اس پروٹوکول کے مطابق جنگی علاقوں میں خطرناک پیشہ ورانہ کام کرنے والے اخبار نویسوں کی عام شہری کی حیثیت حمایت کی گئي ہے اور انھیں وہ سارے حقوق دیے گئے ہیں جو عام شہریوں کو دیے جاتے ہیں، البتہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ کوئي ایسا کام نہ کریں جو عام شہری کی حیثیت سے ان کی پوزیشن سے متصادم ہو۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سنہ 2006 کی قرارداد نمبر 1674 اور سنہ 2009 کی قرارداد نمبر 1894 کو منظوری دی جن کا مقصد مسلحانہ جھڑپوں میں عام شہریوں کی حمایت ہے اور اسی طرح اس نے اخبار نویسوں اور میڈیا ماہرین کی حمایت کی غرض سے سنہ 2006 کی قرارداد نمبر 1738 کو پاس کیا۔ سنہ 2015 میں منظور ہونے والی قرارداد نمبر 2222 بھی جھڑپ اور جنگ کے حالات میں اخبار نویسوں اور میڈیا اہلکاروں کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیتی ہے اور اخبار نویسوں کے کام کو نسل کشی کے بارے میں انتباہ دینے والا ایک میکنزم بتاتی ہے۔

اس کے باوجود متصادم فریقوں کی جانب سے اخبار نویسوں کی جان کی حفاظت کی ضرورت پر عالمی تنظیموں اور قانونی اداروں کی تاکید کے برخلاف سنہ 2002 سے لے کر سنہ 2003 تک اخبار نویسوں کے خلاف تشدد کیا گيا ہے۔ دریں اثنا سنہ 2023 کے اعداد و شمار دو پہلوؤں سے قابل توجہ ہیں: پہلا پہلو پچھلے برسوں کی نسبت تشدد کے اعداد و شمار میں اضافہ ہے چنانچہ غزہ جنگ کے کچھ مہینوں میں مارے جانے والے میڈیا اہلکاروں کی تعداد سنہ 2002 اور سنہ 2003 میں مارے جانے والے اخبار نویسوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ دوسرا پہلو، اعداد و شمار کے مطابق مارے گئے سبھی اخبار نویس، جنگ کے ایک ہی فریق کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔

میڈیا اہلکاروں کے اہل خانہ سے انتقام

سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بہانے غزہ پر صیہونی حکومت کے حملے کے بعد، اس حکومت کے تشدد اور سفاکی کا نشانہ میڈیا اہلکار بھی بنے ہیں، چنانچہ اعداد و شمار کے مطابق کچھ مہینے سے جاری اس جنگ میں مارے جانے والے میڈیا اہلکاروں کی تعداد، پچھلے کئي برسوں سے بھی زیادہ ہے جس پر قانون داں سوسائٹی اور عالمی اداروں نے سخت اعتراض کیا ہے۔ ہم غزہ کی جنگ کے ابتدائي کچھ دنوں میں ہی مارے جانے والے کچھ اخبار نویسوں اور میڈیا اہلکاروں کے بارے میں اختصار سے بتا رہے ہیں۔

8 اکتوبر کو غزہ کے شیخ عجلین علاقے پر صیہونی حکومت نے شدید حملہ کیا جس میں ایک فری لانس رپورٹر اسعد شملخ اپنے 9 اہل خانہ کے ساتھ شہید ہو گئے۔

دو دن بعد (10 اکتوبر) میڈیا سوسائٹی کے لیے ایک بڑا غمناک دن تھا۔ صیہونی حکومت کے جنگي طیاروں نے غزہ کے رمل علاقے میں ایک عمارت پر حملہ کیا جس میں کئي میڈیا آفیسز تھے۔ اس حملے میں 'الخمسہ' نیوز ویب سائٹ کے چیف ایڈیٹر سعید الطویل اور 'خبر' نیوز ایجنسی کے کیمرہ مین محمد صبح شہید ہو گئے۔ اسی طرح اس بلڈنگ میں موجود ایک اور اخبار نویس ہشام النویجہ بھی بری طرح سے زخمی ہو گئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اگلے دن شہید ہو گئے۔ 11 اکتوبر کو آزاد فوٹو جرنلسٹ محمد فائز ابو مطر بھی غزہ پر صیہونی جنگي طیاروں کی بمباری کی وجہ سے اپنے شہید ساتھیوں سے جا ملے۔

ایک دن بعد یعنی 12 اکتوبر کو ریڈیو 'صوت الاسراء' کے رپورٹر احمد شہاب، جبالیا کے علاقے میں اپنے گھر میں اپنی زوجہ اور تین بچوں کے ساتھ صیہونی حکومت کے جرائم کا شکار بن گئے۔

