بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیّین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ بحمد اللہ ہماری آج کی نشست متوقع سطح کی تھی، بہت اچھی، مکمل اور جامع نشست تھی۔ میں دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں اس نشست کا اہتمام کرنے والوں کا بھی اور اس پرشکوہ، انتہائی زیبا اور بامعنی نشست میں کردار ادا کرنے والوں کا بھی، جنھوں نے تلاوت کی، جنھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، میں ان سبھی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

بحمد اللہ ملک میں قرآن مجید کی تلاوت، صحیح تلاوت، قرائت کے قواعد و قوانین کے مطابق تلاوت کو روز افزوں فروغ مل رہا ہے۔ شاید کوئی بھی ایسا دن نہیں ہوگا جب میں، اس عظیم نعمت پر خداوند عالم کا شکر ادا نہ کروں۔ میں جب بھی ٹی وی آن کرتا ہوں، تو یا محترم قاریوں میں سے کوئی ایک، جن میں سے بعض یہاں بھی تشریف فرما ہیں، یا ترتیل سے تلاوت کرنے والوں میں سے کوئی ایک، تلاوت میں مشغول ہوتا ہے اور میں بیٹھ کر بڑے شوق سے سنتا ہوں اور خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ یہ سب انقلاب کی برکت سے ہمیں عطا ہوا ہے اور جب ہم اپنے ملک کا دوسرے اسلامی ملکوں سے موازنہ کرتے ہیں، اب یہ بات میں پوری قطعیت سے نہیں کہہ سکتا اور صحیح اعداد و شمار میرے پاس نہیں ہیں لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں خوش الحان اور صحیح طریقے سے قرآن پڑھنے والے قاریوں کی تعداد شاید تمام اسلامی ملکوں سے زیادہ ہو، ہو سکتا ہے کہ شاید ایک ملک اس چیز سے مستثنیٰ ہو ورنہ دنیا کے دوسرے مقامات، جیسا کہ ہم سنتے ہیں اور کبھی کبھی دیکھتے بھی ہیں، ہمارے نوجوانوں، آپ عزیز قاریوں اور ہمارے نور عین قاریوں تک نہیں پہنچتے۔

قرآن مجید کی تلاوت کی عظمت و منزلت کو قرآن کی عظمت سے سمجھنا چاہیے۔ آپ دیکھیے کہ خود قرآن مجید میں، قرآن کو کن القاب اور کن عناوین سے پہچنوایا گیا ہے، میں نے اس کے کچھ نمونے نوٹ کیے ہیں: قرآن عظیم، قرآن کریم، قرآن مبین، قرآن مجید، قرآن حکیم، قرآن شفاء، قرآن رحمت، قرآن نور اور اسی طرح کے دوسرے القابات۔ جب خداوند متعال، جو عظمت کا منبع، عظمت کا سرچشمہ اور عظمت کا خالق ہے، کسی چیز کو عظیم کا لقب دے "وَ القُرآنَ العَظیم"(2) تو اس کے معنی بہت اونچے ہیں، بہت اعلیٰ ہیں، بہت گرانقدر ہیں۔ آپ اس کی تلاوت کر رہے ہیں! خداوند عالم نے آسمان کے نیچے جس چیز کی بھی تخلیق کی ہے، قرآن اس سے افضل اور اعلیٰ ہے، قرآن "ثقل اکبر" ہے، ذرا سوچیے تو! "اِنّی تارِکٌ فیکُمُ الثَّقَلَین"(3) ثقل اکبر، ثقل یعنی گرانبہا چیز، قرآن مجید ہے، یعنی ائمۂ ہدیٰ علیہم السلام، وہ انوار طیبہ جن کے نور سے عالم وجود منور ہے، قرآن مجید کے بعد کے درجے میں ہیں۔ قرآن ثقل اکبر ہے، یہ بہت اہم بات ہے۔ قرآن کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہے؟ آپ جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، آپ قرآن کے قاریوں میں سے ہر ایک، ہم اہل زمین کے لئے عرش الہی کا پیغام لانے والا ہے، قرآن کی تلاوت کے معنی یہ ہیں۔ آپ اللہ کے کلام کا مضمون ہمارے لیے بیان کرتے ہیں۔ ہم میں سے جو بھی اہل دل ہے، اس کے دل پر قرآن نازل کرتے ہیں اور ہم میں سے جو بھی اہل سماعت ہے، اس کی سماعت آپ کی تلاوت سے بہرہ مند ہوتی ہے، آپ لوگ اپنی قدر سمجھیے۔

