بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین.

جناب صدر مملکت اور محترم حاضرین، لایق احترام بھائیو اور بہنو! آپ کی بریفنگ مفید تھی۔ اگر اور بھی کوئی صاحب رپورٹ پیش کرتے تو کوئی مضائقہ نہیں تھا لیکن آپ حضرات نے فرمایا تو ہم بھی چند جملے عرض کئے دیتے ہیں۔

ہفتہ حکومت در حقیقت ایک حکومت کی عمر کے ایک حصے کو دوسرے حصے سے جوڑنے والی کڑی ہے۔ یعنی آپ اس ہفتے میں ایک نظر گزشتہ سال پر ڈالتے ہیں اور ایک نگاہ آئندہ سال پر ڈالتے ہیں۔ آپ موازنہ کر سکتے ہیں۔ تجربہ حاصل کر سکتے ہیں، عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ہفتہ دو عظیم شہیدوں کے نام سے آراستہ ہے۔ شہید رجائی اور شہید با ہنر۔ یہاں ایک اہم نکتہ ہے اور وہ یہ کہ ان دونوں شہیدوں کی ہمارے ذہن میں کیا تصویر ہے جس کی طرف ہم اپنے عہدیداروں اور اعلی منتظمین کو لے جانا چاہتے ہیں؟ وہ  تصویر کیا ہے؟ ان کی کارکردگی تو ہماری نگاہ کے سامنے ہے نہیں۔ موقع ہی نہیں ملا۔ شہید رجائی تقریبا ایک مہینہ صدر رہے۔ شہید باہنر بھی اتنی ہی مدت وزیر اعظم رہے۔ شہید رجائی چند مہینے وزیر اعظم رہے، وہ بھی ان خاص حالات میں جو اس دور میں تھے۔ لہذا ان دونوں محترم ہستیوں کی کارکردگی ہماری نگاہ کے سامنے نہیں ہے۔ ان کی کارکردگی کی کوئی علامت اور نشانی وغیرہ نہیں ہے۔ پھر معاملہ کیا ہے؟ ان دونوں افراد کو اتنا نمایاں بنانے والا نکتہ کیا ہے؟ نکتہ ان کی نیت میں مضمر ہے، ان کی سمت اور جہت میں مضمر ہے۔ ان دونوں عزیز شہیدوں کی سمت اور جہت انقلابی اور الہی تھی۔ جو لوگ ان دونوں عزیزوں کو قریب سے جانتے تھے وہ ہماری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ یہ دونوں افراد وہی چیز طلب کرتے تھے کہ راہ خدا کے مجاہدین اور شہدا جس کے طالب ہوتے ہیں۔ ان کی نگاہ اس ہدف پر ہوتی تھی۔ یعنی ان کی پوری زندگی ان کے انجام سے پوری طرح ہم آہنگ تھی۔ یعنی وہ رضائے الہی کی فکر میں رہتے تھے۔ جس طرح ہمارے سارے شہدا اور تمام مجاہدین فی سبیل اللہ اپنے جہاد کے مشن میں پورے خلوص سے رضائے پروردگار کی فکر میں رہتے ہیں، اللہ کی رضا اور عوام کی خدمت جو خود بھی رضائے الہی کے ذرائع میں شامل ہے۔ یعنی اللہ نے ہم سے چاہا ہے کہ ہم عوام کے لئے کام کریں۔

تو یہ بہت اہم ہے۔ یعنی ہماری حکومتوں کا پاسورڈ یہی ہونا چاہئے: رضائے الہی کا حصول اور عوام کی خدمت۔ ہمارا ہدف یہی دو جملے ہوں۔ اگر انسان کا ہدف رضائے الہی ہے تو یہ ہماری ساری سرگرمیوں میں، ہمارے سارے اقدامات میں اور ہمارے کام کرنے کے طریقے میں اثر ڈالے گا۔ جس وقت آپ اپنے گھر میں ہیں اسی کام کی فکر میں رہیں گے جو آپ کے ذمے ہے۔ یا وزارت کے کام جو بہت سخت ہیں، وہ آپ رات کو مجبورا اپنے ساتھ گھر لے گئے اور گھر کے اندر اسے انجام دیا، یہ کس لئے ہے؟ رضائے پروردگار حاصل کرنے کے لئے۔ یہ صحیح بات ہے، اس کا اثر ہمارے کام پر پڑتا ہے۔ ہماری تقرریوں میں اس کا اثر پڑتا ہے۔ صحیفہ سجادیہ میں ایک اہم جملہ رضائے پروردگار کے تعلق سے ہے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں، امام فرماتے ہیں: مُؤثِراً لِرِضاکَ عَلىٰ ما سِواہ ما فِی الاَولِیاءِ وَ الاَعداء؛ میں ہر جذبے پر تیری رضا کو مقدم رکھوں۔ اگر یہ ہو جائے تو: حَتّىٰ یامَنَ عَدُوّی مِن ظُلمی وَ جَوری وَ ییئس وَلِیّی مِن مَیلی وَ انحِطاطِ ھوای؛(۲) یہ بہت اہم ہے۔ اگر میرا مقصود رضائے پروردگار ہو تو میرے دشمن کو بھی اطمینان ہوگا کہ میں اس پر ظلم نہیں کروں گا۔ بے شک وہ دشمن ہے لیکن میری طرف سے مطمئن ہے کہ میں اس پر ظلم نہیں کروں گا۔ اسی طرح میرا دوست اور رفیق بھی مطمئن رہے گا کہ دوستی کی بنیاد پر میں اسے کوئی غلط رعایت نہیں دوں گا۔ ہم اپنی تقرریوں میں اس طرح عمل کریں۔ اگر ہمارے مد نظر رضائے پروردگار ہے تو ہم خیال رکھیں گے کہ اسی کو عہدہ دیں گے جو صلاحیت رکھتا ہوگا، دوستی اور رفاقت میں اس کو عہدہ نہیں دیں گے جو ہمارا دوست ہے، ہمارا رفیق ہے لیکن صلاحیت نہیں رکھتا۔ رضائے الہی کی خصوصیت یہی ہوتی ہے۔ مرحوم شہید رجائی اور مرحوم شہید با ہنر واقعی ایسے ہی تھے۔ یعنی حقیقتا ان کا ہدف رضائے پروردگار تھا۔ میری ان سے برسوں کی قریبی آشنائی تھی، ہم نے ان کا طرز عمل دیکھا تھا۔ ہفتہ حکومت اس نام سے آراستہ ہے۔ یہ دستور العمل ہے۔ جس پرچم پر اس حکومت کا نام درج ہے اسے ان چیزوں کو مد نظر رکھنا چاہئے۔

