خرم شہر کی آزادی کا دن جو در حقیقت سن انیس سو بیاسی کے اپریل اور مئی مہینے میں بیت المقدس آپریشن کے نقطہ اوج ‏پر پہنچ جانے کا دن ہے، ہم سب کے لئے، ہماری تاریخ کے لئے اور ہمارے مستقبل کے لئے سبق آموز اور عبرت آموز دن ‏ہے۔ کیونکہ فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب کے جوانوں نے اس دن جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک حیرت انگیز اور قابل تعریف ہم ‏آہنگی اور ناقابل بیان شجاعت و فداکاری کے ذریعے بڑی کاری ضرب لگائی۔ عراقی فوج کے پیکر پر ہی نہیں بلکہ عالمی ‏سامراجی نظام کے پیکر پر جو اپنے لمبے لمبے وعدوں کے ساتھ بعثی حکومت کی جنگی مشینری کی پشت پر کھڑا ہوا تھا۔ ‏کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ یہ چیز (خرم شہر کی آزادی) ممکن ہو سکے گی۔ لیکن ایسا ہوا۔ اس کی اصلی وجہ کیا تھی؟ اس ‏کے لئے چند عوامل کو موثر قرار دیا جا سکتا ہے لیکن سب سے بنیادی ترین عامل تھا اللہ تعالی پر توکل اور اپنی قوت بازو ‏پر بھروسہ۔ اگر ہم اس دن عام اور رائج اندازوں کے مطابق عمل کرتے اور سوچتے تو کسی بھی صورت میں کوئی یہ نہیں ‏سوچ پاتا کہ یہ چیز بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمارے نوجوانوں نے، ہمارے با ایمان عوام نے، ہمت و شجاعت کے ساتھ، ‏ایمان و ایقان کے ساتھ، اللہ تعالی پر توکل کرتے ہوئے، جان ہتھیلی پر اور موت کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میدان ‏میں قدم رکھے اور یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔ خرم شہر کی آزادی افتخارات کا نقطہ کمال ہے، افتخارات کا ثمرہ ہے۔ تقریبا ایک ‏مہینے تک چلنے والے بیت المقدس آپریشن کی پوری مدت میں فداکاری و جاں نثاری کی سیکڑوں حیرت انگیز نشانیاں اور ‏مثالیں دیکھنے کو ملیں۔

یہ جو جملہ امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے اور آپ نے اسے بارہا سنا ہوگا کہ 'خرم شہر را خدا ‏آزاد کرد' اس سلسلے میں کہا جانے والا سب سے حکیمانہ اور سب سے حقیقت پسندانہ جملہ ہے۔ وما رمیت اذ رمیت و لکن اللہ ‏رمی (انفال آیت 17) کی عملی تصویر ہے۔ ‏

جو لوگ اس زمانے میں ملت ایران اور اس قوم کے سپاہیوں کے مد مقابل کھڑے ہوئے تھے یہ وہی لوگ ہیں جو آج ملت ایران ‏کے مقابلے پر آئے ہیں۔ انہیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ اس زمانے میں بھی امریکا، نیٹو، برطانیہ، فرانس اور جرمنی تھے۔ ‏

 

امام خامنہ ای

24 مئی 2010‏