خیر، کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں جن میں سے ایک قرآن کی قرائت کی اہمیت ہے۔ قرآن مجید کی عظمت اپنی جگہ اور قرآن سے عالم خلقت کی اول درجے کی نورانی تعلیمات سیکھنا اپنی جگہ لیکن خود قرآن کی قرائت اپنے آپ میں گرانقدر ہے۔ خداوند متعال اپنی سب سے برتر مخلوق یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات مقدس کو حکم دیتا کہ آپ قرآن کی تلاوت کیجیے! فَاقرَءوا ما تَیَسَّرَ مِنَ القُرآن(4) فَاقرَءوا ما تَیَسَّرَ مِنہ(5) قرآن کی قرائت کیجیے، قرآن کی تلاوت کیجیے۔ اُتلُ عَلَیھِم نَبَاَ نوح(6) اُتلُ عَلَیھِم نَبَاَ اِبراھیم(7) خداوند عالم، پیغمبر کو تلاوت کا حکم دیتا ہے۔ ہمارے فرائض میں سے ایک، قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ میرے خیال میں عالم اسلام میں ایسا کوئی انسان نہیں ملنا چاہیے جس کا کوئی بھی دن قرآن کی کچھ آیتوں کی تلاوت کے بغیر گزر جائے، ہم سبھی کو تلاوت کرنی چاہیے۔ میں نے بارہا مختلف اجتماعات میں کہا ہے، جتنا بھی ہو سکے ہمیں قرآن پڑھنا چاہیے: "فَاقرَءوا ما تَیَسَّرَ مِنہ" بعض لوگ روزانہ پانچ پارے پڑھتے ہیں، بعض لوگ روزانہ ایک پارہ پڑھتے ہیں، بعض لوگ روزانہ ایک رکوع پڑھتے ہیں، آپ اگر اتنا نہیں پڑھ سکتے تو روزانہ ایک صفحہ پڑھیے، روزانہ آدھا صفحہ پڑھیے لیکن پڑھیے ضرور۔ قرآن کی تلاوت ہونی چاہیے۔

یہ جو ہم نے عرض کیا کہ قرائت اور تلاوت، قاری کے دل کے لیے ہے، لیکن یہ اسی میں محدود بھی نہیں ہے، اس میں محدود نہیں ہے، تلاوت قرآن سے قاری کا دل بھی نورانی ہونا چاہیے اور معاشرے کا دل بھی تلاوت قرآن سے منور ہونا چاہیے۔ خداوند عالم اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے: وَ قُرآناً فَرَقناہُ لِتَقرَاَہُ عَلَی النّاسِ عَلیٰ مُکث(8) اور دوسری بہت سی آیتوں میں بھی یہ بات ہے، جیسے یہی آیتیں جو ہم نے پڑھیں، یعنی لوگوں کے لیے قرآن پڑھیے۔ یہ آپ کا کام ہے۔ ہم گھروں میں اپنے لیے قرآن پڑھتے ہیں، آپ اس سے ایک درجہ بڑھ کر کام کرتے ہیں، آپ، لوگوں کے لیے قرآن پڑھتے ہیں، لوگوں کے لیے تلاوت کرتے ہیں، یہ بہت گرانقدر ہے، اپنی قدر سمجھیے، اپنے کام کی قدروقیمت سمجھیے۔

ایک دوسری بات، تدبّر اور غوروفکر کا اہم مسئلہ ہے۔ قرآن کو تدبر کے ساتھ اور غور کرتے ہوئے پڑھنا چاہیے۔ البتہ تدبر کے کئی مراحل ہیں۔ تدبر کا مطلب ہے قرآن کی ظاہری زیبائی سے قرآن کی باطنی گہرائی تک پہنچنا: "ظاھِرُہُ اَنیقٌ وَ باطِنُہُ عَمیق"(9) یہ ظاہر، آپ کے کام کی زیبائی اور خود قرآن کے الفاظ اور خود قرآن کا حسن ہے۔ عمیق اور گہرا باطن، وہ چیز ہے جو تدبر سے حاصل ہوتی ہے۔ جب آپ کسی آیت یا کسی لفظ سے متعلق مسائل پر سوچتے ہیں، غور کرتے ہیں، دقت نظر سے کام لیتے ہیں تو آپ کو زیادہ معلومات اور زیادہ مسائل کا علم ہوتا ہے، اسے تدبر کہتے ہیں۔ کِتابٌ اَنزَلناہُ اِلَیکَ مُبارَکٌ لِیَدَّبَّروا آیاتِہ(10) بات یہ ہے، یعنی یہ کتاب تدبر کے لیے، سمجھنے کے لیے ہی نازل ہوئی ہے۔ یہ ساری باقی چیزیں، سمجھنے کی تمہید ہیں۔