میں جو باتیں آج آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ دو حصوں پر مشتمل ہیں۔ ایک حصہ میں اختصار کے ساتھ حکومت کے بارے میں عوام کی رائے اور اپنی سوچ کا ذکر کروں گا اور دوسرے حصے میں کچھ انتباہات اپنے دوستوں کی خدمت میں عرض کروں گا کہ انھیں مد نظر رکھیں۔

جہاں تک میری سوچ کی بات ہے تو میں نے گزشتہ تیس سے زیادہ برسوں میں ہمیشہ تمام حکومتوں کی حمایت کی ہے۔ ان تمام حکومتوں، الگ الگ رجحان اور الگ الگ  توانائی رکھنے والی حکومتوں کی میں نے حمایت کی۔ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے۔ ملک کے حالات اور ہم نے اسلامی جمہوریہ کے اندر جو اہداف معین کئے ہیں ان کا تقاضہ ہے کہ سب کے سب مجریہ کی جو عملی میدان میں موجود ہے، مدد کریں۔ رہبر انقلاب مدد کریں، عوام مدد کریں، دانشور طبقہ مدد کرے، علمی شخصیات مدد کریں۔ یہ اصول ہے۔ ساری حکومتوں کا یہ حق ہے کہ ہر طرف سے ان کی حمایت کی جائے، ماہرین مدد کریں چنانچہ ہم نے تمام حکومتوں کی مدد کی۔ لیکن موجودہ حکومت کی جہاں تک بات ہے تو مدد کے علاوہ اس دو سال کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے میں اس کی قدردانی بھی کرنا چاہوں گا۔ یعنی ان دو برسوں میں جب یہ حکومت اقتدار میں رہی ہم نے جو کارکردگی دیکھی ہے اس کی بنا پر لازمی ہے کہ ہم اس حکومت کی قدردانی کریں، تعریف کریں۔ کچھ شعبوں میں حکومت نے بہت اچھی اور مستحکم کارکردگی پیش کی ہے، یہ شعبے بڑے اہم شعبے ہیں۔ میں اختصار سے ذکر کروں گا۔ ہم جو کہتے ہیں کہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے اسے بیان کرنے والی حکومت کی زبان بخوبی اپنی بات پہنچا نہیں پا رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت بڑے کام ہوئے ہیں، لیکن جو اس کا حق ہے اس طرح عوام کی نگاہوں کے سامنے ان کاموں کو پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔ میں کچھ چیزیں بیان کرنا چاہتا ہوں تاکہ حکومت کے تعلق سے جو حقائق ہیں وہ کسی حد تک عوام کے سامنے اور ان افراد کے سامنے واضح ہوں جو مفاد پرستی سے متاثر نہیں ہیں۔ میں چند حصوں میں اسے بیان کروں گا۔

اقتصادیات کے شعبے میں اس حکومت کے اندر بہت اچھے کام ہوئے ہیں جن کی تفصیلات کا ذکر جناب صدر مملکت نے بھی کیا اور سینیئر نائب صدر نے بھی تفصیلات بتائیں۔ میں جس بات پر تاکید کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ملکی اقتصادیات کے اشاریوں کی اچھی خاصی تعداد نمو اور پیشرفت کی تصویر پیش کرتی ہے، مثبت تبدیلیاں دکھاتی ہے۔ البتہ بڑے اقتصادی اشاریوں سے جب بات عوامی معیشت اور عوام کی روز مرہ کی زندگی کی طرف آتی ہے تو فاصلہ دکھائی دیتا ہے۔ یعنی ابھی وقت درکار ہے۔ بعض حکومتوں کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ 'کل' کو 'آج' پر قربان کر دیتی ہیں۔ موجودہ حکومت نے یہ نہیں کیا۔ بڑے اور بنیادی کام انجام دئے ہیں جس کی تاثیر ممکن ہے کہ آج پوری طرح ظاہر نہ ہو لیکن آخرکار ظاہر ضرور ہوگی۔ میں چند نمونوں کا ذکر کروں گا ورنہ جو رپورٹ مجھے دی گئی ہے اس میں ان کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ شاید تقریبا پچاس چیزیں ہیں جو اقتصادی میدان میں مثبت تبدیلی کے طور پر رونما ہوئی ہیں۔ ان میں سے چند کا ذکر میں کرنا چاہوں گا۔

