بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
میں خداوند عالم کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے توفیق عطا کی کہ آج اس امام بارگاہ میں آپ برادران عزیز کی خدمت میں حاضر ہو سکوں۔ آپ سب کا خیر مقدم ہے اور پہلے ہی، تاکہ میں بھول نہ جاؤں، میں عرض کرتا ہوں کہ ان سبھی افراد تک میرا شکریہ اور سلام پہنچا دیجیے گا جنھوں نے آپ کے ذریعے مجھ تک سلام پہنچایا ہے۔ یہ ملاقات، خوش قسمتی سے سال کے ایک سب سے بافضیلت مہینے اور ہفتے میں ہو رہی ہے، یعنی رجب میں۔ واقعی رجب ایک مبارہ مہینہ ہے۔ اس پورے مہینے میں رحمت الہی، سبھی کے اختیار میں ہے کہ ان کے دل پروردگار عالم کی یاد سے معمور رہیں۔ شاید کہا جا سکتا ہے کہ خدا کی سب سے بڑی نعمت یعنی بعثت اسی مہینے میں سامنے آئي، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے سب سے مبارک اور سب سے بڑی عید ہے۔ امیر المومنین علیہ الصلواۃ و السلام کی ولادت بھی اسی مہینے میں ہوئي ہے اور دوسرے متعدد مبارک ایام بھی اس مہینے میں ہیں۔ ان شاء اللہ آپ سبھی محترم حضرات، یہ بندۂ حقیر اور پورے ملک کے دوسرے برادران ایمانی، اس مہینے کی برکتوں سے فائدہ اٹھائيں گے۔
اس مہینے میں انسان جو سب سے اچھا عمل انجام دیتا ہے، شاید وہ استغفار ہے۔ واقعی ہم سب کو استغفار کرنے اور اللہ تعالی کی پناہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ مغفرت الہی، وہ سب سے بڑی نعمت ہے جو خداوند متعال کسی انسان کو دنیا و آخرت میں عطا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اولیائے الہی بھی، پیغمبر خدا بھی مغفرت الہی سے بے نیاز نہیں ہیں: "لِیَغفِرَ لَکَ اللَہُ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنبِکَ وَ ما تَاَخَّر"(2) یہ مغفرت اس لیے ہے کہ کوئي بھی پروردگار کی اطاعت و عبادت کا حق ادا نہیں کر سکتا، استغفار اس لیے ہے۔ "ما عَبَدناکَ حَقَّ عِبادَتِک"(3) کوئي بھی، پروردگار عالم کی عبادت کے حق کو، اس کی بندگي کے حق کو، جیسا کہ اس کے شایان شان ہے، ادا نہیں کر سکتا، وہ جتنی بھی کوشش کر لے، نہیں کر سکتا، یہ استغفار اس لیے ہے۔ ہم تو خیر پھنسے ہوئے ہیں، مجھ جیسے لوگ از سر تا پا مسائل، خطاؤں، روحانی، معنوی، قلبی اور عملی مشکلات میں گرفتار ہیں، لہذا ہمیں استغفار کی ضرورت ہے، ہم سبھی کو استغفار کرنا چاہیے۔ رجب کا مہینہ، دعا کا مہینہ ہے، توسل کا مہینہ ہے۔ بحمد اللہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے اس مہینے میں جو دعائیں، ماثورہ دعائيں، آئي ہیں وہ بڑے اعلی مضامین والی دعائیں ہیں، ان شاء اللہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔
میں آپ برادران عزیز کی خدمت میں آج جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، امکان کی حد تک اور ان شاء اللہ اختصار سے، وہ نماز جمعہ کی امامت کے بارے میں ہے۔ نماز جمعہ ایک وسیع باب ہے لیکن میری آج کی گفتگو زیادہ تر ہم لوگوں کی ذمہ داری کے بار ے میں ہے، اگر خداوند عالم قبول کرے تو میں بھی ائمۂ جمعہ میں سے ہوں۔ ہم ائمۂ جمعہ کیا کریں اور کام کو کس طرح آگے بڑھائيں؟ اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ جمعے کی امامت سب سے زیادہ سخت کاموں میں سے ایک ہے اور شاید بہت کم ہی کام ہوں گے جو امامت جمعہ جتنے دشوار ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امامت جمعہ میں الہی ذمہ داری بھی ہے اور مخلوق کی ذمہ داری بھی ہے۔ جمعے کی نماز اور خطبے میں اللہ کی طرف توجہ اور اخلاص وغیرہ بھی ہونا چاہیے کہ اگر یہ بات نہ ہو اور انسان کا دل تقرب الہی کی نیت اور اخلاص سے خالی ہو تو اس کی بات کا اثر نہیں ہوگا اور نماز میں برکت نہیں ہوگی، یہ بھی ہونا چاہیے اور لوگوں کی طرف توجہ بھی ضروری ہے۔ جمعہ کے علاوہ دوسری نمازوں کے لیے شاعر کہتا ہے کہ "پشتم بہ خلایق است و رویم بہ خداست" (میری پشت لوگوں کی طرف اور میرا رخ اللہ کی طرف ہے) لیکن اس نماز میں نہ صرف یہ کہ آپ کی پشت لوگوں کی طرف نہیں ہے بلکہ آپ کا رخ بھی خلق کی طرف ہے، آپ کا رخ لوگوں کی طرف بھی ہے اور خدا کی طرف بھی ہے، آپ کو خدا کی خوشنودی کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے اور لوگوں کے فائدے اور ان کی رضامندی کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔ یہ بہت سخت ہے، سب سے سخت کاموں میں سے ایک ہے۔ ان شاء اللہ "لوگوں کی طرف رخ کرنے" کے مسئلے کے بارے میں بعد میں اختصار سے مزید کچھ عرض کروں گا۔