یہاں پر ایک نکتہ پایا جاتا ہے، جب ہم سے کہا جاتا ہے کہ تدبر کرو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خداوند عالم، جو ہمارا خالق ہے، یہ جانتا ہے کہ ہم میں اس گہرائی تک پہنچنے کی لیاقت ہے۔ ورنہ ہم سے تدبر کے لیے کہا ہی نہیں جاتا۔ یہ جو خداوند متعال کہتا ہے کہ قرآن کی گہرائیوں تک پہنچو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تم یہ کام کر سکتے ہو، تم میں یہ لیاقت پائی جاتی ہے کہ تم قرآن کی گہرائیوں تک پہنچ سکو۔

البتہ سبھی کو اس بات کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے کہ قرآن کی گہرائیوں کو سمجھنے اور تفسیر بالرائے (اپنی مرضی کے مطابق تفسیر) کرنے میں بہت فرق ہے، یہ چیز قرآن پر اپنی رائے مسلط کرنے سے الگ ہے، اپنے ناقص اور محدود علم پر بھروسہ کرنے سے الگ ہے، تدبر کی کچھ شرطیں ہیں اور اگر وقت رہا تو میں ان شرائط کے بارے میں بھی اختصار سے کچھ عرض کروں گا۔

خیر تو ایک دوسری بات، تلاوت کے ہنر سے متعلق ہے۔ میں عرض کروں کہ آج جو تلاوتیں کی گئیں وہ بحمد اللہ بہت اچھی تھیں، یعنی ہماری اس نشست میں عام طور پر تلاوتیں اچھی ہی ہوتی ہیں۔ آج ہمیں ان نوجوانوں میں جو قرآن اور اس کی تلاوت کی وادی میں داخل ہوئے ہیں، کچھ نئی چیزیں دکھائی دی ہیں۔ ہمارے عزیز بچوں کا کام بھی بہت عمدہ تھا، تلاوت کرنے والے ہمارے عزیزوں نے بھی واقعی بہت اچھی تلاوت کی اور اس کا حق ادا کیا۔

تلاوت ایک فن ہے مگر دوسرے فنون سے اس کا فرق یہ ہے کہ یہ مقدس ہے، مقدس فن۔ یہ بہت اچھی چیز ہے، یہ ہنر بھی ہے، انسانی ذہن سے نکلنے والے سب سے اعلیٰ جمالیات کو ہنر کہا جاتا ہے، اور اس میں تقدس بھی ہے لیکن بنیادی نکتہ یہ ہے کہ یہ فن اور اس سے متعلق تمام آرائشی پہلو، جن سے آپ لوگ بخوبی واقف ہیں کیونکہ آپ لوگ اس فن کے ماہر ہیں، یہ سب اوزار ہیں، یہ سب ذریعہ ہیں، کس چیز کا اوزار ہیں؟ معنی کو منتقل کرنے کا اوزار ہیں۔

میں نے گزشتہ سال بھی اس نشست میں عرض کیا تھا(11) کہ جب آپ تلاوت کرتے ہیں تو کیا کام کرنا چاہتے ہیں؟ آپ قرآن کو پیش کرنا چاہتے ہیں یا اپنے آپ کو دکھانا چاہتے ہیں؟ یہ اہم ہے۔ ہم لوگ تو کمزور ہیں، مجھ جیسے لوگوں سے، کمزور لوگوں سے یہ نہیں ہو سکتا کہ پوری طرح اپنے نفس کو کنارے کر دیں، حاشیے پر ڈال دیں، پیچھے کر لیں لیکن کم از کم ہمیں اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ اصل ہدف، قرآن مجید کو پیش کرنا ہے، اب اگر اس کے ساتھ ہم خود بھی نمایاں ہو گئے تو ہو گئے۔ قرآن کو پیش کرنا چاہیے، یہ چیز آپ کی تلاوت کی نوعیت میں بہت تبدیلی پیدا کرتی ہے۔ کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان بڑے اور مشہور قاریوں کی تلاوتوں میں، یہ نکتہ ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ فرض کیجیے کہ بعض مقامات پر، بعض آیات میں، آیتوں کو دوہرانا اچھا ہے، بعض جگہوں پر ضروری ہے لیکن کتنی بار دوہرایا جائے؟ میں ایسی بھی تلاوت سنتا ہوں جس میں ایک آیت کو، جسے دوہرانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے، قاری دس بار دوہراتا ہے! اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قاری کو موسیقی کی اچھی سمجھ ہے، خوش الحان بھی ہے، وہ اسے مختلف شکلوں میں پڑھنا چاہتا ہے۔ جیسے "اِذ قالَ یوسُفُ لِاَبیہ"(12) آیت کے اس ٹکڑے کو دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے، چلیے مان لیتے ہیں اسے دو بار دوہرایا جائے لیکن دس بار دوہرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ جو میں کہہ رہا ہوں دس بار تو ہو سکتا ہے کہ نو بار رہا ہو! میں نے گنا ہے، بس دوہرائے جا رہے ہیں، دوہرائے جا رہے ہیں! یہ وہ چیز نہیں ہے جس کی ہمیں قاری سے توقع ہوتی ہے، ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے۔