اقتصادی شرح نمو مین اضافہ، خاص طور پر صنعتی شعبے میں، یہ بہت اہم ہے۔ سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ جو ہمارے اہم ترین اقتصادی مسائل میں ہے اور ماضی کے بعض ادوار میں سرمایہ کاری کی مشکل در پیش تھی اور اس کی شرح نمو مائنس میں تھی۔ آج کی زبان میں اسے مائنس گروتھ ریٹ کہتے ہیں، ورنہ در اصل وہ نمو نہیں بلکہ نیچے جانا ہے۔ لکویڈٹی میں کمی جس کا ذکر آپ حضرات نے کیا۔ بے روزگاری میں کمی، جینی انڈیکس میں بہتری، اشیاء اور مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ، ٹیکس کے سسٹم کی تقویت جس کے نتیجے میں حکومت کو ٹیکس سے ہونے والی آمدنی میں اضافہ ہوا اور اس سے حکومت کے کرنٹ بجٹ کا بڑا حصہ پورا ہوا۔ پیٹروکیمیکل مصنوعات کی پیداوار میں قابل قدر اضافہ، پیٹروکمیکل مصنوعات کا موضوع ملک کے اہم موضوعات میں رہا ہے۔ تیل اور گیس کے شعبے میں بہت قیمتی پیشرفت جس کا ایک نمونہ یہی جنوبی پارس فیلڈ کا گیارہویں فیز تھا جس کا جناب صدر مملکت نے حال میں افتتاح کیا۔ (3) بند پڑے یا گنجایش سے کم کام کرنے والے کارخانوں کو دوبارہ چالو کروانا، جن کی تعداد کافی زیادہ ہے، کئی ہزار ہے، کئی ہزار بند پڑے یا گنجائش سے نصف پروڈکشن تیار کرنے والے کارخانوں کو چالو کروا دینا، یہ بہت اہم چیز ہے۔ آبپاشی کے میدان میں اہم سرگرمیاں یا مختلف جگہوں پر آبپاشی یا ڈرینیج کا نیٹ ورک فراہم کرنا جو حضرات کی رپورٹوں میں بھی تھا۔

میں نے عرض کیا کہ اس طرح کے تقریبا پچاس اقدامات کی رپورٹ ہمیں ملی جو انجام پائے ہیں۔ یہ بہت اہم اور قیمتی کام ہیں لیکن نظر نہیں آتے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حکومت میں اطلاع رسانی کا عمل افسوس کی بات ہے بہت کمزور ہے۔ یعنی اتنے بڑے کاموں کی اطلاع رسانی نہیں ہوتی۔ اطلاع رسانی کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی فرد آکر ٹی وی پر بیٹھ جائے اور باتیں کرے اور عوام کو اطلاع دے  کہ یہ سارے کام ہوئے ہیں۔ یہ اطلاع رسانی نہیں ہے۔ اطلاع رسانی ایک آرٹ ہے۔ اس آرٹ کو استعمال کرنا چاہئے تاکہ اطلاع رسانی کا کام بخوبی انجام پا سکے۔ ایک وجہ یہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ چونکہ اس وقت عوام معیشتی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، مہنگائی ہے، خاص طور پر اشیاء خورد و نوش میں بڑی گرانی ہے، یا مکانات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ یہ عوام الناس کے روز مرہ کے مسائل ہیں، عوام ان چیزوں کو دیکھتے ہیں تو بنیادی قسم کے بڑے اقتصادی اقدامات سے غافل رہ جاتے ہیں۔ یعنی یہ چیزیں غبار بن کر بنیادی کاموں کو چھپا دیتی ہیں۔ اس مشکل کے بارے میں فوری اور سنجیدہ راہ حل ان شاء اللہ تلاش کی جائے۔ یہ اقتصادی شعبے میں انجام پانے والے کاموں کی بات تھی۔

مینیجمنٹ کے شعبے میں بھی حکومت نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ میرے نزدیک، میری نگاہ میں ان کاموں کی اہمیت اقتصادی اقدامات اور اقتصادی پیشرفت سے کم نہیں ہے۔ ان میں سے ایک کام عوام کے درمیان جانا اور عوام کی مشکلات سے براہ راست روبرو ہونا ہے۔ یہ جو آپ عوام الناس کے درمیان جاتے ہیں، خود ان کی زبان سے ان کی باتیں سنتے ہیں، ان کا جواب دیتے ہیں، آپ کے سامنے وہ مشکلات کو بیان کرتے ہیں، یہ بہت اچھا کام ہے۔ یہ بہت مفید کام ہے۔ کئی پہلوؤں سے مفید ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ آپ فرسٹ ہینڈ اطلاعات حاصل کر لیتے ہیں۔ دوسرے فائدے بھی ہیں۔ عوام سے قریبی، انکساری اور اپنائیت کا رشتہ بہت اہم ہے۔ ہمیں کوئی حق نہیں کہ عوام سے خود کو برتر سمجھیں اور تکبر سے بات کریں۔ ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔ جو کچھ ہے عوام کا ہے۔ اگر کوئی کام، ذمہ داری اور عہدہ ہمیں دیا گيا ہے تو پہلی چیز یہ کہ عوام نے ہمیں دیا ہے اور دوسری چیز یہ ہے کہ عوام کی خدمت کے لئے دیا گیا ہے۔ نجی اور حکومتی برتاؤ میں سادہ زیستی اور پروٹوکول سے اجتناب خاص طور پر خود جناب صدر مملکت کے یہاں جو ہے میرے لئے بہت پرکشش، اہم اور قابل توجہ ہے۔ حکومت کی سطح پر جو انقلابی موقف اختیار کئے جاتے ہیں، بعض کاموں میں جو جہادی جذبہ پیش کیا جاتا ہے جن میں سے کچھ کا ذکر حضرات کی رپورٹ میں بھی تھا، مینجمنٹ میں الگ الگ سطح پر نوجوانوں کو موقع دینا بہت اہم چیز ہے، بہت ضروری ہے، جو بحمد اللہ اس حکومت میں انجام پا رہا ہے۔ بنابریں مینیجمنٹ کی سطح پر بھی بہت اچھے، قابل تعریف اور مسرت بخش کام ہوئے ہیں۔

