خداوند عالم نے اپنے پیغمبر (ص) کو دشمنیوں سے مقابلے کے لئے ایک دستورالعمل تعلیم دیا ہے، بعثت کے آغاز سے خداوند متعال نے نبی اکرم (ص) کو حکم دیا کہ صبر کریں: ’’ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ ‘‘ (سورہ مدثر۔ آیت نمبر 7)؛ اپنے خدا کے لئے صبر کیجئے، سورہ مزمل میں خدا فرماتا ہے: ’’وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ‘‘(سورہ مزمل ۔آیت نمبر 10 کا ایک حصہ)، (اور ان (کفار) کی باتوں پر صبر کیجئے! ا) قرآن میں دیگر مقامات پر بھی مکرر طور پر اسی بات کو دہرایا گیا ہے: ’’ وَاسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ‘‘(سورہ شوری ۔ آیت نمبر 15 کا ایک حصہ) ( اور ثابت قدم رہیں جس طرح آپ (ص) کو حکم دیا گیا ہے)؛ ثبات و استقامت سے کام لیں۔ ’’صبر‘‘ بیٹھے رہنے اور ہاتھ پہ پاتھ رکھ کر نتیجہ کا انتظار کرنے اور حادثات سے دوچار ہوتے رہنے کا نام نہیں ہے، صبر کا مطلب ہے راہ حق میں ثبات و استقامت کا مظاہرہ کرنا، اپنے صحیح اندازوں کو اور باریک و دقیق اندازوں کو دشمن کی چالوں اور دھوکے بازیوں سے تبدیل نہ کرنا۔ ’’صبر‘‘ یعنی اپنے ان اہداف و مقاصد کے پیچھے لگے رہنا جو اپنے لئے ہم نے خود معین کیا ہے۔ ’’صبر‘‘ کا مطلب پورے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا اور آگے بڑھتے جانا ہے، چنانچہ اگر یہ صبر و ثبات اور اپنی جگہ ڈٹے رہنا عقل و تدبیر اور مشورے کے ساتھ ہو جیسا کہ قرآن کا حکم ہے: ’’ واَمْرُھُمْ شُورَى بَيْنَھُمْ‘‘(سورہ شوری ۔ آیت نمبر 38 کا ایک حصہ) (اور ان کے (تمام) کام باہمی مشورہ سے طے ہوتے ہیں)؛ تو یقینا کامیابیاں نصیبب ہوں گی۔

امام خامنہ ای 

22 / مارچ / 2020