سوال: پچھلے دو عشروں کے واقعات اور آئي آر جی سی کی قدس فورس کے مشن کے سامنے آنے کے پیش نظر براہ مہربانی اس فورس کی تشکیل کے اسباب و علل اور اس کی کامیابیوں کے بارے میں کچھ بتائيے۔

جواب: جنرل قاسم سلیمانی نے، جنھیں نوے کے عشرے کے اواخر میں قدس فورس کا کمانڈر بنایا گيا تھا، عراق کی فوج کے ساتھ جنگ کے دوران اور اس کے بعد ملک کے مشرقی علاقوں میں شر پسند عناصر سے جدوجہد کے دوران جو تجربات انھیں حاصل ہوئے تھے ان کے پیش نظر لبنان، فلسطین، یمن اور شام میں انقلابی فورسز کی حمایت کے سلسلے میں بڑے فیصلہ کن اقدامات کیے۔

سنہ دو ہزار کے عشرے کے آغاز میں امریکی فوج نے پہلے افغانستان اور پھر عراق پر قبضہ کر لیا اور اس طرح خطے پر نئے حالات مسلط کر دیے گئے جن کے تحت امریکی اور صیہونی فوج کی جارحیت سے مقابلہ، اقوام کی اہم ضرورت تھا۔

یہ جنرل قاسم سلیمانی جیسے شخص کے لیے اپنی صلاحیتوں دکھانے کا ایک اہم موقع تھا۔

سوال: قدس فورس کے مشنز کو مضبوط بنانے اور ان کا دائرہ بڑھانے میں جنرل قاسم سلیمانی کا کیا رول تھا؟

جواب: افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کی وسیع موجودگي شروع سے ہی ایرانی قوم اور علاقائي اقوام کے لیے ایک بڑا خطرہ تھی۔ جنرل قاسم سلیمانی کی کمان میں قدس فورس میں ہمارے بھائيوں کی کوششوں سے خطے کی انقلابی فورسز، اس خطرے کو مواقع میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئيں۔ افغانستان پر قبضے کا نتیجہ، جو اقتدار سے طالبان گروہ کی بے دخلی سے عبارت تھا، افغانستان کے مجاہد بھائيوں کو قدس فورس سے ملنے والی مدد کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکا کابل میں اپنی من پسند حکومت قائم کر نہ سکا۔ اہلسنت، اہل تشیع اور فارسی بولنے والے بھائيوں سمیت عوامی اور مجاہد فورسز نے، جو سبھی ایران کی دوست تھیں، حکومت کے اصل ارکان کو تشکیل دیا اور پچھلے دو عشروں میں ایران کے مشرقی حصے میں کوئي بھی مسئلہ پیش نہیں آيا ہے، عراق میں تو کامیابیاں کافی زیادہ تھیں جن کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ضرورت ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔

سوال: دہشت گرد گروہ داعش سے مقابلے اور اسے شکست دینے میں شہید قاسم سلیمانی کے رول کے بارے میں کچھ بتائيے۔

جواب: داعش، سی آئي اے، برطانیہ، آل سعود اور موساد کے ہاتھوں بنایا گيا ایک گروہ تھا اور ہے۔ داعش نے، جو امریکی حکومت اور خطے کے بعض ممالک اور عرب ملکوں کی حمایت سے بنایا گيا تھا، شام کے ہنگامہ خیز حالات اور عراق میں فوج اور سیکورٹی فورسز کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور شام و عراق کے بعض علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنے اقدامات سے عراق اور شام کی حکومتوں کو داعش کی شکست کے امکان کی جانب سے پرامید کیا اور یہ بات جنگ کے پہلے قدم میں بہت زیادہ اہم تھی۔

عوامی رضاکاروں کی شکل میں عوام سے استفادے کے ایران کے تجربے سے فائدہ اٹھانا ایک ضروری کام تھا جسے جنرل سلیمانی نے شام اور عراق میں انجام دیا۔

عراق میں آيت اللہ سیستانی کے فتوے کی وجہ سے داعش کے خلاف محاذ پر جانے کے لیے نوجوانوں کی قطاریں لگ گئيں، ضروری تھا کہ ان افراد کو ٹریننگ دی جائے اور منظم کیا جائے جس کے بعد وہ داعش کے خلاف جنگ میں شامل ہو جائيں۔

جنرل قاسم سلیمانی اور دیگر ایرانی و عراقی کمانڈروں نے اس عظیم عوامی فورس کو منظم کیا اور اسے داعش کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا۔ آج الحشد الشعبی (عراق کی عوامی رضاکار فورس) جو ایک تجربہ کار فوج ہے، اسی اقدام کا ثمر ہے۔