خارجہ پالیسی کے شعبے میں: خارجہ پالیسی کے میدان میں حکومت کا کام بہت اچھا رہا۔ آپ نے جو پالیسی اختیار کی پڑوسیوں سے دوستانہ رشتے کی، یہ بہت اچھی پالیسی ہے۔ اسے جاری رکھنا چاہئے۔ ایسا ہو کہ کسی بھی پڑوسی ملک سے ہمارا کوئی تنازعہ نہ رہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ کوئی تنازعہ باقی نہ رہے۔ جو بھی تنازعہ ہے وہ تعاون میں بدل دیا جائے۔ یہ ممکن بھی ہے اور کچھ کام ہوا بھی ہے۔ آئندہ بھی انجام پانا چاہئے۔ یا دنیا کی ساری حکومتوں کے ساتھ روابط جو ہم سے تعلقات میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ایک معمولی استثنا کو چھوڑ کر جو بالکل واضح ہے۔ مختلف بر اعظموں سے رابطہ۔ جنوبی امریکہ، افریقا، ایشیا، مشرقی ایشیا، سب سے۔ یہ مختلف ملکوں سے کئی طرح کے تعلقات ان خصوصیات کے مد نظر جو سیاسی لحاظ سے، جغرافیائي لحاظ سے، اقتصادی توانائیوں کے لحاظ سے، ثقافتی خصوصیات وغیرہ کے لحاظ سے، بالکل درست پالیسی ہے۔ تھوڑے سے عرصے میں دو بین الاقوامی تنظیموں کی رکنیت حاصل کرنا (4) بہت اہم کامیابی تھی۔ یہ ملک کے لئے مفید تو ہے ہی، ساتھ ہی کچھ حقائق کی بھی غمازی کرتی ہے۔ دنیا کے ممالک کسی کے رنگ روپ کے عاشق نہیں ہیں کہ کہیں کہ جناب! آپ آئيے رکن بن جائيے۔ ان کے کچھ تخمینے ہیں جن کی بنیاد پر یہ بات کہتے ہیں۔ کچھ تخمینے ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر کسی ملک کو قبول کرتے ہیں۔ یہ تخمینے بہت اہم ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وطن عزیز ایسی پوزیشن میں ہے، ایسے مقام پر ہے کہ ان تنظیموں کے بانی اور اراکین کی خواہش ہے بلکہ بسا اوقات اصرار ہوتا ہے کہ ہمارا ملک ان کا رکن بنے۔

ثقافتی میدان میں بھی بہت اچھے کام ہوئے ہیں۔ البتہ ضروری ہے کہ معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے ان میں اضافہ ہو۔ اسی طرح مختلف شعبوں میں کام ہوا ہے جس کی تفصیلات سے آپ آگاہ ہیں۔

میرا مشورہ یہ ہے کہ حکومت کی کارکردگی کی جو چیزیں عوام کو خوش کرنے والی ہیں انہیں آپ عوام کے سامنے لائیں۔ اس وقت زمینی حقائق جو ہیں اور ان کے بارے میں عوام کا تصور جو ہے دونوں میں بہت فاصلہ ہے۔ یعنی حقائق کے بارے میں تصور ان زمینی حقائق سے بہت دور ہے۔ اس فاصلے کو کم کیجئے۔ عوام کو حقائق سے اچھی طرح آگاہی ہونی چاہئے۔ اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی یہ معمول کا عام سا کام نہیں ہے۔ اس کے لئے غور کرنے کی ضرورت ہے، ماہرانہ کام کی ضرورت ہے جو ماہرین کے ذریعے انجام پانا چاہئے۔

اور اب انتباہات۔ ہم نے بارہا عرض کیا ہے (5) کہ حکومت کی اصلی ترجیح اقتصادیات اور ثقافت ہے۔ یہ دو بنیادی ترجیحات ہیں۔ اقتصادیات کے شعبے میں اس سال ہم نے جو نعرہ معین کیا اس کے دو حصے تھے۔ ایک افراط زر پر قابو اور دوسرے پروڈکشن کا فروغ۔ میں نے آغاز سال کی اپنی تقریر میں افراط زر کے بارے میں کہا تھا (6) کہ انفلیشن پر قابو بھی پروڈکشن کے نتیجے میں ممکن ہو جائے گا۔ یعنی انفلیشن کو کنٹرول کرنے کے لئے سب سے اہم کام جو کیا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ ہم ملک کے پروڈکشن کو اوپر لے جائیں، اس میں اضافہ کریں۔ تو پروڈکشن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اگر پروڈکشن کو مرکزیت حاصل ہے اور اس میں اضافہ مقصود ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ پروڈکشن کیسے بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہاں دو نکتے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ ہم سپورٹ کریں۔ دوسرے یہ کہ راستے کی رکاوٹوں کو دور کریں۔ سپورٹ کا کیا مطلب ہے؟ یعنی ایک تو لیگل سپورٹ کیا جائے۔ قوانین ایسے ہوں کہ کارخانوں کے مالکان کے لئے پروڈکشن آسان بھی ہو اور منافع بخش بھی ہو۔ دوسری چیز ہے مالی سپورٹ اس مقدار میں جو حکومتی اداروں کے ذمے ہے، زر مبادلہ اور ریال کی اس مقدار میں فراہمی جو فرائض میں ہے۔ اسی طرح داخلی پروڈکشن کا ثقافتی سپورٹ۔ ملکی پیداوار کے ثقافتی سپورٹ کا مطلب یہ ہے کہ ہم عوام کو یہ سمجھائیں کہ وہ ملکی مصنوعات کے استعمال کی عادت ڈالیں۔ یعنی جہاں ملکی مصنوعات موجود ہیں وہاں وہ ملکی مصنوعات ہی استعمال کریں۔ یہ پروڈکشن کا سب سے اہم کلچرل سپورٹ ہے۔ البتہ سپورٹ کے ان طریقوں کے ساتھ ایک لازمی چیز ہے عدم انحراف پر نظر رکھنا۔ ایسے بھی کچھ ادوار گزرے کہ فارن کرنسی اور ملکی کرنسی پروڈکشن بڑھانے کے لئے کچھ افراد کو دی گئی لیکن وہ پروڈکشن پر خرچ نہیں ہوئی۔ یہ چھوٹی موٹی مقدار کی بات نہیں ہے۔ رقم بہت بڑی تھی۔ اس میں کرپشن ہوا۔ ہم خیال رکھیں کہ یہ چیز اور ایسے واقعات نہ ہوں۔ کچھ لوگ ہیں جو اقتصادی معاملات میں ہاتھ کی صفائي دکھانے کے ماہر ہیں۔ یعنی واقعی نظر آتا ہے، انسان دیکھتا ہے کہ کوئی ہے جو اس شعبے کے ہمارے اعلی عہدیدار کے مقابلے میں پیچ و خم سے زیادہ آگاہی رکھتا ہے، پیچیدگیوں سے باخبر ہے، ڈاج دینے کے راستے جانتا ہے اور یہی راستے اختیار کرتا ہے اور بہت بڑے پیمانے پر غیر قانونی منافع حاصل کرتا ہے۔ قانونی منافع میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بڑے پیمانے پر غیر قانونی منافع میں بالکل حرج ہے۔ ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ ہم جو کہتے ہیں کہ پروڈکشن کا سپورٹ کیا جانا چاہئے، حمایت کی جانی چاہئے، اس کی سپلیمنٹری یہ ہے کہ محتاط رہیں کہ اس پہلو سے انحراف پیدا نہ ہو۔