یہاں پر میں ایک اسلامی اصول کا ذکر کرنا چاہوں گا اور وہ ہے اسلامی نظام میں بلکہ حیات اسلامی میں عوام کا کردار۔ اسلام کی نظر میں، قرآن کی نظر میں، تمام اسلامی احکام پر توجہ دیتے ہوئے، اسلامی معاشرے اور اسلامی سماج کے ڈھانچے کو متحرک رکھنے اور اسلامی سماج کے ڈھانچے کی حیات میں عوام پر بہت زیادہ توجہ دی گئي ہے، ان کا بڑا نمایاں کردار ہے۔ امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے اس مشہور جملے کو ملاحظہ فرمائيے جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ "لَو لا حُضورُ الحاضِرِ وَ قِیامُ الحُجَّۃِ بِوُجودِ النّاصِر ... لَاَلقَیتُ حَبلَھا عَلىٰ غارِبِھا"(4) عوام کے کردار کی بھی یاد دہانی کرائي گئي ہے اور لوگوں کے حق کی بھی۔ عوام کا کردار یعنی جو شخص اپنے آپ کو صاحب حق سمجھتا ہے اور کوئي ذمہ داری اٹھانا چاہتا ہے اگر لوگ اس کے پاس نہ آئيں تو اس پر واجب نہیں ہے کہ وہ حق کے تعاقب میں جائے: لَاَلقَیتُ حَبلَھا عَلىٰ غارِبِھا اگر عوام نہ ہوتے تو میری کوئي ذمہ داری نہیں تھی، فریضہ نہیں تھا۔ عوام کا کردار اتنا اہم ہے۔ یہاں تک کہ امیر المومنین علی ابن ابیطالب جیسی شخصیت بھی، اگر لوگ ان کے ساتھ نہ ہوں، ان کے اطراف نہ ہوں، تو یہ کہتی ہے کہ میری کوئي ذمہ داری نہیں ہے۔ اگر لوگ آ گئے تو پھر ان پر واجب ہے کہ ذمہ داری اٹھائيں، اسی لیے آپ نے ذمہ داری کو قبول کیا، لوگ آئے، انھوں نے دباؤ ڈالا، اصرار کیا کہ آپ آئيے اور خلافت کو قبول کیجیے، تو آپ نے قبول کیا۔ عوام کا رول اتنا زیادہ اہم ہے۔
صفین سے متعلق خطبے میں امیر المومنین کا یہ جملہ بہت اہم ہے، آپ فرماتے ہیں: "وَ لَیسَ امرُؤٌ وَ اِن عَظُمَت فِی الحَقِّ مَنزِلَتُہُ وَ تَقَدَّمَت فِی الدّینِ فَضیلَتُہُ بِفَوقِ اَن یُعانَ عَلىٰ ما حَمَّلَہُ اللَہُ مِن حَقِّہ" (5) کسی کی ذاتی، علمی اور دینی قدر و منزلت جتنی بھی زیادہ ہو، ایسا کوئي بھی نہیں ہے جو لوگوں کی مدد کا ضرورت مند نہ ہو۔ اَن یُعانَ عَلىٰ ما حَمَّلَہُ اللَہُ مِن حَقِّہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئي اپنے فریضے کو اور اپنی ذمہ داری کو انجام دینا چاہے تو اسے لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ وہ "عون" (مدد) عوام کی طرف سے ہے۔ پورا خطبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس جملے سے پہلے اور بعد کے جملے واضح کرتے ہیں کہ مراد، عوام کی مدد ہے۔ مطلب یہ کہ امیر المومنین کو عوام کی مدد کی ضرورت ہے۔ اب یہ جو ہم "لوگ" کہتے ہیں تو اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کی کچھ سماجی منزلت ہے جیسے وہ اہل علم ہیں، دیندار ہیں، سیاستداں ہیں، ان کا ایک سماجی رتبہ ہے اور اس میں عام لوگ بھی شامل ہیں، سبھی کی مدد کی ضرورت ہے۔ اسی لیے خداوند عالم اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے: "ھوَ الَّذی اَیَّدَکَ بِنَصرِہِ وَ بِالمُؤمِنین"(6) یہ بہت اہم بات ہے! خداوند عالم نے مومنین کو اپنے نصرت کی صف میں رکھا ہے، مطلب یہ ہے کہ اگر مومنین پیغمبر کی مدد نہ کرتے تو پیغمبر کامیاب نہ ہوتے۔ لہذا پیغمبر اکرم نے جو پہلا کام کیا، وہ مومنین کی تیاری تھا، لوگوں کو مومن بنانا تھا۔
بنابریں یہ بات واضح ہے کہ اسلامی اہداف تک رسائی، اب چاہے آپ اس کا نام "اسلامی نظام" رکھ دیجیے یا ایک مرحلہ اور آگے بڑھ کر "اسلامی تمدن" رکھ دیجیے، عوام کی موجودگي اور شراکت کے بغیر، عوام کی توجہ اور ان کے اقدام کے بغیر ممکن نہیں ہے، لوگوں کو چاہنا چاہیے، لوگوں کو آنا چاہیے، لوگوں کو اقدام کرنا چاہیے۔ یہ ہمارے لیے ایک بنیادی اصول ہے۔ اب کسی کے پاس سرکاری منصب ہے، اسے لوگوں کو مائل کرنے کے لیے، لوگوں کو میدان میں لانے کے لیے کسی نہ کسی طریقے سے کام کرنا چاہیے۔ کبھی کوئي نماز جمعہ کے منبر سے یہ کام کرتا ہے، کوئي کسی دوسری طرح سے کرتا ہے، مطلب یہ کہ ہمیں اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ "عوام" کا مسئلہ، ایک اسلامی اصول ہے، اس کے بغیر کوئي کام نہیں کیا جا سکتا، اہداف تک نہیں پہنچا جا سکتا، حیات تک نہیں پہنچا جا سکتا۔