سوال: آپ کی نظر میں تمام فورسز کے سپریم لیڈر اور ولی فقیہ کی جانب سے ایک فوجی کمانڈر کے طرز زندگي اور شخصیت کو ایک 'مکتب فکر' اور ایک 'سبق آموز اسکول' کے طور پر کیوں متعارف کرایا جاتا ہے؟ اسی طرح سے انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ شہید سلیمانی صرف قومی ہیرو نہیں تھے بلکہ وہ پورے علاقے کے ہیرو تھے اور انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی اپنے دشمنوں کے لیے جنرل سلیمانی سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟

جواب: جنرل قاسم سلیمانی مکتب امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے شاگرد تھے جنھوں نے جہاد اور مسلحانہ جدوجہد کے میدان میں اس مکتب کی خصوصیات کو مغربی ایشیا میں منصۂ ظہور تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی اور لوگوں کو متحیر کر دیا۔ اس مکتب میں جو چیز اہم اور ضروری ہے وہ خداوند عالم پر توکل، ہدف کا صحیح انتخاب، مناسب تدبیر اور شجاعت ہے۔

شہید قاسم سلیمانی نے مقدس دفاع کے دوران، مکتب امام خمینی کے زیر سایہ پرورش پائي۔ یہ اسلامی انقلاب کا معجزہ ہے کہ وہ دیہات میں پیدا ہونے والے لیکن باصلاحیت نوجوان کو قومی ہیرو بنا دیتا ہے۔

انقلاب کے دوران شہری اور دیہی علاقوں کے بہت زیادہ نوجوانوں کو اس بات کا موقع ملا کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو سامنے لائیں جن میں سے بعض شہید ہوئے اور بعض اب بھی ملک کے گوشہ و کنار میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔

لہذا اگر ہم جنرل قاسم سلیمانی کو، جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا ہے، علاقے کا ہیرو کہیں تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا کیونکہ خداوند عالم نے انھیں یہ توفیق عطا کی کہ وہ پورے علاقے کی سطح پر ایک ایرانی کمانڈر کے طور پر دیکھے جائيں۔

اگر امریکا کا اس وقت کا صدر شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی ذمہ داری لیتا ہے تو یہ ان کی پوزیشن کی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ خود کو ہیرو ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ اس نے سلیمانی کو قتل کیا ہے لیکن اسے خبر نہیں تھی کہ وہ شہید سلیمانی کی مقبولیت کو اپنے حق میں استعمال نہیں کر سکتا، ایرانی قوم اور علاقائي اقوام کے ردعمل نے دکھا دیا کہ اقوام کی نظر میں امریکی صدر، جس کے ہاتھ اس پاکیزہ خون میں رنگے ہوئے ہیں، کتنا نفرت انگيز ہے۔

عراق اور ایران میں شہید سلیمانی کے جلوس جنازہ نے ان کی عظمت اور مقبولیت کو بھی ظاہر کر دیا اور ساتھ ہی ٹرمپ کے سلسلے میں لوگوں کی نفرت اور کینے کو بھی نمایاں کر دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی کی باتوں میں ایک نکتہ جس پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ شہید سلیمانی کی شخصیت کی ایسی تصویر کشی نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ کوئي ماورائي اور ناقابل حصول چیز لگنے لگیں۔

کیونکہ پہلی بات تو یہ کہ یہ چیز نوجوانوں اور آئندہ نسل کو اس راہ کو جاری رکھنے کی طرف سے مایوس کر دے گی، دوسرے یہ کہ دشمن کو اس بات کا غرور ہونے لگے گا کہ اس نے خطے میں ایران کی صلاحیتوں کو ختم کر دیا ہے اور تیسرے یہ کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی انقلاب نے قاسم سلیمانی جیسی متعدد شخصیتوں کو پروان چڑھایا ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ان میں سے کچھ شہید ہو گئے ہیں، جیسے شہید ہمت، شہید باکری، شہید زین الدین، شہید خرازی، شہید احمد کاظمی، شہید بروجردی، شہید صیاد شیرازی وغیرہ اور بہت سے بحمد اللہ اب بھی حیات ہیں بنابریں ایرانی قوم میں اس طرح کے ہیرو نہ پہلے کم تھے اور نہ اب کم ہیں۔