اگلا نکتہ ملکی تجارت کے بارے میں ہے۔ ٹریڈ بھی پروڈکشن کی مددگار ہونی چاہئے۔ بیرون ملک سے ہماری تجارت صرف مارکیٹ کی ضرورت کی چیزیں فراہم کرنے کے لئے نہیں ہے۔ اس کا ایک حصہ مارکیٹ کی ضرورت کو پورا کرنا ہے اور دوسرا حصہ پروڈکشن بڑھانے میں مدد ہے۔ تجارت سے پروڈکشن کی مدد ہونی چاہئے۔ یعنی ہم دنیا سے جو اقتصادی تعاون اور معاہدے کرتے ہیں اس کا آخری نتیجہ یہی ہونا چاہئے کہ ملکی مصنوعات بیرون ملک فروخت کی جائیں اور غیر ملکی سرمایہ ملک کے اندر آئے۔ غیر ملکی سرمایہ ملک کے اندر آنے کا راستہ کبھی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوتی ہے، کبھی 'کیپیٹل گڈز' (وہ مصنوعات اور مشینیں جن کی مدد سے دیگر مصنوعات کا پروڈکشن ہوتا ہے) کی صورت میں ہوتا ہے۔ بہت سی اقسام کی مشینیں ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ ساری دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ یعنی دنیا کے ملکوں میں یہ نہیں ہوتا کہ اپنی ضرورت کی ساری چیزیں داخلی طور پر پیدا کریں۔ کچھ چیزیں وہ بیرون ملک سے لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم کیپیٹل گڈز بیرون ملک سے لائیں اور داخلی مصنوعات کو ملک سے باہر لے جائیں۔ اگر ایسا ہو جائے، یعنی اقتصادی روابط اس نتیجے پر پہنچ جائیں تو یقینا پروڈکشن کو فروغ ملے گا۔ یعنی یہ پروڈکشن کی بہت بڑی مدد ہوگی اور یہ پروڈکشن کی مددگار ٹریڈ سمجھی جائے گی۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ہم ملک کی داخلی ضرورتوں کا بر وقت اندازہ لگا لیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ملک کی ضرورتوں کا ہم بر وقت اندازہ نہیں لگا پاتے، جب بحرانی صورت حال قریب آ جاتی ہے تب گھبرا کر جلدبازی میں امپورٹ شروع کرتے ہیں، یہاں وہاں سے امپورٹ کرتے ہیں تو ظاہر ہے مشکل پیش آئے گی۔ پروڈکشن کے شعبے میں سرگرم افراد ملک کی بنیادی چیزوں کی ضرورتیں پوری کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ جناب عالی نے (7) ذکر کیا کہ اس سال ہم نے ملک کے اندر دس ملین ٹن سے زیادہ گندم خریدا۔ ملک میں کھپت بھی تقریبا اتنی ہی ہے۔ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ بالکل اتنی ہی مقدار میں ہے لیکن تقریبا کھپت اتنی ہی ہے۔ یعنی گندم امپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم خود کفیل ہیں۔ یہ بہت اچھی چیز ہے۔ ساری چیزوں کے سلسلے میں یہی صورت حال ہے۔ اگر زراعت کے شعبے یمں، صنعتی شعبے میں، معدنیات کے شعبے میں گوناگوں سروسز کے شعبے میں سپورٹ کیا جائے تو یہی صورت حال ہوگی۔ ملک کے اندر ہی تیار کیا جا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ضرورتوں کو بر وقت محسوس کر لیا جائے، سمجھ لیا جائے۔

ایک بڑا اہم نکتہ ہے اور وہ یہ کہ ساتویں ترقیاتی پروگرام میں حکومت کے ذمے بہت سارے کام ہیں۔ ان شاء اللہ منصوبہ بندی کی جائے تاکہ یہ سارے کام انجام پا سکیں۔ آپ اس پروگرام میں چند باتوں کو مد نظر رکھئے۔ تمام اقتصادی کاموں اور فیصلوں میں جو آپ انجام دیں ان باتوں کو ملحوظ رکھیں۔ مثلا مساوات کا مسئلہ اور طبقات کے درمیان فاصلے کم کرنے کا مسئلہ ہے۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ آپ اقتصادی شعبے میں جو بھی فیصلہ کریں، یہ ضرور دیکھ لیں کہ امیر اور غریب کے فاصلے پر اس کا کیا اثر پڑے گا، تعمیری اثر پڑے گا یا تخریبی اثر ہوگا۔ اس کا ضرور حساب لگائیں۔ یا مثال کے طور پر مارکیٹ کا استحکام، انفلیشن کی کمی، زر مبادلہ کی قیمت میں استحکام، پروڈکشن کا فروغ، یہ اہم پوائنٹس ہیں۔ یہ سب کوانٹٹی والی چیزیں ہیں، یعنی ان کا تخمینہ لگایا جا سکتا ہے، پرکھا جا سکتا ہے، ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کا تخمینہ لگانا ممکن نہیں ہوتا۔ سارے فیصلوں میں یہ دیکھ لیجئے کہ یہ اقتصادی فیصلہ جو آپ کرنے جا رہے ہیں، اس کا ان اشاریوں پر کیا اثر ہوگا۔ ان انڈیکسز پر جو اثر ہوگا اسے مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیجئے یا فیصلہ کرنے سے اجتناب کیجئے۔ یہ بھی اہم ہے۔