خود قرآن ایک فن ہے، خود قرآن ایک فن پارہ ہے، ایک الہی فن پارہ ہے۔ اب جو لوگ صاحبان رائے ہیں، دقت نظر والے ہیں، تدبر کرنے والے ہیں، وہ پوری تاریخ میں تدریجی طور پر اس فن پارے کے سلسلے میں کچھ چیزیں سمجھ پائے ہیں جیسے یہ کہ قرآن میں منظر کشی کا فن ہے، یعنی قرآن واقعات کی منظر کشی کرتا ہے، جیسے یہ کتاب جس کا نام ہے: التّصویر الفنّی فی القرآن(13) قرآن میں فنی تصویر کشی۔ قرآن جب مختلف چیزوں کو بیان کرنا چاہتا ہے، ایک منظر کو، مثال کے طور پر قیامت کے منظر کو تو آپ دیکھیے کہ قرآن میں کتنے مختلف اور متعدد بیانوں کے ذریعے انسان کی نظروں کے سامنے قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے، یا جہاد کے میدان کی منظر کشی کی گئی ہے: وَ العادیاتِ ضَبحاً * فَالموریاتِ قَدحاً(14) یہ تصویر ہے، منظر کشی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہوئے، گھڑ سوار میدان کی طرف گیا لیکن اس آیت میں اس گھوڑے کی قسم کھائی گئی ہے کہ پھنکاریں مارتا ہے، اس گھوڑے کی قسم کھائی گئی ہے جو پتھر پر ٹاپ مارتا ہے تو چنگاری نکل جاتی ہے، یہ اس منظر کی تصویر کشی کی جا رہی ہے۔

سورۂ مبارکۂ بقرہ میں منافقین کے سلسلے میں بیان ہوئی یہ آیت شریفہ "مَثَلُھُم کَمَثَلِ الَّذِی استَوقَدَ نارَاً فَلَمَّا اَضاءَت ما حَولَہُ ذَھَبَ اللٰہُ بِنورِھِم وَ تَرَکَہُم فی ظُلُمات"(15) یہ تصویر، منافقین کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے۔ یہ وہ منافق ہے جو پہلے تو ایک ہیجان کے سبب ایمان لے آیا استَوقَدَ نارَاً فَلَمَّا اَضاءَت ما حَولَہُ ذَھَبَ اللٰہُ بِنورِھِم لیکن اس کے دل میں جو بیماری تھی وہ اس بات کا سبب بنی کہ خدا اس نور کو اس سے سلب کر لے: وَ تَرَکَھُم فی ظُلُمات، تصویر کشی کرتا ہے، یہ منافق انسان کے پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے۔ اس کے بعد فورا ہی ایک دوسرا پہلو: اَو کَصَیِّبٍ مِنَ السَّماءِ فیہِ ظُلُماتٌ وَ رَعدٌ وَ بَرقٌ یَجعَلونَ اَصابِعَھُم فی آذانِھِم مِنَ الصَّواعِقِ حَذَرَ المَوت(16) یہ بھی منافقین کا ایک پہلو تھا۔ صیّب، تیز بارش کو کہتے ہیں۔ بارش تو رحمت ہے لیکن اس بارش کے ساتھ ہی بجلی ہے، گرج ہے، یہ شخص ڈر جاتا ہے، اندھیرا ہے، اس سے ڈرتا ہے، وہ بارش سے تو فائدہ نہیں اٹھا پاتا، ہاں اس کی بجلی اور گرج سے ضرور ڈر جاتا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو سورۂ منافقون میں آئی ہے: یَحسَبُونَ کُلَّ صَیحَۃٍ عَلَیھِم(17) منافق کے ان پہلوؤں کو بیان کرتا ہے،  دیکھیے قرآن منظر کشی کرتا ہے، تصویر پیش کرتا ہے۔ آپ اسے بیان کرنا چاہتے ہیں، آپ اس تصویر کو جو کلام خدا میں ہے اور معجزہ ہے، اپنے سننے والوں کے ذہن اور دل میں منتقل کرنا چاہتے ہیں، یہ بہت بڑا ہنر ہے، ایک عظیم فن ہے۔

