تیزی سے بڑھتی گئی۔

ٹرمپ کا اقتدار میں آنا اسی عمل کا نتیجہ تھا، یعنی مڈل کلاس دھیرے دھیرے بکھر گیا خاص طور پر سنہ 2008 اور سنہ 2009 کے اقتصادی بحران کے دوران اوباما تغیر اور اصلاح کے نعرے کے ساتھ آئے اور حالات کو مزید بدتر بنا گئے، مڈل کلاس کے زوال کے عمل کو تیز کر گئے۔  جس انتخابات میں ٹرمپ کامیاب ہوئے، اس میں امریکہ کے عوام نے گویا خود امریکہ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ یہ در حقیقت ملک میں حکفرماں نظام کے خلاف اعتراض تھا، کیونکہ بہت سے لوگوں نے جنہوں نے اوباما کو ووٹ دیا تھا، ٹرمپ کو ووٹ دے دیا۔

امریکی حکومت ہمیشہ سے تنازعات اور جنگ میں گھری رہنے والی حکومت رہی ہے۔ امریکہ کی تاریخ جنگ اور تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ کو وجود دیا لیکن 11 ستمبر کے بعد، ایک کے بعد ایک افغانستان، عراق اور لیبیا میں جنگ چھیڑی۔ افغانستان اور عراق میں جنگ کے اخراجات امریکہ کے لئے سرسام آور تھے۔ خود امریکی عہدیداروں کے بقول ٹریلینوں ڈالر خرچ ہوئے۔

نئی ٹکنالوجی کے ساتھ موجودہ دور کی جنگیں، ماضی کی بہ نسبت بہت خرچیلی جنگیں ہیں، خاص طور پر ایسی جنگ جس میں فریقین کے درمیان جغرافیائی لحاظ سے زیادہ فاصلہ ہو۔ امریکہ اپنی سرحدوں کے قریب نہیں لڑ رہا تھا۔ اس نے ہمارے خطے میں فورسز اور فوجی ساز و سامان بھیجے اور لڑتا رہا۔ ایسی لڑائی امریکیوں کے لئے بہت خرچیلی ثابت ہوئي، جس کے نتیجے میں امریکہ میں غریبی بڑھتی گئی اور متمول طبقہ مزید متمول ہو گیا کیونکہ ان جنگوں و حملوں میں اصل فایدہ اسلحے بنانے والی کمپنیوں اور کارخانوں کو پہونچا جو اپنے آپ میں امریکہ میں غریبی بڑھنے اور طبقوں کے درمیان اقتصادی خلیج گہری ہونے کا سبب بنا۔

سابق سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد، مزدور او مڈل کلاس کی حمایت میں محدود پیمانے پر بننے والے اصولوں کا خاتمہ اور 11 ستمبر کے بعد امریکہ کی طرف سے مسلسل لڑی گئی جنگیں، عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ کو کمزور اور بے اثر کرنے والے دو اہم عناصر تھے۔ مزدور طبقے کے حمایتی اصولوں کے ختم ہونے کے ساتھ ہی امریکی سرمایہ دار اپنی خودغرضی اور اس بات کے مدّنظر کہ امریکی سرکار انکی مٹھی میں تھی، اپنے کارخانے چین سمیت دوسری جگہوں پر لے گئے تاکہ سستی مزدوری سے فایدہ اٹھائیں جس کے نتیجے میں امریکہ میں کمزور طبقے میں غریبی اور بیروزگاری زیادہ پھیلی۔

سوال: اگر آپ تیار ہوں تو یوکرین کے موضوع اور اس علاقے میں جنگ پر گفتگو کریں۔ آپ کی نظر میں وہ کیا علامتیں ہیں جو اس جنگ کی امریکہ کی جانب سے منصوبہ بندی، اسے چھیڑے جانے اور یوکرین کو ورغلائے جانے کی طرف اشارہ کرتی ہیں؟