ایک اور پوائنٹ جو اس موضوع کا آخری پوائنٹ ہے عوام کی معیشت کا مسئلہ ہے۔ معیشت کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جب معیشت کے لئے مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں، جیسے یہی مکان کی قیمتوں اور کرائے کا مہنگا ہو جانا وغیرہ تو یہ چیزیں ایک طبقے کو واقعی بے بس کر دیتی ہیں۔ آپ جتنے بھی اچھے کام انجام دیتے ہیں سب پیچھے چلے جاتے ہیں۔ یعنی وہ سارے مثبت اقدامات جو بڑی محنت و مشقت سے انجام دیے گئے ہیں، عوام کی معیشت میں مشکلات پیدا ہو جانے کے بعد نگاہوں سے دور ہو جاتے ہیں۔ واقعی یہ افسوس کا مقام ہے۔ اس پر کام کیجئے۔ ہم پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا اصلی نشانہ یہی عوام کی معیشت ہے۔ یعنی دشمن کی خواہش ہے کہ عوام کی معیشت کو ہائی جیک کر لے۔ پابندیوں کو بے اثر بنانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ البتہ کچھ کام انجام دیے جا رہے ہیں۔ پابندیاں ختم کرانے کے لئے مذاکرات کئے جاتے ہیں، وہ اپنی جگہ ہے اور بالکل صحیح ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور لاين پابندیوں کو بے اثر بنانے کی کوششوں کی ہونی چاہئے۔ پابندیوں کو بے اثر بنانے کا ایک اہم پیمانہ یقینا یہ ہے کہ انفلیشن کم کیجئے۔ یعنی انفلیشن کم کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ یہ جو بتایا گيا کہ انفلیشن فلاں فیصدی سے کم ہوکر فلاں فیصدی تک آ گیا ہے یہ اچھی چیز ہے، لیکن کافی نہیں ہے۔ یعنی افراط زر بڑھنے کی دو ہندسی شرح جو مسلسل کئی سال سے جاری ہے بالکل مناسب نہیں ہے۔ کوشش کیجئے کہ انفلیشن کی شرح جہاں تک ممکن ہو کم ہو جائے۔ مجھے یہ رپورٹ دی گئی ہے کہ بعض اقدامات ہیں جن کا انفلیشن کی کمی پر نسبتا تیز اثر ہوتا ہے۔ منجملہ ادھورے پروجکٹس کی تکمیل ہے۔ ادھورے پروجیکٹس کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ اگر انھیں آپ نے مکمل کر لیا تو انفلیشن کم کرنے پر اس کا تیز اثر ہوگا، ان ماہرین کے بقول جنہوں نے اس بارے میں ہمیں بتایا ہے۔ یا بینکوں کے قرضوں اور اثاثوں کے خراب تناسب کا مسئلہ جس کا ذکر آپ نے کیا، وہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ دلالی اور کمیشن خوری کے مقابلے کا مسئلہ ہے۔ باغات میں بڑی زحمت سے باغبان پھل پیدا کرتے ہیں جس کی ایک قیمت ہوتی ہے، لیکن جب دلالوں کے واسطے سے یہی پھل بازار میں آتا ہے تو اس کی قیمت دس گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس کا کوئی حل نکالنا چاہئے، اس سے بھی انفلیشن کو کم کرنے اور عوام کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