فری لانس جرنلسٹ محترمہ سلام میما بھی 13 اکتوبر کو صیہونی حکومت کے حملوں کی زد میں آ کر اپنے شہید رفقائے کار سے جا ملیں اور ان کی لاش کو تین دن بعد ملبے سے باہر نکالا جا سکا۔ اسی دن 'ریڈیو الاقصیٰ' کے رپورٹر حسام مبارک اور رویٹرز نیوز ایجنسی کے کیمرہ مین عصام عبد اللہ بیروت میں غیر فوجیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی فوجی کارروائي کے نتیجے میں شہید ہو گئے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ صیہونی فوج کے گولے صرف اخبار نویسوں کو ہی نشانہ نہیں بناتے ہیں۔ ان سو دنوں میں میڈیا اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے اہل خانہ کو بھی کھویا ہے۔ بعض کیسز پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ بات اتفاقی نہیں ہے اور صیہونی حکومت، میڈیا اہلکاروں کے گھر والوں کی ٹارگٹ کلنگ کر کے غزہ میں نسل کشی کا انتباہ دینے والے میکینزم پر دوہرا دباؤ ڈالنا چاہتی ہے۔ غزہ میں الجزیرہ کے رپورٹر وائل الدحدوح کے اہل خانہ کا قتل عام، اس کی ایک واضح مثال ہے۔

شہید میڈیا اہلکاروں کی تعداد

غزہ میں شہید ہونے والے رپورٹروں کے سلسلے میں مختلف اعداد و شمار پائے جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ 'رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز' تنظیم کی جانب سے رپورٹر کی تعریف ہے کیونکہ اس تنظیم نے بعض میڈیا اہلکاروں کے مارے جانے کو ان کی ڈیوٹی سے الگ بتایا ہے۔ اس کے باجود غزہ میں سرکاری ذرائع ابلاغ کے دفتر نے شہید ہونے والے رپورٹروں اور اخبار نویسوں کی تعداد 117 بتائي ہے۔ یہ تعداد بیس سال تک جاری رہنے والی ویتنام کی جنگ میں مارے جانے والے میڈیا اہلکاروں کی تعداد کی دوگنا ہے! ان سو دنوں میں میڈیا کے 50 دفتر بھی بمباری سے تباہ ہوئے ہیں۔

دوسری جانب 'رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز' تنظیم نے غزہ کی جنگ میں 81 رپورٹروں اور اخبار نویسوں کے مارے جانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں اسرائيل کی کارروائيوں کو قرارداد نمبر 2222 کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے نام ایک خط میں اس سے کہا ہے کہ وہ غزہ میں رپورٹروں اور اخبار نویسوں کے قتل عام کو نظر انداز نہ کرے۔(1)

غزہ میں میڈیا اہلکار، جنگ کے چشم دید گواہ اور محاصرہ شدہ اس چھوٹے سے علاقے میں دنیا کی آنکھ اور کان ہیں۔ میڈیا کے لوگوں کا قتل، اس عدیم المثال جنگ میں دہلا دینے والے اور افسوس ناک واقعات پر پردہ ڈالنے کی ایک منظم اور سوچی سمجھی کوشش ہے۔

البتہ فلسطین میں اخبار نویسوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مشہور رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کی شہادت، جن کے پاس امریکی شہریت بھی تھی، اس سلسلے میں سب سے مشہور کیسیز میں سے ایک ہے۔ 'رپورٹرز وداؤٹ بارڈرز' تنظیم نے رپورٹرز کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی وجہ سے اب تک تین بار عالمی فوجداری عدالت میں صیہونی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تل ابیب، جس کے لیے اس مقدمے سے گلو خلاصی آسان نہیں ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ فلسطین، ملک نہیں ہے، اس سلسلے میں اپنے جرائم کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہوا ہے۔

درحقیقت کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت چاہتی ہے کہ غزہ کی جنگ کے سلسلے میں دنیا میں وہ تصویر پیش کی جائے جو اس کے پیش نظر ہے۔ وہ ایسی تصویر ہے جس میں اس کے جرائم کو تو سینسر کیا ہی جاتا ہے، ساتھ ہی اس کی شکستوں اور جانی و مالی نقصان کو بھی جہاں تک ممکن ہو چھپایا جاتا ہے۔ بعض بین الاقومی نشریاتی اداروں کو جن میں سی این این، اے بی سی، این  بی سی، نیویارک ٹائمز اور فاکس نیوز جیسے چینلز اور میڈیا گروپس شامل ہیں، صیہونی فوج کا ساتھ دینے اور خاص حالات کو تسلیم کرنے کی شرط پر غزہ میں جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ انھیں صیہونی فوج کو ساتھ لیے بغیر غزہ میں کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور تمام مضامین اور ویڈیو کلپس کو نشر کرنے سے پہلے اجازت کے لیے صیہونی فوج کو بھیجنا پڑتا ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ بہت کم صیہونی ذرائع ابلاغ اور میڈیا اہلکار بھی جو کسی حد تک اس جنگ کی ایک الگ تصویر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، شدید دباؤ میں ہیں، یہاں تک کہ ان پر جسمانی حملے بھی ہوتے ہیں۔ غزہ میں میڈیا اہلکاروں کے وسیع قتل سے لے کر جنگ کی خبروں کے سینسر اور غلط اور جھوٹی خبریں اور رپورٹیں پھیلانے تک ان ساری کوششوں کے باوجود صیہونی حکومت، عالمی رائے عامہ میں بری طرح سے بدنام ہو چکی ہے۔

مآخذ:

  1. https://rsf.org/fr/rsf-appelle-le-conseil-de-s%C3%A9curit%C3%A9-de-l-onu-%C3%A0-se-saisir-en-urgence-des-violations-gravissimes-par