تلاوت کے سلسلے میں بہت ساری باتیں ہیں۔ میں واقعی دل کی گہرائیوں سے اپنے عزیز قاریوں سے محبت و عقیدت رکھتا ہوں۔ اساتذہ اور پرانے قاریوں سے لے کر جوان قاریوں اور اس میدان کے نو واردوں کو واقعی میں دل کی گہرائیوں سے پسند کرتا ہوں لیکن کچھ نصیحتیں ہیں جن کا خیال رکھا جانا چاہیے۔

آپ جان لیجیے کہ آپ کو اَلَّذینَ یُبَلِّغونَ رِسالاتِ اللٰہ(18) کا مصداق ہونا چاہیے، آپ الہی رسالت کی تبلیغ کر رہے ہیں نا۔ قرائت قرآن کی نشست میں جو رسالت اور ذمہ داری آپ ادا کر رہے ہیں کیا اس سے بھی زیادہ قطعی، ٹھوس اور حقیقی کوئی رسالت ہے؟ آپ کو ایسا ہونا چاہیے، اپنے آپ کو اس آیت کے مطابق ڈھالیے: اَلَّذینَ یُبَلِّغونَ رِسالاتِ اللٰہ، آپ یہ دیکھیے کہ جو لوگ اللہ کی رسالتوں کی تبلیغ کرتے ہیں وہ کیسے ہیں اور انھیں کیسا ہونا چاہیے۔ یہ ایک بات ہوئی۔

معنی و مفہوم پر توجہ، آپ جو آیت پڑھ رہے ہیں اس کے معنی و مفہوم پر توجہ رکھیے اور کوشش کیجیے کہ دل میں اس معنی کے سلسلے میں خشوع پیدا ہو جائے۔ آپ کا یہ خشوع سامع پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جب آپ خشوع کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں، توجہ کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں تو آپ کا سامع، آپ کے خشوع سے متاثر ہوتا ہے، اس میں بھی خشوع پیدا ہوتا ہے۔ آیات کے مضامین اور مفاہیم پر توجہ، یہ خشوع پیدا کرتی ہے۔

غنا اور حرام لَحن سے پرہیز ہونا چاہیے، اس پر توجہ رکھیے۔ البتہ غنا کے سلسلے میں کافی بحثیں ہیں لیکن بعض لحن، غنا ہوتے ہیں۔ میں صراحت کے ساتھ کہتا ہوں، میں تلاوتیں سنتا ہوں خاص طور پر وہ تلاوتیں جو ریڈیو سے نشر ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی مصر کے یہ مشہور قاری جب تلاوت کرتے ہیں تو میں ریڈیو آف کر دیتا ہوں، یعنی میرے لیے وہ تلاوت مشکوک ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر بعض اوقات جب محمد عمران کی تلاوت نشر ہوتی ہے تو واقعی مجھے شبہہ ہونے لگتا ہے۔ بظاہر ان کا انتقال بھی ہو چکا ہے، خدا انھیں غریق رحمت کرے۔ یا ان کے بعد مثال کے طور پر عبدالمنعم، یہ سب خوش الحان ہیں، ان کی آواز اچھی ہے، انصاف سے کہا جائے تو یہ لوگ موسیقی میں بھی زبردست ماہر ہیں لیکن کبھی کبھی جب وہ تلاوت کرتے ہیں تو، عربی گانوں کی طرز پر تلاوت کرتے ہیں، مطلب یہ کہ وہ قرآن کی تلاوت نہیں ہے۔ البتہ قرآن کے کچھ نمایاں اور بڑے اساتذہ، جن سے میں بہت عقیدت رکھتا ہوں، کبھی کبھی ان کی تلاوت میں بھی یہ بات دکھائی دیتی ہے، مطلب یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ ان کی تلاوت بے عیب ہے۔ لیکن کچھ ہیں جو بالکل صحیح تلاوت کرتے ہیں، بعض پرانے قاری جیسے عبدالفتاح شعشاعی وغیرہ واقعی یہ لوگ تلاوت قرآن کے دائرے سے بالکل باہر نہیں نکلتے مگر یہ مصر کے آج کل کے جوان جو یہاں وہاں دکھائی دیتے ہیں اور تلاوت کرتے ہیں، ان کی تلاوت میں گڑبڑ دکھائی دیتی ہے، یہ لوگ بسا اوقات تلاوت کے ان قواعد اور ضوابط کی حدود کو پار کر جاتے ہیں۔ یہ دوسری بات ہوئی۔

ہمارے بعض عزیز قاری بھی، جن کی آواز اچھی ہے، یہ اچھی آواز اس بات کا سبب بنتی ہے کہ کبھی کبھی ان میں کچھ اضافی چیز ظاہر کرنے کی خواہش پیدا ہو جائے۔ بقول شاعر:

