بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ یوم شجرکاری کی دوبارہ آمد ہوئی، ان شاء اللہ ایران کے عوام کو شجرکاری کے پرکشش اور منافع بخش عمل کی انجام دہی میں پھر کامیابی نصیب ہو۔ ان شاء اللہ عوام پورے ملک میں یہ عمل انجام دیں اور اس میں کامیابی پائیں۔ جیسا کہ میں نے سنا سال 1402 (21 مارچ 2023 الی 19 مارچ 2024) میں عہدیداران 25 کروڑ درخت لگانے کا پروجیکٹ پورا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ یہ ہمیں ایک ارب درخت لگانے کا جو وعدہ کیا گیا ہے (1) اس سے قریب کرنے والا اقدام ہے۔
شجر کاری کے بارے میں دو تین نکتے بیان کرنے سے پہلے انتخابات کے انتہائی اہم موضوع کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ (2) پولنگ کے مراکز پر بھرپور انداز میں عوام کی موجودگی کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ ملت ایران نے اس شرکت سے اپنا سماجی اور تمدنی فرض بھی ادا کیا اور جہاد بھی انجام دیا۔ ہم جہاد کی بات کر رہے ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ یہ اقدام دشمنوں کے پروپیگنڈے کے مد مقابل تھا۔ تقریبا ایک سال سے ملت ایران کے دشمن، اسلامی مملکت ایران کے دشمن، اسلامی جمہوریہ کے دشمن دنیا کے گوشہ و کنار سے اس کوشش میں لگے تھے کہ عوام کو انتخابات میں شرکت سے دور رکھیں اور انتخابات کی رونق ختم کر دیں۔ عوام نے پولنگ مراکز پر پہنچ کر دشمنوں کی ان ریشہ دوانیوں کے خلاف ایک عظیم اور رزمیہ کارنامہ انجام دیا۔ لہذا یہ ایک جہاد تھا۔ الیکشن کے عہدیداران کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، الیکشن کروانے والے عہدیداران کا، انتخابی کیمپین کے عہدیداران کا، سیکورٹی عہدیداران کا، ان تمام افراد کا جو کسی نہ کسی طرح انتخابات کے انعقاد میں مدد کر رہے تھے۔
ایک بات بلوچستان کے حالیہ سیلاب کے بارے میں عرض کر دوں۔ صوبہ سیستان و بلوچستان کے جنوبی علاقے میں جو سیلاب آیا، بڑا سیلاب تھا۔ اس نے عوام کو بڑا نقصان پہنچایا۔ (لہذا) جو امدادی سرگرمیاں انجام دی جا رہی ہیں وہ اسی طرح جاری رہنا چاہئے۔ الحمد للہ امدادی ٹیمیں، خواہ وہ حکومتی عہدیداران پر مشتمل ٹیمیں ہوں یا ان کے علاوہ، کام میں مصروف ہیں، محنت کر رہی ہیں، مدد کر رہی ہیں، (یہ کام) جاری رہنا چاہئے۔ دوسرے افراد بھی جو چاہتے ہیں اور ان کے اندر توانائی ہے، اس امدادی کام میں شامل ہونے کا اشتیاق رکھتے ہیں، وہ بھی وارد میدان ہوں اور امدادی کاموں میں مزید اضافہ کریں۔ امید کرتے ہیں کہ جو امدادی کام ہو رہا ہے اس سے عوام کی پریشانیاں دور ہوں گی۔
جہاں تک شجرکاری کی بات ہے تو اس بارے میں دو تین نکات عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ شجر کاری ایک سرمایہ کاری ہے وہ بھی کفایتی اور منافع بخش سرمایہ کاری۔ آپ لکڑی کا ایک ٹکڑا زمین کے اندر گاڑتے ہیں جو ایک درخت بن جاتا ہے اور آپ کو اس کا فائدہ ملتا ہے۔ جبکہ آپ کو اس کی نگرانی کے علاوہ کچھ نہیں کرنا ہے۔ اس لئے کہ اس درخت کو غذا اور نمو زمین اور سورج سے ملتا ہے۔ آپ بس دیکھ بھال کرتے ہیں، پانی دیتے ہیں، خیال رکھتے ہیں کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ یہ درخت قدرتی عوامل کی مدد سے جو اللہ نے خلق فرمائے ہیں خود ہی نمو کے مراحل طے کرتا ہے اور آپ کو پھل دیتا ہے۔ اس سے زیادہ منافع بخش سرمایہ کاری انسان کو کہاں ملے گی؟ سستی اور منافع بخش سرمایہ کاری۔ جو بھی اس سرمایہ کاری میں شرکت کرے، یقینا وہ فائدے میں رہے گا۔ اس لئے کہ جب آپ درخت لگاتے ہیں تو آپ کے علاوہ دوسرے عناصر اس درخت کے نمو میں، اس کے پھل دینے میں اور اسے پھلدار بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں، جبکہ اس کا پھل صرف آپ کو ملتا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ درخت کا پھل صرف وہی نہیں ہے جو آپ درخت سے توڑتے ہیں۔ اس درخت کا سایہ بھی پھل ہے، اس درخت کی لکڑی بھی پھل ہے، یہ درخت جو ہوا پیدا کرتا ہے اور فضا میں جو آکسیجن چھوڑتا ہے وہ بھی پھل ہے۔ یہ درخت فضائی آلودگی اور ہوا کو آلودہ کرنے والے عوامل کا جو مقابلہ کرتا ہے، وہ سب بھی اس درخت کے پھل ہیں۔ لہذا آپ اس سرمایہ کاری سے انواع و اقسام کے ثمرات حاصل کرتے ہیں۔ خاص طور پر آج کی اس مشینی زندگی میں جس میں آلودگی پیدا کرنے والے عوامل بہت بڑھ گئے ہیں اور انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں، درختوں کا وجود واقعی برکتوں سے بھری نعمت اور اللہ کا ایک لطف ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام میں قدرت و فطرت سے رابطے پر تاکید کی گئی ہے۔ یعنی اسلام نے انسان کو قدرت سے الگ نہیں کیا ہے بلکہ اسے تاکید کی ہے کہ قدرت و فطرت پر توجہ بھی دے اور قدرت سے فائدہ بھی اٹھائے۔ قرآن میں «وَ استَعمَرَکُم فیہا»(3) بھی ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے آپ سے کہا ہے کہ زمین کو آباد کیجئے، قدرت و فطرت کو آباد کیجئے۔ «کُلوا مِن ثَمَرِہ» بھی ہے۔: «کُلوا مِن ثَمَرِہِ اِذا اَثمَر» (4) اس کے پھلوں سے استفادہ کرو۔ لہذا آپ زمین کا خیال بھی رکھیں گے، اس کی دیکھ بھال بھی کریں گے اور آپ قدرت سے فائدہ بھی اٹھائیں گے۔ اسلام میں اس پر تاکید کی گئی ہے۔ یہ ان چیزوں میں ہے جو قرآن میں آئی ہیں، ماحولیات کے بارے میں بہت سی روایات بھی ہیں۔
آخری نکتہ یہ کہ اس سال ہم نے تین درخت لگائے۔ گزشتہ (بعض) برسوں کے برخلاف کہ جب ہم دو درخت لگایا کرتے تھے۔ اس سال ہم نے درختوں کی تعداد بڑھا دی، شجرکاری پر بیشتر توجہ کی علامت کے طور پر۔ ان تین درختوں میں ایک زیتون کا درخت ہے۔ یہ فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی اور ہمدلی کے طور پر ہے۔ زیتون کا مرکز وہی جگہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان مظلوم، عزیز اور بڑے مجاہد عوام کو دور سے سلام پیش کریں اور کہیں کہ ہم ہر طرح سے آپ کو یاد کرتے ہیں، منجملہ یہ کہ آپ کی یاد میں زیتون کا پیڑ لگاتے ہیں۔
اپنے سارے عزیز عوام کو سلام و درود پیش کرتا ہوں، پوری قوم اور پورے ملک کے لئے عافیت و سلامتی اور لطف و فیض خداوندی کی اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