بین الاقوامی روابط اور عالمی پالیسیوں کے سلسلے میں بھی کچھ سفارشات کرنا چاہوں گا، الحمد للہ اس میدان میں حکومت لگن سے کام کر رہی ہے۔ یعنی بڑے اچھے کام ہوئے جن کا ذکر میں نے کیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ مختلف ممالک سے تعلقات رکھنے میں ہمارے لئے کچھ مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیں ان مواقع کی شناخت ہونی چاہئے اور ان کا بر وقت استعمال کرنا چاہئے۔ کبھی کسی ملک سے ہمارے روابط ہوتے ہیں جن سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں، لیکن غفلت ہو جاتی ہے۔ آپ خیال رکھئے کہ ایسا نہ ہو۔ یعنی مواقع کی شناخت ہو اور ان کا بھرپور استعمال کیا جائے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جو معاہدے ہوتے ہیں، تعاون کے دستاویزات تیار ہوتے ہیں، ان پر دستخط کئے جاتے ہیں، وہ کاغذ تک محدود نہ رہ جائیں۔ اس وقت حکومت کے پاس بعض ملکوں سے طویل المیعاد تعاون کے دستاویزات موجود ہیں۔ اب کس سمت میں جانا ہے؟ اس کا نتیجہ کیا ہے؟ ان معاہدوں اور تعاون کے دستاویزات کو کاغذ تک محدود نہ رہنے دیں۔ یہ بہت اہم ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں: 'دنیا سے تعاون' تو ملک کے بعض سیاسی افراد 'دنیا' کو محض چند، وہ بھی بنیادی طور پر مغربی ملکوں تک محدود سمجھتے ہیں۔ 'دنیا' یعنی یہ! اگر ان ملکوں سے ہمارا رابطہ ہو اور گرم جوشی کے ساتھ تعاون ہو تو سمجھئے کہ دنیا کے ساتھ ہمارا رابطہ ہے اور اگر ان سے ہمارے روابط تھوڑے بھی کم ہوئے تو گویا دنیا سے ہمارا رابطہ ہی ختم ہو گيا! یہ غلط سوچ ہے۔ یہ نقطہ نگاہ رجعت پسندانہ نکتہ نگاہ ہے، یہ نظر سو سال پرانی نظر ہے۔ جی ہاں، ایک صدی قبل ایسا ہی تھا۔ چند یورپی ممالک تھے جو دنیا کے مالک تھے اور ان سے روابط کا مطلب ساری دنیا سے رابطہ ہوتا تھا۔ اس دور کو سو سال کا عرضہ گزر چکا ہے۔ اس رجعت پسندانہ اور دقیانوسی سوچ کو ترک کر دینا چاہئے۔ دنیا سے روابط کا مطلب ہے افریقہ سے رابطہ، لاطینی امریکہ سے رابطہ، ایشیا سے رابطہ۔ ایشیا عظیم ہیومن اور نیچورل ریسورسز کا ذخیرہ ہے۔ افریقہ بھی ایسا ہی ہے۔ مغربی ممالک عام طور پر افریقہ پر اور ایسے ہی دیگر ملکوں پر دباؤ ڈال کر دولتمند بن گئے۔ در اصل یورپ نے ایک طرح سے افریقی ملکوں، بعض ایشیائي ملکوں کی دولت چوری کرکے اپنی دولت تیار کی ہے۔ ان کی طرف سے ہم غافل نہ رہیں، ان سے روابط ضروری ہیں۔ بنابریں بین الاقوامی روابط کی بنیاد قومی مفادات اور قومی وقار ہے۔ یہ بھی اہم ہے۔ قومی وقار بھی بہت اہم ہے۔ روابط میں ضروری ہے کہ نہ تو دوسروں کا تسلط قبول کریں اور نہ دوسروں پراپنا تسلط قائم کریں۔ یعنی ہم دوسروں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے بھی خلاف ہیں اور دوسروں کا تسلط قبول کرنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔

مزید کچھ انتباہات ہیں۔ ایک انتباہ یہ ہے کہ اپنی اس عوامی وضع قطع کو قائم رکھئے۔ یہ بڑی قیمتی چیز ہے۔ اگر آپ عوام الناس سے محبت آمیز انداز میں اپنائیت او انکساری سے بات کرتے ہیں، ان کے یہاں آنا جانا رکھتے ہیں، ان کے گھروں میں جاتے ہیں، ان کے فرش پر بیٹھتے ہیں، یہ بہت اچھی چیز ہے۔ اسے ترک نہ ہونے دیجئے۔ یہ بہت اچھا موقع ہے۔

دوم: ماہرین سے مشاورت کا سلسلہ جہاں تک ممکن ہو آگے بڑھائیے۔ یہ بڑی اہم چیز ہے۔ ملک کے ماہرین صاحب رائے ہیں، ان کے پاس تجاویز ہیں، بڑی اچھی رہنمائی کر سکتے ہیں، بڑے اہم نکات ان کی نگاہ میں ہوتے ہیں، علمی شخصیات سے روابط پر ضرور کام کیجئے، مختلف شعبے اس پر کام کریں اور رابطہ رکھیں۔

اگلا نکتہ: یونیورسٹیوں میں آمد و رفت رکھنا بہت ضروری ہے۔ خواہ طلبہ کے درمیان جانا ہو، یا اساتذہ کے درمیان پہنچنا ہو، ان کی باتیں سننا اور ضروری باتیں ان کے سامنے رکھنا۔ وہ لوگ بہت ساری چیزوں سے باخبر نہیں رہتے۔ بے شک وہ اسٹوڈنٹ ہے، استاد ہے، دانشور ہے، با خبر انسان ہے۔ لیکن بہت سی چیزوں کا اسے علم نہیں ہے۔ یہی 'پیشرفت کے مسافرین'(9)  کے عنوان سے جو پروگرام شروع ہوا، جس کے تحت وہ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں، ان سب کے لئے یہ چیز بڑی حیرت انگیز ہوتی ہے، نئی ہوتی ہے۔ ملک میں اتنے بڑے کام انجام پائے ہیں، ہمارے اسٹوڈنٹ کو اس کی اطلاع نہیں ہے، جب وہ دیکھتا ہے تو حیرت میں پڑ جاتا ہے، اساتذہ بھی اسی طرح ہیں۔ میں نے ایک موقع پر کہا کہ ملک کے دفاعی وسائل (10) کا معائنہ کرنے کے لئے ایک ٹور رکھا جائے۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دیگر شعبوں میں بھی ملک کی پیشرفت سے آگاہ کرنے کے لئے ٹور رکھے جائیں تاکہ ماہرین اور دانشور جاکر دیکھیں اور با خبر ہوں۔ یہ چیز دشمن کی معاندانہ یلغار کا مقابلہ کرنے میں مددگار ہوگی۔ دشمن کو اپنی ریشہ دوانیوں میں جس جگہ سے بڑی امیدیں ہیں ان میں ایک یونیورسٹیاں ہیں۔ یونورسٹیوں میں آپ کی دائمی موجودگی سے دشمن کی یہ سازش ناکام ہو جائے گی۔

اگلا نکتہ اور اگلی سفارش حکومت کی اطلاع رسانی کی سرگرمیوں کو موثر بنانے سے متعلق ہے جس کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ میرے خیال میں ہر اقدام کے لئے ایک میڈیا اٹیچمنٹ بھی ضروری ہے۔ آپ جو بھی اہم قدم اٹھانا چاہتے ہیں، اس کے لئے ایک واضح ابلاغیاتی اٹیچمنٹ بھی آپ کے پاس ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر آپ نے 'کم قیمت پر زر مبادلہ کی فراہمی' کا جو پروگرام روکا، کہ جسے روکنا ضروری تھا، اسے عوام کے سامنے بہت واضح الفاظ میں بیان کیا جانا چاہئے تھا کہ ہم یہ کام اگر کر رہے ہیں تو اس کی فلاں، فلاں، فلاں وجوہات ہیں اور اس اقدام کے یہ فوائد ہیں اور نقصانات کو روکا جائے گا۔ جو بھی اقدام انجام پائے اس کا واضح ابلاغیاتی پروگرام بھی ہونا چاہئے۔