بنابریں کہا جا سکتا ہے کہ خداوند عالم نے اسی وجہ سے نماز جمعہ کو اس طرح قرار دیا ہے، نماز جمعہ کے ارکان اور نماز جمعہ کا حکم اسی لیے ہے کہ میدان میں عوام کی موجودگي یقینی رہے۔ نماز جمعہ کے علاوہ دوسری نمازیں بھی ہیں، جس کا دل چاہتا ہے آتا ہے، جس کا دل نہیں چاہتا، نہیں آتا، لوگ آتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن نماز جمعہ میں آنے والے شخص سے بات کی جاتی ہے، اس سے خطاب کیا جاتا ہے، اسے گائیڈ لائن دی جاتی ہے، اسے راستہ اور پروگرام دیا جاتا ہے۔ نماز جمعہ ہے ہی اسی لیے کہ جو میدان میں موجود ہے، اسے میدان میں باقی رکھے، اگر وہ کام میں سست ہے تو اسے چاق و چوبند بنائے، اسے چلائے، اسے آگے بڑھائے، نماز جمعہ کا ڈھانچہ ہے ہی اسی لیے۔ واقعی نماز جمعہ کی حکمت اسے سمجھا جا سکتا ہے: پہلے تو عوام کی موجودگي اور پھر عوامی موجودگي کو فروغ دینا اور اس کی کیفیت کو بہتر سے بہتر بنانا۔
نماز جمعہ کا مخصوص حصہ، اس کے خطبوں والا حصہ ہے۔ وہ دو رکعت نماز تو سبھی نمازوں میں ہے، جو حصہ اس نماز سے مختص ہے، وہ اس کے خطبوں کا ہے۔ نماز جمعہ کے خطبوں سے متعلق تقریبا تمام روایتوں میں جو چیز آئي ہے، وہ موعظہ اور نصیحت ہے۔ خطبے میں وعظ، نصیحت اور موعظہ، نماز جمعہ سے متعلق ان تمام روایتوں میں موجود ہے۔ بنابریں واضح ہے کہ ہمارے خطبوں کا اصل موضوع موعظہ ہے۔ موعظے کا کیا مطلب ہے؟ جب ہم وعظ اور موعظہ کہتے ہیں تو فورا ہمارا ذہن اخلاقی، عرفانی اور معنوی وعظ و نصیحت کی طرف چلا جاتا ہے، یہ صحیح ہے کہ اخلاقی وعظ و نصیحت سب سے اہم کام ہے جسے انجام پانا چاہیے، یعنی یہ بنیاد ہے، اس کے بارے میں بھی میں اختصار سے عرض کروں گا لیکن وعظ او موعظہ صرف اخلاقیات سے مختص نہیں ہے، سیاسی موعظہ بھی ہوتا ہے اور سماجی موعظہ بھی ہوتا ہے۔
امام رضا علیہ السلام سے فضل ابن شاذان کی اس روایت میں یہ معنی خیز جملہ آيا ہے: "وَ یُخبِرُھُم بِما وَرَدَ عَلَیہِم مِنَ الآفاق" امام جمعہ، خطبے میں لوگوں کو آفاقی حوادث کی اطلاع دیتا ہے۔ "مِنَ الاَھوالِ الَّتی لَھُم فیھَا المَضَرَّۃُ وَ المَنفَعَۃ"(7) یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم وہاں جائیں اور صرف یہ کہیں کہ "ایّھا المؤمنون! اتّقوا اللہ" نہیں، آپ اپنے سامع کو دنیا کی خبریں اور جو کچھ اس سے ربط رکھتا ہے اور جس میں اس کے لیے فائدہ یا نقصان ہے، اسے بتائيے، اگر کوئي ایسا دشمن ہے جو آپ کے سامع کو چوٹ پہنچا سکتا ہے تو آپ اسے اس دشمن کے وجود سے مطلع کیجیے، اگر کوئی ایسا طریقہ یا راستہ ہے جو اسے اس دشمن سے محفوظ رکھ سکتا ہے، تو اسے بتائیے، دنیا کے سیاسی حالات سے اسے باخبر کیجیے۔ یُخبِرُھُم بِما وَرَدَ عَلَیہِم مِنَ الآفاق، یہ سیاسی ہی تو ہے، سیاسی موعظے کا مطلب یہ ہے۔ البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر آپ اپنے سامع سے دنیا کے واقعات اور خبریں بیان کر رہے ہیں تو ملک کے اندر کے واقعات کو تو ترجیحی طور پر بیان کرنا چاہیے، اگر کوئي فتنہ ہے، کوئي سازش ہے، کوئي نقصان ہے، کوئي فائدہ ہے، کوئي خدمت ہے، کوئی کام ہے جسے ہونا چاہیے، کوئي کام ہے جو پڑا ہوا ہے، کوئي کام ہے جو لوگوں کے فائدے میں ہے اور اس کے بارے میں اطلاع دینے سے مدد ہو سکتی ہے تو اسے اس کی اطلاع دیجیے اور ان باتوں کو خطبے میں بیان کیجیے۔ یہ باتیں کبھی پرانی نہیں ہوتیں کیونکہ واقعات ایک جیسے نہیں ہوتے، اس ہفتے کوئي واقعہ رونما ہوا ہے اور ممکن ہے کہ اگلے ہفتے کوئی دوسرا واقعہ ہو، اپنے سامعین کو ان سے مطلع کیجیے۔
