آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ناپسندیدہ دو ہندسی افراط زر کو جتنی جلدی ممکن ہو کم کیا جائے اور انصاف، طبقاتی فاصلوں ‏میں کمی، منڈی میں استحکام، زر مبادلہ کی قیمت میں استحکام اور پیداوار میں پیشرفت جیسے امور پر ساتویں ترقیاتی ‏منصوبے سمیت حکومت کے تمام فیصلوں اور اقدامات میں اہم اشاریوں کے طور پر پوری توجہ رکھی جائے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کے دوسرے صدر شہید رجائي اور سابق وزیر اعظم باہنر کی شہادت کی ‏برسی اور ہفتۂ حکومت کی مناسبت سے ہونے والی اس سالانہ ملاقات میں، اللہ کی خوشنودی کے حصول اور عوام کے لیے ‏کام کو ان دو شہیدوں کی بنیادی خصوصیت بتایا اور کہا کہ شہید رجائي اور شہید باہنر، اپنے الہی اور انقلابی نظریات کے ‏تحت، عوام کے لیے کام کو بھی اللہ کی خوشنودی کا سبب سمجھتے تھے اور یہ بنیادی ہدف ان کے تمام کاموں اور ‏کارکردگيوں میں غالب رہتا تھا، بنابریں تمام اسلامی حکومتوں کے مشن کا کیورڈ، اللہ کی خوشنودی اور لوگوں کے لیے کام ‏ہونا چاہیے۔

انھوں نے انتظامی شعبوں میں بھی حکومت کے کاموں کو اہم بتایا اور کہا کہ ہمیں عوام کے ساتھ متکبرانہ انداز میں بات ‏کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ ہم کچھ ہیں ہی نہیں اور جو کچھ ہے وہ عوام کا ہی ہے اور اگر ہمیں کوئي عہدہ دیا گیا ہے تو ‏پہلی بات تو یہ کہ وہ خود عوام نے ہی دیا ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ عوام کی خدمت کے لیے دیا گیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے سادگي، انقلابی موقف، جہادی جذبے اور مینجمینٹ کی مختلف سطحوں پر جوانوں سے استفادے کو ‏حکومت کے دیگر قابل تعریف اقدامات میں شمار کیا۔

انھوں نے ہمسایہ ممالک سے تعلقات بحالی کی پالیسی سمیت خارجہ پالیسی کے شعبے میں بھی حکومت کی کارکردگي کو ‏بہت اچھا بتایا اور کہا کہ کسی بھی پڑوسی ملک سے ہمارا تنازعہ نہیں ہونا چاہیے اور اگر کوئي تنازعہ ہے بھی تو اسے ‏تعاون میں بدل دیا جانا چاہیے اور اس سلسلے میں جو قدم اٹھائے گئے ہیں، انھیں جاری رہنا چاہیے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے معدودے کچھ حکومتوں کو چھوڑ کر ایران سے رابطے کی خواہاں تمام حکومتوں سے رابطے ‏کو موجودہ حکومت کی ایک اور صحیح پالیسی بتایا اور کہا کہ دو بین الاقوامی تنظیموں میں رکنیت، بہت اہم کام تھا جس سے ‏پتہ چلتا ہے کہ ملک ایسی پوزیشن میں ہے کہ عالمی تنظیموں کے بانی ایران سے رابطے کے خواہاں ہیں بلکہ کبھی کبھی تو ‏وہ مصر بھی ہوتے ہیں اور اپنے اندازوں کے مطابق اور ایران کے حقائق کے پیش نظر وہ ہمارے ملک سے رابطے کو ‏ضروری سمجھتے ہیں۔انھوں نے کلچر کے میدان میں حکومت کے اچھے کاموں کی مقدر اور معیار کو بڑھانے پر زور دیا اور کہا کہ ملک کے ‏حقائق اور حکومت کی کارکردگي نیز حقائق کے بارے میں عوام کے تصور کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے اور اچھے ‏ماہرین کی مدد لے کر اس فاصلے کو کم کیا جانا چاہیے۔‎

