میدان کے دوسری طرف امریکی حکومت ہے۔ ایسی حکومت جس نے امریکی عوام کی اکثریت کی مرضی کے برخلاف صیہونی حکومت کے ہاتھوں غزہ کے عوام کے بے رحمانہ قتل عام میں شامل ہوکر اپنے آپ کو بحران میں ڈال دیا ہے اور ایک گہری دلدل میں پھنس گئي ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے حال ہی میں نئے ہجری شمسی سال کے پہلے دن کے اپنے خطاب میں غزہ کے بحران کے سلسلے میں امریکی حکومت کے رویے کے بارے میں بالکل صحیح تجزیہ کرتے ہوئے اسے "سب سے بدتر انتخاب" قرار دیا تھا اور اس انتخاب کے تین سنگین نتائج کی طرف اشارہ کیا تھا:
امریکی انسانی حقوق کی اصلی ماہیت دنیا بے نقاب ہو گئي
جنگ کے بالکل ابتدائي دنوں میں ہی جو بائيڈن نے صیہونی حکومت کی حمایت کے اظہار کے لیے تل ابیب کا دورہ کیا اور امریکی کانگریس نے بھی کچھ دنوں کی چھٹی کے بعد جو پہلا بل منظور کیا وہ امریکی حکومت کی جانب سے اسرائيل کے لیے امدادی پیکیج کا بل تھا۔ اس وقت بھی امریکی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ صیہونی حکومت کی مدد کے لیے چودہ ارب ڈالر کا ایک اور پیکیج منظور کروا لے۔(4) اس کے علاوہ واشنگٹن پوسٹ نے بھی حال ہی میں اپنی ایک سنسنی خیز رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سات اکتوبر کو غزہ کی جنگ شروع ہونے کے وقت سے لے کر اب تک واشنگٹن نے خفیہ طریقے سے اسرائيل کے ساتھ سو سے زیادہ فوجی اور اسلحہ جاتی سودے کیے ہیں۔(5) برنی سینڈرز اور ایلیزابیتھ وارن جیسے بعض امریکی سنیٹرز نے بھی واشگاف الفاظ میں غزہ کے موجودہ بحران میں امریکی حکومت کے کردار پر سوال اٹھایا ہے۔(6)
نتیجتاً آج دنیا میں کوئي بھی صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم میں امریکا کے ملوث ہونے کا نہ تو انکار کر سکتا ہے اور نہ ہی اس پر پردہ ڈال سکتا ہے۔ صیہونی حکومت کے جرائم میں امریکا کی شمولیت نے امریکی انسانی حقوق کی اصلی ماہیت کو دنیا کے سامنے اجاگر اور اخلاقی لحاظ سے اس ملک کی عزت کو تار تار کر دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بیس مارچ 2024 کو نوروز کے دن اپنے خطاب میں ایک بار پھر مغربی تمدن اور مغرب کے انسانی حقوق کے دعووں کو رسوا کرنے میں فلسطین کی مزاحمت اور فلسطینی عوام کے صبر کی تاثیر پر زور دیتے ہوئے کہا: "غزہ کے واقعات نے دکھا دیا کہ دنیا پر کیسا ظلم اور کیسی تاریکی چھائی ہوئي ہے، دکھا دیا کہ مغرب کی اس نام نہاد مہذب دنیا کے افکار و کردار پر، جو انسانی حقوق وغیرہ کی دعویدار ہے، کیسی تاریکی چھائی ہے۔"
خطے اور دنیا میں امریکا سے نفرت میں اضافہ ہو گيا
حالیہ مہینوں میں دنیا کے مختلف شہروں میں غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم اور ان جرائم میں امریکا کی شمولیت کے خلاف وسیع پیمانے پر مظاہرے اور ریلیاں دیکھنے میں آئيں۔ یہ احتجاج امریکا کے قلب یعنی واشنگٹن ڈی سی اور امریکی کانگریس کی عمارت کے اندر تک پہنچ گيا۔(7) دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی حکومت سے یہ عمومی نفرت، امریکا کے انتخابات پر بھی اثر انداز ہو گئی ہے چنانچہ میشیگن جیسی بعض ریاستوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ابتدائي مقابلہ آرائي میں، غزہ کے سلسلے میں بائيڈن حکومت کی پالیسیوں پر اعتراض کی صورت میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے Uncommitted کے آپشن کو استعمال کیا(8) جو احتجاجی ووٹ سمجھا جاتا ہے۔
حالیہ مہینوں میں خطے کی حکومتوں کی طرف سے امریکا کی مخالفت اور مسلم اقوام کے درمیان امریکا کے خلاف عمومی غم و غصے میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بائيڈن حکومت کو پوری عرب دنیا میں اپنے سفارتکاروں کی جانب سے ایسے سنجیدہ انتباہات موصول ہوئے ہیں کہ غزہ میں اسرائيل کی خوفناک فوجی کارروائي کی حمایت، امریکا کے لیے عرب عوام کی ایک پوری نسل کی رائے عامہ کو کھو دینے پر منتج ہوگي۔