پری‌ رو تاب مستوری ندارد (پری جیسے چہرے والے پردہ نشینی کی تاب نہیں رکھتے)

چو در بندی سر از روزن برآرد (اگر آپ دروازے کے پیچھے بند کر دیجیے تو وہ روزن سے باہر آ جائے گا)(19)

ایسی جگہوں پر خود کو کنٹرول کیجیے۔ جہاں آپ دیکھتے ہیں کہ بغیر کسی سبب اور وجہ کے آپ کا دل چاہ رہا ہے کہ کوئی اضافی چیز پیش کریں، وہاں واقعی عزم ضروری ہے، مضبوط ارادہ ضروری ہے کہ انسان خود کو کنٹرول کرے، ضبط کرے۔

دیگر قاریوں کے انداز کی کاپی نہ کیجیے۔ آپ ایرانی ہیں اور آپ کے اپنے خوبصورت اور بہترین انداز ہیں، بالکل ضروری نہیں ہے کہ جس انداز میں وہ لوگ کام کرتے ہیں، آپ بھی اسی انداز میں کریں یا مثال کے طور پر ان کی طرح کپڑے پہنیں۔ کبھی کبھی دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے یہ قاری جو مثال کے طور پر باہر ہیں، میں نے دیکھا ہے کہ ان کے لباس بھی ان لوگوں کی طرح ہوتے ہیں، نہیں! آپ اپنا یہی لباس زیب تن کیجیے، پورے افتخار کے ساتھ جا کر بیٹھیے، ان سے بہتر انداز میں تلاوت کیجیے، البتہ آپ ان سے بہتر پڑھتے ہی ہیں، آپ میں سے بہت سے لوگ، ان سے بہتر پڑھتے ہیں۔ یہ بھی ایک بات ہوئی۔

ایک اور بات جس پر میں تاکید کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ملک میں تلاوت قرآن، قرآنی جلسوں اور قرآنی نشستوں کی پیشرفت اور ان کا فروغ واقعی ناقابل بیان ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے، انقلاب سے پہلے قرآنی محافل کی صورتحال کا تعداد اور معیار کے لحاظ سے آج سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے، زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ آج بحمد اللہ قرآن کی ہزاروں محفلیں ہیں، مختلف ادارے، مختلف جہات سے قرآنی موضوعات پر کام کر رہے ہیں، وقف کا ادارہ ایک طرح سے، اسلامی تبلیغ و ارشاد کا ادارہ دوسری طرح سے، قرآن سے متعلق خصوصی شعبے کسی اور طرح سے، واقعی بہت اچھا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ ہم ابھی بھی پیچھے ہیں۔ حفظ قرآن کے سلسلے میں، تلاوت قرآن کے معاملے میں، قرآن سے انس کے مسئلے میں ابھی بھی کام کی بہت گنجائش ہے۔ کاش ہر مسجد، تلاوت قرآن کی ایک محفل ہو! ایک قاری مسجد میں موجود ہو، اگر ہر رات نہ سہی تو ہفتے میں ایک بار سہی، ہفتے میں ایک رات، ہفتے میں ایک بار دو بار محلے کے جوان اکٹھا ہوں، قرآن پڑھیں، تلاوت کریں، پورے ملک میں قرآنی نشتسوں کی تعداد بڑھتی جائے، چاہے مساجد میں، چاہے گھروں میں، ان لوگوں کے گھروں میں جو اس کے لیے تیار ہیں۔