‎رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں معیشت اور ثقافت کو ملک کی اصل ترجیحات میں شمار کیا اور ‏رواں ہجری شمسی سال کے نعرے کے بارے میں کہا کہ افراط زر پر کنٹرول بھی پروڈکشن میں پیشرفت سے ہوتا ہے، اس ‏لیے پیداوار میں پیشرفت سب سے اہم کام ہے اور اس پر سب سے زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔انھوں نے غیر ملکی تجارت کے ذریعے ملکی پیداوار کی پشت پناہی کو پیداوار میں پیشرفت کی ایک اور اہم راہ بتایا اور کہا ‏کہ غیر ملکی تجارت کا ایک حصہ داخلی ضرورتوں سے متعلق ہوتا ہے لیکن دوسرے حصے میں کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ ‏ملکوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے اور سمجھوتے، ملکی پروڈکٹس کی برآمدات اور سرمائے یا بنیادی ضرورت کی اشیاء ‏کی درآمد پر منتج ہوں۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کی ضروریات کی بروقت تشخیص کو بھی بہت ضروری بتایا اور کہا کہ اگر کسی چیز ‏کے سلسلے میں ملک کی ضرورت کو بر وقت سمجھا نہ جائے اور بحرانی مرحلے کے قریب مجبورا اسے امپورٹ کرنا پڑے ‏تو واضح سی بات ہے کہ ہم مشکل میں پھنس جائيں گے۔

انھوں نے پابندیوں کا اصل مقصد، عوام کی معیشت کو مشکل میں ڈالنا بتایا اور کہا کہ پابندیوں کے خاتمے کے لیے کچھ کام ‏اور مذاکرات ہو رہے ہیں جو اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن اسی کے ساتھ، پابندیوں کو ناکام بنانے کی راہ پر چلتے رہنا چاہیے ‏جس کا سب سے اہم انڈیکس، انفلیشن میں کمی ہے۔رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح مختلف ملکوں سے رابطے کے مواقع کی شناخت اور صحیح موقع پر ان سے استفادے کو ‏ضروری قرار دیا، انھوں نے بعض ممالک کے ساتھ طویل میعادی تعاون کے متعدد دستاویزات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ‏ان دستاویزات اور معاہدوں کو نتیجہ خیز بنائے جانے پر تاکید کی اور کہا کہ سمجھوتوں اور معاہدوں کو صرف کاغذوں میں ‏ہی نہیں رہ جانا چاہیے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بعض سیاستدانوں کی جانب سے کچھ محدود مغربی ملکوں کے ساتھ گہرے تعلقات کو ہی دنیا ‏سے تعلقات سمجھے جانے کے تصور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظریہ غلط، رجعت پسندانہ اور سو سال پہلے کا ‏ہے جب کچھ یورپی ممالک، پوری دنیا کے سیاہ و سفید کے مالک تھے لیکن آج اس پرانی اور رجعت پسندانہ رائے کو الگ ‏رکھ دینا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا سے تعلقات کا مطلب، افریقا، جنوبی امریکا اور ایشیا سے تعلقات ہے جو عظیم ‏انسانی اور قدرتی سرمایوں کے مالک ہیں اور اسی کے ساتھ بین الاقوامی روابط کا معیار، مفادات اور قومی عزت ہے اور ‏روابط میں نہ تو تسلط پسندی ہونی چاہیے اور نہ ہی تسلط کو قبول کیا جانا چاہیے۔

انھوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں حکومتی عہدیداروں کو افواہوں پر توجہ نہ دینے کی نصیحت کی اور کہا کہ ‏ممکن ہے کہ کچھ لوگ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بہت زیادہ ہنگامہ مچا کر حکومت کے کسی کام کو روکنے یا اس پر کوئي ‏کام تھوپنے کے چکر میں ہوں لیکن اگر آپ کا فیصلہ یا اقدام، ٹھوس اور غور و فکر کے ساتھ ہے تو آپ کو ہنگاموں اور ‏پریشر گروپس پر توجہ نہیں دینی چاہیے بلکہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے مضبوطی سے قدم اٹھانا چاہیے۔ انھوں نے امید ظاہر ‏کی کہ خداوند عالم کی توفیق سے حکومت کے باقی بچے عرصے میں اس کی کامیابیاں کئی گنا زیادہ ہو جائيں۔

‎اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت سید ابراہیم رئيسی نے اپنی حکومت کے اقتدار میں آنے کے فورا بعد سے ہی کورونا ‏کی وبا، بجٹ میں خسارہ اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قلت جیسے چیلجنوں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کرتے ‏ہوئے، ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کے سلسلے میں حکومت کے اقدامات کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ دنیا میں ایران کو الگ ‏تھلگ کرنے اور ملک کے اندر عوام کو مایوس کرنے کی دشمن کی سازش کو خود عوام کی مدد اور شرکت سے ناکام بنا دیا ‏گيا۔