سوال: آپ کے خیال میں غزہ پر حملے کے پچھلے 100 دن میں صیہونی حکومت کی ناکامی کی سب سے اہم وجہ کیا ہے؟

جواب: کئی اسباب اس شکست کی وجہ بنے لیکن سب سے اہم وجہ، صیہونی فوج کی غلط اسٹریٹیجی اور مزاحمتی گروہوں خاص طور پر حماس کی صحیح حکمت عملی ہے۔

صیہونی حکومت کی طرف سے غلط اسٹریٹیجی یہ تھی کہ وہ غزہ پٹی میں زمینی سطح پر داخل ہو گئی۔ وہ تمام افراد جو فوجی مسائل سے تھوڑی سی بھی واقفیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ رہائشی علاقوں میں کسی کلاسیکل فوج کا داخل ہونا، خودکشی کے مترادف ہوتا ہے کیونکہ جو گروہ گوریلا جنگ یا شہری جنگ کرتے ہیں وہ کھلے علاقے کی نسبت رہائشی علاقوں میں زیادہ آسانی سے ایک کلاسیکل فوج سے لڑ سکتے ہیں۔ کھلے علاقے میں چونکہ عام طور پر کسی بھی طرح کی قدرتی رکاوٹ نہیں ہوتی، عمارتیں نہیں ہوتی اور اسی طرح کی دوسری چیزیں نہیں ہوتیں اس لیے لوگ اور گوریلا جنگ لڑنے والے آسانی سے دکھائی دیتے ہیں اور پہچانے جاتے ہیں اور انھیں ٹارگٹ بنایا جاتا ہے لیکن جب ایک کلاسیکل فوج ٹینکوں، بکتربند گاڑیوں اور مختلف دوسری گاڑیوں کے ساتھ کسی رہائشی علاقے میں دا خل ہوتی ہے تو درحقیقت وہ اپنے آپ کو ایسے جال میں پھنسا لیتی ہے جس کے کسی بھی کونے سے، کسی بھی سمت سے اس پر حملہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ عمارتیں، پتلی گلیاں، گنجان آبادی اور بڑی تعداد میں عمارتیں استقامتی گروہ کے افراد کے لیے بہترین آڑ فراہم کرتی ہیں جس میں وہ آسانی سے اپنے آپ کو چھتا سکتے ہیں اور کسی بھی سمت سے اس کلاسیکل فوج پر حملے کر سکتے ہیں اور اسے بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

غیر مساوی جنگ کی حیثیت سے ہونے والی تمام جنگوں میں یہ چیز موجود رہی ہے اور ہم نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ ویتنام کی جنگ میں، امریکا کو، بھاری تعداد میں فوجیوں کے ساتھ اس چھوٹے سے ایشیائی ملک میں گھسا تھا اور پندرہ سال تک اس نے اس ملک میں عام لوگوں اور وائٹکنگ گوریلاز کے ساتھ جنگ کی تھی اور ان پر شدید حملے کیے تھے، آخرکار شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

سنہ اسّی کے عشرے کے اوائل میں سوویت یونین کی ریڈ آرمی نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا اور وہ دس سال تک افغانستان میں رہی لیکن آخرکار اسے زبردست شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور وہ افغانستان سے باہر نکلنے پر مجبور ہو گئی۔

سنہ 1982 میں صیہونی فوج نے لبنان کے دارالحکومت سمیت اس ملک کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا لیکن اس ملک میں اسلامی مزاحمت کے نام سے ایک استقامتی فورس تیار ہوئی اور اس نے اٹھارہ سال تک لبنان کے اندر اس جارح اور غاصب فوج سے چھاپہ مار انداز میں جنگ کی اور اسے سنہ 2000 میں شکست خوردہ اور ذلیل ہو کر لبنان سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔

یہ ساری فتوحات اسی غیر مساوی جنگ اور شہری اور گوریلا جنگ اور اس بڑی فوج کو تھکا دینے کے لیے چھاپہ مار گروہوں کی اسٹریٹیجی کی وجہ سے ہی حاصل ہوئی ہیں۔

غزہ میں بھی ہم نے اسی چیز کا مشاہدہ کیا۔ چونکہ مزاحمتی گروہوں کو صیہونی حکومت سے جنگ کا کافی تجربہ ہے اس لیے انھوں نے برسوں پہلے سے غزہ میں زمین کے نیچے کافی زیادہ تعداد میں بڑی لمبی، پیچیدہ اور پیشرفتہ سرنگیں کھودنے کا کام کیا تھا تاکہ اپنے افراد کو بھی اور اپنے ہتھیاروں اور گولہ بارود کو بھی صیہونی حکومت کے تباہ کن حملوں کے گزند سے محفوظ رکھ سکیں اور کسی بھی جگہ سے زمین کے نیچے سے نکل کر صیہونی فوج پر حملہ کر سکیں۔

بنابریں فوجی نقطۂ نظر سے صیہونی حکومت کی شکست کی اصل وجہ، اس کی غلط اسٹریٹیجی اور مزاحمتی گروہوں کی صحیح اسٹریٹیجی ہے البتہ نفسیاتی نقطۂ نگاہ سے اصل وجہ، مزاحمت کے جیالوں کا ایمان اور جنگ کے لیے ایک دینی و اسلامی نظریہ ہے جس نے انھیں صیہونی حکومت کے شدید ترین تباہ کن اور وحشیانہ حملوں کا مقابلہ کرنے کا ایک بہت ہی مضبوط جذبہ عطا کیا ہے اور ہم نے دیکھا کہ اس جنگ میں حماس کی پوزیشن بالاتر رہی ہے۔ صیہونی فوج نے دھیرے دھیرے غزہ پٹی سے اپنی یونٹس کو باہر نکالنا شروع کر دیا ہے اور اسی کے الفاظ میں وہ تیسرے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جس کا نام اس نے "اسپیشل اسمارٹ آپریشن" رکھا ہے جسے آسان لفظوں میں قتل و غارتگری کہا جا سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ اس وسیع زمینی، فضائی اور ڈرون حملوں کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انھیں پھر سے اسی اسٹریٹیجی کی طرف پلٹنا ہوگا جسے انھوں نے برسوں پہلے اختیار کیا تھا اور وہ قتل و غارتگری کی اسٹریٹیجی ہے۔ یہ چیز  اس فوج کی ذلت آمیز شکست کی نشاندہی کرتی ہے جسے ایک پیشرفتہ، ٹریننگ یافتہ اور پوری طرح سے مسلح ہونے کا دعویٰ ہے۔

بنابریں مزاحمتی گروہوں کے ایمان و جہاد کا جذبہ اور غزہ میں زمینی سطح پر داخل ہونے کی صیہونی حکومت کی بہت بڑی غلطی جیسے دو اسباب کی وجہ سے صیہونی حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