ایک اور بات، قرآن کی تفسیر کے سلسلے میں ہے۔ قرآن کی تفسیر بہت زیادہ اہم ہے۔ یعنی قرآن کے ظاہر سے انسان بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن کبھی ان تفاسیر میں جو ہمارے بزرگوں نے لکھی ہیں، ایسے نکات ہوتے ہیں جو انسان کے لیے نئے ہوتے ہیں۔ میں خود برسوں سے تفسیر سے مانوس ہوں لیکن اس کے باوجود اب بھی کوئی ایسا مسئلہ درپیش آتا ہے جس میں مجھے ابہام ہوتا ہے اور میں تفسیر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو ایک نئی بات سمجھ میں آتی ہے، یہ وہ چیز ہے جو تلاوت سے حاصل ہونے والے فوائد سے الگ ہے۔ یہ چیز تدبر میں معاون ہوتی ہے۔ میں نے کہا تھا کہ تدبر کے بارے میں اختصار سے کچھ کہوں گا تو یہ چیز آپ کے صاحب تدبر ہونے میں مدد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کے سلسلے میں کام کرنے والے ایک فاضل عالم دین، قرآنی عالم دین کو دعوت دی جائے اور وہ تھکا دینے والے انداز میں نہیں بلکہ جدت عمل کے ساتھ تفسیر بیان کریں۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ آپ تلاوت کر رہے ہیں، وہ کسی جگہ پڑھنے والے کو روکیں، اس آیت میں موجود کسی نکتے کو سامعین کے سامنے بیان کریں، اس کے بعد وہ آیت اسی پڑھنے والے کے ذریعے اچھی آواز میں دوبارہ پڑھی جائے، ان میں سے بعض چیزوں کا تجربہ ہو چکا ہے، البتہ بہت کم، بعض چیزوں کو آپ لوگ بھی اپنی جدت عمل سے وجود میں لا سکتے ہیں، فروغ دے سکتے ہیں۔ الغرض، تلاوت قرآن کو، قرآن کے ترجمے اور پھر اس سے بھی بالاتر تفسیر قرآن کی سمت بڑھائیے کہ جو تدبر کا سبب بنے۔ پہلے قرآن کا ترجمہ ہے یعنی ایسا ہونا چاہیے کہ ملک میں مختلف طرح کے لوگ، بچے، نوجوان، جب قرآن مجید کی کوئی آیت پڑھی جائے تو اس آیت کے مضمون اور مفہوم کو سمجھ جائیں، چاہے اس کی تفصیلات معلوم نہ ہوں لیکن کم از کم اس آیت کے معنی و مفہوم کو سمھجیں اور انھیں کچھ آیتیں حفظ ہوں اور وہ آیتوں سے استفادہ کریں، یہ چیز ملک اور معاشرے کی دینی معرفت کے ارتقاء میں معاون ہے۔

یہاں پر غزہ کی کلپ دکھائی گئی۔ وہ چیز جو ہماری اس نشست سے مناسبت رکھتی تھی، وہ تلاوت قرآن تھی۔ آپ نے دیکھا کہ جو بچے قرآن پڑھ رہے تھے، وہ حفظ سے پڑھ رہے تھے، ہر چیز حفظ سے پڑھ رہے تھے، سبھی حافظ تھے، وہ ان آیتوں کے ٹکڑوں کو زبانی پڑھ رہے تھے۔ حفظ کا راستہ بھی یہی ہے، میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ بچپن سے حفظ شروع ہونا چاہیے، یہ بچے قرآن کے حافظ ہیں۔ قرآن کے حافظ بھی ہیں اور عرب زبان ہونے کی برکت سے قرآن کے معانی و مفاہیم کو بھی سمجھتے ہیں۔ یہ قرآن ہی ہے جو غزہ میں اور فلسطین میں اور خاص طور پر خود غزہ میں استقامت و مزاحمت کی چوٹی اور اوج کا دنیا کے سامنے مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے، یہ قرآن کا اثر ہے، یہ وہ صبر ہے جو قرآن چاہتا ہے، یہ وہ استقامت و مزاحمت ہے جس کی قرآن سفارش کرتا ہے، یہ وہ صلہ ہے جس کا قرآن صابروں سے وعدہ کرتا ہے، یہی وہ چیز ہے جس نے ان لوگوں کو محفوظ رکھا ہے۔

آج غزہ میں جو کام ہو رہا ہے وہ دو طرف سے اوج پر ہے: جرم، خباثت، حیوانیت اور خونخواری کے لحاظ سے اوج پر ہے۔ میں نے کہیں بھی نہیں پڑھا اور سنا کہ کسی جگہ مختلف طرح کے ہتھیاروں سے لیس کوئی دشمن، ایسے لوگوں پر حملہ کر دے جن کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو، یہ نہیں کہ ان کے ہتھیار اس سے کم اور قدیمی ہوں، ان کے پاس ہتھیار ہیں ہی نہیں۔ غزہ کے نہتے عوام، اسپتال میں، مسجد میں، کوچہ و بازار میں عام لوگوں کے پاس تو ہتھیار نہیں ہوتا، وہ طرح طرح کے ہتھیاروں سے ایسے لوگوں پر حملہ کر دے اور اسی پر اکتفا نہ کرے، ان نہتے لوگوں کو بھوکا اور پیاسا رکھے، چھوٹے بچے اور شیر خوار بچے بھوک سے مر جائیں! میں نے کبھی ایسا نہ پڑھا، نہ سنا، یہ خونخواری کی انتہا ہے، حیوانیت کی حد ہے، یہ اس تمدن کو رسوا کرنے والی چیز ہے جس کی بنیاد، یہ چیزیں ہیں، یہ مغربی تمدن ہے، اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، پوری طرح سے عیاں ہے، آشکار ہے، سب کی نظروں کے سامنے ہے، پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ یہ اس معاملے کا ایک پہلو ہے۔ دوسری طرف سے بھی اوج ہے، عوام کا یہ بے مثال صبر، یہ مزاحمت، حماس اور غزہ میں موجود فلسطین کی مزاحمت کی دفاعی طاقت، ایک طرف اور عوام کی استقامت اور ان کا نہ تھکنا دوسری طرف۔