ایک سفارش یہ بھی ہے کہ حکومت سے وابستہ افراد کے بیانوں، وعدوں اور اعداد و شمار میں ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ مثلا ایک ادارہ کچھ اعداد و شمار پیش کرے اور اگلے دن دوسرا ادارہ ان اعداد و شمار کو مسترد کر دے یا متضاد اعداد و شمار پیش کر دے۔ یا مثلا یہ کچھ وعدہ کرے اور دوسرا کہے کہ اسے پورا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ قابل عمل ہے یا نہیں ہے اس پر حکومت کے اندر پہلے ہی غور و خوض ہو جانا چاہئے اور طے ہو جانا چاہئے کہ یہ وعدہ کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے۔ کلیکٹیو انٹیلیجنس کو بروئے کار لانا چاہئے، کاموں کے سلسلے میں بھرپور توجہ، غور و فکر اور تعقل ہونا چاہئے۔

آخری بات جس کا ذکر صدر مملکت نے بھی کیا، یہ ہے کہ شور شرابے اور فروعی باتوں پر توجہ نہ دیجئے، اپنا کام کرتے رہئے۔ کبھی آپ نے کوئی فیصلہ کیا ہے جو بالکل صحیح فیصلہ ہے، کچھ  لوگوں کو پسند نہیں آ رہا ہے تو ہنگامہ برپا کرتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، اس فیصلے کے خلاف ہزار باتیں سوشل میڈیا میں کرتے ہیں۔ اگر آپ نے وہ اقدام سوچ سمجھ کر کیا ہے، غور و فکر کے بعد فیصلہ کیا گيا ہے تو پھر اعتنا نہ کیجئے، اپنا کام جاری رکھئے۔ وہ کبھی حکومت پر کوئی چیز مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کو یہ کرنا ہے۔ آپ اچانک دیکھیں گے کہ سوشل میڈیا پر ہزاروں تحریریں، خطوط اور متن پبلش کر دئے جاتے ہیں کہ آپ کو مجبور کر دیں۔ یہ پریشر ٹول ہیں، ان پر اعتنا نہ کیجئے۔ غور و فکر کے ساتھ اپنا کام کیجئے۔ سوچ سمجھ کر اور غور و فکر کے ساتھ کام کیجئے۔ جب آپ نے فیصلہ کر لیا: فَاِذا عَزَمتَ فَتَوَکَّل عَلَى اللہ (۱۱) اللہ پر توکل کیجئے، پوری خود اعتمادی کے ساتھ قدم بڑھائیے۔ پیروی کرتے رہئے، میں ہمیشہ پیروی پر تاکید کرتا ہوں، ایک بار پھر عرض کرتا ہوں کہ کاموں کو ادھورا نہ چھوڑئے۔ کبھی انسان بڑے جوش و جذبے سے ایک کام شروع کرتا ہے، مگر چند قدم آگے جانے کے بعد اس کا جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ جذبہ قائم رکھئے یہاں تک کہ کام مکمل ہو جائے اور ان شاء اللہ ختم ہو جائے۔

امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سے راضی و خوشنود رہے، آپ کو توفیق عنایت کرے اور آپ کے ٹرم کے باقی بچے وقت میں آپ کو دگنا کامیابیاں عطا فرمائے ان شاء اللہ جو پروردگار کی بارگاہ میں بھی اور حضرت امام زمانہ ہماری جانیں ان پر قربان، ان کی بارگاہ میں بھی قبولیت کا شرف حاصل کریں۔ امام (خمینی) کی پاکیزہ روح آپ سے راضی و خوشنود رہے اور شہیدوں کی پاکیزہ روحیں بھی راضی رہیں۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

(۱ اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئیسی، سیئنر نائب صدر محمد مخبر اور وزیر توانائی علی اکبر محرابیان نے رپورٹیں پیش کی۔

(۲  صحیفہ سجادیہ بائیسویں دعا: بار الہا! خطاؤں سے دوری اور لغزشوں سے فاصلے کو میری روزی قرار دے، اس طرح سے کہ دوستوں اور دشمنوں کے بارے میں تیری رضا و خوشنودی کو تیری نا فرمانی اور ناراضگی پر مقدم رکھوں، تاکہ میرا دشمن بھی مجھ سے ظلم و زیادتی کی بابت بے فکر رہے اور میرا دوست اسے فائدہ پہنچانے کے لئے میرے جانبدارانہ عمل کی بابت نا امید ہو جائے۔ 

(۳ ساؤتھ پارس گیس فیلڈ کے گیارہویں فیز کا افتتاح صدر سید ابراہیم رئیسی کے ہاتھوں 28 اگست 2023 کو انجام پایا۔

(۴ شنگھائی تعاون تنظیم اور بریکس

(۵ منجملہ صدرمملکت اور ان کی کابینہ کے اراکین سے مورخہ 21 اگست 2019  کا خطاب

(۶ مقدس شہر مشہد میں حرم امام رضا علیہ السلام میں مورخہ 21 مارچ 2023 کا خطاب

(۷ صدر مملکت

 (8  وہ پروگرام جس کے تحت یونیورسٹی طلبہ کو ملک کی سائنسی، صنعتی اور اقتصادی پیشرفت دکھانے کے لئے ٹور رکھا جاتا ہے۔

(9 منجملہ یونیورسٹی اساتذہ سے مورخہ 2 جولائی 2014 کا خطاب

 (10 سورہ آل عمران آیت نمبر 159 کا ایک حصہ: جب عزم کر لیا تو پھر اللہ