جواب: امریکی سنہ 2014 سے پہلے سے یوکرین کی حکومت کو گرانے کی کوشش میں تھے۔ امریکہ نے اس کام کے لئے ان جی اوز کی خدمات لیں اور یورپ کی سطح پر اس کام کے لئے ماحول سازی کی۔

امریکہ نے یوکرین میں سنہ 2014 میں فوجی بغاوت کرائی اور اس ملک کی قانونی طریقے سے چنی گئی حکومت کو گرا دیا اور فوجی بغاوت کے نتیجے میں روس مخالف حکومت یوکرین میں بر سر اقتدار آ گئی۔ اس کے بعد جو لوگ فوجی بغاوت کے خلاف تھے، یوکرین کے مشرقی اور جنوبی حصے میں روسی نژاد اکثریت میں ہیں، انہوں نے مخالفت کی اور مقابلے کے لئے نکل آئے، نتیجتا داخلی سطح پر جھڑپ اور خانہ جنگی شروع ہو گئی، یعنی مشرقی اور جنوبی یوکرین خاص طور  پر مشرقی علاقے کے لوگوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اس وجہ سے فوجی بغاوت سے آئی حکومت کمزور ہوئی اور منسک مذاکرات شروع ہوئے تاکہ امن قائم ہو سکے، منسک1 اور منسک2 پر سنہ 2014 اور سنہ 2015 میں دستخط ہوئے۔

کافی دنوں کے بعد اس وقت کی جرمن چانسلر انگلا مرکل، فرانسیسی صدر اور یوکرین میں بغاوت کے نتیجے میں بننے والے صدر کی زبانی یہ بات سامنے آئی کہ منسک معاہد ایک فریب تھا۔ یعنی یوکرین، فرانس اور جرمنی جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے، ان کی نیت صلح قائم کرنے کی نہیں تھی، بلکہ انہوں نے اس لئے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے کہ کچھ وقت مل جائے اور خود ان کے اعتراف کے مطابق، وہ یوکرین میں فوجی بغاوت سے آنے والی حکومت کو مضبوط کرنا چاہتے تھے تاکہ جنگ میں روسی نژاد کے لوگوں اور ان لوگوں کو شکست دے سکیں جو فوجی بغاوت کے خلاف تھے۔

نیٹو نے دھیرے دھیرے فوجی بغاوت والی حکومت کی مدد کی اور اس کی فوج کو مضبوظ نیز مشرقی یوکرین میں روسی نژاد کے لوگوں کا نسلی صفایا شروع کیا۔ سنہ 2014 سے پہلے جنگ چھڑنے تک قریب 15 سے 16 ہزار روسی نژاد لوگوں کا قتل عام ہوا۔ اس دوران مغربی ملکوں، امریکہ، کینیڈا اور یوروپی ملکوں نے انتہاپسندانہ رجحان والے دائیں بازو کے دھڑوں، نازی اور فاشزم افکار کے حامل لوگوں کی مدد کی۔ جس طرح انہوں نے شام اور افغانستان میں کیا، داعش اور القاعدہ کو استعمال کیا یا جس طرح انہوں نے نکاراگوا میں کنٹراس کو استعمال کیا۔

ایک طرف روسی نژاد کے لوگوں کا قتل عام کر رہے تھے اور معاہدے کے برخلاف ان کی نیت صلح کی نہیں، بلکہ جنگ جاری رکھنے نیز فوجی بغاوت والی حکومت کو بچانے کے لئے یوکرین کی حکومت کی مدد کرنے کی تھی۔

دوسری طرف سابق سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد، امریکہ اور نیٹو ملکوں نے روس سے وعدہ کیا تھا کہ نیٹو کا دائرہ روس کی سرحد کی طرف نہیں بڑھائیں گے، لیکن انہوں نے جھوٹ کہا بلکہ مشرقی یورپ کے کئی ملکوں کو نیٹو میں شامل کیا جو سابق سوویت یونین کے رکن تھے۔