البتہ دشمن کچھ بھی بگاڑ نہیں سکا ہے، وہ مزاحمت کو چوٹ نہیں پہنچا سکا ہے۔ مزاحمت کے مجاہدین نے باہر پیغام دیا ہے جو ہمارے کانوں تک بھی پہنچا ہے کہ ہماری فکر نہ کریں، ہمارے زیادہ تر وسائل اور توانائیاں یعنی مثال کے طور پر نوے فیصد کے قریب محفوظ ہیں، یہ بہت اہم ہے۔ چند مہینوں سے صیہونی طرح طرح کے ہتھیاروں اور امریکا اور دوسروں کی خیانت آمیز اور ظالمانہ مدد کے ذریعے فلسطینی مزاحمت کے خلاف جنگ کر رہے ہیں، مزاحمت بھی وہاں بدستور پوری طاقت اور ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے اور توفیق الہی اور فضل خداوندی سے صیہونیوں کو دھول چٹا کر رہے گی۔

عالم اسلام کی ذمہ داری ہے، فریضہ ہے، دینی فریضہ ہے کہ جو بھی، جس طرح سے بھی (غزہ والوں کی) مدد کر سکتا ہے، کرے اور ان کے دشمنوں کی مدد جس کی طرف سے بھی ہو مسلمہ طور پر حرام اور حقیقی جرم ہے۔ افسوس کہ عالم اسلامی میں کچھ لوگ، کچھ طاقتیں، کچھ حکومتیں ایسی ہیں جو ان مظلوم لوگوں کے دشموں کی مدد کر رہی ہیں، ان شاء اللہ وہ ایک دن پچھتائیں گی بھی اور اپنی اس غداری کی سزا بھی بھگتیں گی اور یہ بھی دیکھیں گی کہ جو کچھ انھوں نے کیا وہ بے سود تھا۔

ہمیں امید ہے کہ پرودرگار عالم روز بروز اسلام اور مسلمانوں کو مزید عزت و نصرت عطا کرے گا۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

  1. اس ملاقات کے آغاز میں کچھ قاریوں اور قرآنی ٹیموں نے اپنے پروگرام پیش کیے۔
  2. سورۂ حجر، آیت 87
  3. امالی صدوق، مجلس 64، صفحہ 415
  4. سورۂ مزمل، آیت 20، تو اب جتنا قرآن تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو اتنا ہی پڑھ لیا کرو۔
  5. سورۂ مزمل، آیت 20، تو اتنا قرآن پڑھو جتنا میسر ہو۔
  6. سورۂ یونس، آیت 71
  7. سورۂ شعراء، آیت 69
  8. سورۂ اسراء، آیت 106، اور ہم نے قرآن کو متفرق طور پر (جدا جدا کرکے) نازل کیا ہے تاکہ آپ اسے لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔
  9. نہج البلاغہ، خطبہ 18، قرآن کا ظاہر خوبصورت اور باطن عمیق اور لامتناہی ہے۔
  10. سورۂ ص، آیت 29، یہ وہ بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں۔
  11. قرآن مجید سے انس کی محفل میں خطاب (2020/4/3)
  12. سورۂ یوسف، آیت 4
  13. مصنفہ سید قطب
  14. سورۂ عادیات، آیت 1 اور 2 قَسم ہے ان گھوڑوں کی جو پھنکاریں مارتے ہوئے دوڑتے ہیں۔ پھر اپنی ٹاپوں کی ٹھوکر سے (پتھر سے) چنگاریاں نکالتے ہیں۔
  15. سورۂ بقرہ، آیت 17، ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ روشن کی اور جب آگ نے اس کے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کی روشنی (بینائی) سلب کر لی اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا اب انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
  16. سورۂ بقرہ، آیت 19، یا (پھر ان کی مثال ایسی ہے جیسے) آسمان سے زور دار بارش برس رہی ہو جس میں تاریکیاں ہوں اور گرج چمک بھی۔ اور وہ گرنے والی بجلیوں سے مرنے کے ڈر سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں۔
  17. سورۂ منافقون، آیت 4، وہ ہر چیخ کی آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔
  18. سورۂ احزاب، آیت 39، وہ (پیغمبر) ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے پیغامات (اس کے بندوں تک) پہنچاتے ہیں۔
  19. جامی، ہفت اورنگ، مثنوی یوسف و زلیخا