(9) واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کا نیا سروے بھی اس دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔ خطے کے چھے عرب ملکوں کے لوگوں پر کیے گئے اس سروے کے مطابق ان ملکوں کے صرف چھے فیصد لوگوں کا ماننا ہے کہ امریکا نے غزہ کی جنگ میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔(10) اسی طرح مصر کے مشہور اخبار الاہرام کے ادارتی بورڈ کے سربراہ نے بھی حال ہی میں اپنے ایک ادارتی نوٹ میں کھل کر لکھا تھا کہ آج امریکا، عرب دنیا کا سب سے بڑا دشمن ہے۔(11) خطے کے ملکوں کی جانب سے اقوام متحدہ میں امریکا اور اس کے حلیفوں کی حالیہ قراردادوں کی مخالفت اور ان کے خلاف منفی ووٹنگ بھی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے میں امریکا کے رسوخ کے بری طریقے سے زوال اور غزہ کے سلسلے میں اس کی کارکردگي کا اس طرح تجزیہ کیا: "امریکا نے غزہ کے علاقے میں بدترین صورتحال کو اختیار کیا، اس نے ایسا کام کیا کہ پوری دنیا میں نفرت انگيز بن گیا۔ یہ لوگ جو لندن، پیرس اور ديگر یورپی ملکوں میں اور خود امریکا میں سڑکوں پر نکل کر فلسطین کی حمایت میں مظاہرے کرتے ہیں، یہ در حقیقت امریکا سے اپنی نفرت کا اعلان کرتے ہیں۔ امریکا دنیا میں نفرت انگیز ہوگيا، علاقے میں پہلے ہی اس سے نفرت تھی، اب وہ نفرت دس گنا بڑھ گئی۔"
خطے میں امریکا کے اندازے اور منصوبے بکھر گئے
غزہ کی جنگ نے اس حقیقت کو بخوبی عیاں کر دیا کہ اب مغربی ایشیا کے خطے میں امریکا اور اس کی پالیسیوں کی کوئي جگہ نہیں ہے۔ مزاحمت نے امریکا کے جس سب سے پہلے اور سب سے بڑے منصوبے کی قربانی لی وہ شاید صیہونی حکومت سے عرب اور مسلم ملکوں کے معمول کے تعلقات قائم کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس وقت عرب دنیا کی رائے عامہ پوری قطعیت سے صیہونی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیے جانے کے خلاف ہے۔ ایک نئے سروے کے مطابق عرب دنیا کے 89 فیصد لوگ، صیہونی حکومت کو تسلیم کیے جانے کے خلاف ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف یہ کہ عرب دنیا میں اسرائیل سے تعلق استوار کیے جانے کے خلاف ایک متفقہ موقف کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ سنہ 2022 میں کرائے گئے سروے کے نتائج کی نسبت صیہونی حکومت کی مخالفت میں پانچ فیصد اضافے کو بھی ظاہر کرتے ہیں جس میں صیہونی حکومت کو تسلیم کیے جانے کے مخالف لوگوں کا فیصد 84 تھا۔
مغربی دانشوروں اور تھنک ٹینکس نے بھی پچھلے کچھ مہینوں کے دوران اس شکست کو تسلیم کیا ہے۔ مثال کے طور پر اٹلانٹک کونسل کے سی ای او فریڈرک کیمپ نے کچھ ہفتے پہلے ایک انٹرویو میں کہا تھا: "میرے خیال سے ان حالیہ واقعات کی ایک بڑی قربانی، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کرنے کا منصوبہ ہے ... سمجھوتے کا امکان پایا جاتا تھا اور لوگ اسے ففٹی ففٹی سمجھ رہے تھے لیکن اس وقت اس کا امکان صفر ہے۔"(12) یا امریکا کے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کی سینیئر ریسرچر زینب ریبوآ کا کہنا ہے کہ حالیہ جنگ میں حماس اور استقامتی محاذ کا پہلا بڑا نتیجہ، عربوں اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کے قیام کو رکوا دینا ہے۔(12)
اسی طرح خطے میں امریکا کی اصل پراکسی فورس یعنی صیہونی حکومت کو بھی حالیہ مہینوں میں زبردست چوٹیں پہنچی ہیں اور اس وقت اسے غزہ کی جنگ کے فوجی جانی نقصان اور بھاری معاشی نقصان کے ساتھ ہی داخلی سطح پر بہت زیادہ کشیدگي اور اختلافات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای استقامتی محاذ کی جانب سے خطے میں امریکا کو پہنچائے گئے نقصان کو اس طرح بیان کرتے ہیں: "مزاحمت نے اپنا اصلی وجود، اپنی توانائیاں اور اپنی اصلی پوزیشن دکھا دی، دنیا کو دکھا دیا کہ مزاحمت کا مطلب کیا ہے۔ اس نے امریکا کے سارے اندازوں کو درہم برہم کر دیا۔"
المختصر یہ کہ آج امریکا، غزہ کے بحران کے سلسلے میں اپنے غلط انتخاب کا سنگین تاوان ادا کر رہا ہے۔ اس جنگ کا ہر گزرتا لمحہ، امریکی رائے عامہ میں بائيڈن حکومت سے ناراضگي کو پہلے سے زیادہ بڑھا رہا ہے اور بین الاقوامی لحاظ سے بھی امریکا کے زوال کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے۔