انھوں نے قرآن کی جانب سے اقداروں کے تعین کے لحاظ سے شہیدوں کے والدین اور بیویوں کو دیگر مومنین سے زیادہ بافضیلت اور ان صابروں کا مصداق قرار دیا جن پر خداوند عالم درود و سلام بھیجتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ماں باپ کی جانب سے اپنے جگر گوشوں کی قربانی دیے جانے اور شہیدوں کی بیویوں کی جانب سے اپنے شوہروں کی عاشقانہ محبت کے ایثار کو خدا کی راہ میں نیکی اور انقاق کا بلند ترین مرتبہ بتایا اور کہا کہ شہداء کے اہل خانہ، نفس سے جہاد کا سب سے واضح نمونہ ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے بچوں اور شوہروں سے اپنی محبت و الفت سے لڑ کر اور اس پر غلبہ حاصل کر کے انھیں جہاد کے میدان میں بھیجا۔

انھوں نے ان سبھی لوگوں کو، جو مقدس دفاع کے سپاہیوں کی کسی نہ کسی طرح مدد کرتے تھے، ان کے جہاد میں شریک بتایا اور کہا کہ ان سب کے درمیان مقدس دفاع کی فتح میں ان لوگوں کا کردار سب سے زیادہ نمایاں ہے جنھوں نے اللہ کی راہ میں جہاد میں اپنے جگر کے ٹکڑوں اور محبوب شوہروں کی مدد کی اور ان کا ساتھ دیا اور بڑے افسوس کی بات ہے کہ شہیدوں کے والدین اور بیویوں کے اس عظیم جہاد کے سلسلے میں اب تک غفلت برتی گئي ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے عزیزوں کا داغ اٹھانے والے شہداء کے اہل خانہ کے رنج و الم کو کبھی نہ ختم ہونے والا لیکن عظمت و عزت کا باعث بتایا اور کہا کہ اس زاویے سے بھی پروردگار عالم، ان صابر و شاکر انسانوں کو اعلی مقام عطا کرتا ہے۔

انھوں نے مقدس دفاع، ملک کی سلامتی کے دفاع، معصومین کے روضہ ہائے اطہر کے دفاع اور پچھلے سال کے مختلف واقعات سے مقابلے کے دوران اپنی جان نثار کرنے والے شہیدوں کے والدین اور بیویوں کو شہیدوں کی یادوں کا ایک بے مثال خزانہ قرار دیا اور کہا کہ ان ہیروز کا طرز عمل، نمایاں اخلاقی صفات، طرز زندگي اور ان کی زندگي کے حالات، معاشرے خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور اس سلسلے میں شہداء کے اہل خانہ کی یادوں اور ان کے واقعات کی طباعت، بہت اہم کردار ادا کرے گي۔

انھوں نے انقلاب اسلامی کو ایران کو اخلاقی، مذہبی اور سیاسی زوال کی کھائي میں گرنے سے بچانے والا بتایا اور کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی ملک کے نوجوان، تمام واقعات و حادثات کے سامنے سینہ سپر رہے اور مختلف سازشوں میں دشمن کو دھول چٹا کر اور خطروں کو موقعوں میں تبدیل کر کے انھوں نے ایران کو عزت و سربلندی عطا کی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں میڈیا اور تمام ہنری میدانوں کے فنکاروں کو شہیدوں کی یادوں اور ان کے قصوں کو ہنری انداز میں عام کرنے کی دعوت دی اور کہا کہ حالیہ برسوں میں کتابوں، فلموں اور بعض دیگر شعبوں میں کافی اچھا کام ہوا ہے لیکن جتنے بڑے کام ہونے چاہیے، ان کے مقابلے میں یہ کام کم ہیں۔