سماجی موعظہ و نصیحت۔ ہمارے اپنے معاشرے میں کچھ ایسے مسائل ہیں جن کا کوئي سیاسی پہلو نہیں ہے لیکن وہ سماج کے لیے حیاتی اہمیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر افزائش نسل کا مسئلہ یا آبادی میں جوانوں کے تناسب کا مسئلہ بہت اہم اور حیاتی ہے۔ دنیا کے کسی گوشے میں ایرانی قوم کے دشمن بیٹھے ہوئے ہیں اور انھوں نے منصوبہ بندی کی ہے کہ ایران کی آبادی کو بڑھنے نہیں دیں گے۔ اتنے زیادہ مادی وسائل، ذخائر، اسٹریٹیجک جغرافیائي پوزیشن اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے مالامال ملک، اتنی باصلاحیت آبادی کے ساتھ جو ہمارے ملک کی ہے، فرض کیجیے کہ اس کی آبادی بھی پندرہ کروڑ یا بیس کروڑ ہو جائے! یہ ان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے، اس لیے ان کی سازش ہے کہ اسے روکا جائے۔ وہ افرادی قوت جو ملک کو آگے لے جاتی ہے، کون ہے؟ وہ جوان ہیں۔ ہم آج سے کچھ سال پہلے جب ملک کے اعداد و شمار بیان کرتے تھے تو کہتے تھے کہ ملک کی آبادی کا اتنا فیصد، کافی بڑا فیصد، نوجوانوں پر مشتمل ہے، آج ویسا نہیں ہے، آج وہ فیصد کم ہو گيا ہے۔ اگر یہ فیصد مزید کم ہو جائے اور ملک ایک بوڑھے ملک میں تبدیل ہو جائے تو پھر وہ پیشرفت نہیں کر سکے گا، یہ دشمنوں کی سازش ہے۔ میں نے کبھی ایک عمومی تقریر میں پوری قوم سے عرض کیا تھا (8) اور کہا تھا کہ میں خود ان لوگوں میں سے ایک ہوں جنھوں نے غلطی کی اور سنہ 1990 کے عشرے میں اس مسئلے کو پیش کیا اور اس پر کام کیا۔ کام کی شروعات اچھی تھی لیکن اسے جاری رکھنا غلط تھا، ہمیں یہ غلط کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، لوگوں کو بتایا جانا چاہیے۔ نوجوانوں کی شادی کا مسئلہ، شادی کی عمر کو مسلسل بڑھاتے رہے، اس کام میں تاخیر کرتے رہیں! یہ ایک سماجی مشکل ہے، یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، لوگوں کے سامنے اسے بیان کیا جانا چاہیے۔ نوجوان، چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، جہاں تک ممکن ہو صحیح وقت پر شادی کریں۔ یہ آیت مبارکہ "اِن یَکونوا فُقَراءَ یُغنِھِمُ اللَہُ مِن فَضلِہِ وَ اللَہُ واسِعٌ عَلیم"(9) ہمارے لیے ہے، اس کا خطاب ہم سے ہے، یہ خدا کی بات اور خدا کا کلام ہے، ہمیں یہ باتیں لوگوں سے بیان کرنی چاہیے۔ یہ سماجی مسائل ہیں، یہ موعظہ ہے، یہ نصیحتیں ہیں۔ سماجی نصیحت کا مطلب یہ ہے۔ فضول خرچی کا مسئلہ، اس وقت ہمارے ملک کے مسائل میں سے ایک، فضول خرچی ہے۔ ہم پانی ضائع کرتے ہیں، روٹی ضائع کرتے ہیں، بچے ہوئے کھانے ضائع کرتے ہیں، زندگي کے وسائل میں اسراف کرتے ہیں، بجلی میں فضول خرچی کرتے ہیں، یہ سب سماجی مسائل ہیں، ان کے سلسلے میں موعظہ اور نصیحت کرنی چاہیے، لوگوں کو بتانا چاہیے، انھیں متوجہ کرنا چاہیے کہ یہ کام نہ کریں۔
تو دیکھیے! نماز جمعہ وعظ و نصیحت کا مقام ہے اور موعظہ صرف، اخلاقی نصیحت نہیں ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے تحریر الوسیلہ(10) میں جو کچھ نماز جمعہ کے خطبوں کے بارے میں لکھا ہے وہ یہ ہے کہ امام جمعہ کو چاہیے کہ اسلامی ملکوں کی خبریں، ملک کی خودمختاری سے متعلق باتیں، دوسری اقوام سے متعلق باتیں، ملک میں دوسری حکومتوں کی مداخلت سے متعلق باتیں لوگوں کو بتانی چاہیے، وہ کہتے ہیں کہ ان باتوں کو نماز جمعہ کے خطبوں میں بیان کیجیے، آپ کا مخاطَب جو بھی ہے، عام ملازم ہے، عام مزدور ہے، ایک معمولی دکاندار ہے، اسے ان باتوں کو جاننا چاہیے۔ تو ان باتوں کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب سننے والے کی فکر کو بہتر بنانا ہے، اونچا اٹھانا ہے۔ آپ اپنے سامع کی سوچ کو مستغنی بنائيے، یعنی اسے فکری بے نیازی عطا کیجیے تاکہ وہ اپنی زندگي کے مسائل کے بارے میں، سماج کے مسائل کے بارے میں صحیح طریقے سے سوچ سکے اور صحیح طریقے سے کام کر سکے۔
البتہ یہ سیاسی و سماجی موعظہ ہے، اخلاقی وعظ و نصیحت کی اپنی جگہ ہے، اس کا مقام بہت اونچا ہے کیونکہ انسان کو روحانی لطافت کی ضرورت ہے، تہذیب نفس کی ضرورت ہے۔ ہمارے دل آلودہ ہیں، بے جا اور فضول محبتوں سے آلودہ ہیں، بے جا دشمنیوں سے آلودہ ہیں، بے جا نفسانی خواہشات سے آلودہ ہیں، نامناسب بندھنوں میں بندھے ہوئے ہیں، یہ چیزیں ہمارے عمل پر اثر ڈالتی ہیں، ہمیں پیچھے کر دیتی ہیں، پھنسا دیتی ہیں اور ہم پھنسے ہوئے ہیں اس لیے ہمیں روحانی لطافت کی ضرورت ہے۔ "اَللٰھُمَّ املَا قَلبی حُبّاً لَکَ وَ خَشیَۃً مِنکَ وَ تَصدیقاً وَ ایماناً بِکَ وَ فَرَقاً مِنکَ وَ شَوقاً اِلَیک"(11) دل کو محبت خدا کا ظرف ہونا چاہیے، لطیف ہونا چاہیے، اس کے لیے اخلاقی وعظ و نصیحت ضروری ہے، ہمیں لوگوں کو استغفار سکھانا چاہیے، خطبے میں جن ضروری چیزوں کی تاکید کی گئي ہے ان میں سے ایک "استغفر اللہ لی و لکم" کہنا ہے، ہم اپنے لیے بھی استغفار کریں اور اپنے سامعین کے لیے بھی استغفار کریں اور ساتھ ہی انھیں یہ بھی سکھائيں کہ وہ استغفار کریں۔ ان چیزوں کو واقعی ہم خود کو سکھائيں۔ استغفار صرف زبان سے "استغفر اللہ" کہہ دینا نہیں ہے۔ نہج البلاغہ کا وہ خطبہ بڑا مشہور ہے: "اَتَدری مَا الاِستِغفار"(12) استغفار کی کئي شرطیں ہیں، استغفار کے کئي حصے ہیں اور وہی حقیقی استغفار ہے، میں اس کی جزئیات میں نہیں جاؤں گا۔ بنابریں یہ نماز جمعہ کے خطبوں کے بارے میں ایک نکتہ ہے کہ اس میں بیان کی جانے والی باتیں، ہمہ گیر اور جامع موعظے پر مشتمل ہوں۔ خطبے کے بارے میں کچھ اور باتیں بھی ہیں، خود خطبے کے بارے میں بھی اور خطبے میں بیان کی جانے والی باتوں کے بارے میں بھی اور امام جمعہ کے طرز عمل اور رویے کے بارے میں جو خطبوں کے اثر انداز ہونے میں دخیل ہیں اور اہم باتیں ہیں۔
ایک مسئلہ، ضرورت اور مخاطَب کی شناخت کا ہے۔ آپ جب بات کرنا چاہتے ہیں تو دیکھیے کہ سامع کو کن چیزوں کی ضرورت ہے، اپنے مخاطَبین کو سمجھیے، پہچانیے۔ ممکن ہے کہ ہم کسی اجتماع میں کوئي بات کریں جو اس اجتماع کے لیے مناسب ہو لیکن اگر وہی بات کہیں اور بیان کریں تو مناسب نہ ہو، یعنی اس اجتماع کے کام کی نہیں ہے۔ تو ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے مخاطَب اور سامع کی شناخت ہونی چاہیے۔ آپ کے مخاطَبین اور سامعین ہر طرح کے ہیں، ایک جیسے نہیں ہیں یعنی ان میں جوان بھی ہیں، بوڑھے بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں، مرد بھی ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں، کم پڑھے لکھے بھی ہیں، ہر طرح کے ہیں۔ اس طرح کی جگہوں پر آپ کی مہارت اور آپ کا ہنر سامنے آنا چاہیے تاکہ آپ ہر کسی کو کچھ نہ کچھ دے سکیں، ہر کسی کو کوئي نہ کوئي فائدہ پہنچا سکیں۔ آپ میں سے بھی زیادہ تر لوگ جوان ہیں، آپ جانتے ہیں کہ آج کے جوان کو عجیب و غریب ذہنی و فکری مسائل کا سامنا ہے، یہ مسائل اب سے کچھ سال پہلے تک نہیں تھے، ہماری جوانی کے وقت کو تو بہت عرصہ گزر چکا ہے، تب میں اور اب میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن یہی اب سے بیس سال پہلے تک بھی جوانوں کے لیے اتنے زیادہ ذہنی اور فکری مسائل نہیں تھے جو آج ہیں۔ طرح طرح کی باتیں، مختلف طرح کے افکار انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اور اس کے علاوہ بھی۔ تو اس جواب کا ذہن مختلف باتوں کی آماج گاہ ہے، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کیا سمجھتا ہے اور کیا چاہتا ہے، اس کے ذہن میں کیا ہے، اس کا کیا سوال ہے، اس کے سوال کو سمجھیے اور پہچانیے۔
کس طرح سے سمجھا جا سکتا ہے؟ فرض کیجیے کہ آپ کسی دوسرے شہر میں رہتے ہیں اور ہفتے میں صرف ایک یا دو دن نماز کے لیے اس شہر میں جاتے ہیں، یا اس شہر سے آپ کا رابطہ محدود ہے تو آپ وہاں کی ضرورتوں کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکتے۔ ضرورت سمجھنے کے لیے معاشرت اور میل جول کی ضرورت ہے۔ یہاں سے ہمیں امام جمعہ کے عوامی ہونے کی بات سمجھ میں آتی ہے، امام جمعہ کو عوام کے درمیان رہنا چاہیے، لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے، اسے لوگوں کے ذہن کو سمجھنا چاہیے۔ آپ اپنے خطبے کو اپنے سامعین کی ضرورت کے مطابق تیار کر سکیں، اس کے لیے ایک اور چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے مطالعہ۔ اسلام میں الہی معارف و تعلیمات بہت وسیع ہیں اور انسان کی زندگي کی ہر ضرورت اور چھوٹی سے چھوٹی بات پر ان میں توجہ دی گئي ہے، ان چیزوں کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ مطالعے سے، قرآن مجید کے مطالعے سے، احادیث کے مطالعے سے، اسلامی معارف کی کتابوں کے مطالعے سے۔ مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ہم کبھی بھی مطالعے اور کتاب خوانی سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ کتاب پڑھنا ضروری ہے اور ضرورتوں میں سے ایک یہ ہے۔