میں ایک اور نکتے کی طرف اشارہ کرتا چلوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کے کمانڈ سسٹم سے ہٹ کر جنرل قاسم سلیمانی کے کردار کی تشریح نہیں کی جا سکتی۔ جنرل سلیمانی کا سب سے بڑا فخر اور سب سے بڑا عقیدہ یہ ہے کہ وہ پوری طرح ولی فقیہ اور تمام فورسز کے سپریم کمانڈر کے حکم کے تابع تھے۔ بنابریں جب ہم علاقائي پوزیشن اور طاقت اور اس لازوال کارنامے یعنی مزاحمتی محاذ کی مادی، معنوی اور روحانی تقویت میں شہید سلیمانی کے کردار کی بات کرتے ہیں یا علاقائي طاقت کی حفاظت اور اسے بڑھانے کی بات کرتے ہیں تو ہم اس دفاعی، سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی اسٹریٹیجی کے رہبر سے تعلق کو الگ کر کے بات نہیں کر سکتے۔ اس دفاعی و سیکورٹی اسٹریٹیجی کے اصل مالک، تمام فورسز کے سپریم کمانڈر ہیں۔ اس اسٹریٹیجی کے اصل بانی رہبر انقلاب اسلامی ہیں اور علاقائي سطح پر اس میدان کے زمینی کمانڈر شہید قاسم سلیمانی ہیں۔

اگر ہم رہبر انقلاب اسلامی کے متعدد کارناموں سے ہٹ کر صرف دفاع اور سیکورٹی کے میدان میں ان کے دو عظیم کارناموں کا نام لینا چاہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ مسلح فورسز پر ان کی تین عشروں کی کمان اور ہدایات دو عظیم کارناموں کا سبب بنی ہیں۔

ایک، تقسیم اور جنگ (غیر ملکی حملے) سے ایران عزیز کی حفاظت، ایران کی ارضی سالمیت کے خلاف کم از کم چھے جنگوں کو وقوع پذیر ہونے سے روک دیا گيا۔

دوسرے، علاقائي طاقت و پوزیشن اور ڈیٹرنس پاور۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پچھلے تین عشروں میں مسلح فورسز کے ہم کمانڈروں کو یہ سکھایا ہے، یہ ہدایت دی ہے کہ ملک میں جنگ کو روکنے کی دو بنیادی راہیں ہیں، ایک مسلح فورسز (فوج اور آئي آر جی سی) میں لگاتار جنگي توانائي اور تیاری کو بڑھانا، خطروں کو سنجیدگي سے لینا اور جنگ کے لیے تیار رہنا اور دوسرے سرحدوں سے باہر علاقائي طاقت کا حامل ہونا اور یہ دوسری چیز اسلامی انقلاب کے اہداف سے پیار کرنے والی علاقائي اقوام سے جڑاؤ سے حاصل ہوگي۔

سوال: جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عوام بدستور ان کی شہادت کا حکم دینے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں سے انتقام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ شہید سلیمانی کے خون کے انتقام کے سلسلے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟

جواب: یہ روایت پوری طرح سے راسخ ہو چکی ہے کہ جس نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران کو کوئي نقصان پہنچایا، وہ سزا سے بچ نہیں پایا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں کبھی کچھ تاخیر ہو جائے لیکن یہ چیز اٹل ہے۔ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے خداوند عالم کی مدد سے ضرور کیفر کردار تک پہنچیں گے اور اپنے کیے کا بدلہ پائيں گے۔

پچھلے چار عشرے میں ایرانی قوم کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں پر ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے، ان سبھی سے انتقام لیا گيا اور ٹرمپ، پومپئو اور دوسرے مجرموں کو، جو اس گھناؤنے جرم میں شریک تھے، ملک و بیرون ملک ایرانی قوم کے دشمنوں کے انجام کو دیکھ لینا چاہئے جنھیں واصل جہنم کر دیا گيا۔

سوال: آپ کل ملا کر استقامتی محاذ کے مستقبل کو کیسا دیکھتے ہیں؟

جواب: مزاحمتی محاذ کا مستقبل ہر جہت سے روشن ہے، دشمن مایوسی کے ساتھ اور پہلے سے زیادہ کمزوری کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں لیکن اس طرف ایسے نوجوانی کی موجودگي، جن کے لیے دشمن کی ماہیت عیاں ہو چکی ہے اور جو اپنی صلاحیتوں سے واقف ہو چکے ہیں، حالات کو پہلے سے بھی بہتر بنا رہی ہے۔

سوال: صیہونی حکومت اور امریکا کی مسلسل دھمکیوں کے پیش نظر ٹکراؤ اور مقابلہ آرائي کی صورت میں ان دھمکیوں پر اسلامی جمہوریہ ایران کا جواب انھیں کس طرح کا نقصان پہنچائے گا؟

جواب: صیہونی حکومت جانتی ہے کہ اگر اس نے فوجی دھمکی کو عملی جامہ پہنایا تو ایران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہےگا اور بغیر کسی لیت و لعل کے بڑا ٹھوس اور دنداں شکن جواب دے گا، البتہ ہمارا جواب کیا ہوگا، یہ ہم بیان نہیں کریں گے لیکن صیہونی حکومت کے حملے کے جواب میں، ہم اپنے کمانڈروں کے لیے مقبوضہ فلسطین میں کسی بھی طرح کی حدبندی نہیں رکھیں گے اور وہ کھل کر ہر طرح کا جواب دیں گے۔