طاغوتی نظام اور اُس سے قبل کی حکومتیں بھی ایران میں عوامی حکومتیں نہیں تھیں، عوام کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، ایک شخص انگریزوں کی مدد سے (اقتدار میں) آگیا تھا، تہران میں فوجی بغاوت کردی تھی اور خود کو بادشاہ کا نام دے دیا تھا، بعد میں بھی جب وہ ایران سے جارہا تھا یعنی جب اس کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ وہ بوڑھا ہوچکا تھا اور ان کے کام کا نہیں رہ گیا تھا، اس نےاپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنا دیا، آخر یہ بیٹا کون ہے؟ اور کیا ہے؟ پھر عوام کس کام کے ہیں؟ اور ان کی رائے کا کیا ہوا؟ سرے سےاس کا کوئی ذکر نہیں تھا، اس سے پہلے بھی قاجاری حکمراں تھے، ایک فاسق شخص مرتا تھا، دوسرا فاسق شخص اس کی جگہ لے لیتا تھا، عوام الناس حکومت کے تعین اور انتظام میں کوئی دخل نہیں رکھتے تھے، پوری طرح عضو معطل تھے، عوام ان کو پسند نہیں کرتے تھے وہ چاہتے تھے کہ حکومت ان کےاختیار میں ہو، حکومت ان کے ذریعے اقتدار میں آئے، ان کی رائے اس میں موثر ہے۔

امام خامنہ ای 

12 / مئی /2000