امامت جمعہ کے سلسلے میں ایک دوسرا نکتہ لوگوں کا ہمدرد ہونا اور ان سے پیار کرنا ہے۔ ہم میں سے بعض افراد فطری طور پر لوگوں سے پیار کرتے ہیں، اپنے شہر کے لوگوں سے، اپنے علاقے کے لوگوں سے، اپنے سامعین سے۔ ہمارے عوام، بہت اچھے لوگ ہیں، ہمارے عوام، مومن ہیں، لوگ مومن ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ بظاہر بعض ظاہری شرعی احکام کی پابندی نہیں کرتے وہ بھی۔ عملی طور پر پابندی نہ کرنے کا مطلب، دل سے پابند نہ رہنا نہیں ہے، ان کا دل خدا کے ساتھ ہے، ان کا دل روحانی اور معنوی تعلیمات کے ساتھ ہے، وہ باایمان ہیں، عمل میں کوتاہی تو ہم سبھی کرتے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے جس کے عمل میں کوتاہی نہیں ہے؟ ہم میں ہر ایک کسی نہ کسی طرح عمل میں کوتاہی کرتا ہے، میں کسی طرح، آپ کسی دوسری طرح اور وہ کسی اور طرح سے کوتاہی کرتا ہے۔ لوگ، مومن ہیں، لوگ وفادار ہیں، لوگ، ملک کے مختلف مسائل میں پوری طرح تیار ہیں۔ آپ دیکھیے کہ ان چالیس پینتالیس برسوں میں ملک میں کتنے مسائل رہے ہیں، ہمارے خلاف کتنی سازشیں کی گئي ہیں، ہمارے خلاف کتنے مختلف طرح کے ثقافتی، عملی، عسکری، معاشی اور اسی طرح کے دوسرے حملے ہوئے ہیں، کس نے اسلامی نظام کا دفاع کیا ہے؟ انہی عوام نے۔ یہ عوام ہی تھے، وہ جب سڑک پر آنے کی ضرورت تھی تو سڑک پر آئے، جب صبر کرنے کی ضرورت تھی انھوں نے صبر کیا، جہاں حمایت کی ضرورت تھی، انھوں نے حمایت کی، جہاں نعرہ لگانے کی ضرورت تھی، انھوں نے نعرہ لگایا، جہاں میدان جنگ میں جانے کی ضرورت تھی، یہ میدان جنگ میں گئے۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمارے عوام کا ایمان، اسلام کے ابتدائي دور کے لوگوں سے بہتر ہے(13) یہ بات انھوں نے بڑی قطعیت سے کہی تھی۔ بعض لوگوں کو تعجب ہوتا ہے، آپ موازنہ کر لیجیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عالم وجود کی سب سے عظیم ہستی ہیں، کس کا موازنہ رسول اللہ سے کیا جا سکتا ہے کہ ہم کہیں کہ وہ اس سے ہزار گنا بالاتر ہیں؟ ہزار گنا کی کیا بات ہے، ہم جن لوگوں کو جانتے ہیں، جیسے امام خمینی، جن کی ایک عظیم شخصیت تھی، ان سے ایک ارب گنا بالاتر ہیں، کیا ان لوگوں کی شخصیت، رسول اللہ سے موازنے کے لائق ہے؟ ان لوگوں کے درمیان، مدینہ شہر میں، پیغمبر جیسی شخصیت ان کے ساتھ رہتی تھی، انقلاب کا ابتدائي دور بھی ہے، جیسے انقلاب کا دوسرا سال جس میں جنگ بدر ہوئي، آنحضرت ان لوگوں کو میدان جنگ میں لے جاتے ہیں، قرآن مجید فرماتا ہے: "وَ تَوَدّونَ اَنَّ غَیرَ ذاتِ الشَّوکَۃِ تَکونُ لَکُم"(14) دو دھڑے تھے، دو گروہ تھے، ایک گروہ لڑنے والا گروہ تھا جو کفار کی طرف سے آ رہا تھا، دوسرا گروہ تجارتی گروہ تھا۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ تمہاری خواہش تھی کہ اس تجارتی گروہ سے لڑو۔ وَ تَوَدّونَ اَنَّ غَیرَ ذاتِ الشَّوکَۃِ تَکونُ لَکُم۔ البتہ یہ گئے اور لڑے، بحمد اللہ فتحیاب بھی ہوئے، جنگ بہت اچھی رہی لیکن ان کا دلی جھکاؤ یہ تھا۔ آپ اس کا موازنہ کیجیے مقدس دفاع کے اس نوجوان سے جس کی ایک محبوب زوجہ ہے، چھوٹا بچہ ہے، چاہنے والے ماں باپ ہیں، آرام دہ گھر ہے، امام خمینی نے ایک پیغام دیا، اس نے نہ تو امام خمینی کو دیکھا ہے اور نہ قریب سے ان کی باتیں سنی ہیں، صرف ریڈیو پر امام خمینی کا پیغام نشر ہوا ہے، وہ ان سب کو چھوڑ کر، صرف امام خمینی کے پیغام کی خاطر، محاذ جنگ پر چلا جاتا ہے اور جنگ میں مشغول ہو جاتا ہے۔ دفاع حرم میں بھی ایسا ہی تھا، ان دونوں عظیم واقعات میں تیس سال کا فاصلہ ہے۔
ہمارے عوام اس طرح کے ہیں۔ یہ مومن عوام، یہ چاہنے والے عوام، یہ وفادار عوام، یہ ذہین عوام۔ ان کی قدروقیمت کو سمجھنا چاہیے، ان سے حقیقی معنی میں پیار کرنا چاہیے۔ عوام نے اسلام کے لیے فداکاری میں، ملک کے لیے فداکاری میں، اسلامی نظام کے لیے فداکاری میں کوئي کسر نہیں چھوڑی، جو کچھ ہونا اور کرنا چاہیے تھا، انھوں نے کیا ہے۔ تو یہ بھی ایک نکتہ ہے کہ ہمیں لوگوں سے پیار کرنا چاہیے۔ اگر ہم لوگوں سے پیار کریں گے تو چونکہ محبت دوطرفہ رشتہ ہے، جب آپ انھیں چاہیں گے تو وہ بھی آپ کو چاہیں گے، آپ سے پیار کریں گے، پھر آپ کی بات کا ان کے دل پر اثر ہوگا، محبت اکسیر ہے، جب رابطہ، دوستانہ اور محبت آمیز ہوگا تو آپ کی بات ان پر اثر انداز ہوگي اور وہ اسی راستے پر چلیں گے جو آپ نے خداوند عالم کے حوالے سے انھیں بتایا ہے۔
ایک دوسری بات، اور یہ بھی اسی موعظے والے نکتے سے ملتی جلتی ہے، تقوے کا مسئلہ ہے، تقوے کی دعوت، روایات میں اور علماء کے فتووں وغیرہ میں بارہا ذکر ہوئي ہے کہ امام جمعہ کو چاہیے کہ لوگوں کو تقوے کی دعوت دے۔ پہلی نظر میں تقویٰ ایک انفرادی کام دکھائي پڑتا ہے، تقویٰ، پرہیزگاری کو کہتے ہیں کہ جو ایک انفرادی امر ہے، جبکہ تقویٰ ایک نجی امر بھی ہے یعنی ایک ایسا کام ہے جو فرد سے بھی متعلق ہے، اس کے دل اور عمل سے متعلق ہے اور پورے سماج سے بھی متعلق ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوند عالم فرماتا ہے: "وَ تَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَ التَّقوىٰ"(15) تو تقویٰ بھی ایک مشارکتی امر ہے، باہمی تعاون والا کام ہے۔ تَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَ التَّقوىٰ، وہ چیزیں جن میں لوگوں کا تعاون اور ان کی شراکت مؤثر ہے، تقوے کے مصادیق میں سے ہیں۔
جہاں تک تقوے کی بات ہے تو ایک سیاسی تقوىٰ ہوتا ہے جو سیاسی گناہوں سے پرہیز ہے۔ سیاست کا میدان، پھسلنے والا میدان ہے۔ سبھی کو سیاسی ہونا چاہیے یعنی عالم اسلام میں کوئي غیر سیاسی علاقہ نہیں ہے اور اسلام ایک سیاسی دین ہے، جیسا کہ پچھلے بیانوں سے سمجھ میں آیا، سبھی کو سیاست میں دخیل ہونا چاہیے لیکن سیاست ایک پھسلنے والا میدان ہے، اگر تقوىٰ نہ ہوگا، تو انسان غلطیاں کرے گا، لڑکھڑا جائے گا۔ تقوىٰ، اپنے نفس پر کنٹرول اور سیاسی زندگي کی راہ میں آنکھیں کھلی رکھ کر، انسان ان لغزشوں سے بچ سکتا ہے۔
اگر سیاسی تقوىٰ ہوگا تو پھر دشمن کی نفسیاتی جنگ کا اثر نہیں ہوگا۔ دشمن کی نفسیاتی جنگ کا ایک نمونہ یہی "لَومَۃَ لائِم" ہے۔ کوئي انسان ایک اچھا کام کرتا ہے، چار غلط لوگ اس کی جان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ تم نے یہ کام کیوں کیا، کوئي انسان ایک اچھی بات کرتا ہے، دوسرے اسے دھمکیاں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نے یہ بات کیوں کہی۔ میدان، اس طرح کا ہے۔ اگر تقوىٰ ہوگا تو "لا یَخافونَ لَومَۃَ لائِم"(16) یہ لا یَخافونَ لَومَۃَ لائِم جو قرآن مجید میں اس آیت کریمہ میں آیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب سلمان (فارسی) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ فَسَوفَ یَاتِی اللہُ بِقَومٍ یُحِبُّھم وَ یُحِبّونَہ ...(17) سے مراد، ان کی قوم ہے۔ دشمن کی نفسیاتی جنگ سے مقابلہ یہ ہے اور یہ سافٹ وار کا ایک نمونہ ہے جس سے ڈرنا نہیں چاہیے، لَومَۃَ لائِم سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
نماز جمعہ اور اس کے خطبوں کے بارے میں ایک اور اہم نکتہ، جو میرے معروضات کا آخری حصہ ہے، مختلف میدانوں میں اپنے سامعین اور تمام لوگوں کو موجودگي کے لیے ترغیب دلانا ہے۔ فرض کیجیے کہ سماجی میدانوں میں اور سماجی خدمات کے لیے، مثال کے طور پر طے پایا ہے کہ کسی شہر میں اسکول بنانا ہے، لوگوں کو اس میں شرکت کی ترغیب دلائي جائے، ہر کوئي حسب استطاعت، جس طرح سے بھی اس سے ممکن ہو۔ فرض کیجیے کہ کسی شہر میں عطیہ دہندگان ایک اسپتال بنانے کا ارادہ کرتے ہیں، اس طرح کے نیک کام ہمیشہ رہے ہیں، اب بھی ہیں اور لوگ کر رہے ہیں، یا طے کرتے ہیں کہ جو لوگ پیسوں کی وجہ سے جیل میں بند ہیں، ان قیدیوں کی جانب سے پیسے ادا کریں گے اور انھیں قید سے رہائي دلائيں گے، اس طرح کے نیک کام۔ لوگوں کو ترغیب دلائي جائے کہ اس طرح کے کاموں میں شرکت کریں، یہ ایک میدان ہے، سماجی مسائل کا میدان ہے۔
اسی طرح سیاسی مسائل کا میدان ہے۔ جیسے انتخابات، الیکشن، سیاسی میدان کا ایک مکمل مصداق ہے۔ میں نے کئي بار الیکشن کے بارے میں عرض کیا ہے کہ الیکشن ایک سیاسی میدان ہے جس میں عوامی مشارکت، حقیقی معنی میں ضروری ہے، یعنی یہ عوام کے لیے ایک فریضہ بھی ہے اور ان کے لیے ایک حق بھی ہے۔ انتخابات میں شرکت صرف ایک ذمہ داری اور فریضہ نہیں ہے، بلکہ حق بھی ہے، آپ کا حق ہے، عوام کا حق ہے کہ ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو ان کے لیے قانون سازی کریں یا قانون پر عمل درآمد کریں یا رہبر کے بارے میں رائے دیں یا ماہرین کونسل کے ذریعے رہبر کا انتخاب کریں۔ یہ عوام کا حق ہے، انھیں میدان میں آنا چاہیے اور اپنا حق استعمال کرنا چاہیے۔
البتہ میں نے عرض کیا کہ یہ چیز صرف زبان سے حاصل نہیں ہوگي، ہاں زبان کا اثر ہے، خود زبان اور تشریح ایک جہاد ہے، حقیقی معنی میں، لوگوں سے بیان کرنا، لوگوں کو بتانا، لوگوں کے سامنے واضح کرنا، حقیقت میں جہاد ہے لیکن صرف زبان سے ہی یہ ممکن نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا، اسے عمل کے ہمراہ ہونا چاہیے۔ خوشروئي کے ساتھ، ذمہ دار زبان کے ساتھ، لوگوں کے مختلف اجتماعات خاص طور پر جوانوں کے اجتماعات میں شرکت کے ساتھ یہ کام کیا جانا چاہیے۔ یہ کچھ نکات امامت جمعہ کے سلسلے میں تھے، میں نے عرض کیا کہ جمعے کی امامت واقعی ایک سخت کام ہے، دشوار کاموں میں سے ایک ہے، ان شاء اللہ اس کا اجر خداوند متعال کے پاس اس کی سختی کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔
ہمارا آج کا بین الاقوامی اسلامی مسئلہ، غزہ کا مسئلہ ہے۔ غزہ کے معاملے میں انسان، دست خدا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ غزہ کے لوگوں نے، ان مظلوم اور طاقتور لوگوں نے دنیا کو اپنے زیر اثر کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، آج دنیا غزہ اور فلسطین کے لوگوں کی جدوجہد کے زیر اثر ہے۔ دنیا، ان لوگوں کو ہیرو کی حیثیت سے دیکھ رہی ہے، یہاں کے لوگوں کو بھی، یہاں کے مجاہدین کو بھی، یہاں کے مزاحمتی گروہوں کو بھی ہیرو کی نظر سے دیکھ رہی ہے، یہ ہیرو ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ غزہ اور فلسطین کے لوگوں کے بارے میں دنیا کے لوگ دو باتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مظلوم ہیں، دوسرے یہ کہ یہ فاتح ہیں۔ اسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ یہ مظلوم بھی ہیں، ان کی مظلومیت کو ساری دنیا سمجھ گئي، ساری دنیا نے ان کی مظلومیت دیکھ لی۔ یہ مظلوم بھی ہیں اور فاتح بھی ہیں، آج دنیا میں کوئي بھی نہیں ہے جو یہ سوچے کہ غاصب اور خبیث صیہونی حکومت غزہ کی جنگ میں جیت گئي ہے۔ سب یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ ہار گئي ہے۔ اس کے برخلاف دنیا کے لوگوں کی نظر میں، دنیا کے سیاستدانوں کی نظر میں اور دنیا کے سبھی لوگوں کی نظر میں، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، غاصب حکومت ظالم بھی ہے، خون آشام بھیڑیا ہے، بے رحم ہے اور مغلوب، شکست خوردہ، مایوس اور بکھری ہوئي بھی ہے۔
یہ صبر اور توکل کی خصوصیت ہے۔ غزہ کے لوگوں نے اپنی استقامت و مزاحمت سے اسلام کی ترویج کی ہے۔ دنیا کے اطراف و اکناف میں متلاشی انسان یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جو فلسطینی مجاہدین کو اس طرح میدان میں باقی رکھے ہوئے ہے؟ یہ اسلام کیا ہے؟ ان لوگوں نے اسلام کا تعارف کرایا ہے، بہت سے لوگوں کی نظروں میں قرآن کو محبوب بنا دیا ہے۔
اے پروردگار! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ! مزاحمتی محاذ کے مجاہدین خاص طور پر غزہ کے مظلوم عوام اور غزہ کے مجاہدین کی سربلندی و عزت میں روز افزوں اضافہ کر۔
یمنی قوم اور انصار اللہ کی حکومت نے واقعی بہت عظیم کام انجام دیا ہے۔ انھوں نے غزہ کے عوام کی پشت پناہی کرتے ہوئے جو کام کیا وہ واقعی تعریف اور سراہے جانے کے لائق ہے۔ انھوں نے صیہونی حکومت کی حیاتی شریانوں پر وار کیا، امریکا نے دھمکی دی اور وہ امریکا سے نہیں ڈرے۔ ایسا ہی تو ہے؟ وہ امریکا سے نہیں ڈرے۔ جب انسان اللہ سے ڈرتا ہے تو پھر کسی دوسرے سے نہیں ڈرتا۔ حق کی بات یہ ہے کہ ان کا کام واقعی، اللہ کی راہ میں جہاد کا مصداق ہے اور ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ مجاہدت، یہ استقامت اور یہ جدوجہد، اللہ کی اجازت سے فتح تک جاری رہے گي۔
ان شاء اللہ خداوند متعال ان سبھی کو کامیاب اور فتحیاب کرے جو خدا کی راہ میں، خدا کی خوشنودی کی راہ میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ خداوند عالم آپ سب کو محفوظ رکھے اور آپ کو اس راہ میں حقیقی معنی میں کامیاب کرے۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